• 18 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 21؍جنوری 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍جنوری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یوکے

٭… مسجدنبوی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرات کے لیے زمین خریدنے کی ادائیگی حضرت ابوبکرؓ کے مال سے کی گئی
٭…جنگ بدر کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ خدا کی قسم! اگر میں تجھے جنگ میں اپنے سامنے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا
٭…حضرت ابوبکر ؓنے جنگ بدر میں انتہائی خطرے کے موقع پر ننگی تلوارسونتے ہوئے ساری رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کے مشورے پر جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ کی ادائیگی کے بعد چھوڑنے کا فیصلہ فرمایا

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 21؍جنوری 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ مدینہ پہنچنے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی دو مسلمان بچوں سہل اور سہیل کی جس جگہ پرآکر بیٹھی تھی اُس زمین کو آپؐ نے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے پسند فرماتے ہوئے دس دینار میں خرید لیا جس کی ادائیگی حضرت ابوبکرؓ کے مال سے کی گئی۔ آپؐ نے دعا مانگتے ہوئے سنگِ بنیاد رکھا اور حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی۔ مسجدنبوی کی تعمیر کا تمام کام اور بعد ازاں محرم 7؍ہجری میں غزوہ خیبر کی فتح کے بعد اس کی توسیع اور تعمیرنَو میں آپؐ نے بھی صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل کر حصہ لیا۔

صحیح بخاری کے شارح علامہ قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ مؤاخات دو مرتبہ ہوئی۔ پہلی مرتبہ ہجرت سے قبل مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت علیؓ اور اپنے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ دوسری مرتبہ ہجرت کے بعد مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالکؓ کے گھر میں پچاس مہاجرین اور پچاس انصار کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔

غزوہ بدر پر روانگی سے قبل صحابہؓ کے پاس ستّر (70) اونٹ تھے۔ ایک ایک اونٹ تین تین آدمیوں کے باری باری سوار ہونے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ بدر کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی روک تھام کے لیے مدینہ سے نکلے جو شام کی طرف سے آ رہا تھا لیکن جب آپؐ کو خبر ملی کہ قریش کا ایک لشکر انتہائی تیز رفتاری سے اس قافلے کو بچانے کے لیے نکل پڑا ہے تو آپؐ نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرمایا۔ ایک گروہ نے کہا کہ دشمن کو چھوڑ کر تجارتی قافلے کی طرف ہی جانا چاہیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے بہت عمدہ گفتگو کی۔ حضرت مقدادؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اسی طرف چلیے۔ ہم آپؐ کے ہمراہ تلواروں سے لڑائی کرتے ہوئے چلتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ برک الغماد پہنچ جائیں۔ برک الغماد مکہ سے پانچ رات کی مسافت پر ایک شہر ہے۔ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک چمک اٹھا اور آپؐ اس بات پر بہت زیادہ مسرور ہوئے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓنے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہ میں سب سے زیادہ بہادر اور دلیر حضرت ابوبکرؓ تھے۔ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اُس انتہائی خطرے کے موقع پر نہایت دلیری کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کا فرض حضرت ابوبکرؓ نے ننگی تلوار سونتے ہوئے آپؐ کے پاس کھڑے رہ کر سرانجام دیا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات بھر گریہ و زاری سے دعائیں کیں۔ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ بدر والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہزار مشرکوں کے مقابلے پر تین سو انیس صحابہ کو دیکھا تو قبلےکی طرف منہ کیا اور دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنے ربّ کو بلند آواز سے مسلسل پکارتے رہےکہ اے اللہ! تُو نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا فرما۔ اگر تُو نے مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا آپؐ کی اپنے ربّ کے حضور الحاح سے بھری ہوئی دعا کافی ہے وہ اپنے وعدے ضرور پورے فرمائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ۔ (الانفال: 9) یعنی (یاد کرو) جب تم اپنے ربّ سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری التجا کو قبول کرلیا (اس وعدہ کے ساتھ) کہ میں ضرور ایک ہزار قطار در قطار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔ پس اللہ نے ملائکہ کے ساتھ آپؐ کی مدد فرمائی۔

