• 20 اپریل, 2024

آنحضرت ﷺ کی مقدس سیرت کی پاکیزہ جھلکیاں

آج بظاہر دنیا ایک گلوبل ویلج بن رہی ہے۔ فاصلے مٹ رہے ہیں۔ مسافتیں سمٹ رہی ہیں اور کائنات ایک گھر بن رہی ہے۔ مگر اس قربت کے باوجود دوری میں اضافہ ہورہا ہے۔ گھر ٹوٹ رہے ہیں اور معاشرہ بکھر رہا ہے اور ہر شخص محسوس کر رہا ہے کہ میں تنگ و تاریک کنویں میں گرتا جارہا ہوں۔

ان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کیسے مٹایا جاسکتا ہے؟ بے ادبی کی فضا کو ادب کے عطر سے کیسے معطر کیا جاسکتا ہے؟ نفرت کے صحراؤں میں گل و گلزار کیسے کھلائے جاسکتے ہیں؟ ظلم و جور کی بنجر زمین میں امن و امان کے پھول کیسے اگائے جاسکتے ہیں؟

آیئے میں آپ کو کائنات کے گل سر سبز فخر کائنات سرور دو عالم وجہ تخلیق کائنات ﷺ کی حیات طیبہ سے چند جھلکیاں دکھاؤں جن کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کے نتیجہ میں عرب کے ریگزار گلزار بنے۔ وحشت و بربریت تمدن و تہذیب کے سانچے میں ڈھل گئی۔ گنوار اور ان پڑھ دنیا کے استاد بن گئے اور ایک دوسرے کو خون میں نہلانے والے، خون کے تقدس کے محافظ بن گئے۔ نفرت سے شعلہ بار آنکھیں الفت و ایثار کی وہ شمعیں بنیں جن کی روشنی میں ظلمت کدوں میں بھٹکنے والے نشان منزل پاگئے۔

یزید بن بانبوس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ایک دن میں نے حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق سے متعلق استفسار کیا تو آپؓ نے فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق قرآن تھے۔ پھر مجھے فرمایا کہ اگر تمہیں سورۃ المومنون یاد ہے تو سناؤ۔ میں نے اس کی پہلی دس آیات کی تلاوت کی۔ ان آیات میں یہ ذکر ہے کہ:

یقینا ًمومن کامیاب ہوگئے وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں مگر اپنی بیویوں سے نہیں یا ان سے (بھی نہیں) جن کے ان کے داہنے ہاتھ مالک ہوئے پس یقیناً وہ ملامت نہیں کئے جائیں گے۔ پس جو اس سے ہٹ کر کچھ چاہے تو یہی لوگ ہیں جو حد سے تجاوز کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی نگرانی کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں پر محافظ بنے رہتے ہیں۔

حضرت عائشہ ؓ نے ان آیات کی تلاوت سن کر فرمایا یہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق فاضلہ تھے۔

(مستدرک حاکم۔ تفسیر سورۃ مومنون)

اسی مجمع الانوار خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کی شخصیت آپؐ کے مقام آپؐ کے رہن سہن، آپؐ کے قول و فعل آپؐ کے اعمال و اذکار آپؐ کی روزمرہ مصروفیات آپؐ کی عبادات، آپؐ کی دعوت الی اللہ آپؐ کے مطہر و پاکیزہ اخلاق آپؐ کا صدق، آپؐ کی استقامت، آپؐ کی علو ہمتی اور آپؐ کی بخشش و عنایات اور رحمت و رأفت کے جگہ جگہ تذکرے ملتے ہیں اور تمام کتب احادیث اور کتب سیر اخلاق فاضلہ کی ان تفاصیل سے بھری پڑی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا نوروں نہلایا ہوا پُرکشش چہرہ لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیوں کو منبع رشدوہدایت بنا گیا۔ وہ آفتاب و ماہتاب نکھرتا ہوا اور کھلتا ہوا سفید رنگ جس پر شرافت و پاکیزگی کا ہالہ تھا جس پر ہمیشہ دلآویز مسکراہٹ کھیلتی رہتی، کتنی ہی ڈوبتی کشتیوں کا کھیون ہار بن گیا۔

