یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج
یہی کابلی مل کے گھر میں ہے آج
اسی کا تو تھا معجزانہ اثر
کہ نانک بچا جس سے وقت خطر
بچا آگ سے اور بچا آب سے
اسی کے اثر سے نہ اسباب سے
ذرہ دیکھو انگد کی تحریر کو
کہ لکھتا ہے اس ساری تقریر کو
یہ چولا ہے قدرت کا جلوہ نما
کلام خدا اس پہ ہے جابجا
جو شائق ہے نانک کے درشن کا آج
وہ دیکھے اسے چھوڑ کر کام و کاج
برس گذرے ہیں چار سو کے قریب
یہ ہے نو بنواک کرامت عجیب
یہ نانک سے کیوں رہ گیا اک نشاں
بھلا اس میں حکمت تھی کیا درنہاں
یہی تھی کہ اسلام کا ہو گواہ
بتادے وہ پچھلوں کو نانک کی راہ
خدا سے یہ تھا فضل اس مرد پر
ہوا اس کی دردوں کا اک چارہ گر
یہ مخفی امانت ہے کرتار کی
یہ تھی اک کلید اس کے اسرار کی
محبت میں صادق وہی ہوتے ہیں
کہ اس چولہ کو دیکھ کر روتے ہیں
سنو مجھ سے اے لوگو! نانک کا حال
سنو قصّۂِ قدرتِ ذوالجلال
وہ تھا آریہ قوم سے نیک ذات
خردمند خوش خو مبارک صفات
ابھی عمر سے تھوڑے گزرے تھے سال
کہ دل میں پڑا اس کے دیں کا خیال
اسی جستجو میں وہ رہتا مدام
کہ کس راہ سے سچ کو پاوے تمام
اُسے وید کی راہ نہ آئی پسند
کہ دیکھا بہت اس کی باتوں میں گند
جو دیکھا کہ یہ ہیں سڑے اور گلے
لگا ہونے دل اس کا اوپر تلے
کہا کیسے ہو یہ خدا کا کلام
ضلالت کی تعلیم ناپاک کام
ہوا پھر تو یہ دیکھ کر سخت غم
مگر دل میں رکھتا وہ رنج و الم
(روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ161تا163)