• 25 اپریل, 2024

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

چند روز قبل آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ کےنتیجے میں ہونے والی تباہی کے چند مناظر جو کیمرے کی آنکھ کے ذریعے ساری دنیا نے دیکھے، ان مناظر کی ہولناکی نے ہر اس شخص کو جس کے سینے میں دل ہے،خون کے آنسورُلا دیا۔کسی منظر میں معصوم جانور جن کی جانیں بچ گئیں،آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگ کر ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہے ہیں،کسی تصویر میں اپنے بچانے والے محسنوں سے لپٹے ہوئے ہیں۔بعض مناظر میں ان جانوروں کی لاشیں نظر آتی ہیں جو راستہ یا مہلت نہ ملنے کی وجہ سے زندہ جل گئے۔جانوروں کی بےبسی اور معصومیت اور ان کے رنج و الم کے مناظر نے ہر دل کو دکھی کردیا اور ہر دل سے یہ دعا ضرور نکلی ہوگی کہ خداتعالیٰ ان بےزبانوں کے حال پرجلد رحم فرمائے اور اس آگ کے بجھنے کے سامان فرمائے تاکہ ان کی تکالیف ختم ہوسکیں۔

یہ آگ جو آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی ، ایک قدرتی آفت تھی۔ آسٹریلیا کے اس حصے میں درجہ حرارت کے ایک حد سے بڑھنے کی وجہ سے جنگلات نے آگ پکڑ لی جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے گھر اور لاکھوں جانور ہلاک ہو گئے۔اس آگ نے اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو جلا کر خاکستر کیا۔لیکن زیادہ نقصان ان معصوم اور بے زبان جانوروں کا ہوا جن کی زندگیاں اور ٹھکانے اس آگ کی نذر ہوگئے۔آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ نے جس قیامتِ صغریٰ کا منظر پیش کیا، اگر خدانخواستہ تیسری جنگِ عظیم شروع ہوتی ہے (خداتعالیٰ ہم سب کو اس سےمحفوظ رکھے) تو جو مناظر آج ہم آسٹریلیا کے جنگلات میں دیکھ رہے ہیں،ویسے ہی مناظر، جن کا سوچ کر بھی دل کانپ اُٹھتاہے، تمام دنیا کے معصوم اور بے بس انسانوں کے بھی ہوسکتے ہیں۔

آج کل دنیا پر تیسری جنگ عظیم کے بادل بڑی تیزی سے چھاتے جارہے ہیں۔دنیا کی سپر پاورز کے درمیان مفادات کے ٹکراؤ میں شدت آتی جارہی ہے اور جیسا کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل اقوام عالم کو خبردار کررہے ہیں کہ ہوش کے ناخن لو ورنہ ایک ہولناک تباہی و بربادی اس دنیا کا مقدر ہوسکتی ہے۔

جنگیں ہمیشہ تباہی اور بربادی ساتھ لے کر آتی ہیں۔اور تیسری جنگ عظیم کی شدت کے اندازے تو دنیا کب کے لگا چکی ہے کہ اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا احاطہ انسانی سوچ کے دائرے سے ہی باہر ہے۔پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں نقصان ہمیشہ عوام الناس ہی اُٹھاتے ہیں جن کا براہِ راست اس جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہی معصوم اور بے زبان لوگ اپنی جانیں ،گھر بار، مال و اسباب سے محروم ہوتے ہیں جو اپنا بچاؤ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔اس کے بالمقابل طاقتور اور فیصلہ ساز لوگ،جو بنیادی طور پر اس جنگ کی وجہ بنتے ہیں اور پوری انسانیت کو اپنی انانیت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، ان کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ ان کو اپنے ان وسائل اور طاقتوں اور مال و دولت پر یہی زعم ہوتا ہے کہ ان کا اپنا کچھ نہیں بگڑے گا۔لیکن خداتعالیٰ کی تقدیر کی چکی جب چلتی ہے تو ایسے تمام فراعینِ وقت اپنی تمام دولتوں، اختیارات اور وسائل سمیت تباہ و برباد کر دیئے جاتے ہیں۔

خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

(بنی اسرائیل: 16)

یعنی اور ہم ہر گز عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں(اور حجت تمام کر دیں)۔اس لئے خداتعالیٰ کے رسول حضرت مسیح موعودؑ اور اُن کے خلفاء تو دنیا پر بار بارحجت تمام کر چکےہیں۔اب بھی اگر دنیا خدا کے فرستادے کا انکار کرتی رہے گی تو یقیناً خداتعالیٰ کے غضب کا مورد بننے والے ہوں گے۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ؂

کیوں غضب بھڑکا خدا کا کچھ تو سوچو غافلو
ہوگئے ہیں اس کا موجب میرے جھٹلانے کے دن

پس خداتعالیٰ کا غضب تو بھڑک رہا ہے اور جنگ عظیم کی آگ کے شعلے بھی بھڑک رہے ہیں۔بطورایک احمدی ہم سب کا فرض ہے کہ ہم سب خداتعالیٰ کے حضور پہلے سے بھی زیادہ جھکیں اور نہ صرف اپنے لئے بلکہ تمام بنی نوع انسان کیلئےخداتعالیٰ کے رحم کے طالب ہوں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ 11 دسمبر 2015ء میں فرماتے ہیں۔

دنیا اس وقت آگ کے گڑھے کے جس دہانے پر کھڑی ہے کسی وقت بھی ایسے حالات ہو سکتے ہیں کہ وہ اس میں گر جائے۔ ایسے وقت میں دنیا کو اس آگ میں گرنے سے بچانے کی کوشش کرنا اور امن اور سلامتی دینے کا کام کرنا ایک احمدی کی ذمہ داری ہے اور احمدی ہی کر سکتے ہیں۔ پس اس کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی چیز اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنا ہے، اس کے آگے جھکنا ہے، اس کا تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ اس کا تقویٰ اپنے دلوں میں پیدا کرنا ہے۔ تبھی ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بھی اور دنیا کو بھی امن اور سلامتی دے سکتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لئے اور ان حالات کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ: ؂

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

پس اس ذوالعجائب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ سے پیار میں بڑھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیاداروں کو بھی عقل دے کہ وہ خدا تعالیٰ کی آواز کو سنیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچیں۔

(مقصود احمد ریحان)

پچھلا پڑھیں

اوقات سحر و افطار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2020