• 25 اپریل, 2024

اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی زمانہ میں

محمدرسول اللہ ﷺصفاتِ الٰہیہ کے مظہر اتم اور انسان کامل اور تمام اوّلین و آخرین کے سردار ہیں ۔دُنیا کی ابتداء سے اس کے اخیر تک محمد مصطفیٰﷺجیسا کوئی وجود نہیں۔حضور ﷺپر ہمارے ماں باپ فدا ہوں اور ہزاروں لاکھوں درود اور سلام ہماری طرف سے حضور ﷺ کو پہنچتے رہیں۔قرآن کریم جو کتاب اللہ بھی ہے اور کلام اللہ بھی ہے اور اُمّ الکتاب ہے اور تحریف اور تبدّل سے پاک اور منزّہ ہےمحمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺکی عظمتوں کے ذکر سے بھرا پڑا ہے ۔صحفِ سابقہ بھی حضور ﷺ کی عظمت اورخوبیوں کے ذکر سے رطب اللسان رہے اور تمام پاکباز اور فرشتے حضور ﷺ کی حمد کے گیت گاتے ہیں اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ اِس مضمون میں قرآن کریم میں سے کچھ آیات پیش کرنی مقصودہیں جو ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی امتیازی شان کا اظہار فرماتی ہیں۔

مظہر کامل صفات الہیہ

• فرمایا: ترجمہ ۔وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ صرف اللہ کی بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان پر ہے۔

(الفتح:11)

• اور جب تُو نے (بدر کے موقع پر) کنکریاں پھینکیں تھیں تو تُو نے نہیں پھینکیں تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھیں۔

(الانفال:18)

• اے رسولﷺ!جو (تیری) اطاعت کرے (تو سمجھ کہ) اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔

(النّساء:81)

• (اے مومنو!) تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہوکر آیا ہے۔ تمہارا تکلیف میں پڑنا اُس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بھوکا ہے اور مامنوں کے ساتھ محبّت کرنے والا (اور) بہت کرم کرنے والا ہے۔

(توبہ:128)

• اور ہم نے تجھے دُنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

(الانبیاء:108)

یعنی اے رسول تُو اللہ تعالیٰ کا مظہر ِ اَتم ہے۔ تیرا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے اور تیرا فعل خدا کا فعل اور تیری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔ نیز تُو رؤف اور رحیم اور رعالمین کے لئے رحمت ہے۔ چنانچہ منجملہ صحفِ سابقہ کی اور پیشگوئیوں کے یسعیاہ نبی کی ایک پیشگوئی میں بھی جو یسعیاہ باب 9 میں لکھی ہے آنحضرتﷺ کا ایک نام خدائے قادر بیان کیا گیا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا آپﷺ کو کبھی جنگِ اُحد والے دن سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’عائشہ تیری قوم کی طرف سے مجھے بڑی بڑی سخت گھڑیاں دیکھنی پڑی ہیں‘‘ اورپھر آپﷺ نے سفرِ طائف کے واقعات سُنائے اور فرمایا کہ اس سفر سے واپسی پر پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ مجھے خدا نے آپ ﷺ کے پاس بھیجا ہےتا کہ اگر ارشاد ہو تو میں یہ پہلو کے دونوں پہاڑ ان لوگوں پر پیوست کر کے ان کا خاتمہ کردوں۔ آپﷺ نے فرمایا نہیں نہیں مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں میں سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی پرستش کریں گے۔

(سیرۃ خاتم النبیین ﷺ حصّہ اوّل صفحہ207)

یہ واقعہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ حضورﷺ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہیں۔ اللہ تعالٰ کی تو بے شمار صفات ِ حسنہ ہیں جیسا کہ فرمایا:
و َلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنیٰ (اعراف:181) یعنی اوراللہ کی بہت سی اچھی صفات ہیں لیکن سورۃ فاتحہ میں جو 4 صفات بیان ہوئی ہیں
(1) رَبُّ الْعالمین (2) رحمٰن (3) رحیم (4) مالک یوم الدین انہیں امہات الصفات کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ ان صفات کے مظہرِکامل تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’سورۃ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرت ﷺ ان چاروں صفات کے مظہرِ کامل تھے مثلاً پہلی صفت ربّ العالمین ہے آنحضرت ﷺ اس کے بھی مظہر ہوئے جب کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء:7) جیسے ربّ العالمین تمام ربوبیت کو چاہتا ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ کے فیوض و برکات اور آپ ﷺ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لئے قرار پائی۔ پھر دوسری صفت رحمٰن کی ہے۔آنحضرت ﷺ اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہرے کیونکہ آپ ﷺ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں مَااَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ (الفرقان:5) پھرآپ ﷺ رحیمیّت کے مظہر ہیں۔ آپﷺ اورآپ ﷺ کے صحابہؓ نے جو محنتیں اسلام کے لئے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اُٹھائیں وہ ضائع نہیں ہو ئیں بلکہ ان کا اجر دیا گیا اور خود رسول اللہ ﷺ پر قرآن شریف میں رحیم کا لفظ بولا ہی گیاہے۔ پھر آپ ﷺ مالکیت یوم الدین کے مظہر بھی ہیں۔ اس کی کامل تجلی فتح مکہ کے دن ہوئی۔ ایسا کامل ظہور اللہ تعالیٰ کی اِن صفات اربعہ کا جو اُمّ الصفات ہیں اِور کسی نبی میں نہیں ہوا۔‘‘

