جن کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے
منزلوں پہ وہی لوگ پائے گئے
ایک ہی موج ان کو بہا لے گئی
ریت پر جو گھروندے بنائے گئے
ہر قدم سے اٹھا ایک اعلانِ حق
پا بہ زنجیر جب ہم چلائے گئے
’’پھول اُن پر فرشتے نچھاور کریں‘‘
راہ مولیٰ میں وہ جو ستائے گئے
اُن پہ کانٹوں کا پھل لگ گیا آج کل
کل جو نفرت کے بُوٹے لگائے گئے
آگ اور خون کا آج کھلواڑ ہے
خونِ ناحق جہاں کل بہائے گئے
خاکساری سے جو خاک میں مل گئے
آسماں پہ وہ آخر اٹھائے گئے
(مبارک احمد ظفر ؔ۔لندن)