• 17 اپریل, 2024

صفت سَمِیْع کے ضمن میں ایک اور آیت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

پھر صفت سَمِیْع کے ضمن میں ایک اور آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :

وَ لَا تَجۡعَلُوا اللّٰہَ عُرۡضَۃً لِّاَیۡمَانِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ تُصۡلِحُوۡا بَیۡنَ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ

(سورۃ البقرہ :۲۲۵)

اور اللہ کو اپنی قَسموں کا نشانہ اس غرض سے نہ بناؤ کہ تم نیکی کرنے یا تقویٰ اختیار کرنے یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے سے بچ جاؤ۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ۔ یعنی جس طرح ایک شخص نشانہ پر بار بار تیر مارتا ہے اسی طرح تم بار بار خداتعالیٰ کی قسمیں نہ کھا یا کرو کہ ہم یوں کر دینگے اور وُوں کر دیں گے۔اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ یہ ایک نیا اور الگ فقرہ ہے جو مبتدا ہے خبر مخدوف کا۔ اور خبر مخدوف اَمْثَلُ وَاَوْلٰی ہے۔ یعنی بِرُّکُمْ وَتَقْوٰکُمْ وَاِصْلَاحُکُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَمْثَلُ وَاَوْلٰی۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا نیکی اور تقویٰ اختیار کرنا اور اصلاح بین الناس کرنا زیادہ اچھا ہے۔ صرف قسمیں کھاتے رہنا کہ ہم ایسا کر دیں گے، کوئی درست طریق نہیں ۔ تمہیں چاہیے کہ قسمیں کھانے کی بجائے کام کرکے دکھاؤ۔ پہلے قسمیں کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ زجاجؔ جو مشہور نحوی اور ادیب گزرے ہیں ، انہوں نے یہی معنے کئے ہیں ۔

پھر حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو روک نہ بناؤ اُن چیزوں کے لئے جن پر تم قسم کھاتے ہو۔ یعنی بِرّ کرنا، تقویٰ کرنا اور اصلاح بین الناس کرنا۔ اس صورت میں یہ تینوں اَیْمَان کا عطف بیان ہیں اور اَیْمَان کے معنے قسموں کے نہیں بلکہ اُن چیزوں کے ہیں جن پر قسم کھائی جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے نیک کام کی قسم نہ کھالیا کرو۔ تاکہ یہ کہہ سکو کہ کیا کروں چونکہ مَیں قسم کھا چکا ہوں، اس لئے نہیں کرسکتا۔ مثلاً کسی ضرورتمند نے روپیہ مانگا تو کہہ دیا کہ مَیں نے تو قسم کھالی ہے کہ آئندہ مَیں کسی کو قرض نہیں دوں گا۔

تو آپ فرماتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر کوئی نیکی اور تقویٰ اور اصلاح بین الناس کے کام کے لئے تمہیں کہے تو یہ نہ کہو کہ مَیں نے تو قسم کھائی ہوئی ہے، مَیں یہ کام نہیں کرسکتا۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ تیسرے معنے یہ ہیں کہ اس ڈر سے کہ تمہیں نیکی کرنی پڑے گی خدا تعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ۔ اس صورت میں اَنْ تَبَرُّوا مفعول لاجلہ ہے اور اس سے پہلے کرا ھۃً مقدّر ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ اگر اچھی باتیں نہ کرنے کی قسمیں کھاؤ گے تو ان خوبیوں سے محروم ہو جاؤگے، اس لئے نیکی تقویٰ اور اصلاح بین الناس کی خاطر اس لغو طریق سے بچتے رہو۔

