• 25 اپریل, 2024

درود شریف کی اہمیت و برکات

ہزاروں ہزاروں درود اور سلام ہوں اس محسن انسانیت پر جس نے اپنی تعلیم و تربیت،فیض،صحبت اور دعاؤں سے عرب کی بادیہ نشین و حشی قوم میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ وہ نہ صرف انسان بلکہ با اخلاق اور باخداانسان بن گئے اور ایک اَن پڑھ اور اُمی قوم کو دنیا کا استاد ، معلم اور خدانما وجود بنادیا۔

مجد دا عظم

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو مجدداعظم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہمارے نبیﷺاظہار سچائی کے لئے ایک مجدداعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے ۔ اس فخر میں ہمارے نبی ؐکے ساتھ کوئی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تار یکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کا چو لہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی ۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آ نحضرت ﷺ کے نصیب نہیں ہوگی۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ نمبر206)

پھر فرماتے ہیں: ’’در حقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مانوس تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی عادات سکھلائے۔یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا۔ اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخداانسان بنایا اور روحانیت کی روح ان میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 206)

فانی فی الله

ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفےٰﷺکی پاکیزہ زندگی کا ایک خوبصورت پہلو وہ دعائیں اور مناجات ہیں جس نے ایک انقلاب برپا کر دیا اور وہ انسان جو بگڑ کر حیوان بن چکا تھا اسے پھر سے انسان بنا دیا۔ بااخلاق انسان با خدا انسان ہی نہیں خدانما انسان بنادیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس حقیقت کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجراگزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہٰی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہٰی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اسے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب با تیں دکھلائیں کہ جواُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں اَللَّهُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمُ وَ بَارِکْ عَلَیْہ وَ اِلٰہٖ بِعَدَدِ هَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِهٰذِهِ الْأُمَّةِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَى الْاَبَدِ

(برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد2 صفحہ11،10)

نہ ختم ہونے والا دعاؤں کا خزانہ

آنحضرتﷺ کی دعاؤں کا یہ خزانہ ختم نہیں ہو ا۔ آخر ین کا تاج سر پر سجانے والے آج بھی آنحضرتﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی میں اس سے وافر حصہ پارہے ہیں۔ 14سو سال پرانی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ پہلے دور میں تکمیل ہدایت ہوئی اور اب دوسرے دور میں تکمیل اشاعت ہورہی ہے۔ خلافت راشدہ کی نعمت پھر سے جاری ہو گئی ہے اور تثلیث کے گڑھ میں تو حید کا پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ اب دین حق کا غلبہ بحر وبر پر ہی نہیں ، فضاؤں میں بھی نظر آرہا ہے۔ تقریروتحریر اور تصویر کا دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں نزول ہورہا ہے۔

یوم الفرقان

حضرت مصلح موعودؓ نے فجر کے طلوع کی نوید دیتے ہوئے فرمایا تھا:
’’اس عرصہ میں یقیناً دوباره الله تعالیٰ کے کسی جلوہ کے ساتھ یوم الفرقان ظاہر ہو گا اور کسی خاص نشان کے ذریعہ احمدیت کو تقویت حاصل ہوگی …احمدیت کو اس وقت تک ایسے رنگ میں غلبہ میسر آجائے گا کہ دشمن اس کو محسوس کرنے لگ جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 529 (اسلام کے دوبارہ غلبہ کے سالوں کا ذکر از تفسیر سورہ الفجر)

اور آج ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ دشمن بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ اب احمدیت کی مخالفت کرنا آسان نہیں رہا۔

محسن اعظم ﷺ

اور یہ سب محسن اعظم ﷺ کی دعاؤں کے طفیل ہوا ہے ۔ یہ ایک ایساگر انقدر احسان ہے جس کا شکرانہ سوائے دعا اور درود شریف کے ممکن ہی نہیں۔ اور اسی کے ذر یعہ اپنے مولیٰ اور اس کے محبوب رسول کی سبھی محبت حاصل ہو سکتی ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِيْمِ. اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ

درود شریف کی اہمیت

درود شریف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو شرائط بیعت میں شامل فرمایا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:
شرط سوم: یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی ما نگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ وردبنائے گا۔

(اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء، مجموعہ اشتہارات، جلد اول صفحہ 159)

قرآنی حکم

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا

(احزاب:57)

اس آیت کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں کہ خدا اور اس کے سارے فرشتے اس نبی کر یمؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان دار و! تم بھی اس پر درود بھیجو اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کر دو۔