(الحکم 10 اگست 1903ء صفحہ 20)

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (توبہ:128) والی آیت قُرآنی جو سورۃ توبہ میں بیان ہوئی ہے اور جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ایک اہم آیت ہے جو رسولِ کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ کا مظہر ثابت کرتی ہے۔

آنحضرت ﷺ کے عاشقِ صادق کیا ہی خوب فرماتے ہیں:

شان حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے
تیرے پانے سے ہی اس ذات کو پایا ہم نے
خدانگویمش از قوسِ حق مگر بخدا
خدا نما سب وجودش برائے عالماں
محمدِ عربی بادشاہِ ہر دو سرا
کرے ہے روح القدس جس کے در کی دربانی
اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی

عالمگیر نبوت کا حامل

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
• اے لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔

(اعراف:159)

• اور ہم نے تجھے تمام بنی نوع انسان کی طرف جن میں سے ایک بھی تیرے حلقہ رسالت سے باہر نہ رہے۔ ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو مومنوں کو خوشخبری دیتا اور کافروں کو ہوشیار کرتا ہے لیکن انسانوں میں سے اکثر اس حقیقت سے واقف نہیں۔

(سبا:29)

• اور ہم نے تجھے (تمام) لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے۔

(النساء:80)

• وہ ذات بڑی برکت والی ہے جس نے فرقان اپنے بندہ پر اتارا ہے تا کہ وہ سب جہانوں کے لئے ہوشیار کرنے والا بنے۔

(الفرقان:2)

• وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تا کہ (باقی) تمام دینوں پر اسے غالب کردے۔

(توبہ:33)

اب ان آیات میں آنحضرت ﷺ کو عالمگیر نبوّت دے کر بھیجا جانے کا ذکر ہے جس کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے دعویٰ نبوت کے چوتھے ہی سال جزیرہ نما عرب کے باہر حبشہ میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔ پھر صلحِ حدیبیہ کے بعد جو 6 ہجری میں ہوئی۔ آنحضرتﷺ نے قیصرِروم، کسریٰ فارس، شہنشاہِ چین، نجاشی شاہ حبشہ، مقوقس شاہِ مصر، رئیسِ بحرین، شاہ عمان، یمامہ کے سردار اور یمن کے قبیلہ بنی علیم کے سردار اور یمن کے قبیلہ حضرمی کے سردار کو تبلیغی خطوط روانہ فرمائے۔

پھر آخری زمانہ میں اسلام کے کامل اور عالمگیر غلبہ کے معراج پر پہنچنے کے بارہ میں بھی پیشگوئی فرمائی جس کا اس زمانہ کے ساتھ تعلق ہے۔دنیا میں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کا مشن عالمگیر ہو اور جس کا زمانہ لا محدود ہو۔ یہ امتیاز صرف اور صرف ہمارے سیّدومولیٰ حجرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو حاصل ہے۔

حضرت موسٰیؑ سے مشابہت

سورۃ مزمل میں فرمایا:
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اسی طرح جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔

(مزمل:16)

اب اس آیت میں آنحضرتﷺ کو موسیؑ کا مثیل کہا گیا ہے۔ مثلاً آپؑ کا حضرت موسیؑ کی طرح صاحبِ شریعت ہونا۔ آپﷺ کا حضرت موسیؑ کی طرح جنگیں لڑنا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ کا سلسلہ موسیؑ کے سلسلہ کے مشابہ ہوگا لیکن ہوگا عالمگیر اور دائمی۔

تمام نبیوں کے جامع

• تاکہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ انہوں نے (یعنی رسولوں نے) اپنے رب کے پیغام کو لوگوں تک پہنچا دیا (یہاں جمع کا صیغہ ہے مگر مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جو سب نبیوں کے جامع ہیں)