در حقیقت یہ سب معنے آپس میں ملتے جلتے ہیں ۔ صرف عربی عبارت کی مشکل کو مختلف طریق سے حل کیا گیا ہے۔ جس بات پر سب مفسرین متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نہ کرو کہ خداتعالیٰ کو اپنی قسموں کا نشانہ بنالو۔ یعنی اُٹھے اور قسم کھا لی۔ یہ ادب کے خلاف ہے اور جو شخص اس عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ بسا اوقات نیک کاموں کے بارے میں بھی قسمیں کھا لیتا ہے کہ مَیں ایسا نہیں کروں گا۔ اور اس طرح یا تو بے ادبی کا اور یا نیکی سے محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ بعض اچھے کاموں کے متعلق قسمیں کھا کر خداتعالیٰ کو ان کے لئے روک نہ بنالو۔ اِن معنوں کی صورت میں داؤ پیچ والے معنے خوب چسپاں ہوتے ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ صدقہ و خیرات سے بچنے کے لئے چالیں چلتے ہیں اور داؤ کھیلتے ہیں اور بعض خداتعالیٰ کی قسم کو جان بچانے کا ذریعہ بتاتے ہیں۔ گویا دوسرے سے بچنے اور اُسے پچھاڑنے میں جو داؤ استعمال کئے جاتے ہیں اُن میں سے ایک خداتعالیٰ کی قسم بھی ہوتی ہے۔ پس فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ کے نام کو ایسے ذلیل حیلوں کے طور پر استعمال نہ کیا کرو۔ میرے نزدیک سب سے اچھی تشریح علامہ ابوحیان کی ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے احسان اور نیکی وغیرہ کے آگے روک بنا کر کھڑا نہ کردیا کرو۔

وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ میں بتایا کہ اگر تمہیں نیکی اور تقویٰ اور اصلاح بین الناس کے کام میں مشکلات پیش آئیں تو خدا تعالیٰ سے اس کا دفعیہّ چاہو اور ہمیشہ دعاؤں سے کام لیتے رہو کیونکہ یہ کام دعاؤں کے بغیر سرانجام نہیں پا سکتے اور پھر یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے۔ اگر تم اس کی طرف جھکو گے تو وہ اپنے علم میں سے تمہیں علم عطا فرمائے گا اور نیکی اور تقویٰ کے بارے میں تمہارا قدم صرف پہلی سیڑھی پر نہیں رہے گا بلکہ علم لدنی سے بھی تمہیں حصہ دیا جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم۔ صفحہ ۵۰۶ تا ۵۰۷)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’عُرْضَۃً: اللہ کے نام کو نیکی کرنے میں روک نہ بناؤ مثلاً خدا کی قسم کھا کر یہ کہہ دیا: مَیں فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا، فلاں کے گھر نہ جاؤں گا۔ وغیرہ

(حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۳۶۱،۳۶۲)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-
’’قرآن شریف کی رُو سے لغو یا جھوٹی قسمیں کھانا منع ہے کیونکہ وہ خدا سے ٹھٹھا ہے اور گستاخی ہے اور ایسی قسمیں کھانا بھی منع ہے جو نیک کاموں سے محروم کرتی ہوں جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی تھی کہ مَیں آئندہ مسطح صحابیؓ کو صدقہ خیرات نہیں دوں گا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی وَلَا تَجْعَلُوْا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِاَیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا ۔ یعنی ایسی قسمیں مت کھاؤ جو نیک کاموں سے باز رکھیں … تفسیر مفتی ابومسعود مفتی روم میں زیر آیت وَلَا تَجْعَلُوْا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِاَیْمَانِکُمْ لکھا ہے کہ عُرضہؔ اس کو کہتے ہیں کہ جو چیز ایک بات کے کرنے سے عاجز اور مانع ہوجائے اور لکھا ہے کہ یہ آیت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں ہے جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ مسطح کو جو صحابی ہے، بباعث شراکت اس کی حدیث اِفک میں، کچھ خیرات نہیں دوں گا۔ پس خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ایسی قسمیں مت کھاؤ جو تمہیں نیک کاموں اور اعمال صالحہ سے روک دیں، نہ یہ کہ معاملہ متنازعہ، جس سے طے ہو۔‘‘

(الحکم۔ جلد۸۔ نمبر۲۲۔ بتاریخ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۴ء۔ صفحہ ۷)

(خطبہ جمعہ 13؍ جون 2003ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2020