چلو آؤ نظارا پھر کریں اک بار جلسے کا
سمیٹیں برکتیں اِس کی، کریں دیدار جلسے کا
زہے قسمت پلٹ آیا وصالِ یار کا موسم
طبیعت کو قرار آئے، سجے دربار جلسے کا
ہر اک دل کی یہ خواہش ہے ہمیں قربت ملے اُس کی
حقیقت میں تو مرکز ہے ہمارا یار جلسے کا
بدلتے ہم نے دیکھے ہیں کئی انداز جلسے کے
مگر اخلاص و الفت میں وہی معیار جلسے کا
محبت ہی محبت ہے، نہیں نفرت کسی سے بھی
اِسی پر منحصر اپنا یہ کاروبار جلسے کا
اِسی کے دم سے ہم سب نے ہمیشہ تازگی پائی
ہماری زندگی میں ہے بڑا کردار جلسے کا
وہی دستِ دعا میں ہر گھڑی موجود رہتا ہے
کیا تھا جس نے خود آغاز اور پرچار جلسے کا
ترستے ہیں ترے بندے جہاں جلسے کی رونق کو
خدایا راستہ کر دے وہاں ہموار جلسے کا
(نجیب احمد فہیم)