(براہین احمدیہ صفحہ 241 حاشیہ)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے۔ یعنی آپؑ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیروں تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی ۔ آپ کی روح میں وہ صدق و وفاتھی اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسند یدہ تھے کہ الله تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔‘‘

(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء، صفحہ51،50 از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم صفحہ 96)

ارشاد آنحضرت ﷺ

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
بخیل وہ ہے جس کے پاس میر اذکر کیا جائے اور وہ مجھ پردرود نہ بھیجے۔

(ترمذی۔ ابواب الدعوات باب ماجاء فی فضل التوبہ و الاستغفار)

پوری کامیابی اورپوری تعریف

آپؑ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہﷺ کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ہو کہ اس وقت دنیاکی کیا حالت تھی اور آپ نے آکر کیا کیا تو انسان وجد میں آکر اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ کہہ اُٹھتا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریمؐ نے کیا کیاورنہ وہ کیا بات تھی جو آپ کے لئے مخصو صاً فرمایا إِنَّ اللّٰهَ وَمَلآئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صد انہیں آئی۔ پوری کامیابی اور پوری تعریف کے ساتھ ہی ایک انسان دنیا میں آیا محمدؐ کہلایا ﷺ۔‘‘

(الحکم جلد نمبر6 جنوری 1901ء صفحہ13 از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 730)

عشق رسول

آنحضرت ﷺ سے آپ کو عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ عشق رسول کا یہ خاصہ آپؑ میں اس قدر پایا جاتا تھا کہ نہ صرف آپ نے آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے بلکہ اس کی دوسروں کو تاکید کرنے میں بھی کمال کر دیا۔

نور کی مشکیں

آپؑ فرماتے ہیں:
’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل وجان اس سے معطر ہوگیا۔اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نُور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمدؐ کی طرف بھیجے تھے۔ﷺ‘‘

(براہین احمدیہ ۔روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 598)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
’’میں نے دیکھا کہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے۔ اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں۔اور ان کے کندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22 صفحہ131)

درود شریف کیا ہے؟

آپؑ فرماتے ہیں:
’’درود شریف کے طفیل… اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت ﷺ کی طرف جاتے ہیں۔ اور پھر وہاں جاکر آنحضرت ﷺ کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں۔ اور وہاں سے نکل کر ان کی لاانتہا نالیاں ہو جاتی ہیں۔ اوربقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں…درود شریف کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں۔ جو الله تعالیٰ کافیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔‘‘

(اخبار الحکم جلد نمبر 8 صفحہ 7بحو الہ محامد خاتم النبیین مصنفہ محمد اسماعیل صاحب صفحہ 324)

حصول استقامت کا زبردست ذریعہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے۔بکثرت پڑھو مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہﷺ کے حسن احسان کو مد نظر رکھ کر اور آپؐ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپﷺ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ38)

درود شریف کے بارہ خلفائے سلسلہ کے فرمودات
حضرت مولانا حکیم نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ارشادات
خدانمائی کا اعلیٰ ذریعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے درود شریف کو خدا نمائی کا اعلیٰ ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
السلام علیک ایها النبي ورحمة اللّٰه و بر کاتہ۔ قاعدہ کی بات ہے کہ ہر محسن اور مربی کی محبت کا جوش انسان کے دل میں فطرۃً پید ا ہو تا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ رسول ﷺکے علوم کے ہم پر کیسے کیسے احسان ہیں۔ وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو جانا ۔مانا اور پہچانا۔ وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہمیں خدا کے اوامر و نواہی اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی راہیں بذریعہ قرآن شریف معلوم ہو ئیں۔ وہی ہے جن کے ذریعہ سے خدا کی عبادت کا اعلیٰ سے اعلیٰ طریقہ اذان اور نماز ہمیں میسر ہوا۔ اور وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہم اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج تک ترقی کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ خدا سے مکالمہ و مخاطبہ ہو سکتا ہے۔ وہی ہیں کہ جن کے ذریعہ سے لا الہ الا اللّٰہ کی پوری حقیقت ہم پر منکشف ہوئی۔ اور وہی ہیں جو خدانمائی کا اعلیٰ ذریعہ ہیں۔

(الحکم جلد12 نمبر15 حوالہ از محمد خاتم النبیین مصنف محمد اسماعیل صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ ص362،361)

