• 19 اپریل, 2024

سو سال قبل کا الفضل

23-27؍نومبر 1922ء
مطابق 3-7؍ربیع الثانی 1341 ہجری

صفحہ اول پر مدینۃ المسیح کی خبروں میں مذکور ہے کہ ’’جناب سید محمود اللہ شاہ صاحب بی اے 25؍نومبر کو بغرضِ تعلیم جرمنی کو روانہ ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح بڑی سڑک تک وداع کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور دعا کر کے رخصت فرمایا۔‘‘

صفحہ نمبر1 اور 2 پر حضرت مصلح موعودؓ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے جو پہلی مرتبہ اخبار الفضل میں شائع ہوئی۔مذکور ہ نظم کے چند اشعار ذیل میں درج ہیں:؎

میرے مولا مری بگڑی کے بنانے والے
میرے پیارے مجھے فتنوں سے بچانے والے
جلوہ دکھلا مجھے او چہرہ چھپانے والے
رحم کر مجھ پر او منہ پھیر کے جانے والے
میں تو بدنام ہوں جس دم سے ہوا ہوں عاشق
کہہ لیں جو دل میں ہو الزام لگانے والے

صفحہ نمبر2 پر ہفتہ وار رپورٹس بابت لنگرخانہ حضرت مسیحِ موعودؑ اور دفتر محاسب شائع ہوئی ہیں۔

صفحہ نمبر3 اور 4 پر درج ذیل عناوین کے تحت اداریہ شائع ہوا ہے۔

1۔خلافت ٹرکی کا صفایا 2۔خلیفہ ٹرکی اور مسلمانانِ ہند 3۔ہندو مسلمانوں میں انشقاق 4۔’’آریہ گزٹ‘‘ کی تاریخ دانی

اول عنوان کے تحت اخبار نے ترکی کی اس خلافت کے خاتمہ کا ابتداء میں ذکر کیا ہے جس خلافت کو مسلمان خلافتِ راشدہ قرار دیتے تھے۔ اس کے مفصل ذکر کے بعد اخبار لکھتا ہے ’’یہ کیوں ہوا۔کیوں ساری دنیا کے مسلمانوں نے خلافت کے لیے جو سعی و کوشش کی وہ بیکار گئی۔کیوں خلافت کو نہ بچایا گیا۔اس کی وجہ یہ اور صرف یہ ہے کہ چونکہ اب خداتعالیٰ اس نام کی خلافت کو بھی دنیا میں باقی نہیں رکھنا چاہتا اس لیے اس نے اس کی تباہی کے سامان اس کے اندر سے ہی پیدا کر دیئے اور مسلمانوں کو بتا دیا کہ تم اپنی ساری طاقت اور ہمت صرف کر کے بھی اس برائے نام خلافت کونہیں بچا سکتےجس کے خاتمہ کا آسمان پر فیصلہ ہو چکا ہے۔ پس اب دنیا میں وہی خلافت قائم اور برقرار رہے گی جو خدا نے اپنے برگزیدہ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ قائم کی ہے اور اسی کو دن بدن فروغ حاصل ہوگا۔

کاش ہمارے مسلمان بھائی خلافت ٹرکی کے حسرت ناک انجام سے عبرت حاصل کریں اور خداتعالیٰ نے ان کی دینی اور دنیوی ترقی کے لیے جو سامان کیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘

صفحہ نمبر5-8 پر حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍اکتوبر 1922ء شائع ہوا ہے۔

صفحہ نمبر8 پر ہی مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے افسر ڈاک کا مرسلہ حضرت مصلح موعودؓ ایک خط ’’مکتوب امام۔ تکمیل وصیت کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔اس عنوان کے تحت تحریر ہے کہ
’’ایک دوست نے لکھا کہ ایک احمدی موصی فوت ہو گئے ہیں۔ان کے رشتہ دار غیر احمدی ہیں جو وصیت پر عمل کرنے میں مخل ہیں۔افسر بہشتی مقبرہ کو لکھا گیا کہ ان کی نعش مقبرہ مذکور میں پہنچائی جاوے۔جس کا جواب ملا کہ جب تک وصیت پوری نہ کر دی جاوے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔اس جواب نے بعض کمزور احمدیوں کو فتنہ میں ڈالا ہے۔حضور اس کے متعلق انتظام فرماویں۔