جنگ بدر میں حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن کفار کی جانب سے لڑنے کے لیے آئے تھے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اپنے والد حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ بدر کے دن آپؓ میرے سامنے واضح نشان و ہدف پر تھے لیکن مَیں نے آپؓ کو قتل نہ کیا تو حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا: خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لیے تُو بچ گیا ورنہ خدا کی قسم! اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا۔

مدینہ پہنچ کر حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ قیدیوں سے فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کل کوانہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں۔ حضرت عمرؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہاکہ ان سب کو قتل کر دینا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے کوپسند فرمایا اور حکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کر دیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔ چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الٰہی حکم نازل ہوا۔

غزوہ احد مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان ہوا۔ایک خواب کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنا مناسب سمجھا لیکن اکثر نوجوان صحابہ کے بڑے اصرار اور جوش کے ساتھ عرض کرنے پر شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کرنے کی بات مان لی۔پھر جب آپؐ ہتھیار لگا کر اللہ کا نام لیتے ہوئے باہر تشریف لے گئےتو بعض صحابہؓ کے کہنے پر نوجوانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اُنہوں نے پشیمانی اور ندامت کے ساتھ یک زبان ہو کر عرض کیا کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے۔ آپؐ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکرپھر اُسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ پس اب اگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ غزوہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع صحابہ نے جو جاں نثاریاں دکھائیں تاریخ اُن کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔ یہ لوگ پروانوں کی طرح آپؐ کی خاطر اپنی جان پرکھیل رہے تھے۔ جووار بھی پڑتا تھا اپنے اوپر لیتے اورساتھ ہی دشمن پربھی وار کرتے جاتے تھے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپؐ کے اردگرد صرف دو آدمی ہی رہ گئے۔ ان جان نثاروں میں حضرت ابوبکرؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدبن وقاصؓ، ابودجانہ انصاریؓ، سعد بن معاذؓ اور طلحہ انصاریؓ کے نام خاص طورپر مذکور ہوئے ہیں۔

غزوہ احد کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوچکے تھے اور چہرہ زخمی تھا۔ آپؐ کے رخسار مبارک میں خود کی کڑیاں دھنس چکی تھیں۔حضرت ابوعبیدہؓ نے ان کڑیوں کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی تو اُن کے بھی سامنے والے دو دانت ٹوٹ گئے اور وہ سامنے کے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔ بعد ازاں حضرت ابوعبیدہ ؓحضرت ابوبکرؓ کے ساتھ طلحہؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ اُن کے جسم پر نیزے، تلوار اور تیروں کے کم و بیش ستّر (70) زخم تھے اور اُن کی انگلی بھی کٹی ہوئی تھی تو انہوں نے اُن کی مرہم پٹی کی۔

غزوہ احد میں ایک موقع پر جب دامنِ کوہ میں مسلمانوں کا بچا کچھا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑی زور دار آواز میں کہا کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار دیا۔ ابو بکرؓ، عمرؓ کو بھی مار دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جب اسلامی لشکر سے کوئی جواب نہ دیا گیا تو کفار نے اپنے دعویٰ پر یقین کرتے ہوئے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اس نے آج اِسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔جب خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر صحابہ نے نہایت جوش سے جواب دیا۔ اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلّ۔ اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلّ۔ یعنی اللہ وحدہ لاشرِیک ہی معزز ہے اور اس کی شان بالا ہے۔اِس جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑ اکہ اُن کے دل اندر ہی اندر مرعوب ہوگئے اور جلدی جلدی مکہ کو لوٹ جانا ہی مناسب سمجھا ۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً ستّر (70)صحابہ کی ایک جماعت اُن کے پیچھے روانہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قریش اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو خالی چلا رہے ہوں تو سمجھناکہ وہ مکہ کی طرف واپس جا رہے ہیں اور اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا ان کی نیت بخیر نہیں۔ پھر آپؐ نے بڑے جوش کی حالت میں فرمایا کہ اگر قریش نے اس وقت مدینہ پرحملہ کیا تو خدا کی قسم ہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں اس حملہ کامزا چکھا دیں گے۔ بہرحال جلد ہی یہ خبرمل گئی کہ قریش کا لشکر مکہ کی طرف جارہا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ ذکر آئندہ بھی چلے گا۔

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)

پچھلا پڑھیں

صحابہؓ کا رسول کریمؐ اور خلفائے وقت کی بے مثال اطاعت اور ادب و احترام کا نمونہ

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر