• 25 اپریل, 2024

میری سر شت میں ناکامی کا خمیر نہیں (مسیح موعودؑ)

اسلام اور ایمان یا مسلم اور مومن اسلامی اصطلاحات ہیں ۔ بلکہ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور مذہب کا نام اسلام ہے ۔ جس کے معنیٰ سلامتی کے ہیں ۔ اور اس کو ماننے والا مسلم یعنی سلامتی والا کہلاتا ہے ۔ جبکہ بانی اسلامؐ پر ایمان لانے والے کو مومن کہا جاتا ہے جس کے معنی امن والا اور امن دینے والے کے ہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو اصطلاحوں کو ان کے حقیقی معنوں کا لبادہ پہنایا ہے ۔ مسلم کی تعریف کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا :

اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَا نِہٖ وَ یَدِہٖ

(صحیح بخاری کتاب الایمان)

کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

جب کہ مومن کی تعریف میں آپؐ نے فرمایا :

اَلْمُؤْمِنُ مَنْ اٰمَنَہٗ النَّاسُ

(سنن نسائی کتاب الایمان)

کہ مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں رہیں۔ یعنی مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی امن میں رہیں ۔

گویا جو پیغام سیّدنا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً اور قولاً دیا آج مسلمانوں کو اس عظیم پیغام کو نہ صرف اپنے اندر بلکہ پوری امت کے اندر سرایت کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایساامن اور ایسی سلامتی و شانتی مسلمان سر زمین پر بہت کم نظر آتی ہے۔ ہر طرف قتل و غارت گری ،لوٹ کھسوٹ، گالم گلوچ اور عزتوں سے کھیلنے اور اپنے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کا بازار گرم نظر آتا ہے جب کہ اس کے مقابل پر مغربی دنیا وہ امن و سلامتی کا نظارہ پیش کر رہی ہے جو سیّدنا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام تھا۔ پاکستان کی سندھ وبلوچستان اسمبلی بالخصوص پاکستان نیشنل اسمبلی کے اراکین کی طرف سے جو ہلڑ بازی ،گالم گلوچ، اخلاقیات کی پامالی، دست و گریبان ہوتے ہوئے تمام دنیا نے دیکھا ۔ جس سے پاکستان کی اور اسلام کی جو جگ ہنسائی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔

حیرانگی ہوتی ہے کہ انہی ممبران نیشنل اسمبلی میں ختمِ نبوّت پر بات ہو جائے تو تمام ممبران بیک زبان ہو کر حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعویدار ہو جائیں گے ۔ اور ختم نبوت کو اپنے عقیدہ کا جزو قرار دے کر احمدیوں کے خلاف غصّہ کا اُبال بھی نکالیں گے ۔ 1973ء میں جن ممبران نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا ان کے اخلاقی معیار کا یہ حال تھا کہ اگلی حکومت کو ان کے خلاف وائٹ پیپر شائع کرنا پڑا ۔ مگر ان تین دنوں میں ایک ایسی عمارت کے اندر ہلہ گلہ اور گالم گلوچ ہوئی جهاں قرآنی آیات اور کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی خوبصورت تختیاں آویزاں ہیں ۔بلکہ پاکستان کا حصول بھی کلمہ کی خاطر ہوا۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ ان مقدس آیات تلے یہ ہنگامہ نہ صرف برپا کئے رکھا بلکہ بجٹ کی بھاری بھرکم کاپیاں جن پر بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ اور دیگر اسلامی اصطلاحیں لکھی ہوئی تھیں ایک دوسرے پر پھینکی گئیں۔ جس سے قرآنی آیات اور اسلامی اصطلاحات کی بے حرمتی ہوئی۔ ممبران کے اس ایکشن پر کسی نے کہا ہے کہ اگر یہ بے حرمتی کسی عیسائی کی طرف سے ہوئی ہوتی تو آج اس کے خلاف ہنگامہ کھڑا ہو چکا ہوتا اور سر آسمان پر اٹھا لیتے۔ اسمبلی کی اس ہنگامہ آرائی میں خواتین پر بھی حملے ہوئے جب کہ اسلام کی اس بارہ میں تعلیم یہ ہے کہ جنگ کے دوران کسی خاتون پر حملہ آور نہ ہوں ۔ خواتین کی بے حرمتی اور بےعزتی کرنا تو ان کا قومی تشخص بنتا جا رہا ہے۔

1974ء کے ہنگاموں میں احمدی خواتین کی ان بلوائیوں نے جو بے حرمتی کی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔ جماعت احمدیہ کی مخالفت ان کا حصہ بن چکا ہے ۔ احمدیہ مساجد کے مینار اور محراب گرانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے ۔ مساجد کی پیشانیوں سے کلمے ہتھوڑوں سے توڑے جاتے ہیں ۔ قبرستانوں میں احمدی مُردے بھی ان سرکاری مسلمانوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ احمدیہ کتب اور اخبارات و رسائل کو حکومتی سطح پر پابندیوں کا سامنا ہے ۔ احمدیوں پر مقدمات بنائے جاتے ہیں ۔ اور خود اپنا یہ حال ہے کہ ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی محبت کا دم بھی بھرتے ہیں۔

ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مسلسل کئی جمعوں میں پاکستان کی سلامتی اور استحکام اور احمدیوں کی حفاظت کے لئے دعاؤں کی تحریک فرما رہے ہیں ۔آپ ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:
’’اگر یہ مولوی ہمارے خلاف بیان دیتے ہیں تو اس ذریعہ سے آج کل جتنا احمدیت کا پیغام پہنچا رہے ہیں اور خاص طور پر اس طبقہ میں جہاں ہماری طرف سے پیغام پہنچنا مشکل تھا تو یہ ہمارا کام کر رہے ہیں اور یہ ہمارے فائدہ کے لئے ہے ۔ دعا تو ہم ان کے لئے بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ! اگر ان میں کوئی بھی شرافت کی رمق ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور انہیں سمجھ آجائے لیکن عوام الناس کے لئے ،عامۃ المسلمین کے لئے ،زیادہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے چنگل سے نجات دے۔

بہر حال یہ ہمارے فائدے کے لئے مخالفت کرتے ہیں ایسی ایسی جگہوں پر احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے جہاں پہلے نہیں پہنچا تھایا ہمارے ذریعہ سے نہیں پہنچ سکتا تھا اور پھر ان میں سے بعض لوگ خود رابطہ بھی کرتے ہیں۔ پس ہمارا کام دعا کرنا ہے اور صبر کرنا ہے اور یہی بہترین ذریعہ ہے جو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی بھی عطا فرمائے گا ۔ ہمارا کام یہی ہے کہ ایک مسلمان کے لئے اپنے خیالات اور اپنے احساسات کو صاف رکھیں ۔ ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد ان کی آنکھیں کھولے اور یہ زمانے کے امام کو ماننے اور پہچاننے والے بن جائیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 4 جون 2021ء)

یہ مخالفت جماعت کے لئے کھاد کا کام کرتی ہے ۔ جتنا یہ مخالفین جماعت کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جماعت کی آواز اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر دنیا میں پھیلتی جاتی ہے ۔ ہمارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرف اس امر کا اظہار فرما یا ہے کہ یہ مولوی پاکستان میں جو مخالفت کرتے ہیں ۔ ان کے صلے میں اللہ تعالیٰ دنیا بھر میں ترقیات کے نئے نئے راستے کھولتا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ تیری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ۔ اس جماعت نے تو ترقیات کی منازل طے کرتے جانا ہے کیونکہ یہ الہٰی جماعت ہے ۔ خدا کا لگایا ہوا پودا ہے جو بڑھنا پھلنا پھولنا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یار نہاں میں نہاں ہو جائیں اور اپنی راتوں کو بیدار کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور دعائیں کریں۔

کَانَ اللّٰہُ مَعَ جَمَاعَتِہٖ

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جولائی 2021