• 23 اپریل, 2024

کیا انسان کا خلاء میں بسنے کا خواب کبھی پورا ہو سکے گا؟ خلائی سفر، اس کے انسانی ذہن پر اثرات اور ان کا سدّباب

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

ایک زمانہ تھا کہ انسان یہ سوچتا تھا کہ اگر ہمارے بھی پر ہوتے تو ہم بھی فضاؤں کی سیر کرتے۔پھر انسان کے اس تخیل نے حقیقت کا روپ دھارا اور انسان نے سوچنا شروع کیا کہ کیوں نہ خلاؤں کی سیر کی جائے۔انسان کا یہ خواب اس وقت حقیقت میں بدلا جب اس نے چاند پر پینگیں ڈال دیں ۔ اب تو انسان خلاء میں جا کر رہنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔اب تو خلائی کالونیوں کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بلکہ ناسا ، امریکن کمرشل خلائی پروازوں کی کمپنیوں جیسا کہ (Space X) اور دیگر بین الاقوامی شراکت دارو ں جیسا کہ

the Canadian and European Space Agencies

کے تعاون سے چاند پر رہ کرایک طویل مدتی حدف اپنے سامنے رکھے ہوئےہے کہ انسان کو کس طرح مریخ پر بھیجا جائے۔

سائنسی حلقوں میں جہاں آجکل کے سائنسی دور میں خلائی سفر کو عام آدمی کے لئے قابل رسائی بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس پر مختلف جہت سے کام بھی ہو رہا ہے وہاں اس کے لئے سائنسدان اس بات کی کھوج میں بھی ہیں کہ خلائی سفرکےانسانی جسم کے مختلف اعضاءاور انسانی صحت پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ ناسا کے زیر انتظام Twins Study نے یہ انکشاف کیا ہے کہ فضا میں لمبا عرصہ گزارنے کے نتیجہ میں انسانی جسم پر کثرت سے اثرات مرتب ہوتے ہیں حتیٰ کہ ہمارے جین کے اظہار (gene expressions) میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ جس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ گو ان میں سے بیشتر اعضاء زمین پر واپس آنے کے بعد کچھ عرصہ میں بحال ہو جاتے ہیں۔

اس حوالے سے آجکل ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ خلائی سفر انسانی دماغ پر انوکھے اور غیر معمولی انداز میں اثر انداز ہوتا ہے، جو کہ انسانی بینائی کو بُری طرح اور لمبے عرصہ کے لئے متاثر کرسکتا ہے۔ خلائی سفر کے آغاز سے آج تک تقریباً تمام خلا نورداپنی نظرکی کمزوری کی شکایت کرتے آئے ہیں۔ اب زمین پر طبی تشخیص سے پتہ چلا ہے کہ خلائی سفر کے نتیجہ میں خلاء نوردوں کے بصری اعصاب میں سوجن پیدا ہو جاتی ہے اور ان میں سے کچھ میں تو پردۂ چشم سے جریان خون (Retinal hemorrhage) کی شکایت ہو جاتی ہے اور بعض میں تو آنکھ کی بنیادی ساخت میں ہی تبدیلی بھی مشاہدے میں آئی ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ نظر سے متعلقہ یہ مسائل خلائی سفر کے دوران انسان کے سر پر پڑنے والے پریشر کےبڑھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔

ہوسٹن امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹیکساس ہیلتھ سائنس سنٹر کے ایک ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر لیری کریمر (Dr. Larry Kramer) کی سربراہی میں محققین نے اس بات کا پتہ لگا لیا ہے کہ سر میں پریشر (Intracranial pressure) کے بڑھنے کی وجہ مائیکرو گریویٹی (Microgravity) ہے۔ جسے آسان لفظوں میں صفر کشش ثقل (Zero Gravity) بھی کہا جاسکتا ہے۔اس تحقیق کے دوران اس ٹیم نے 11خلاء نوردوں (10 مرد اور ایک خاتون) کے دماغ کا خلائی سفر سے پہلے اور پھر بعد میں ایم آر آئی (MRI) کے ذریعہ مشاہدہ کیا اور ان کے سفر کے بعد ایک سال تک مزید ایم آر آئی کئے جاتے رہے جن سے پتہ چلا کہ مائیکرو گریویٹی (Microgravity) میں لمبا عرصہ گزارنے کے نتیجہ میں انسانی دماغ میں سوجن پیدا ہو جاتی ہے اور (cerebrospinal fluid) وہ مائع جو مغز ،ریڑھ کی ہڈی، حرام مغز کے جوف میں بھرا ہوتا ہے اس کا حجم زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ نتائج اس مفروضے کو تقویت دیتے ہیں کہ خلائی سفر انسانی دماغ کے پریشر کو بڑھاتا ہے اور محققین کا خیال ہے کہ خلاء نوردوں کی نظر کے مسائل کا اس کے ساتھ گہرا تعلق ہو سکتاہے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹرکریمراور ان کے ساتھیوں کے مطابق پٹیوٹری غدود (pituitary gland) جو کہ بلغم پیدا کرنے والا ایک غدود ہے مائیکروگریویٹی (Microgravity) کے زیر اثر سُکڑ جاتا ہے اور یہ بھی سر میں بڑھے ہوئے پریشر کی علامت ہے۔

محققین کے مطابق یہ علامات خلاء نوردوں کی خلاء سے واپسی کے ایک سال بعد تک بھی موجود رہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ علامات ایک لمبے عرصہ تک قائم رہتی ہیں۔ لیکن ڈاکٹر کریمر کے مطابق ابھی صحیح طور پریہ جاننے کےلئےمزیدتحقیق کی ضرورت ہےکہ مائیکرو گریویٹی (Microgravity) خلاء نورد کے دماغ پر اس کی پوری زندگی کو کس طرح متاثر کرتی ہے اور یہ اثر ہر شخص کے لئے مختلف ہوتا ہے۔

اس دماغی خلفشار کے حوالہ سے سائنسدانوں کے مختلف نظریات ہیں لیکن ڈاکٹر کریمر کے مطابق ان سب میں سب سے زیادہ قابل قبول یہ ہے کہ عام حالات میں وہ مائع جوکہ یکساں طور پر جسم کے اندر گردش کرتا ہے، کشش ثقل کی غیر موجودگی میں پاؤں سے سر کی طرف چلتا ہے اور وہ خون جو کہ جسم کے باہری کناروں کی طرف چلتا ہے وہ زیادہ تر سر میں اکٹھا ہونا شروع ہوتا ہے اور یہ بالکل اس طرح ہی ہے کہ انسان زمین پر ہاتھوں کے بل کھڑا ہو جائے۔

یقینی طور پر خلائی پروازکے ماہرین اس کے لئے ان طریقوں یا ایسی تدابیر پر کام کر رہے ہیں جو کہ انسانی جسم پر ان منفی اثرات کو کم کر سکیں۔ اس کے لئے کئی تجربات کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ جس پر سائنسدان کام کر رہے ہیں وہ امریکہ میں بنی 2001ء کی ایک خیالی سائنسی کہانی پر مبنی فلم (A Space Odyssey) کے ایک تخیل ، ’’گھومتا ہؤا خلائی سٹیشن‘‘ سے لیا گیا ہے ۔اس کے مطابق خلاء نورد کو دن کے ایک حصہ میں گھمایا جائے تا کہ خون کو جسم میں حرکت دے کر واپس ٹانگوں کی طرف لایا جائے، بالکل مصنوعی کشش ثقل کی طرح۔ ایک اور طریقہ جس کے بارہ میں سائنسدان سوچ رہے ہیں وہ خاص قسم کے خلائی سوٹ ہیں جو کہ ٹانگوں اور پاؤں کے مائع کے توازن کو برقرار رکھیں گے۔

ابھی چند روز قبل نارتھ امریکہ کی ریڈیالوجیکل سوسائٹی کے ایک رسالے میں ایک آن لائن پیپر The Long-term Effects of Spaceflight on Human Brain Physiology چھپا ہے جس سے مزید معلومات اس لنک کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی ہیں۔

https://doi.org/10.1148/radiol.2020201164

یہاں یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ دسمبر2017ء میں امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ نے ایک حکم نامے کے ذریعہ ایک دفعہ پھرچاند پر پینگیں ڈالنے کی مہم کی منظوری دی تھی اور اس سال فروری میں وائٹ ہاؤس نے اپنے 2021ء کے بجٹ میں ان اخراجات کے لئے 12فیصد اضافے کی تجویز بھی رکھی ہے جو کہ سالانہ 25.2 ارب ڈالر بنتا ہے۔ اس لئے یہ حیران کن بات نہیں ہےکہ خلائی سفر کے دوران انسانی جسم پر اور خاص طور پرذہن پر اس کے پڑنے والے اثرات کا پتہ لگانے کے لئےاتنی دلچسپی لی جا رہی ہے ۔خصوصی طور پر اس لئے کہ چاند تک کے سفر کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے اور اگلے 10سال میں مریخ کا سفر جو کہ یکطرفہ 6 سے 8 ماہ لمبا سفرہے ،بھی ممکنات میں ہے۔

بہرحال کیا انسان خلاؤں میں رہنے کے قابل ہو سکے گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

(پروفیسر مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

افریقہ Covid-19 ڈائری نمبر7 ،23 ۔اپریل 2020

اگلا پڑھیں

افریقہ Covid-19 ڈائری نمبر8 ،24۔اپریل2020ء