حضور نے جواب فرمایا جب تک وصیت کی تکمیل نہ ہو جاوے نعش دفن کرنے کا قاعدہ نہیں۔جس شخص کے رشتہ دار غیر احمدی ہوں یا اس کی جائیداد اس کی ملکیت نہ ہو،وہ یا تو ہبہ کر دے یا پہلے ما لکوں کو رضامند کرے۔ایسی جائیداد جو ملکیت کے لحاظ سے کسی اور کی ہے اس کی وصیت کا کیا مطلب ہوا۔بہشتی مقبرہ کی غرض تو یہ ہے کہ اس میں ان لوگوں کو دفن کیا جاوے جو اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ بڑے مخلص ہیں اور دین کے لیے سب کچھ قربان کر رہے ہیں۔اب جو شخص ایسا مال دیتا ہے جو انجمن لے نہیں سکتی،یہ کون سی قربانی ہے۔اگر انجمن اس طرح نالش کیا کرے تو سارا وصیت کا روپیہ مقدمات پر ہی خرچ ہو جاوے۔پس میں نے فیصلہ کر دیا ہوا ہے کہ اس کی وصیت تسلیم کی جاوے جو کہ اپنی جائیداد پر قبضہ کرادے یا اُس کی جائیداد کا ملنا یقینی ہو۔‘‘

صفحہ نمبر9 اور 10 پرامرتسر میں آریوں سے مباحثہ کے پہلے دن کی رُوداد شائع ہوئی ہے۔ یہ روداد حضرت مولوی غلام احمد صاحب بدوملہویؓ نے تحریر کی ہے جب آپ ابھی جامعۃ المبشرین کے طالبعلم تھے۔

اس مباحثہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 31؍اکتوبر تا 2؍نومبر امرتسر میں آریوں کے ساتھ مباحثہ ہوا۔ اس کے پریذیڈنٹ کنور سنگھ خان صاحب تھے۔ مباحثہ ھٰذا میں وید یا قرآن کریم کو خدا کی طرف سے مکمل کتاب ثابت کرنے کے لیے ہر فریق کو اپنی کتاب کے دعویٰ اور دلائل پیش کرنے تھے۔ سلسلہ کی جانب سے اس مباحثہ میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ ، مہاشہ فضل حسین صاحب اور جماعت کے بعض دیگر مبلغین نے حصہ لیا۔

صفحہ 10 تا 12 ایک مضمون زیرِ عنوان ’’حضرت مسیحِ موعودؑ پر مولوی ثناء اللہ کے اعتراضات کے جوابات‘‘ شائع ہوا ہے۔ مضمون کی ابتداء میں تعارف کی غرض سے تحریر ہے کہ ’’پرچہ اہلِ حدیث مؤرخہ13؍اکتوبر 1922ء میں ایک مضمون زیرِ عنوان ’’مرزا صاحب بحیثیت مسیحِ موعود‘‘ مولوی ثناء اللہ صاحب کی طرف سے شائع ہوا ہے۔گو اس کی ابتداء میں انہوں نے لکھ دیا ہے کہ ’’یہ مضمون مولوی محمد علی صاحب امیر جماعتِ احمدی لاہوری کے جواب میں ہے‘‘ مگر اس میں چونکہ سیدی و مولائی حضرت مسیحِ موعودؑ کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت پر اعتراضات کیے گئے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ اس کا جواب دیا جائے۔‘‘

چنانچہ اس مضمون میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے کیے گئے اعتراضات بابت مسئلہ وفاتِ مسیح، حضرت مسیحِ موعودؑ کا دعویٰ مسیحِ موعود اور ابنِ مریم و امامکم منکم کا مبسوط جواب دیا گیا ہے۔

مذکورہ بالا مضمون حضرت مولوی ظہور حسین صاحب بخاراکا رقم فرمودہ ہے جب آپ جامعۃ المبشرین کی آخری کلاس میں تھے۔

مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221120.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی