• 25 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 6)

سیّدنا امیر المؤ منین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا دورہ امریکہ 2022ء
یکم اکتوبر 2022ء بروز ہفتہ
قسط 6

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بج کر 50 منٹ پر مسجد فتح عظیم تشریف لا کر نماز فجرپڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

•صبح حضور انور نےڈاک ملاحظہ فرمائی۔ یہاں امریکہ کے اس سفر کے دوران دنیا کے مختلف ممالک سے روزانہ بذریعہ Fax اور ای میل کے ذریعہ خطوط اور رپورٹس موصول ہوتی ہیں۔ یہاں امریکہ کے احباب کی طرف سے خطوط اور مختلف شعبہ جات کی رپورٹس بھی حضور انور کی خدمت میں پیش ہوتی ہیں۔ حضور انور ان خطوط اور رپورٹس کو ملاحظہ فرماتے رہے اور ہدایات سے نوازتے رہے۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بج کر تیس منٹ پر مسجد فتح عظیم تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

صحافی کو انٹرویو

پروگرام کے مطابق پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نمائش ہال میں تشریف لائے جہاں ’’Lake County NewsSun‘‘ اخبار کی ایک صحافی خاتون Yadira Sanchez Olson صاحبہ حضور انور سے انٹرویو کے لیے آئی ہوئی تھیں۔

*اس صحافی نے پہلا سوال یہ کیا کہ اس دور میں جب ہر طرف بہت زیادہ خوف، جرائم، بے گھر ہونا اور خوراک کی کمی اور عدم تحفظ ہے تو آپ کا کیا پیغام ہے تاکہ خوف کم ہو؟

اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا ہے کہ میرے آنے کا مقصد لوگوں کو ان کے خالق کے قریب کرنا ہے۔ ان کے پیدا کرنے والے تک پہنچانا ہے اور دوسرا یہ کہ دنیا کے لوگوں کو سمجھانا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔ اگر آپ لوگوں کو ان کے حقوق دیتے ہیں تو پھر کوئی جرم یا بے گھر ہونا یا خوراک کا عدم تحفظ نہیں ہونا چاہئے۔

•صحافی نے سوال کیا کہ آپ نوجوانوں کو اپنے ایمان پر قائم رہنے کے لیے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

اس پر حضور نے فرمایا: نوجوانوں کو اپنے بزرگوں کی دین اور ایمان کی باتیں سننی چاہئیں اور ان سے دین اور ایمان کی باریکیاں سیکھنی چاہئیں۔ بچے کے لیے والدین سے سب کچھ سیکھنا ایک فطری عمل ہے۔والدین سے دین بھی سیکھنا چاہئے۔

•صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’کیا آپ کے خیال میں تمام مذاہب اور لوگوں کے لیے امن کے حصول کا کوئی فارمولا ہے؟ کیا تمام مذاہب مل کر امن کے لیے کام کر سکتے ہیں؟‘‘

حضور انور نے فرمایا: اگر دنیا یہ سمجھ لے کہ تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے اور ہماری پیدائش کا مقصد ایک دوسرے کو مارنا یا تباہ کرنا نہیں ہےاور یہ کہ تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں تو پھر آپ یہ بھی سمجھ لیں گی کہ تمام انبیاء اور تمام مذاہب کے بانی نے پیش گوئی کی تھی کہ آخری زمانہ میں ایک نبی آئے گا جو تمام مذاہب کو متحد کر دے گا۔ہمارا یقین ہے کہ وہ شخص جس کے بارہ میں تمام مذاہب کی بانی نے پیشگوئی کی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی کی کہ میرے پیروکار اسلام کی حقیقی تعلیم کو بھول جائیں گے پھر اُس وقت ایک مصلح آئے گا جو میری امت میں سے ہوگا اور ہمارا یقین ہے کہ یہ مصلح بانی سلسلہ احمدیہ ہیں۔

ایک پروفیسر کی حضور سے ملاقات

•بعد ازاں ڈاکٹر Craig Consodine نے حضور انور سے ملاقات کی۔ موصوف ہیوسٹن میں Rice یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔

حضور انور نے موجودہ جنگی حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ انسانیت کی تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ بعض مغربی لیڈرز اپنے اقدام میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ اب بعض ایشیائی لیڈر انہیں نرم کرنے اور تنازعہ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

•ڈاکٹر Craig نے کہا کہ میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں احمدیہ جماعت اور حضور کے بارے میں لکھا ہے۔ میری کتاب کا پیغام محبت ہے۔ اگرچہ میں ایک عیسائی ہوں لیکن مجھے احمدیہ جماعت سے لگاؤ ہے اور لگاؤ کی وجہ محبت ہی ہے۔ آپ کا پیغام

’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ میرے لیے ایک خاص پیغام ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہ وہ پیغام ہے جسے ہر کوئی بھول رہا ہے۔ دنیا اس پیغام کو بھول گئی ہے۔

حضور نے فرمایا آپ عیسائی ہیں اور ہم مسلمان ہیں لیکن ہم سب انسان تو ہیں۔ کم از کم ہمیں بطور انسان ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ اگر ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنے کا احساس ہو جائے تو امن محبت اور ہم آہنگی ہوگی۔

حضور نے فرمایا: ہم نے یہاں دنیا کے اس حصے میں لفظ آزادی کو غلط سمجھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی کا مطلب ہے کہ ہم جو چاہیں ہمیں کہنے کا حق ہے۔ ہم جو چاہیں کرنے میں آزاد ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم دوسرے کا احترام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم بنیادی باتوں امن، رواداری اور ہم آہنگی سے ہٹ رہے ہیں۔

ایک ڈاکٹر کی ملاقات

اس کے بعد ڈاکٹر کترینا لانٹوس (Dr.Katrina Lantos) نے حضور انور سے ملاقات کی۔

موصوفہ Lantos Foundation for Rights and Justice کی صدر ہیں اور یہ یونائیٹڈ سٹیٹس کمیشن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم کی سابق چیئر اور نائب صدر رہی ہیں۔

موصوفہ نے کہا کہ حضور سے ملاقات کرکے ایک غیر معمولی خاص تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ ہم حضور کی طرف سے جو نور اور حکمت ہے اپنی زندگی میں اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور حضور کی صحبت میں رہ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے دن اور ہمارے ہفتے بہتر ہوتے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر کترینہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ڈوئی کے درمیان مباہلہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا
مباہلہ کی یہ کہانی حیرت انگیز کہانی ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ خدا پر توکل کرتے ہوئے مخالفت اور غلاظت کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے۔

اس پر حضور نے فرمایا : آپ خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کامیابی کا نشان ہیں کہ آپ جماعت کی مدد کر رہی ہیں۔ آپ ہر جگہ ہمارا پیغام پہنچا رہی ہیں۔ آپ جہاں بھی جاتی ہیں دنیا کو بتاتی ہیں کہ ہماری جماعت وہ واحد جماعت ہے جو حقیقی معنوں میں محبت کی تبلیغ کرتی ہے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہے۔

موصوفہ نے پاکستان میں جماعت کے مخالفانہ حالات پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اب معاملہ ظلم سے بھی بدترہو گیا ہے۔

حضور انور نے فرمایا: اب مولوی کہتے ہیں کہ ہماری عورتوں کا حمل ساقط کر دیا جائے۔ وہ مصر کے فرعون سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ فرعون نے کہا تھا کہ مصر میں کسی بھی نئے پیدا ہونے والے بچے کو قتل کر دینا چاہئے۔

موصوفہ نے عرض کیا کہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ آپ کی جماعت برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتی۔ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیتی۔

اس پر حضور نے فرمایا: کہ ہم اسی طرز پر جواب تو دے سکتے ہیں ہم زیادہ منظم ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کرتے کیونکہ حقیقی اسلامی تعلیم یہ نہیں ہے۔

