• 23 اپریل, 2024

خَیْرُالْجَلِیْسِ فِی الزَّمَانِ کِتَاب

مدیر کے قلم سے
خَیْرُالْجَلِیْسِ فِی الزَّمَانِ کِتَاب
(قسط دوم)

اکثر ایشیائی ملکوں میں کسی کا چھوڑا ہوا اخبار پڑھا جاتا ہے۔ اپنا اخبار خرید کر پڑھنے کارجحان بہت کم ہے ۔مجھے پاکستان کے بڑے شہروں میں بطور مربی خدمت کی توفیق ملی ہے۔ میں نے ان شہر وں کے باسیوں کو اس حوالہ سے بھی پڑھا ہے۔ بلکہ بعض غیر از جماعت صحافی حضرات سے بھی تعلقات رہے۔ وہ شہروں کے باسیوں کا مزاج یوں بیان کیا کرتے تھے کہ کراچی والے کے پاس 10 روپے ہوں گے وہ 5 روپے کا اخبار خرید کر آج پڑھے گا اور 5 روپے کل کے اخبار کے لئے سنبھال رکھے گا جبکہ ایک لاہوری کے پاس 10 روپے ہوں تو 10 روپے کسی سے ادھار پکڑ کر آج کی پیٹ پوجا کرے گا جبکہ اسلام آباد کے لوگ چونکہ حکومتی عہدوں پر ہوتے ہیں اس لیے انہیں کتب پڑھنے اور مطالعہ کا شغف رہتا ہے۔

جو قومیں علم سے پیار کرتی ہیں وہی ترقی پاتی ہیں ابھی حال ہی میں حکومت جرمنی نے ان تمام ٹیلی فون بوتھ کو پبلک لائبریریوں میں تبدیل کر دیا ہے وہاں ضروری اوراہم علوم پر مشتمل کتب رکھوا دی ہیں۔ جہاں سے لوگ پڑھنے کے لئے لے جاتے اور پھر واپس رکھ کر دوسری کتب لے جاتے ہیں اور بعض خواتین و مرد حضرات نے اپنے گھروں سے فالتو کتب وہاں لاکر رکھ دی ہیں تاکہ دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں۔

ان ممالک میں چونکہ چوری کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے رعایا اس سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ایشیائی ممالک میں تو کتاب چور بھی پائے جاتے ہیں۔ اکثر پبلک لائبریری والوں کو یہی شکایت رہتی ہے کہ ہماری اہم اور قیمتی کتب لائبریری سے غائب ہوجاتی ہیں۔ بلکہ کسی کا مشہور مقولہ بھی بولا جاتا ہے کہ اگر کوئی اپنی لائبریری سے کسی کو کتاب نکال کر دے دے تو وہ بے وقوف ہے اور اگر کتاب لینے والا دوبارہ واپس کر دے تو وہ اس سے بڑا بے وقوف ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خود کتب خرید کر پڑھنے اور لائبریریوں کی طرف احباب کو توجہ دلائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے بھی متعدد بار یورپ میں کتب و اخبار کی خریداری کی طرف رجحان کا ذکر کرکے کتب خرید نے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

ہمارے خلفائے کرام جلسہ سالانہ کے درمیانے دن سال رواں میں شائع ہونے والی کتب کا ذکر فرماتے ہیں ان کا مقصد ایک تو تعارف کتب ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ اب یہ مارکیٹ میں موجود ہیں۔ انہیں خرید کر اپنے گھروں، دارالمطالعہ، کتب خانوں کی زینت بنائیں۔صاحب ذوق لوگوں نے اپنے گھروں میں بہت خوبصورت قیمتی لائبریریاں تشکیل دے رکھی ہیں۔بعض نے تو ‘‘دارالمطالعہ’’ کے نام سے الگ جگہ یا کمرہ مخصوص کر رکھا ہے ۔جہاں وہ بیٹھ کر مطالعہ کا شوق پورا کرتے ہیں۔