آپؐ کے دن کا آغاز نماز تہجد سے ہوتا۔ اس کی خوبصورتی اور دلآویزی کو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں بھی بیان نہیں کرسکتی۔ کس طرح اپنے مولیٰ کے حضور گڑگڑاتے۔ اصلاح امت کے لئے دعائیں کرتے۔ بگڑی انسانیت کو سنوارنے کے لئے عرش الٰہی کو ہلاتے۔ کفر کے اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کے شہر میں لانے کے لئے التجائیں کرتے۔ کھڑے کھڑے پاؤں متورم ہو جاتے۔ نماز فجر کے بعد صحابہؓ کے ساتھ تشریف فرما ہوتے۔ ان کا حال احوال دریافت فرماتے۔ ان میں اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تو اس کے بارہ میں معلوم فرماتے۔ اگر کوئی صحابیؓ سفر پر گئے ہوتے تو اس کے لئے دعا کرتے۔ بیمار ہوتا تو عیادت کرتے۔

(کنزالعمال جلد7 ص153 باب الجلوس والمجالس)

دنیا میں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ بادشاہ اور گورنر اور دوسرے بڑے بڑے لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو پسند نہیں کرتے۔ بلکہ خود ہاتھ سے کام کرنا عار سمجھتے ہیں اور اپنے کام دوسروں سے کروا کر خوش ہوتے اور اتراتے ہیں مگر ہمارے پیارے آقا ﷺ نمازیں ہوں یا جمعہ یا عید خود پڑھاتے۔ باہر سے آنے والے وفود سے ملتے۔ تبلیغ کرتے۔ مریضوں کی عیادت کرتے، جنازوں میں شرکت کرتے۔ غلاموں تک کی دعوت قبول فرمالیتے۔ آپؐ پسند نہیں فرماتے تھے کہ لوگ آپؐ کو دیکھ کر کھڑے ہوں۔

حضرت امام حسیؓن فرماتے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے رسول اللہ ﷺ کے گھر کے اندرونی حالات کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جب حضور ؐاپنے گھر تشریف لاتے تو گھر کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے۔ ایک حصہ اللہ جلشانہ کے لئے وقف فرماتے۔ ایک حصہ اہل خانہ کے لئے اور ایک حصہ خود اپنے لئے۔ پھر اپنے حصہ کو بھی اپنے اور لوگوں کے درمیان بانٹ لیتے اور اس میں خاص صحابہؓ کے ذریعہ عام لوگوں تک (دین کی باتیں) پہنچاتے اور ان سے کوئی بات بچا کر نہ رکھتے اور آپؐ کی سیرت میں امت کے حصہ کی تقسیم کا طریق کار یہ تھا کہ ملاقات کے لئے اجازت دینے میں امت کے اہل فضل لوگوں کو ترجیح دیتے اور دین میں فضیلت کے لحاظ سے ان کی تقسیم ہوتی تھی۔ ان میں سے بعض کو ایک حاجت ہوتی بعض کو دو اور بعض کو کئی حاجتیں ہوتیں۔ آپؐ ان کی حاجت روائی میں ان کے ساتھ مصروف رہتے اور ان کے سوالات پر انہیں ایسے کاموں میں مصروف کرتے جو ان کی اور امت کی اصلاح کریں اور ایسی باتوں سے آگاہ کرتے جو ان کے لئے مفید ہوتیں اور فرماتے تم میں سے جو حاضر ہیں وہ غیر حاضروں تک یہ باتیں پہنچائیں اور مجھ تک اس شخص کی حاجت پہنچاؤ جو اپنی حاجت پہنچا نہیں سکتا۔ کیونکہ جو کسی ایسے شخص کی حاجت حاکم تک پہنچائے جسے وہ خود پہنچانے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ثبات قدم بخشے گا … لوگ آپؐ کے پاس طالب بن کر آتے اور بغیر کچھ لئے واپس نہ جاتے اور خیر کی طرف ہدایت بن کر نکلتے … بامقصد کلام فرماتے۔ اپنے صحابہؓ کی تالیف قلب فرماتے۔ انہیں متنفر نہ کرتے۔ ہر قوم کے معزز افراد کی عزت کرتے … صحابہ ؓکے حالات دریافت فرماتے رہتے۔ اچھی بات کی تعریف کرتے اور اسے تقویت دیتے اور بری بات کی برائی بیان کرتے اور اس کا زور توڑتے۔ آپؐ ہر امر میں میانہ رو تھے۔ تضاد سے پاک تھے۔ آپ ؐکے نزدیک سب سے افضل وہ ہوتا جو ہمدردی اور معاونت میں دوسروں سے سب سے اچھا ہوتا۔ آپؐ اٹھتے بیٹھتے ذکر الٰہی کرتے۔ آپؐ ہر ہم نشین کو اس کا حق دیتے۔ کوئی یہ گمان نہ کرتا کہ کوئی دوسرا اس سے زیادہ معزز ہے۔ آپؐ کی خندہ پیشانی، سخاوت اور حسن خلق سب کے لئے تھی۔ آپؐ ان کے لئے باپ ہوگئے تھے۔