تیرہ سرکردہ افراد کی اجتماعی ملاقات

اس پروگرام کے مطابق درج ذیل 13سرکردہ افراد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اجتماعی طور پر ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

1. Mr. Billy Mckinney مئیر آف زائن (Zion)
2. Joyce Mason سٹیٹ کانگریس وُومن
61st District
3. Raja Krishna Moorti یو ایس کانگریس مین
8th District
4. Katrina Lantos Swett
پریذیدینٹ آف Lantos فاؤنڈیشن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس
(Lantos Foundation) Chelsea Hedquist
5. Dr.Craig Considine Phd
سینئر لیکچرر Rice یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ آف سوشیالوجی
6. Sherif John Idleburg
پولیس اینڈ فائر کمشنر lakeکاؤنٹی
7. Cheri Neal سپر وائزر آف زائن ٹاؤن شپ
8. Mary Lou Hiltibran
ایمرجینسی سروسز اینڈ Disaster ایجنسی
9. Eric Reinhart سٹیٹ اٹارنی lake کاؤنٹی
10. Rabi Melinda Zalma
11. Manager of Tannenbaum Center for Interreligious Understanding New York
Rabi Mare Bekgrad
Founded B´Chavana Congregation in nearby Baffalo Grove, Illionois
12. Anriane Johnson
سٹیٹ سینٹر 30th District
13. Dr. Gabrielle Lyon
ایگزیکٹو ڈائر یکٹر Illinois Humanities

• اس اجتماعی ملاقات کے دوران ایک خاتون نے عرض کیا کہ میں 2002ء میں غانا میں اکرامیں رہی ہوں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضور بھی غانا میں رہے ہیں۔میں جاننا چاہتی ہوں کہ غا نا میں آپ کا تجربہ کیسا رہا ہے؟

اس پر حضور نے فرمایا: آپ غانا میں اس وقت رہی ہیں جب معاشی صورتحال بہتر ہو گئی تھی۔ جب میں غانا میں تھا تو حالات بہت ہی قابل رحم تھے۔ میں نے تقریبا چار سال شمال میں گزارے اور دُور دراز کے شمالی علاقے میں اور پھر چار سال جنوبی علاقے میں گزارے 1985ء میں، میں نے غانا چھوڑ دیا تھا۔

•حضور انور کی خدمت میں ایک مہمان نے سوال کیا کہ ایک چیز جس نے مجھے جماعت احمدیہ سے متاثر کیا وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ان کا میل جول ہے۔ سب سے اہم طریقہ کیا ہے کہ ہم اپنے اختلافات کے باوجود لوگوں سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں؟

اس پر حضورانور نے فرمایا: کہ ہمارا دعوی ہے کہ اسلام واحد مذہب ہے جو تمام مذاہب کو تسلیم کرتا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ موسی نبی تھے عیسی نبی تھے اور ہر مذہب اپنی اصل میں سچا مذہب تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہئے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ اگر ہم اس بنیادی اصول کو سمجھ لیں تو ہم امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

اس ملاقات کے بعد ان تمام مہمانوں نے حضور انور کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت پائی۔

ایک کانگریس مین کی ملاقات

•بعد ازاں یوایس کانگریس مین Raja Krishna Moorti صاحب نے حضور کے ساتھ ملاقات کی سعادت پائی۔

حضور انور کے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ انڈیا سے اس کا تعلق ساؤتھ انڈیا کے علاقہ چنائی (Chenai) سے ہے اور بہت چھوٹی عمر میں والدین کے ساتھ امریکہ آ گئے تھے۔

حضور انورنے فرمایا: کہ حضور نے بھی چنائی کا وزٹ کیا ہوا ہے۔ موصوف کے ایک سوال پر حضور انور نے فرمایا کہ میں یہاں اس علاقہ میں دوسری مرتبہ آیا ہوں پہلے 2012ء میں آیا تھا۔

کانگریس مین راجہ کرشنا صاحب نے عرض کی کہ امریکہ میں آپ کی کمیونٹی بہت اچھی ہے۔ آپ یہاں بار بار آتے رہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ساری دنیا میں ہماری کمیونٹی ہے ہر جگہ افراد جماعت میرا انتظار کرتے ہیں۔

یوکے میں جماعت کے مرکز اسلام آباد ٹلفورڈ کا بھی ذکر ہوا۔ حضور نے فرمایا ہاں ہمارے مرکزی سینٹر آفیسز ہیں۔

کانگریس مین کی حضور انور کے ساتھ یہ ملاقات چھ بج کر دس منٹ تک جاری رہی۔ کانگریس مین نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بھی بنوائی۔

مسجد فتح عظیم کی افتتاحی تقریب

•آج مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے حوالے سے مسجد کے بیرونی احاطہ میں نصب مارکی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔

اس تقریب میں مختلف جماعتوں اور ممالک سے آنے والے جماعتوں، عہدیداروں اور نمائندوں کے علاوہ 161 غیر مسلم اور غیر از جماعت مہمانوں نے شرکت کی۔

ان مہمانوں میں وہ تمام مہمان بھی شامل تھے جنہوں نے اس تقریب سے قبل حضور انور کے ساتھ انفرادی طور پر اور گروپ کی صورت میں ملاقات کی تھی۔

اس کے علاوہ Mayor of Glen Elly مارک Senak صاحب، Glen Ellyn کے سابق مئیر Mike Formento صاحب، زائن کمشنر Chris Fischer صاحب، Lake County بورڈ ممبر Gina Roberts سپرٹینڈنٹ Dr. Jesse Rodriguez، زئان ہائی اسکول پرنسپل Zackary Livingston بھی اس تقریب میں شریک تھے۔

علاوہ ازیں اس تقریب میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، ٹیچرز، وکلاء، جرنلسٹ میڈیا کے نمائندے، سکیورٹی کے اداروں کے نمائندے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔

•پروگرام کے مطابق چھ بج کر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مارکی میں تشریف لائے۔ حضور انور آمد سے قبل تمام مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔

•پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مبارک Kokoy صاحب نے کی۔ بعدازاں اس کا انگریزی ترجمہ مکرم نصیراللہ نے پیش کیا۔

اس کے بعد مکرم امجد محمود خان صاحب (نیشنل سیکریٹری امور خارجیہ، یوایس اے)نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

زائن شہر کے میئر کا تاریخی استقبالیہ
اور حضور کی خدمت میں شہر کی کلید پیش کرنا

•بعد ازاں زائن شہر کے مئیر آنریبل Billy Mckinne نے استقبالیہ ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:
آپ سب کا شکریہ! آپ سب پر سلامتی ہو اور زائن الینوائے کے خوبصورت شہر میں خوش آمدید !میرے لئے جماعت احمدیہ مسلمہ کے عالمی رہنما حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے موقع پر شہر میں خوش آمدید کہنا انتہائی اعزاز کی بات ہے۔

خلیفۃ المسیح کا آج شام اس تقریب میں شرکت کے لیے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آنا یقینا ہمارے لیے بہت ہی فخر کا باعث ہے۔