فطرت سلیمہ کا تقاضا

پھر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
’’واقع میں اگر ہم اللہ کے پورے بندے اور عابد اور تعظیم کرنے والے ہیں اور مخلوق پر شفقت اور رحم کرنے والے علوم اور عقائد سے خوشحال ہوں تو یہ سب فیضان اور احسان حقیقت میں نبی کریم ﷺ ہی کا ہے۔ آپ ﷺ کے دل کے درد اور جوش نہ ہوتے تو قرآن کریم جیسی پاک کتاب کا نزول کیسے ہوتا۔ آپ ﷺ کی مہربانیاں اور توجہات اور محنتیں اور تکالیف شاقہ نہ ہوتے تو پاک دین ہم تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ آپ ﷺنے یہ دین ہم تک پہنچانے کی غرض سے خون کی ندیاں بہادیں اور ہمدردی خلق کے لئے اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالا۔ تو پھر غور کاکیا مقام ہے کہ جب ادنیٰ ادنیٰ محسنوں سے ہمیں محبت پیدا ہو جانا ہماری فطرت سلیم کا تقاضا ہے تو پھر آنحضرتﷺ کی محبت کا جوش کیوں مسلمانوں کے دل میں موجزن نہ ہو گا۔‘‘

(خطبات نور صفحہ نمبر303)

دس گناه اجر

اسی مضمون کے تسلسل میں آپؓ مزید فرماتے ہیں:
درود بھی درد سے ہی نکلا ہے۔ یعنی خاص دردو سوز و گداز اور رقت سے خدا کے حضور التجا کرنی۔ کہ اے مولا! توہی ہماری طرف سے خاص خاص انعامات اور مدارج آنحضرت ﷺ کو عطا کر۔ ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔ اور کس طرح سے آپؐ کے احسانات کا بدلہ دے سکتے ہیں۔ بجز اس کے کہ تیرے ہی حضور میں التجا کریں کہ توہی آپ ؐکو ان سچی محنتوں اور جانفشانیوں کا سچا بدلہ جو تو نے آپ کے واسطے مقرر فرما رکھا ہے، وہ آپؐ کو عطا فرما۔ انسان جب اس خاص رقت اور حضور قلب اور تڑپ سے گداز ہو کر آپؐ کے واسطے دعائیں کر تا ہے۔ تو آنحضرت ﷺ کے مدارج میں ترقی ہوتی ہے۔ اور خاص رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ اور پھر اس دعا گو درود خواں کے واسطے بھی ادھر سے رحمت کا نزول ہوتا ہے اور ایک درود کے بدلہ میں دس گنا اجر عطا کیا جا تا ہے ۔ کیونکہ آنحضرتﷺکی روح اس درود خواں اور آپ کی ترقی مدارج کے خواہاں سے خوش ہوتی ہے۔ اور اسی خوشی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس کو دس گنا اجر عطا کیا جاتا ہے۔ انبیاء کسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتے۔

(الحکم 12۔اپریل 1908ء از خطبات نور صفحہ نمبر304،303)

ارشادات حضرت مصلح موعودؓ
ایک ہی دفعہ کا پڑھا ہوا درود

’’درود میں صَلِّ پہلے رکھا ہے اور بَارِكْ بعد میں۔ مسلمانوں کو شاذ ہی خیال آیا ہو گا کہ صَلِّ پہلے کیوں اور بَارِكْ بعد میں کیوں ہے۔ اور اسی ترتیب میں خوبی کیا ہے؟ جو شخص غورکرے گااور علم سے اس پر نگاہ ڈالے گا اس پر اس کی حقیقت ظاہر ہو جائے گی۔ عربی میں صلوٰۃکے معنیٰ دعا کے ہیں ۔ اللّٰهُمَّ صَلِّ کے معنیٰ ہوئے اے الله! تور سول کریمﷺ کے لئے دعا کر۔ اب دعادو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ شخص دعا کرتا ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ وہ دو سرے سے التجا کر تا ہے جیسے ماں باپ یا دوست سے مدد طلب کرنا۔اور دوسرے اس شخص کی دعا ہوتی ہےجس کا اپنا اختیار ہوتا ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں کہ وہ خو د عطا کر دیتا ہے۔ خداتعالیٰ بادشاہ ہے کبھی مانتا ہے کبھی نہیں۔ خدا تعالیٰ کی دعا کے معنیٰ ہیں کہ وہ ہوا، پانی، زمین ، پہاڑ غرضیکہ سب مخلوق کو کہتا ہے کہ میرے بندے کی تائید کرو۔ پس اَللّٰهُمَّ صَلِّ کے یہ معنیٰ ہوئے کہ اے الله !تو ہر نیکی اور بھلائی اپنے رسول کے لئے چاہ۔ ایک ہی دفعہ کا پڑھا ہو ا در ود اگر قبول ہو جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد7صفحہ78،77)