(شمائل النبی ﷺ)

آپؐ کی دلنشیں معاشرت کا نقشہ حضرت علیؓ اس طرح بیان فرماتے ہیں:۔
رسول اللہ ﷺ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ نہایت عمدہ اخلاق کے مالک اور نرم خو تھے۔ ترش رو تھے نہ تند خو۔ کوئی فحش بات زبان پر نہ لاتے۔ چیخ چیخ کر کلام نہ فرماتے عیب نہ نکالتے۔ بخل نہ کرتے۔ جو بات پسند نہ آتی اس کی طرف توجہ نہ فرماتے۔ تین باتوں سے آپؐ کلیۃً آزاد تھے۔ جھگڑا، تکبرلایعنی و فضول باتوں سے پرہیز کرتے۔ آپؐ کسی کی مذمت نہ کرتے۔ کسی کی غیبت نہ کرتے اور کسی کی بھی پردہ دری نہ کرتے۔ آپ صرف ان امور سے متعلق گفتگو فرماتے جن میں ثواب کی امید ہو۔ جب آپؐ خاموش ہوتے تو دوسرے گفتگو کرتے۔ مگر جب ایک شخص کلام کررہا ہوتا تو باقی خاموشی سے سنتے یہاں تک کہ وہ اپنی بات مکمل کرلیتا۔ آپؐ صحابہ کی بات توجہ سے سنتے۔ آپ ان باتوں سے خوش ہوتے جن پر صحابہ خوش ہوتے آپؐ اجنبی شخص کے گفتگو اور سوال میں تلخی پر صبر فرماتے۔

(شمائل النبی ﷺ)

آنحضرت ﷺ ہمیشہ ضرورت مند کی ضرورت پوری فرماتے۔ دوسروں کو بھی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کی طرف توجہ دلاتے۔ فرمایا کرتے تھے اگر کسی ضرورت مند کو دیکھو تو اسے دے سکتے ہو تو ضرور دو ورنہ اس کی مدد کے لئے دوسروں کو تحریص کرو۔ کیونکہ نیک سفارش کا بھی اجر ہوتا ہے۔ مبالغہ آمیز تعریف ہرگز پسند نہ فرماتے سوائے اس کے کہ وہ جائز حدود کے اندر ہو۔

(بخاری کتاب الادب)

آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور بلندی کردار کے بارہ میں حضرت ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گواہی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے فرماتی ہیں۔ آپؐ صلہ رحمی کرنے والے، دوسروں کے بوجھ اٹھانے والے، گمشدہ اخلاق اور نیکیوں کو زندہ کرنے والے، مہمان نواز اور راہ حق میں مصائب پر مدد کرنے والے ہیں۔