یہاں زائن میں ہمارا ماٹو Historic Past and Dynamic Future ہے۔ ہمارے شہر کے قلب میں یہ خوبصورت مسجد اس ماٹو کی ایک اعلی مثال ہے۔ میری خواہش اور دعا ہے کہ یہ عبادت گاہ ہمارے ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک پل کا کام کرے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ مسجد ایسی شاندار ایمان سے بھرپور کمیونٹی کے نمازیوں سے بھری ہوئی ہے، مجھے زائن شہر کے مستقبل کے لیے بھی امید دلاتی ہے اگر ہمیں ایک بہتر زائن، ایک بہتر شہر، ایک بہتر ریاست، ایک بہتر ملک اور ایک بہتر دنیا بنانی ہے تو ہمیں تمام نسلوں اور عقیدوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ جب میں اس پیغام کو دیکھتا ہوں جو احمدیہ مسلم کمیونٹی ہمارے شہر میں لے کر آئی ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی وہ جماعت ہے جس کا نصب العین ‘‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ’’ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتی ہے جنہوں نے عیسائیوں کے ساتھ عہد کیا تھا کہ ان کے پیروکار گرجا گھروں کی مرمت میں عیسائیوں کی مدد کریں گے اور گرجا گھروں کی ہر قسم کے خطرات سے حفاظت اور دفاع کے لئے لیے اپنی جانیں بھی قربان کریں گے۔ بس آج جماعت احمدیہ مسلمہ اس شہر ’’زائن‘‘ میں اسی مسلک اور عقیدہ کا اظہار کر رہی ہے۔ اس جماعت نے اپنے خلیفہ کی بابرکت قیادت میں امن، انصاف، عالمی انسانی حقوق اور انسانیت کی خدمت کے پیغام کے ساتھ تمام مذاہب کے لوگوں تک رسائی حاصل کی ہے، لہذا احمدیہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے اس شہر میں جو شاندار خدمات انجام دی گئیں ہیں اور اس شہر کی ترقی اور اس کے لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لئے جو کام کیے گئے ہیں ان پر میں آپ کا تہہ دل سے سے شکر گزار ہوں۔ اور ہم اس شہر کی کلید عزت مآب خلیفہ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

اس ایڈریس کے بعد موصوف نے حضور انور کی خدمت میں زائن شہر کی چابی پیش کی۔

ممبر آف الینائیس جنرل اسمبلی کو ایڈریس

•بعد ازاں ممبر آف Illinois جنرل اسمبلی آنریبل Joyce Mason نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:
یہاں ز ائن میں ’’مسجد فتح عظیم‘‘ کے افتتاح کی اس تاریخی تقریب کا حصہ بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ زائن احمدیہ مسلم کمیونٹی کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ 61ویں ضلع کے ریاستی نمائندے کے طور پر میں اس موقع سے خاص طور پر متاثر ہوئی ہوں کیونکہ یہ نہ صرف احمدیہ مسلم کمیونٹی اور اس کی رکنیت کے لیے بلکہ پورے شہر اور اس کے آس پاس کے علاقے کے لئے ایک خاص لمحہ ہے۔ میں ان تمام مہمانوں کو مبارکباد دینا چاہتی ہوں جو دنیا بھر سے سفر کر کے یہاں پہنچے۔ یہ واقعی اس شہر کے لیے ایک خاص دن ہے۔ زائن ایک ایسی جگہ تھی جس کی بنیاد پچھلی صدی کے آغاز میں الیگزینڈر ڈوئی نے رکھی تھی اور جو اسے ایک تھیو کریٹک شہر بنانا چاہتا تھا جس کے دروازے اس کے ماننے والوں کے علاوہ باقی ہر ایک کیلئے بند تھے۔ لیکن آج ہم ایک مختلف تصویر دیکھ رہے ہیں۔ آج زائن شہرمختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے پچیس ہزار لوگوں کا گھر ہے۔ یہ مسجد متعصبین کے بارے میں مومنوں کی دعاؤں کی فتح کی علامت ہے۔ میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کو اس شاندار کامیابی پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ کمیونٹی اور ہم سب خاص طور پر خوش قسمت ہیں کہ عزت مآب خلیفہ نے اس افتتاحی تقریب کی صدارت کرنے کے لئے اتنا لمبا سفر کیا اور میرے لئے ان سے ملنا ایک ناقابلِ یقین اعزاز کی بات ہے۔

احمدیہ مسلم کمیونٹی کا نعرہ ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ اکثر اپنے سامنے رکھتی ہوں کیونکہ یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ ان احمدی مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس لیے میں اس کمیونٹی اور آپ سب کی طرف کھنچی چلی جاتی ہوں۔ درحقیقت اس کمیونٹی کے بہت سے افراد ہیں جنہیں میں اپنا خاندان سمجھتی ہوں۔ عزت مآب خلیفہ امن کے فروغ کے حوالہ سے ایک سرکردہ مسلم رہنما ہیں، جو اپنے خطبات، لیکچرز، کتابوں اور ذاتی ملاقاتوں میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی خدمت انسانیت، عالمی انسانی حقوق اور ایک پر امن اور انصاف پسند معاشرے کے قیام پر مشتمل اقتدار کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے امن کے قیام پر زور دیتے ہوئے دنیا بھر کے قانون سازوں اور دیگر رہنماؤں سے بات کی ہے۔ آپ خواتین کے حقوق کے بھی علمبردار ہیں، جیسا کہ میں ذاتی طور پر زائن کی احمدی مسلم خواتین کے حوالہ سے تصدیق کرسکتی ہیں۔ اس کمیونٹی کی خواتین اراکین کا احترام کرتی ہیں اور اپنی جماعت کا لازم و ملزوم کا حصہ ہیں اوراس مسجد کی تعمیر اس بات کا زندہ ثبوت ہے۔ کیونکہ تعمیرات کے لیے یہ جمع کی گئی رقم کا تقریبا نصف احمدی مسلم خواتین کا تھا۔

موصوفہ نے کہا: زائن شہر کی خوش قسمتی ہے کہ امن پسند اور دوسروں کی خدمت کرنے والی جماعت نے یہاں آباد ہونے اور اتنی خوبصورت مسجد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میری دلی تمنا ہے کہ یہ مسجد نہ صرف اس شہر بلکہ چاروں اطراف کے لیے امید کی کرن بن جائے۔ یہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور زائن اور اس سے باہر امن اور انصاف کے قیام کے لئے باہمی ذرائع تلاش کرنے میں مدد کرے۔ میں اس کمیونٹی کو نئی مسجد کے افتتاح پر مبارکباد دیتے ہوئے ایوان میں ایک قرارداد پیش کر رہی ہوں۔ میں اس خوشی کے دن کا حصہ بننے اور اس خاص جماعت کا حصہ بننے پر شکر گزار ہوں۔ بہت بہت مبارکباد اور شکریہ۔

آنریبل راجہ کرشن مورتی کا خطاب

•اس کے بعد آنریبل راجہ Krishn Moorthi نے اپنا ایڈریس پیش کیا موصوف نے کہا:
آپ سب پر سلامتی ہو۔ آپ کے ساتھ یہاں شامل ہونا اعزاز کی بات ہے۔ یہ ایک حقیقی اعزاز ہے۔ میں عزت مآب خلیفہ کے متعلق اور ان کی کامیابیوں کے بارے میں گھنٹوں بول سکتا ہوں۔ میں آپ کی یہاں آمد سے بہت متاثر ہوا ہوں اور آج کا دن تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ یہاں آنے سے پہلے میں نے حضور کے ساتھ چند منٹ گزارے تھے اور میں نے انہیں امریکہ میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کے بارے میں بھی بتایا۔ وہ بہترین لوگوں میں سے کچھ ہیں جن سے آپ کبھی ملیں گے۔ وہ عام طور پر جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں ہوتے ہیں، اس لیے میں ان کے بہت قریب ہوں کیونکہ میں ایک ہندوستانی نژاد امریکی ہوں۔ امریکہ میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی جس کا احمدیہ مسلم کمیونٹی ایک لازمی جزو ہے، بہت کامیاب ہے۔ یہ امریکہ میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی نسلی اقلیت ہے۔ یہ سب سے زیادہ خوشحال اور بہترین تعلیم یافتہ ہے۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں میں سے کچھ ایسے لوگوں سے بھی آپ ملیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو ہسپتالوں کے قیام سے لے کر اسکولوں تک، خون کے عطیات کی مہم، ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے سے لیکر قدرتی آفات میں امدادی کارروائیاں کرنے تک اپنے آپ کو خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔ یہ لوگ ان اقدار کا مجسم ہیں جن کی وہ تبلیغ کرتے ہیں۔ آخر میں ایک نظم کا حوالہ دینا چاہوں گا جو مجھے بہت پسند ہے، جو میرے نزدیک احمدیہ مسلم کمیونٹی کا خلاصہ ہے۔ یہ نظم کچھ اس طرح ہے۔

