• 19 اپریل, 2024

پس مومن کا یہ فرض ہے کہ جب اپنے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے تو ان نمونوں کو قائم کرنے کی کوشش کرے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس آج یہ صدق و وفا ہے جس کا اُسوہ ہمارے سامنے آنحضرتؐ نے قائم فرمایا ہے۔ یہ صدق و وفا کا تعلق آنحضرت نے کس سے دکھایا؟ یہ تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے دکھایا۔ پس اگر ہم نے آنحضرت اکی پیروی کرنی ہے اور آپؐ کی اُمّت کے ان افراد میں شامل ہونا ہے جو مومن ہونے کا حقیقی حق ادا کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں صدق و وفا کے ساتھ اُن باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جن کا حکم ہمیں خدا تعالیٰ نے دیا ہے۔ اپنی زبانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے تَر رکھنا ہے تا کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکیں، تا کہ ہم اُن برکتوں سے فیض پا سکیں جو اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جیسا کہ آنحضرتؐ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تمام حدود و قیود سے باہر تھی۔ اس لئے آپؐ کو یہ مقام ملا کہ اللہ اور اس کے فرشتے آپؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اور اس لئے مومنوں کو بھی حکم ہے کہ درود بھیجیں اور درود بھیجتے ہوئے اُن احسانات کو سامنے رکھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر کئے۔ ہمیں ایک ایسے دین سے آگاہ کیا جو خدا تعالیٰ سے ملانے والا ہے۔ ہمارے سامنے وہ اخلاق رکھے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہیں۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی غیرت اور توحید کے قیام کے لئے نمونے قائم کئے تو عبدِ کامل بن کر عبادتوں کے حق بھی ادا کئے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کا اعلیٰ نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایاتو اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر کا بے مثال اسوہ بھی ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کو ہر حالت میں سچائی پر چلنے، امانت و دیانت کا حق ادا کرنے، اپنے عہدوں کو پورا کرنے، رحمی رشتوں کا پاس کرنے، مخلوقِ خدا کی ہمدردی اور اُن سے محبت اور شفقت کا سلوک کرنے، صبر اور حوصلہ دکھانے، عفو کا سلوک کرنے، عاجزی اور انکساری دکھانے اور ہر حالت میں خدا تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے علاوہ بہت سارے احکامات ہیں تو اس کی اعلیٰ ترین مثالیں بھی آپؐ نے ہمارے سامنے قائم فرمائیں۔ پس مومن کا یہ فرض ہے کہ جب اپنے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے تو ان نمونوں کو قائم کرنے کی کوشش کرے، تب اُس صدق و وفا کا اظہار ہو گا جو ایک مومن اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتا ہے۔ اور پھر آپ کے واسطے سے خدا تعالیٰ سے صدق و وفا کا یہ تعلق ہے۔ اور جب یہ ہو گا تو پھر ہی آنحضرتؐ پر بھیجا جانے والا درود، وہ درود کہلائے گا جو شکر گزاری کے طور پر ہو گا۔

یہ ہے ایک مومن کا آنحضرتؐ سے عشق و وفا کا تعلق۔ یہ ہے آنحضرتؐ کی ناموسِ رسالت کہ غیر کا منہ بند کرنے کے لئے ہم اسوہِ رسولؐ پر عمل کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑائیں اور غیر کو اپنے اوپر انگلی اٹھانے کا موقع دیں۔ اور صرف اپنے اوپر ہی نہیں بلکہ اپنے عملوں کی وجہ سے اپنے پیارے آقا سید المعصومینؐ کے متعلق دشمن کو بیہودہ گوئی یا کسی بھی قسم کے ادب سے گرے ہوئے الفاظ کہنے کا موقع دیں۔ اگر مخالفینِ اسلام کو ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ بھی کہنے کا موقع ملتا ہے تو ہم بھی گناہگار ہوں گے۔ ہماری بھی جواب طلبی ہو گی کہ تمہارے فلاں عمل نے دشمن کو یہ کہنے کی جرأت دی ہے۔ کیا تم نے یہی سمجھا تھا کہ صرف تمہارے کھوکھلے نعروں اور بے عملی کے نعروں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کا اظہار ہو جائے گا یا تم پیار کا اظہار کرنے والے بن سکتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کو یہ پسندنہیں۔ اللہ تعالیٰ تو عمل چاہتا ہے۔ پس مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑا خوف کا مقام ہے۔ باقی جہاں تک دشمن کے بغضوں، کینوں اور اس وجہ سے میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی بھی قسم کی دریدہ دہنی کا تعلق ہے، استہزاء کا تعلق ہے اُس کا اظہار، جیسا مَیں نے بتایا، اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر فرما دیا ہے کہ ان لوگوں کے لئے مَیں کافی ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ روشنی دکھائی ہے کہ جس کے لئے ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی شکر گزار ہے اور ہونا چاہئے۔ اگر آپ ہمیں صحیح راستہ نہ دکھاتے تو ہمارا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا اظہار صرف ظاہری قانونوں اور جلسے جلوسوں تک ہی ہوتا۔ اس درود میں جب ہم آلِ محمدؐ کہتے ہیں تو آنحضرتؐ کے پیارے مہدی کا تصور بھی ابھرنا چاہئے جس نے اس زمانے میں ہماری رہنمائی فرمائی۔

اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریرات پیش کرتا ہوں جس سے ظاہر ہو گا کہ آنحضرتؐ کے اعلیٰ ترین مقام کو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھا ہے اور دیکھا ہے، وہ کیا ہے؟ یقیناً یہ آپ ہی کا حصہ ہے جو اس سے ہمیں آگاہی فرمائی۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور ا علیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں‘‘ (اس اسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں )…… ’’اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیدہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امی صادق مصدوق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی‘‘۔

(آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن۔ جلد5۔ صفحہ160تا162)

(خطبہ جمعہ 21؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2021