مجھے یہ اہم مضمون لکھنے کی طرف توجہ بھی اسی وجہ سے ہوئی کہ گزشتہ دنوں ٹی وی پر بعض صاحب علم و ذوق علماء و ادباء کے کتب خانوں کا تعارف کروایا گیا۔ جہاں بعض اہم ونادر نسخے کتب کے دیکھے جو عام طور پر پبلک لائبریریوں میں نظر نہیں آتے۔ جس طرح ڈاک ٹکٹس یا اور بہت کچھ جمع کرنے کا بعض کو جنون ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی hobby سمجھتے ہیں۔ اسی طرح شعراء، ادباء اورصاحب علوم و فنون والے اپنے ہاں نادر تحریرات، اخبارات اور کتب اور دستاویزات جمع کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ ان میں بعض احمدی احباب بھی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میری ایک تصنیف کے وقت ملتان کے ایک احمدی دوست ملک غلام نبی صاحب نے مجھے ‘‘اخبارعام’’ کا ایک نادر شمارہ اصل حالت میں مہیا فرمایا تھا۔ جس کے عکس خاکسار نے شامل تصنیف کئے تھے۔اسی طرح مکرم سید نادر سیدین مرحوم کو بھی نادر اشیاء جمع کرنے کے ساتھ ساتھ نادر کتب، رسائل، اخبارات اور تحریرات وغیرہ جمع کرنے کا بھی بہت شوق تھا۔ جو ایک قیمتی خزانہ سے کم نہ تھے۔خاکسار کو اسلام آباد میں قیام کے دوران ان کی لائبریری اور نادر اشیاء کا خزانہ دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ خاکسار کو ان کی لائبریری اور نادر اشیاء کے خزانے کو دیکھنے کے لئے 5-6 گھنٹے لگے تھے۔ ابھی بھی مکمل دیکھ نہ پایا تھا۔

علامہ ابن الجہم برکی لکھتے ہیں کہ ’’کتابوں پر دریا دلی سے خرچ کرنا شرف انسانی کی اور نفس انسانی کی خرابی آفات سے محفوظ ہونے کی دلیل ہے۔‘‘

(اسلامی کتب خانے از محمد عبدالحلیم چشتی صفحہ 222)

ابو عمرو بن العلا بصری کے درج ذیل بیان میں بھی مال سے کتب خریدنے کی طرف اشارہ ملتا ہے: ’’ تمہارا علم بمنزلہ روح اور مال بمنزلہ بدن ہے لہٰذا علم کو روح کی جگہ پر مال کو بدن کی جگہ پر رکھو۔‘‘

(اسلامی کتب خانے از محمد عبدالحلیم چشتی صفحہ 222-223)

ابن دراج نے کہا کہ ’’تم نے کتابیں جمع کرلیں تو تم نے ادب اور جائیداد غیر منقولہ جمع کر لی۔‘‘

(اسلامی کتب خانے از محمد عبدالحلیم چشتی صفحہ 223)

اس تفصیل کی روشنی میں ہم تمام احمدیوں پر لازم ہے کہ ہم کتب خرید کر اپنے سرمایہ حیات کو بڑھائیں تا روح کو تسکین ملے۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر بے غایت احسان کردیئےہیں اور دنیا بھر میں مختلف ممالک میں پریس لگ چکے ہیں جہاں سے یہ علمی مائدہ شائع ہوتا ہے۔ جن میں قرآن کریم، اس کے تراجم اور تفاسیر، احادیث کی کتب، روحانی خزائن از سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام، پانچوں خلفاء کی تصانیف اور خطبات وخطابات و دیگر علماء کی مختلف علوم پر کتب۔ حضرت سیدنا خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پُرمعارف اور حقائق پر مشتمل خطبات و خطابات شائع ہو رہے ہیں جس سے ہم بروقت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ کلام الامام امام الکلام ہےپس جوبھی اس آواز پر کان دھرے گا اور دربار خلافت سے جاری ہونے والی آواز پر لبیک کہے گا وہی سرخرو ہوگا ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بھرپور استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت وافادیت