درود کیا ہے؟

ایک جگہ درود کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’درود در اصل اس احسان کا قرار ہے کہ جو آنحضرتﷺنے ہم پر کیا۔ اور احسان کا اقرار انسان کے لئے از حد ضروری ہے۔ کبھی کسی شخص کے اعمال میں پاکیزگی نہیں پیدا ہوسکتی جب تک وہ اپنے احسان کرنے والے کا احسان مند نہیں ہوتا۔ کیونکہ تمام صفائی اعمال میں احسان مندی سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے ہمارے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم کثرت سے درود پڑھیں۔ تاکہ ہم آنحضرت ﷺکے احسانوں کے لئے آپ کے احسان مند ہوں۔ اور پھر ہمارے اعمال میں پاکیزگی پید اہو… پس رسول الله ﷺ کے احسانوں کو یاد کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور میں کہنا چاہئے کہ ہم تو ان کا کچھ بدلہ نہیں دے سکتے۔ تو ہی ان کا عوض رسول کریم ﷺ کو دے۔ اور اس کا اجر آپ کو عطا فرما۔ یہی درود کا مطلب ہے۔

(الفضل جلد13 نمبر68 پر چہ 11دسمبر 1925ء)

ارشاد حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ

آپؒ فرماتے ہیں۔
’’ہماری زبانوں پر ہمیشہ درود جاری رہنا چاہئے۔ محسن انسانیت حضرت رسول کریم ﷺ کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ آپ نے بنی نوع انسان سے جو پیار کیا ہے اس کو زندہ رکھنے کی کو شش ہمیشہ جاری رہنی چاہئے تا کہ اس پیار کے نتیجہ میں جو ہمارے دل میں حضرت ﷺ کے لئے موجزن ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کا پیار بھی حاصل ہو جائے۔ خدا کرے کہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا ہو۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربو 8 فروری 1975ء صفحہ 1 تا2، خطبات ناصر جلد ششم مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز2007ء صفحہ39 خطبہ جمعہ 31 جنوری 1975ء)

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ

آپؒ دعا کی قبولیت کے لئے ایک گرکا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ:
’’دعا کی قبولیت کے لئے ایک گُرجو آنحضرت ﷺ نے بتایا ہے، بتاتا ہوں ۔ پہلے خوب اپنے رب کی حمد کر دو۔ اس کی محبت کے گیت گاؤ اور مجھ پر درود بھیجو۔ پھر جو مانگو خد اقبول فرمائے گا تو آپ بھی دعاؤں میں یہ بات نہ بھولنا کہ حمد کے ساتھ ہی بے اختیار دل سے درود کے چشمے بھی چوٹ پڑیں تا کہ ناممکن ہو جائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے ان دعاؤں کا رد کرنا۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 12۔اکتوبر 1984ء،خطبات طاہر جلد اوّل طبع دوم دسمبر 2004ء بلیک ایر و پر نٹر زلاہور صفحہ 138، خطبہ جمعہ 10اکتوبر 1984ء)

ارشادات سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بارہا احباب جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

’’جب تک درد کے ساتھ جوش کے ساتھ آپؐ کے احسانوں کو سامنے رکھتے ہوئے درود شریف نہیں پڑھا جائے گا اور دل میں وہ جوش نہیں پیدا ہو گا جس سے آپؐ ﷺ پر درود بھیجنے کا حق ادا ہو تو اس وقت تک یہ درود صرف زبانی در ود ہی کہلائے گا اور آپ کے دل سے نکلی ہوئی آواز نہیں ہوگی۔ تو درود شریف پڑھنے کے بھی کچھ طریقے ہیں، کچھ اسلوب ہیں، ان کو اپناتے ہوئے اگر ہم درود پڑھیں گے تو یقیناً یہ عرش تک پہنچے گا اور بےانتہا رحمتیں اور برکتیں لے کر پھر واپس آئے گا۔

(خطبات مسرور جلد 1صفحہ293،292)

پھر حضور انور ایدہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:

دس گنا رحمتیں

’’تو الله تعالیٰ نے اپنے فضلوں کو اپنے بندوں پر نازل کرنے کا بھی طریق آنحضرت ﷺکے ذریعہ ہمیں بتادیا کہ آپ ﷺ پر درود بھیجو، آپ ﷺکے حسن احسان کو یاد کرتے ہوئے آپﷺ پر درود بھیجتے چلے جاؤ تو الله تعالیٰ کی دس گنا زیادہ رحمتوں کے وارث بنتے چلے جاؤ گے۔ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍوَّبَارِكْ وَسَلِّمْ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

(خطبات مسرور جلد1 صفحہ 294)

(مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2020