(بخاری کتاب بدء الوحی)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپؐ کے دلآویز اخلاق کا نقشہ یوں کھینچتی ہیں۔ آپؐ فحش کلامی نہ فرماتے اور بازاروں میں آوازیں کسنا آپؐ کا شیوہ نہ تھا۔ بدی کا بدلہ بدی سے نہ دیتے بلکہ عفو اور درگزر سے کام لیتے۔

(بخاری کتب الادب)

حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جامع جمیع الصفات تھے اور خلق عظیم کے لحاظ سے ہمالیہ سے بھی بلند تر چوٹیوں پر فائز تھے۔ بنی نوع انسان کے لئے ایسا خوبصورت اور کامل نمونہ اور کامیابی اور کامرانی کی ایسی شاہراہ جو شادمانیوں کے لالہ زاروں میں پہنچا دیتی ہے۔ قرآن کریم نے رحمی رشتہ داروں کی طرف خاص طور پر متوجہ کیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے تعلقات اپنے قریبی رشتہ داروں سے ہی ٹھیک نہیں تو دوسروں سے وہ کیسے حسن سلوک کرسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک بڑا مقصد رشتوں کا تقدس اور رشتوں کا احترام تھا اور ان رشتوں کے حقوق کا قیام تھا۔ حضرت عمروبن عنبسہؓ کہتے ہیں کہ میں آغاز اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا یا رسول اللہ! آپؐ کو کیا تعلیم دے کر مبعوث فرمایا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اس تعلیم کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو اور رحمی رشتوں کو نیکی اور حسن سلوک کے ساتھ استوار کیا جائے۔

(مستدرک حاکم جلد4 ص149 باب البر والصلہ)

رحمی رشتوں میں اولین رشتہ والدین کا ہے۔ پھر بیوی اولاد، بہن بھائی، خالہ، چچا وغیرہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ہر ایک کا حق قائم فرمایا۔ آپؐ سے پوچھا گیا کہ حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ فرمایا ماں، پھر پوچھا تو فرمایا ماں، تیسری بار پوچھنے پر بھی فرمایا ماں اور چوتھی بار پوچھنے پر فرمایا باپ۔

(بخاری کتاب الادب)

ایک شخص کے یہ پوچھنے پر کہ کیا والدین کی موت کے بعد بھی ان کی صلہ رحمی کا کوئی حق باقی رہ جاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں والدین کے لئے دعائیں کرنا، ان کے رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا جن کے ساتھ صرف والدین کی طرف سے رشتہ ہو۔ پھر ان کے لئے بخشش کی دعا کرنا اور ان کے عہد کو وفا کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔

(ابوداؤد کتاب الادب)

رسول اللہ ﷺ صلہ رحمی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ صلہ رحمی یہ نہیں کہ رشتہ داروں کے حسن سلوک کا بدلہ دیا جائے۔ بلکہ اصل صلہ رحمی تو یہ ہے کہ رشتہ توڑنے والوں سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔

(بخاری کتاب الادب باب لیس الواصل بالمکافی)

رسول اللہ ﷺ کے اکثر رشتہ داروں نے دعویٰ نبوت کی وجہ سے آپؐ کی بھرپور مخالفت کی اور تنگ کرنے کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔ اس کے باوجود آپؐ فرماتے۔ بیشک قریش کی فلاں شاخ میرے دوست نہیں رہے بلکہ دشمن ہوگئے ہیں۔ مگر آخر میرا ان سے ایک خونی رشتہ ہے۔ میں بہرحال ان کے حقوق اس رحمی تعلق کی وجہ سے ادا کرتا رہوں گا۔

(بخاری کتاب الادب)