ایک مومن کی روحانی بقا کے لئے جو روحانی غذائیں اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائی ہیں۔ان میں سے سب سے اول تو قرآن شریف ہے۔ جس کی تلاوت اور ترجمہ کے ساتھ مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے گھروں میں قرآن کریم کی تلاوت کی آوازیں بلند ہونی چاہیے۔گزشتہ چندسالوں میں جب کارٹون کی اشاعت کا مسئلہ یورپ میں بناتھا تو ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ان کے جواب کااب یہی ہتھیار ہے۔‘‘

آج کے دور میں قرآن کریم کی بے نظیر تفاسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور کتب ہیں۔

آپ نے 83 کے لگ بھگ کتب لکھیں ان میں بعض کتب تو آپ نے مخالفین کے چیلنج قبول کرنے یا ان کو چیلنج دیتے ہوئے تصنیف فرمائیں۔ آپ کی کتب و تحریرات قریباً 18 ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ یہ دنیائے ادب و مذہب میں ایک ایسا نادر اور یکتااضافہ ہے جو رہتی دنیا تک جہاں نئے نئے علوم و فنون متعارف کروائے گی وہاں مخالفین کا جینا حرام کئے رکھے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خودفرماتے ہیں:
’’سلسلہ تحریر میں مَیں نے اتمام حُجت کے واسطے مفصل طور سے ستر پچھتر کتابیں لکھی ہیں۔اور ان میں سے ہر ایک جُداگانہ طور سے ایسی جامع ہے کہ اگرکوئی طالب حق اور طالب تحقیق ان کا غور سے مطالعہ کرے تو ممکن نہیں کہ اس کو حق و باطل میں فیصلہ کرنے کا ذخیرہ بہم نہ پہنچ جاوے۔ ہم نے اپنی عمر میں ایک بھاری ذخیرہ معلومات کا جمع کردیا ہے اور جہاں تک ممکن تھا ان کی اشاعت بھی کی گئی ہے۔ اور دوست اور دشمنوں نے اُن کو پڑھا بھی ہے……… معقولی رنگ میں اور منقولی طور سے تو اب ہم اپنے کام کو ختم کرچکے ہیں ۔ کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ 578-579)

آپؑ اپنی کتب کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اسرار و نکات اور دقائق سے وہ امور مراد ہیں جو شریعت کی تمام باتوں کو مسلم رکھ کر پوری پوری شکل کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کی حقیقت کاملہ کو بمنصہ ظہور لاتے ہیں۔ یہاں تک کہ منقول کو معقول کرکے دکھلا دیتے ہیں۔ سو انہیں اسرار کی اس معقولیت کے زمانہ کی ضرورت تھی۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 39)

پھر فرمایا:
’’یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس علمی زمانہ میں جبکہ موجوداتِ عالم کے حقائق اور خواص الاشیاء کے علوم ترقی کررہے ہیں۔اس نے آسمانی علوم اور کشف حقائق کے لئے ایک سلسلہ کو قائم کیا ۔ جس نے ان تمام باتوں کو فیج اعوج کے زمانہ میں ایک معمولی قصوں سے بڑھ کر وقعت نہ رکھتی تھیں اور اس سائنس کے زمانہ میں ان پر ہنسی ہورہی تھی۔علمی پیرایہ میں ایک فلسفہ کی صورت میں پیش کیا۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ153 ایڈیشن 1984ء)

