• 19 اپریل, 2024

بیوگان کا نکاح

ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے۔ اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب، نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہئے یا کہ نہیں۔ یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟ فرمایا:۔
’’بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے۔ نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں۔ بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جاوے۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دینا چاہئے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ319۔320 ایڈیشن 1988ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بذریعہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواوٴں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چارعورتیں آئی تھیں۔ دو ان میں سے بیوہ، جوان اور مال دار تھیں۔ مَیں ان کو حضرت ؑ کے پاس لے گئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’جوان عورتوں کو نکاح کرلینا چاہیے‘‘ میں نے کہا جن کا دِل نہ چاہے وہ کیا کریں؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟ آپ نے فرمایا ’’اگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اور تقویٰ سے گزار سکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد2 صفحہ231)

پچھلا پڑھیں

شعرا ء (مرد حضرات) متوجہ ہوں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2022