• 19 اپریل, 2024

کمال ہے نا !!

ہمارے موتی، ہمارے ہیرے جو ان کو بھائے، کمال ہے نا!!
ہمارے دشمن ہمارے نقش قدم پہ آئے، کمال ہے نا!!
وہ سات رنگوں کی ساری دنیا جو ہم سے چھینے چلے گئے تھے
سو ہم نے قوس قزح سے اپنے یہ رنگ پائے، کمال ہے نا!!
ہماری راہوں پہ بو کے کانٹے، بچھا کے پتھر وہ ہنس رہے تھے
تو ہم بھی ان کی ہنسی پہ ہنس کے جو چل کے آئے، کمال ہے نا!!
کبھی تو یوں بھی ہؤا تھا لوگو!! وہ سارے دیپک بجھا گئے تھے
وہاں پہ ہم نے لہو کے دم سے دیے جلائے، کمال ہے نا!!
ہمارا صبرو قرار دیکھو!! ہماری ہمت کی داد بھی دو !!
ہم اپنے ہاتھوں جوان لاشے اٹھا کےلائے ، کمال ہے نا!!
ہمیں بظاہر ذلیل و رسوا جو کر رہے تھے، وہ لوگ سارے
خود اپنے فتووں کی، اپنے لفظوں کی زد میں آئے، کمال ہے نا!!
تمہیں نے معبد گرا دئے تھے، تمہیں نے پہرے بڑھا دئے تھے
ہمارے لب پر درود ہی تھا، نہیں تھی ہائے، کمال ہے نا!!
تمہیں نے آگیں لگائیں جا جا، تمہیں تھے قاتل، تمہیں ستمگر
جلوس ہم نے نہیں نکالے، نہ شہر ڈھائے، کمال ہے نا!!
فراز !! ہم پر عنائتیں ہیں، یہ ساری وحدت کی برکتیں ہیں
نہیں تو اپنی الگ تھیں سوچیں، الگ تھی رائے، کمال ہے نا!!

(اطہر حفیظ فراز)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2021