دنیا بھر میں اپنی کتب کی اشاعت کے حوالہ سے آپؑ فرماتے ہیں:
’’ہمارا مدعا یہ ہونا چاہیئے کہ ہماری دینی تالیفات جو جواہرات تحقیق اور تدقیق سے پُر اور حق کے طالبوں کو راہ راست پر کھینچنے والی ہیں جلدی سے اور نیز کثرت سے ایسے لوگوں کو پہنچ جائیں جو بُری تعلیموں سے متاثر ہوکر مہلک بیماریوں میں گرفتار یا قریب قریب موت کے پہنچ گئے ہیں اور ہر وقت یہ امر ہماری مدّنظر رہنا چاہیئے کہ جس ملک کی موجودہ حالت ضلالت کے سمِّ قاتل سے نہایت خطرہ میں پڑ گئی ہو بلا توقف ہماری کتابیں اس ملک میں پھیل جائیں اور ہر ایک متلاشی حق کے ہاتھ میں وہ کتابیں نظر آویں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس مدعا کا بوجہ اکمل و اتم اس طور سے حاصل ہونا ہر گز ممکن نہیں کہ ہم ہمیشہ یہی امر پیش نہاد خاطر رکھیں کہ ہماری کتابیں فروخت کے ذریعہ سے شائع ہوتی رہیں۔ اور محض فروخت کے طور پر کتابوں کو شائع کرنا اور نفسانی ملونی کیوجہ سے دین کو دنیا میں گھسیڑ دینا نہایت نکما اور قابل اعتراض طریق ہے جس کی شامت کی وجہ سے نہ ہم جلدی سے اپنی کتابیں دنیا میں پھیلا سکتے ہیں اور نہ کثرت سے وہ کتابیں لوگوں کو دے سکتے ہیں۔ بلا شبہ یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ جس طرح ہم مثلاً ایک لاکھ کتاب کو مفت تقسیم کرنے کی حالت میں صرف بیس روز میں وہ سب کتابیں دور دور ملکوں میں پہنچا سکتے ہیں اور عام طور پر ہر ایک فرقہ میں اور ہر جگہ پھیلا سکتے ہیں اور ہر ایک حق کے طالب اور راستی کے متلاشی کو دے سکتے ہیں ایسی اور اس طرح کی اعلیٰ درجہ کی کاروائی قیمت پر دینے کی حالت میں شاید بیس برس کی مدت تک بھی ہم نہیں کرسکیں گے۔ فروخت کی حالت میں کتابوں کو صندوق میں بند کرکے ہم کو خریداروں کی راہ دیکھنا چاہیئے کہ کب کوئی آتا ہے یا خط بھیجتا ہے اور ممکن ہے کہ اس انتظار دراز کے زمانہ میں ہم آپ ہی اس دنیا سے رخصت ہوجائیں اور کتابیں صندوقوں میں بند کی بند رہیں!سو چونکہ فروخت کا دائرہ نہایت تنگ اور اصل مدعا کا سخت حارج اور چند سال کے کام کو صد ہا برسوں پر ڈالتا ہے۔ اور مسلمانوں میں سے ایسا کوئی فراخ حوصلہ اور عالی ہمت امیر بھی اب تک اس طرف متوجہ نہیں ہوا کہ ہماری تالیفاتِ جدیدہ کے بہت سے نسخے خرید کر کے محض للہ تقسیم کیا کرتا۔ اور اسلام میں عیسائی مشن کی طرح کوئی ایسی سوسائٹی بھی نہیں جو اس کام کے لئے مدد دے سکے اور عمر کا بھی اعتبار نہیں ۔ تاہم لمبی عمر کی امید پر کسی دور دراز وقت کے منتظر رہیں۔لہذا میں نے اپنی تمام تالیفات میں ابتدا سے التزامی طور پر یہی مقرر کر رکھا ہے کہ جہاں تک بس چل سکتا ہے بہت سا حصہ کتابوں کا مفت تقسیم کردیا جائے تا جلدی سے اور عام طور پر یہ کتابیں جو سچائی کے نور سے بھری ہوئی ہیں دنیا میں پھیل جائیں۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 27-28)