آپؐ نے اپنی جامع اور کامل تعلیم کے ذریعہ سب سے بڑی خدمت بنی نوع کی یہ کی کہ ان کی جان اور مال اور عزت اور عفت کی حرمت قائم فرمادی۔ آپؐ نے تو اپنا فرمانبردار ہی اسے قرار دیا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ و مامون رہیں اور مومن اسے قرار دیا جس سے تمام دوسرے انسان امن میں رہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کون سے لوگ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارے ہیں اور وہ کون سے اعمال ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے پیارے وہ لوگ ہیں جو دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ انسان اپنے بھائی کو خوش رکھے۔ یا اس کی تکلیف دور کرے یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک دور کرے۔ پھر فرمایا کسی شخص کی ضرورت پورا کرنا میرے نزدیک ایک ماہ تک اعتکاف بیٹھنے سے زیادہ اچھا ہے۔ جو اپنے غصہ کو روکتا ہے اللہ اس کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے اور جو شخص باوجود بدلہ کی طاقت کے اپنے غصہ پر قابو پاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا دل امید سے بھر دے گا اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے نکلتا ہے اور پھر اس کا کام کرکے لوٹتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ثبات قدم بخشے گا جبکہ اس دن تمام لوگوں کے قدم ڈگمگا رہے ہوں گے ۔

(طبرانی جلد12 ص453 مطبع الوطن العربی)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے ایک بڑا گناہ صادر ہوگیا ہے۔ میری توبہ کا دروازہ کیونکر کھل سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کیا تمہاری والدہ زندہ ہے! اس نے کہا نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو کیا تمہاری خالہ زندہ ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ یعنی اس کی خدمت کرو۔ اس کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اس کی اطاعت کرو۔ اس کی دیکھ بھال کرو تو تمہارے گناہ معاف ہوسکتے ہیں۔ تمہاری توبہ قبول ہو سکتی ہے۔

(ترمذی کتاب البر والصلہ)

اور حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔

(مشکوٰۃ کتاب الادب)

ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ مومنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو خوش اخلاق ہو اور اپنے اہل و عیال پر بہت مہربان ہو۔

(ترمذی کتاب الایمان)

اور حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومنوں میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہو۔

(ترمذی کتاب الرضاع)

بعض لوگ باہر دوست احباب میں بہت خوش ہوتے ہیں۔ رشتہ داروں ہمسایوں کے کام سرانجام دینا فخر سمجھتے ہیں۔ مگر گھر میں پانی کا گلاس بھی خود سے پینا دوبھر ہوتا ہے۔ کوئی معمولی سا کام کرنا بھی پہاڑ لگتا ہے۔ لیکن دیکھئے سرکار دو عالم ﷺ صرف اپنے ساتھیوں کو بیویوں سے حسن سلوک اور خوش اخلاقی کی تعلیم ہی نہیں دیتے۔ بلکہ عملاً خود بھی اس تعلیم پر اس خوبی سے عمل پیرا ہیں کہ ایک وقت میں آپ کے ہاں نو بیویاں موجود رہیں۔ تمام احادیث کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے کوئی ایک بھی آپ کو گلہ کرتی نہ ملے گی۔ بلکہ آپ کی گھریلو زندگی کیسی تھی۔ اس کا دلآویز تذکرہ ہمیں یوں ملتا ہے۔

اہل خانہ کی مدد فرماتے۔ ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھتے۔ عام آدمی کی طرح گھر میں کام کرتے۔ کپڑے ٹھیک کرلیتے۔ پیوند لگا لیتے۔ ضرورت پر جوتا بھی ٹانک لیتے۔ جھاڑو بھی دے لیتے۔ حسب ضرورت جانوروں کو چارہ ڈال لیتے۔ دودھ دوہ لیا کرتے۔ خادم تھک جاتا تو ان کی مدد فرماتے۔ آپؐ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھتے۔ ان کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے۔

(الشفاباب تواضعہ)

اگرہم اس رنگ میں رنگ جائیں ۔ اس تعلیم کو اپنا لیں۔ اس اسوہ حسنہ سے حسین بن جائیں تو نفرتوں کے دریا خشک ہو جائیں گے اور پیار و ایثار اور محبت و شفقت کی وہ جنت تعمیر ہوگی جس کی ہم میں سے ہر ایک کو ضرورت اور طلب ہے۔

(عبدالقدیر قمر)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ بینن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2020