میں نے اپنی روح کو تلاش کیا لیکن اپنی روح کو نہیں دیکھ سکا
میں نے اپنے خدا کو تلاش کیا لیکن خدائی کا صرف اشارہ ہی ملا
میں نے اپنے بھائی کو ڈھونڈا تو مجھے تینوں چیزیں مل گئی

مجھے یقین ہے کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی جو کہ امریکہ اور دنیا کی بہترین برادریوں میں سے ایک ہے، انسانیت کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف کر دیتی ہے۔ اس لیے میں حضور کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں اس لئے بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ تشریف لائے اور ہمیں وقت سے نوازا اور آج رات اس پروگرام میں شرکت کے لیے بھی آپ سب کا شکریہ۔ خدا آپ پر فضل فرمائے۔ شکریہ

ڈاکٹر کیترینہ لینٹوس کو ایڈریس

•بعد ازاں ڈاکٹر Katrina Lantos Swett جو کہ Lantos فاؤنڈیشن فار ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس کی چئیر ہیں نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:
جیسا کہ مجھ سے پہلے مقررین نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ آج شام یہاں ان کی موجودگی ان کے لیے کتنی باعث مسرت و افتخار ہے، اسی طرح میں بھی اس بات کا اظہار کرنا چاہتی ہوں کہ آج شام کی غیر معمولی تقریب میں شمولیت میرے لیے فخر کی بات ہے۔ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ میں جماعت احمدیہ کو اب کئی سالوں سے جانتی ہوں اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی میں احباب جماعت کے ساتھ ملتی ہوں تو میری روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ میں کبھی ایسے کسی دوسرے مذہبی گروہ سے نہیں ملی جو ہوبہو اپنی اس تعلیم کا مجسم ہو جس کا وہ پرچار کرتے ہیں اور جو روزانہ اپنی زندگیوں میں موجود اعلیٰ اصولوں اور نمونوں کی پیروی کرتے ہو ں اور میرا خیال ہے کہ اس کمرے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ میرے اس خیال سے اتفاق کریں گے کہ یہ خاصیت اور ایسی اولوالعزمی خدا ہی عنایت کر سکتا ہے یا پھر حضور جیسی ایک عظیم شخصیت بھی اس کا ذریعہ بن سکتی ہے اور میں اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ آج یہاں آپ سب کے ساتھ موجود ہوں۔

جب میرے دوست امجد صاحب جو کہ جماعت احمدیہ کے لئے خدمت بجا لا رہے ہیں،نے یہاں زائن میں ہونے والے مباہلہ کے بارہے میں بتایا تو میں یہ سن کر حیرت زدہ ہو کر رہ گئی تھی۔ یہ بات ایسی حیران کن ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ موبائل فون، کمپیوٹر اور دیگر ذرائع مواصلات بھی موجود نہیں تھے اس زمانے بھی اس مقابلے کو اتنی تشہیر ملی۔

اس مقابلہ میں الوہیت اور انسانیت اور معاشرتی لحاظ سے دو مختلف نظریات پیش کئے گئے تھے۔ایک نظریہ ڈاکٹر ڈوئی کا تھا۔ جس کی بنیاد نفرت، باہمی تفریق اور تعصب پر رکھی گئی تھی اور دوسرا نظریہ جو کہ بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب کا تھا جو کہ باہمی عزت اور بردباری پر مشتمل تھا اور ایک ایسی شخصیت کی طرف سے تھا جنہوں نے اس کا نتیجہ کلیتاً اللہ کے ہاتھ میں چھوڑ رکھا تھا۔ پھر نتیجتاً ہم جانتے ہیں کہ اس مباہلہ میں کس کی فتح ہوئی۔

اور یقینا یہ مسجد جس کا افتتاح ہونے جا رہا ہے، جس کا نام فتح عظیم مسجد رکھا گیا ہے، اس کا مطلب ہی ایک عظیم الشان فتح ہے جو کہ اس مباہلہ میں جماعت احمدیہ اور بانی جماعت احمدیہ کے حصہ میں آئی۔ لیکن میرے خیال میں ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ وہ نہ صرف جماعت احمدیہ بلکہ انسانیت کی بھی فتح تھی، کیونکہ اس سے باہمی عزت، محبت اور تحمل کی بھی فتح ہوئی۔ جس کا نمونہ ہم اب اس جماعت میں دیکھتے ہیں۔

موصوفہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اس کے لئے بہت برا کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے لیے بھلا کیا۔ بعد میں اس نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا اور صرف اتنا کہا کہ تم لوگوں نے تو برا چاہا تھا لیکن خدا نے بھلا کر دیا۔

اب جب میں یہ خوبصورت مسجد دیکھتی ہوں جو اسی مباہلہ والی جگہ یعنی زائن میں تعمیر کی گئی ہے، تو مجھے وہی یوسف علیہ السلام والا واقعہ یاد آتا ہے کہ جان ڈوئی نے برا چاہا تھا لیکن خدا نے بھلا کر دیا اور عظیم الشان فتح جماعت احمدیہ کے حصہ میں آئی۔

موصوفہ نے کہا ہمیں آج شام ان احمدیوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا جو کہ دنیا کے ایک دوسرے حصے میں پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے مذہب کی وجہ سے روزانہ نا قابل بیان ظلم وستم وتشدد اور منافرت کا سامنا کرتے ہیں۔ جو کہ حکومت وقت کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ حکومت ان کو حفاظت مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے۔ پولیس ان کو تحفظ فراہم نہیں کرتی اور دوسرے مذہبی رہنما اپنے پیروکاروں کو ترغیب دلاتے ہیں کہ وہ ان پر دھاوا بولیں۔

چند دن پہلے جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے دوست نے ایک نئی قسم کے تشدد کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ایک رہنما کے پیروکاروں کو حاملہ احمدی خواتین کے نشانہ بنانے کی ترغیب دلا رہا ہے تاکہ مزید احمدی بچے پیدا ہونے سے روکے جائیں۔ یہ انتہائی خوفناک جرائم ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ لہذا میرے خیال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جماعت جان لے کہ دیگر احمدی احباب کے ساتھ ساتھ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں جو کہ اس کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔

میں اپنے احمدی بھائیوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں کیونکہ ہم یقینا آپس میں بھائی بہن ہی ہیں، ہم سب جو آپ کی جماعت سے عقیدت رکھتے ہیں اور آپ کی اچھائیوں اور تعلیمات سے آشنا ہیں اور پاکستان میں موجود آپ کے بھائیوں کی تکالیف سے آشنا ہیں، ہم آپ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’’جہاں آپ جائیں گے، وہیں ہم جائیں گے اور جہاں آپ رکیں گے وہیں ہم رکیں گے۔ ہم آپ کے ساتھ ہوں گے اور آخر تک آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘‘ ہمیں آپ سے عقیدت ہے اور آج اس عظیم تقریب میں شمولیت ہمارے لئے باعث افتخار ہے اور میں آپ سب کی مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اس کا حصہ بننے کی اجازت دی۔ شکریہ

اس کے بعد مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ یو ایس اے مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب نے ڈائس پر آکر حضور اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خطاب فرمانے کی درخواست کی۔

چھ بج کر 55منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں مہمانوں سے خطاب فرمایا۔ اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم کے ساتھ اپنے خطاب کا آغاز فرمایا اور تمام معزز مہمانان کو السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ کہا۔

•اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
سب سے پہلے تو میں آپ سب کا جو آج ہمارے ساتھ یہاں شامل ہیں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تقریب کوئی دنیاوی تقریب نہیں بلکہ خاص مذہبی تقریب ہے جس کا انعقاد ایک اسلامی جماعت نے کیا ہے۔ اس لئے اس تقریب میں شمولیت آپ لوگوں کی کشادہ دلی، برداشت اور وسعت نظر کی عکاس ہے۔ پس آج یہاں زائن میں ہماری نئی مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہمارے ساتھ شامل ہونے پر میں دل سے آپ سب کا مشکور ہوں۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس شہر میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا قیام کئی دہائیاں پہلے ہوا تھا لیکن ہمارے پاس باقاعدہ کوئی مسجد نہیں تھی جہاں ہم عبادت کرسکتے۔ اس لئے آج کا دن ہماری جماعت کے لئے بڑا اہم اور بہت خوشی کا باعث ہے۔ یقینا تمام مذہبی جماعتوں کے لئے ایک ایسی جگہ کا مہیا ہونا بہت اہم ہے جہاں اس مذہب کے لوگ جمع ہو کر عبادت کر سکیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو وہ ہمارے نزدیک مسجد کے دوہرے فائدے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسجد مسلمانوں کے لئے اکٹھے ہوکر خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے اور ان کے مذہبی فرائض کو ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ جیسا کہ اسلام مسلمانوں کو روزانہ پانچ مرتبہ عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد کے تعمیر کرنے کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ مسجد کے ذریعہ معاشرہ کے دیگر لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ لوگ جو خالص ہوکر مسجد میں عبادت کرتے ہیں، وہ صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات پر غور و فکر کریں اور ان تعلیمات کو عملی طور پر پیش کریں۔ طبعی طور پر مقامی لوگوں کے اندر اسلام کے متعلق جاننے کا شوق اور جستجو پیدا ہوگی۔ اسلام کے بارے میں ان کے علم و فہم میں اضافہ ہوگا اور مسلمانوں کو اپنے اندر پرامن طور پر رہتے ہوئے اور معاشرہ کا مثبت حصہ بنتے دیکھ کر ان کے دلوں میں جو خوف یا تحفظات ہیں وہ بھی دور ہو جائیں گے۔ ان شاء اللّٰہ

پس یہ دو مقاصد ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے جماعت احمدیہ دنیا بھر میں مساجد تعمیر کرتی ہے۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آپ میں سے بعض یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ احمدی مسلمانوں اور دیگر مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حوالہ سے ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ یہ مقدر تھا کہ کئی صدیاں گزر جانے کے بعد مسلمان اسلامی تعلیمات سے دور ہٹ جائیں گے اور آخرکار مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دے گی اور صرف نام کے ہی مسلمان رہ جائیں گے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی خوشخبری دی کہ اس روحانی زوال کے دور میں اللہ تعالیٰ اسلام کی اصل تعلیمات کو از سر نو زندہ کرنے کے لئے ایک موعود مصلح کو بھیجے گا جس کو مسیح محمدی کا خطاب دیا جائے گا۔ وہ مسیح دنیا کو بتائے گا کہ اسلامی تعلیمات تو امن، محبت اور ہم آہنگی کی تعلیمات ہیں۔ وہ مسیح لوگوں کو تلقین کرے گا کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پُر امن طور پر زندگی گزاریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی اختلافات سے بالا ہو کر باہمی پیار اور محبت کے تعلقات قائم کریں۔ چنانچہ احمدی مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا پختہ یقین ہے کہ اس جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی موعود مسیح اور مہدی ہیں جن کے متعلق قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے ساری زندگی اپنے پیروکاروں کو پیار، ہمدردی اور احسان پر مشتمل اسلامی تعلیم پر عمل پیرا رہتے ہوئے تبلیغ اسلام کرنے کا پیغام پہنچانے اور لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کی تلقین فرمائی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان کیا کہ وہ مسیح موسویؑ کی طرح اس کی تعلیمات پھیلائیں گے۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنی نوع انسان سے ہمدردی اور پیار کا اظہار فرمایا۔ آپ علیہ السلام کا ہر لفظ اور عمل قیام امن اور معاشرہ میں باہمی اخوت قائم کرنے کے لئے تھا۔ آپ علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم دی کہ اسلام کا اصل مطلب ہی امن اور سلامتی ہے۔ آپ علیہ السلام کے ظہور کے بعد اسلام اپنی اصلی روحانی حالت کی طرف لوٹ آئے گا اور ایک دن دنیا اسلام کو ایک پیار، محبت، بردباری ہم آہنگی اور امن کے مذہب کے طور پر جانے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح کیا کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق اسلام کے آغاز میں جو جنگیں لڑی گئیں وہ محض دفاعی تھیں اور سخت ترین مظالم کو روکنے کے لیے لڑی گئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار خلفائے راشدین کے دور میں ایک مرتبہ بھی ایسا نہ ہوا کہ اسلامی فوجوں نے از خود جنگ شروع کی ہویا کسی قسم کا ظلم یا نہ انصافی کی ہو۔ بلکہ جس بھی جنگ یا لڑائی میں مسلمان شامل ہوئے اس کا مقصد ظلم و بربریت کا خاتمہ تھا۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج کل دور جدید میں جہاں جغرافیائی تنازعات دن بدن دنیا میں تباہی و بربادی لے کر آ رہے ہیں وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر قسم کی مذہبی جنگ بند ہے۔ اس لیے مسلمانوں یا کسی بھی مذہب کے لوگوں کے لیے مذہب کے نام پر جنگ کرنا کسی طور پر بھی جائز نہ تھا۔ چنانچہ یہ واضح ہو کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کا مقصد علاقوں، ملکوں یا شہروں پر قبضہ کرنا یا اقوام کو مسمار کرنا نہیں ہے۔ نہ ہی ان ممالک میں جہاں ہمارے پیغام کو بڑی تعداد نے قبول کیا کبھی کسی نے سیاسی طاقت یا دنیاوی اثر و رسوخ حاصل کرنے خواہش کی۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہمارا ہر مقصد اور تمنا یہی ہے کہ پیار کے ذریعہ بنی نوع انسان کے دلوں کو جیتا جائے اور ان کو خدا تعالیٰ کے قریب کیا جائے تاکہ وہ اس کے حقیقی بندے بن سکیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بہت ہی خوبصورت شعر میں فرمایا کہ انہیں کسی دنیاوی رتبہ یا سیاسی طاقت کی خواہش نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار

دنیاوی و سیاسی طاقتوں سے مکمل بے رغبتی ہی جماعت احمدیہ مسلمہ کا شروع سے طرہ امتیاز رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ہم تو صرف اسلام کی محبت اور امن کی تعلیمات پھیلانا چاہتے ہیں جو کہ ہم گزشتہ 130 سے زائد برس سے کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال دنیا بھر سے ہزارہا لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارا کسی مذہب یا قوم یا شخص سے کوئی بغض و عناد یا لڑائی نہیں ہے۔ بلکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں اور اس کے مذہب کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی ہمارا ردعمل یہ نہیں ہوتا کہ ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے جائیں یا ان پر کسی قسم کا جبر کیا جائے۔ بلکہ اس کے برعکس ہمارا رد عمل صرف یہی ہوگا کہ ہم کامل عاجزی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھکیں گے۔ ہمارا واحد ہتھیار تو دعا ہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے۔ یقینا ہماری جماعت کی یک سو تینتیس سالہ تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جہاں تک آزادی مذہب اور آزادی ضمیر کا تعلق ہے تو ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ مذہب اور عقیدہ ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے اور ہر ایک کو اپنا راستہ اختیار کرنے کا حق ہے۔ ہمارا یہ کوئی نیا مؤقف نہیں ہے جسے ہم نے ابھی اپنایا ہو بلکہ ہمارے اس مؤقف کی بنیاد قرآن کریم کی اصل تعلیمات ہیں۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آپ کو معلوم ہوگا کہ حال ہی میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم وفات پا گئی ہے اور اس کا بیٹا چارلس سوم بادشاہ بنا ہے۔ یو کے میں بادشاہ کے آفیشل القابات میں ایک Defender of the Faith بھی ہے۔ بہت سے مواقع پر کنگ چارلس نے تمام مذاہب کی تکریم کا اظہار کیا ہے۔ اس نے یہ خواہش بھی کی کہ Defender of Faith کی بجائے اس کی پہچان بطور Defender of all faiths ہو۔ بلاشبہ یہ قابل تعریف بیان ہے اور کنگ چارلس کی کشادہ دل طبیعت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم تخت سنبھالنے پر بعض مبصرین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ٹائٹل میں ایسی تبدیلی کو عالمی طور پرعیسائی کمیونٹی میں سراہا نہیں جائے گایا بعض غیر عیسائی بھی اسے ناپسند کریں۔ اس حوالہ سے ایک سرخی اس طرح آئی کہ ’’بادشاہ کی تمام مذاہب کے تحفظ کی خواہش شاید خام خیالی ہی ثابت ہو۔‘‘

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
جہاں بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ مذہبی ہم آہنگی کو تقویت دینے کیلئے یہ کوششیں رائیگاں جائیں گی، میری نظر میں تمام مذاہب کا تحفظ اور حقیقی مذہبی آزادی کا قیام دراصل دنیا میں امن قائم کرنے کی بنیاد ہے۔ اس حوالہ سے میں امریکی حکومت کے اس اقدام کو سراہتا ہوں کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے تحت آفس آف انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم قائم کیا گیا ہے۔ جو کہ اب عالمی سطح پر مذہبی آزادی کو فروغ دینے کے لیے ہر سال انٹرنیشنل کانفرنس کا اہتمام کرتا ہے۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
دنیا میں امن قائم کرنے کے ضمن میں قرآن کریم کی سورۃ الحج کی آیت 40 اور 41 میں عالمی مذہبی آزادی قائم کرنے کا عظیم الشان اور بنیادی اصول بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’قتال کی اجازت صرف ان لوگوں کو دی جاتی ہےجن کے خلاف جنگ کی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قوت رکھتا ہے۔ وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالاگیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔‘‘

پھر فرماتا ہے: ’’اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقیناً اللہ ضرور اُس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ان دونوں آیات کریمہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کودفاعی جنگ کی اجازت دی ہے وہاں یہ بھی واضح طور پر معین کر دیا کہ یہ اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ ظلم کرنے والے نے دنیا سے مذہبی آزادی ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنگ کی اجازت صرف مسلمانوں اور ان کی مسجد کی حفاظت کے لیے یا دین کو پھیلانے کے لیے نہیں دی گئی بلکہ قرآن کریم معین طور پر فرماتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والوں کو طاقت سے روکا نہ جاتا تو کوئی گرجا، راہب خانہ، مندر، مسجد اور کوئی معبد محفوظ نہ رہتا۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
چنانچہ قرآن کریم ہی وہ واحد الہی کلام ہے جو نہ صرف تمام مذاہب و عقائد کی پیروکاروں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر تمام مسلمانوں کو اور تمام ایسے افراد جو کہ مسجد آتے ہیں ان کو غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ یہ وہ الہی کلام ہے جو کہ تمام مذاہب، ادیان اور عقائد کی حفاظت اور دفاع کرتا ہے۔ یہ وہ خالص اور ہر ایک کے حقوق سمونے والی اسلامی تعلیمات ہیں جو ہم تمام دنیا تک پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جہاں تک اس مسجد کا تعلق ہے تو آپ سوچتے ہوں گے کہ ہم نے زائن میں مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یقیناً اس کا بنیادی مقصد تو وہی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں۔ دوسرا یہ کہ جو لوگ شہر کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں ان کو علم ہوگا کہ زائن شہر کی بنیاد ایک Evangelist عیسائی مسٹر الیگزینڈر ڈوئی نے رکھی، جس نے خدا کی طرف سے مامور ہونے کا دعوی کیا تھا۔ مسٹر ڈوئی اسلام کی سخت مخالفت اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کرتا تھا۔ یہ مخالفت بانیٔ جماعت احمدیہ کے علم میں آئی اور آپ علیہ السلام نے اس کو براہ راست جواب دیا۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آپ میں سے بعض یہ سوال اٹھائیں گے کہ بانی جماعت نے مسٹرڈ وی کو مخاطب کرتے ہوئے سخت لہجہ کیوں اپنایا اور یہ کس طرح آپ کی پیار و محبت کی تعلیم سے مطابقت رکھتا ہے؟

دراصل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پرامن تعلیمات اور ڈوئی کو جواب دینے میں باہمی کوئی تضاد نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی ایک موقع پر بھی فساد اور انتہاپسند ردعمل کی ہدایت نہیں کی۔ درحقیقت جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسٹرڈ وئی کی اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی کا علم ہوا تو آپ علیہ السلام نے باہمی احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اسے دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور مسلمانوں کے جذبات کا خیال کرے۔ اس کے برخلاف مسٹرڈ وئی اسلام کے مقابل کھڑا ہوگیا اور کھل کر اسلام کے نابود کرنے کی خواہش کی۔ مثلا لکھتا ہے کہ ’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آئے اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے۔ اے خدا !تو ایسا ہی کر۔ اے خدا !اسلام کو ہلاک کردے۔‘‘

پھر اپنی تحریرات میں مسٹر ڈوئی نے بڑے فخریہ انداز میں اس کو عیسائیت اور اسلام کے مابین عظیم جنگ قرار دیا۔ اس نے لکھا کہ اگر مسلمان عیسائیت قبول نہ کریں تو وہ ہلاکت و تباہی میں مبتلا ہوں گے۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ان انتہائی بیانات اور ہرزہ سرائی کے جواب میں بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں معصوم افراد اس تکلیف سے بچ جائیں جس میں وہ مسٹرڈوئی کی عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی جنگوں کی خواہش پوری ہونے کے نتیجہ میں پڑسکتے تھے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے مسٹر ڈوئی کو مباہلہ کا چیلنج دیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ مسلمانوں کی ہلاکت و تباہی کی دعا کرنے کی بجائے مسٹرڈ وئی یہ دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ دوسرے کی زندگی میں مرجائے۔ یہ دراصل ایک ہمدردانہ فعل اور حالات کو بہتر کرنے کا ذریعہ تھا۔بجائے اس کے کہ تمام مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا جائے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا کہ آپ اور مسٹرڈ وئی دعا کا سہارا لیں اور معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں چھوڑ دیں۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ سچائی جاننے کا ایک مناسب اور پرامن ذریعہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ عداوت اور اشتعال انگیزی کے مقابلہ پر صبر کا کامل نمونہ تھا تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ اس چیلنج کے بعد مسٹر ڈوئی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف انتہائی نازیبا طریق اختیار کیا۔ چنانچہ رپورٹ ہوا ہے کہ مسٹر ڈوئی نے کہا کہ ’’ہندوستان میں ایک محمّدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے۔ ۔۔۔تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا۔‘‘

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اپنا چیلنج دہرایا اور امریکہ اور دیگر علاقوں میں اس کی خوب تشہیر ہوئی۔ صحافی حضرات مسٹرڈ وئی کی طاقت اور اعلی مقام کو بیان کرتے اور اس کا موازنہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اس طرح کرتے کہ انڈیا کے ایک دور افتادہ گاؤں سے تعلق رکھنے والا شخص جس کی دولت اور دنیاوی رسوخ کا مسٹرڈ وئی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔

پھر جسمانی طور پر بھی مسٹر ڈوئی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عمر میں چھوٹا اور صحت میں بہتر تھا۔ اس تمام ظاہری فرق کے باوجود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ نے کبھی بھی اپنا چیلنج واپس لینے کا نہیں سوچا اور اس حوالہ سے ذرا بھی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا اور تمام دنیا وی بے سروسامانی کے باوجود جلد ہی نتائج آپ علیہ السلام کے حق میں پلٹ گئے۔ پے در پے ایسے واقعات ہوئے کہ ڈوئی کی حمایت جاتی رہی اور اس کی دولت، جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں ختم ہوگئیں۔ بالآخر وہ اپنے انجام کو پہنچا۔ جس کو یو ایس میڈیا نے افسوسناک انجام قرار دیا۔ یقینا اس وقت کا یو ایس میڈیا خراج تحسین کے لائق ہے جس نے ایمانداری سے اس کی رپورٹنگ کی۔ مثلاً ایک مشہور Boston Herald اخبار نے یہ سرخی دی کہ

‘‘Great is Mirza Ghulam Ahmad – the Messiah’’

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
مختصر یہ کہ بانی جماعت احمدیہ نے کبھی بھی اپنے خیالات اور اقتدار کو کسی پر نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی مسٹرڈ وئی یا کسی بھی مخالف اسلام کی نفرت کو طاقت کے ساتھ یا زبردستی روکنے کا سوچا۔ احمدی مسلمانوں کے لیے بانی جماعت کی صداقت کا ایک نشان ہے، اس تناظر میں زائن کا شہر ہماری تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ وقت کی کمی کے باعث مزید تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ تاہم مسجد میں اس مباہلہ کے حوالہ سے خصوصی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے، اگر آپ اس حوالے سے مزید جاننا چاہتے ہیں تو آپ جانے سے قبل اس نمائش سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ یا ممکن ہے کہ آپ پہلے ہی نمائش دیکھ چکے ہوں۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود و مہدی معہود کے پیروکار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم مسجد فتح عظیم کا حقیقی مذہبی آزادی کے نشان کے طور پر افتتاح کر رہے ہیں۔ اس کے دروازے اس سنہرے پیغام کے ساتھ کھولے جا رہے ہیں کہ تمام افراد اور کمیونٹیز کے مذہبی حقوق اور پرامن عقائد کا ہمیشہ خیال رکھا جائے گا اور ان کا تحفظ کیا جائے گا۔ یہ جماعت احمدیہ مسلمہ کا اولین مقصد ہے کہ بنی نوع انسان کو روحانی نجات کی راہ پر چلایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام افراد رنگ و نسل کی تفریق سے قطع نظر میں پیار اور ہم آہنگی اور حقیقی امن اور تحفظ سے رہی۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
میری دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں یہ مسجد ان شاء اللہ امن، تحمل اور تمام بنی نوع انسان سے محبت کا منبع ہوگی۔ میری دعا ہے کہ یہاں عبادت کرنے والے تمام تر عاجزی کے ساتھ اپنے خالق کو پہچانیں، اسی کے آگے جھکیں اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا کریں۔ ہمارا یقین ہےکہ ہم اسی صورت کامیاب و کامران ہو سکتے ہیں کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے۔ ان الفاظ کے ساتھ میں آپ سب کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ آج شام اس پروگرام میں شامل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنا فضل فرمائے۔ آمین

•آخر پر حضور انور نے مئیر کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے شہر کی چابی پیش کی۔ نیز فرمایا مجھے یقین ہے کہ اب یہ چابی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

•حضور انور کا یہ خطاب سات بج کر 23 منٹ تک جاری رہا آخر پر حضور نے دعا کروائی۔

حضور انور کےخطاب کے اختتام پر مہمانوں نے دیر تک تالیاں بجائیں۔

•بعد ازاں ڈنر کا پروگرام ہوا۔ کھانے کے بعد بھی بعض مہمانوں کے ساتھ حضور انور نے گفتگو فرمائی۔

•بعد ازاں حضور انور خواتین کی مارکی میں تشریف لے گئے جہاں خواتین موجود تھیں۔

آٹھ بج کر تیس منٹ پر حضور نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائی۔ بعد ازاں حضور اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔

مہمانوں کے تاثرات

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے آج کے خطبات نے مہمانوں پر گہرا اثر چھوڑا اور بہت سے مہمانوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔

•Illinois کے کانگریس مین راجہ کرشنامورتی صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’کیا ہی خوبصورت دن ہے اور کیا ہی خوبصورت پروگرام ہے۔ حضور نے اپنی آمد سے ہمیں شرف بخشا۔ مسجد فتح عظیم لوگوں کے جمع ہونے کے لئے، عبادت کرنے کے لئے باہمی تعلقات بڑھانے کے لئے اور اسلام کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے بہت ہی عمدہ جگہ ہوگی۔

•ایک اور مہمان Cheri Neal صاحب جو کہ زائن ٹاؤن شپ کی سپروائزر ہیں بیان کرتی ہیں کہ میں تمام انتظامات سے بہت حیران ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں جس کے لئے ایک عرصہ محنت کی ہے۔ میں یہاں آ کر بہت خوش ہوں۔

•John Eidelberg لیک کاؤنٹی کے شیرف بیان کرتے ہیں کہ یہاں آکر حضور کو دیکھنا، ان سے ملنا، ان سے بات کرنا اور مختلف رہنماؤں کو سننا میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔ یہاں آنا میرے لیے باعث فخر ہے۔ میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی جماعت کے ساتھ خوبصورت لمحات گزارنے کا موقع دیا۔ حضور نے باہمی تعلقات اور آپس میں کام کرنے کے بارے میں بات کی میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کی تقریر سننا میرے لئے قابل فخر تھا۔ آپ کی تقریر خیالات کو روشن کرنے والی تھی۔

•ایک اور مہمان Craig Constantine صاحب جو کہ رائس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں بیان کرتے ہیں کہ آپ کا پیغام ’’محبت سب کے لیے اور نفرت کسی سے نہیں‘‘ باہمی احترام، تحمل، عزت نفس کا خیال رکھنا،یہ سب بنیادی چیزیں ہیں اور ہمارے دل سے آتی ہیں اور اس سے دل و دماغ کی روحانی بیداری ہوتی ہے۔

•زائن کے سابقہ کمشنر Amos Monk صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ کی تعلیمات ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور دنیا کو اس سے زیادہ آگاہی ہونی چاہئے۔ میرے خیال میں یہ آج کل کی دنیا کا خوبصورت ترین راز ہے۔ میں اپنے سامنے میز پر پڑے ہوئے بروشر دیکھ سکتا ہوں جس پر عدل و انصاف، خلوص اور محبت کا پیغام ہے۔ یہی تو وہ چیزیں ہیں جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔ نفرت ختم کردیں تو دنیا جنت نظیر ہو جائے گی۔ میرے خیال میں یہ پیغام تمام دنیا کو سننا چاہئے۔ دنیا کے مسائل کا یہی حل ہے۔

•زاین شہر کے میئر Billy Mckinney صاحب جنہوں نے حضور انور کی خدمت میں شہر کی چابی پیش کی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں یہاں 1962ء سے مقیم ہوں۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ پروگرام شہر اور جماعت احمدیہ کے لیے ایک تاریخی پروگرام ہے۔ حضور سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی سے مل کر مجھے چپ لگ گئی ہو۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کہوں۔آپ کی موجودگی کا احساس بہت عمدہ ہے۔ جماعت احمدیہ نے اس کمیونٹی میں بہت خدمات سر انجام دی ہیں۔ آئندہ بھی ہم امید کرتے ہیں۔ باہمی تعلقات کو بڑھاتے ہوئے مل کر کام کرتے رہیں گے۔ شہر کے عین وسط میں مسجد کا ہونا بھی ایک عمدہ احساس ہے۔