تالیفات میں خدائی تائیدات و نصرت و مدد شامل رہی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کتب خدائی تائید و نصرت الہٰی سے لکھیں۔ کسی جگہ آپؑ نے لکھا کہ کوئی اندر سے تعلیم دے رہا ہے۔ کسی جگہ فرمایا آسمان سے دودھ اُتررہا ہے۔ کسی جگہ فرمایا یوں لگتا ہے جیسے کوئی اندر سے بول رہا ہے۔اور فرمایا جب میں عربی لکھتا ہوں تو کس طرح افواج کی طرح الفاظ اور فقرے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 226) ۔یہاں کچھ ایسے ارشادات آپؑ کی تحریرات سے پیش کئے جارہے ہیں جس سے آپؑ کی کتب کے مطالعہ کی طرف توجہ ہو اور برکات الہٰی کی خاطر آپؑ کی کتب خرید کر گھروں کی زینت بنائیں۔

کوئی اندر سے بول رہا ہے

’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب میں کسی کتاب کا مضمون لکھنے بیٹھتا ہو ں اور قلم اٹھاتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی اندر سے بول رہا ہے اور میں لکھتا جا تا ہوں۔اصل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھا بھی نہیں سکتے۔ خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آجاتا ہے اور میرا ایمان تو یہ ہے کہ جنت ہو یا نہ ہو۔ خدا تعالیٰ پر پورا یقین ہونا ہی جنت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ 270)

’’تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے

…یَا اَحۡمَدُفَاضَتِ الرَّحۡمَۃُ عَلٰی
شَفَتَیۡکَ۔کَلَامٌ اُفۡصِحَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ رَبٍّ کَرِیۡمٍ۔

درکلام تو چیزے ا ست کہ شعراء ر ادران دخلےنیست۔
رَبِّ عَلِّمۡنِیۡ مَاھُو خَیۡرٌعِنۡدَکَ۔

اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔ تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔ اے میرے خدا! مجھے وہ سکھلا جو تیرے نزدیک بہتر ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 105تا106)

کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے

’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ مَیں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتاہوںکیونکہ جب مَیں عربی میں یا اُردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اُردو یا فارسی دو حصّہ پرمنقسم ہوتی ہے۔ (1) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اُٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ واﷲ اعلم۔ (2) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پرہے اور وہ یہ ہے کہ جب مَیں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہ نمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت مَیں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ 434 تا 435)

وہی تمہیں یقین کا دودھ پلائے گا

’’وہ خدا جو بچے کے پیدا ہونے سے پہلے پستان میں دودھ ڈالتا ہے اس نے تمہارے لئے تمہارے ہی زمانہ میں تمہارے ہی ملکوں میں… ایک بھیجا ہے تا ماں کی طرح اپنی چھاتیوں سے تمہیں دودھ پلاوے۔ وہی تمہیں یقین کا دودھ پلائے گا جو سورج سے زیادہ سفید اور تمام شرابوں سے زیادہ سرور بخشتا ہے۔ پس اگر تم جیتے پیدا ہوئے ہو مردہ نہیں ہو تو آؤ اس پستان کی طرف دوڑوکہ تم اس سے تازہ دودھ پیو گے۔ اور وہ دودھ اپنے برتنوں سے پھینک دو کہ جو تازہ نہیں اور گندی ہواؤں نے اس کو متعفن کر دیا ہے اور اس میں کیڑے چل رہے ہیں جن کو تم دیکھ نہیں سکتے۔ وہ تمہیں روشن نہیں کر سکتا بلکہ اندر داخل ہوتے ہی طبیعت کو بگاڑ دے گا کیونکہ اب وہ دودھ نہیں ہے بلکہ ایک زہر ہے۔‘‘

(گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے، روحانی خزائن جلد18 صفحہ648 تا 649)

(باقی آئندہ ان شاء اللہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2020