•Rabi Melinda Solma صاحب جو کہ نیویارک کے Tanenbaum Center of Inter-Religious Understanding سے تعلق رکھتے ہیں بیان کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ سے ہمیشہ کی طرح بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کے خلیفہ کا پیغام بہت عمدہ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہے۔ اس کا عملی نمونہ دکھانا، سب کے لئے دروازے کھلے رکھنا، امن کے قیام کے لیےکام کرنا، ہر ایک کا بطور انسان احترام کرنا یہ بہت ہی اعلی تعلیم ہے۔

•ایک لوکل آرکیٹیکٹKelvin Cox صاحب جنہوں نے مسجد کا نقشہ، ڈیزائن اور تعمیر میں کام کیا ہے کہتے ہیں یہ بہت ہی عمدہ عمارت ہے اور یہاں پر حضور کی موجودگی، یہ احساس میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ حضور نے جو خدا تعالیٰ کا پیغام دیا کہ دنیا اور سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں، صرف عمل اور پیار کا پیغام پہنچانا ہے،یہ بہت عمدہ پیغام تھا اور یہی ہے جس کی دنیا کو آج ضرورت ہے۔

•اس پروگرام میں ایک مہمان ایسے بھی شامل تھے جنہوں نے زائن مسجد کی سنگ بنیاد کے موقع پر ایک اینٹ رکھنے کی سعادت پائی تھی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک خوبصورت دن تھا۔ میں صبح بیدار ہوا جیسے کہ آج کا دن بہت خاص ہے۔ مجھے پچھلے سال اس مسجد کی سنگ بنیاد رکھنے کی توفیق ملی۔ میں بہت خوش تھا کہ کب اسے مکمل ہوتا دیکھوں گا اور حضور سے مل سکوں گا۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ حضور یہاں تشریف لائے۔ آپ کی مسجد ہماری کمیونٹی کے لیے امید اور دوستی کا ذریعہ ہے۔

•زائن کی پولیس کے چیف Eric Brichbarden صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ ایک بہت اچھا پروگرام تھا۔ سب لوگوں کی طرف سے محبت اور خلوص دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ یہ پیغام کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہو، اہمیت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہو،کیا ہی عمدہ اور خوبصورت پیغام ہے۔ بہت ہی اچھا پروگرام رہا۔

•ایک مہمان Jennifer Smith صاحب بیان کرتے ہیں کہ اگر آپ کی جماعت کے اصولوں کی بات کی جائے تو وہ سب سے اعلی ہیں۔ آپ زائن شہر میں قدم رکھتے ہیں تو پرانی عمارت پرایک موٹو ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا پیغام دکھائی دیتا ہے اور اس کی گونج آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ آواز آپ کے ساتھ رہتی ہے اور یہی زائن شہر کی اصل روح ہے۔

•ایک مہمان نے بیان کیا کہ یہ جان کر بہت اچھا لگا کہ ہمارے درمیان آپ جیسے رہنما موجود ہیں جو کہ لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور لوگوں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ اس موضوع پر بات کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں اور ہر مذہب کی اہمیت ہے۔ یہ پیغام بہت اچھا اور پر اثر تھا۔

•ایک لوکل ہائی اسکول کے پرنسپل Zach Livingston صاحب بیان کرتے ہیں کہ زائن ایک چھوٹی کمیونٹی ہے اور ایسے پروگرام اور لوگوں کو قریب لانے کے ایسے مواقع بہت اچھے ہوتے ہیں۔ مسجد کا افتتاح بہت اچھا قدم ہے اور ہمارے لئے فخر کا باعث ہے۔

•رائس یونیورسٹی کے پروفیسر Craig Considine صاحب نے مباہلہ کے بارے میں حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے ۔کہتے ہیں کہ مجھے حضور کی موجودگی میں سکون اور اطمینان حاصل ہوا اور یہ کہ حضور کا پیغام سب کو سننا چاہئے۔

•شکاگو سے مہمانوں کے ایک گروہ نے تقریب کے ناقابل یقین انتظام اور خدمت گزاروں کے آداب کو محسوس کیا انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ جب بھی وہ ہماری کسی تقریب میں شامل ہوئے محبت اور امن کا پیغام ہر چیز کی بنیاد رہا۔ انہوں نے حضور کے ساتھ تصویر بھی لی اور کہا کہ یہ ان کی زندگی کا اہم ترین موقع تھا۔

مہمانوں نے مجموعی طور پر انتظامیہ کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا۔ بار بار لوگوں کو چیک کرنا، حفاظتی امور کی تلقین کرنا، کسی نے بھی اپنا آئی ڈی کارڈ دکھانے یا کووڈ کارڈ دکھانے سے انکار نہیں کیا اور نہ ہی جب انہیں ٹیسٹ کروانے کا کہا گیا تو انہوں نے انکار کیا۔

•ایک مہمان خاتون Lesley صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ اول تو یہاں پر میرا ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔ میں نے جو کچھ یہاں سے سیکھا اور یہاں کی خوبصورتی اور امن سے بہت متاثر ہوں۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن سے بیان کر سکوں کہ آج کا دن میرے لیے کتنا با معنی تھا۔

•ایک مہمان Rabbi Melinda Zelma صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اس تقریب سے بہت متاثر ہوں. خاص طور پر یہاں کام کرنے والوں سے. رابی مالینڈا نے حضور کے ساتھ ملاقات، حضور سے سوال و جواب اور جلسہ سالانہ میں شرکت کی خواہش پر شکر گزاری کا اظہار کیا۔

•ایک خاتون مہمان Gloria صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ زائن کی تاریخ بہت معلوماتی تھی۔ اگرچہ میں یہاں رہتی ہوں لیکن اس جگہ کے بارے میں کافی چیزیں ایسی تھی جو میں نہیں جانتی تھی۔

•ایک مہمان نے کہا کہ میں نے اس تقریب سے بھرپور لطف اٹھایا اور اس پیغام نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں آپ کے ماٹو ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ جانتا تھا لیکن آپ کو دیکھ کر اس پر مزید یقین بڑھا۔سب کچھ بہت بہترین تھا۔ کاش سب لوگ اس محبت کے پیغام کو سمجھ سکتے جو آپ لوگ پھیلا رہے ہیں۔ مجھے بہت ساری چیزوں نے متاثر کیا۔ جب حضور نے فرمایا کہ قرآن مجید ہی ایک وہ کتاب ہے جو تمام مذاہب کی حفاظت کرتی ہے۔ میں نے یہ نئی بات سیکھی ہے کیونکہ مجھے پہلے اس بات کا علم نہیں تھا۔

• ایک مہمان نے بیان کیا کہ آپ کی جماعت اور مسجد کی عمارت نے مجھے بہت متاثر کیا، وہ خوبصورت ہے۔ ہم اس دعوت نامہ کے بہت شکر گزار ہیں۔

•ایک مہمان نے کہا کہ اس مسجد کو بنتا دیکھ کر ہم بہت پرجوش ہیں ہمیں اس علاقہ میں رہتے ہوئے چالیس سال ہو گئے ہیں۔

(یہ رپورٹ مکرم عبد الماجد طاہر نے ڈیلس امریکہ سے مؤرخہ 6 اکتوبر 2022ء کو بھجوائی اور مسز عائشہ چوہدری آف جرمنی نے کمپوز کر کے قارئین کے لئے بطور مائدہ پیش کی۔ فجزاہم اللّٰہ تعالیٰ)

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اکتوبر 2022