(جنّ:29)

• نہ محمدﷺ تم میں سے کسی کے باپ تھے نہ ہیں نہ ہوں گے لیکن اللہ کے رسول ہیں بلکہ (اس سے بھی بڑھ کر) خاتم النبیّین ہیں۔

(احزاب:41)

• انہی کو اللہ نے ہدایت دی پس تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔تو ان سے کہہ دے کہ میں اس پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا۔یہ تو تمام جہانوں کے لئے ایک نصیحت ہے۔

(انعام:91)

اب ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ تمام انبیاء ؑ سے افضل اور جامع ہیں۔ سورۃ انعام کی آیت 91 جو اوپر بیان کی گئی ہے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:’’یہ آیت حضرت رسول کریمﷺ کی بڑی فضیلت کا اظہار کرتی ہے۔ تمام گذشتہ نبیوں اور ولیوں میں جس قدر خوبیاں اور صفات اور کمال تھے وہ سب آنحضرتﷺکو دیئے گئے تھے سب کی ہدایتوں کا اقتداء کر کے آپﷺ جامع تمام کمالات کے ہوگئے۔‘‘

(بدر جلداصفحہ 33 مورخہ 6 نومبر 1905)

سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر
لیک ازخدائے برتر خیرالوری یہی ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
’’سورة آل عمران جزوتیسری میں مفصّل یہ بیان ہے کہ تمام نبیوں سے عہد و اقرار لیا گیا کہ تم پر واجب ولازم ہے کہ عظمت و جلالیّت شان ختم الرسل پرجو محمد مصطفے صلی الله علیہ وسلم ہیں ایمان لاؤ اور ان کی اس عظمت اور جلالیّت کی اشاعت کرنے میں بدل و جان مدد کرو۔ اسی وجہ سے حضرت آدم صفی اللہ سے لے کرتا حضرت مسیح كلمۃ اللہ جس قدر نبی و رسول گذرے ہیں وہ سب کے سب عظمت و جلالیّت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتے آئے ہیں۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 ص279 -حاشیہ)

فنا فی الله

قُلْ اِنَّ صَلَاتِی وَ نُسُکِی وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoلَاشَرِیْکَ لَہُ وَ بِذَالِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ

(انعام:163۔164)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ۔
’’ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدوجہد اور میری قربانیاں اور میرا زنده رہنا اور میرا مناسب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالموں کارب ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اورمیں اوّل المسلمين ہوں یعنی دنیا کی ابتداء سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنا فی اللہ ہوجو خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ172۔173)

مقام بشریت میں عظمت

قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌمِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَااِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ

(الکہف:111)

ترجمہ:تو انہیں کہہ (کہ) میں صرف تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں (فرق صرف یہ ہے کہ) میری طرف وحی د نازل کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی حقیقی معبود ہے۔

تمام عظمتوں کے باوجود جومضمون کی مختلف آیات قرآنی میں بیان کی گئی ہیں اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا اظہار کیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ لفظ اس لئے استعمال کیا گیا تاکہ دوسرے انبیاء کی طرح حضورﷺ کی پرستش نہ ہو اور حضورﷺ کو خدا نہ بنایا جائے ۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ۔

’’ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کانمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہوسکتا ہے‘‘

(ملفوظات جلداول ص 74رپورٹ جلسہ سالانہ1897)

حضورﷺ کی امت کی فضیلت

فرمایا:
ترجمہ:تم (سب سے) بہترجماعت ہوجسے لوگوں کے (فائدہ) کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔

(آل عمران:111)

اور (اے مسلمانو ! جس طرح ہم نے تمہیں سیدھی راہ دکھائی ہے) ُاسی طرح ہم نے تمہیں ایک اعلی درجہ کی امت بنایا ہے تاکہ تم (دوسرے) لوگوں کے نگران بنو اور یہ رسول تم پرنگران ہو۔

(بقرہ:144)

ان آیات میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی امت کو بہترین امت قرار دیا گیا ہے اور یہی وہ امت ہے جس کی جھلک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو 5 نبوی میں معراج کے دوران اس وقت دکھائی گئی مسلمانوں پر دشمنوں کی طرف سے زمین تنگ کی جارہی تھی اور جس امت نے سارے آفاق کو گھیرا ہوا تھا گویا بلحاظ کمّیت و کیفیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین اور اعلی درجہ کی امت عطا کی گئی۔ ؎

ہم ہوئے خیرامم تجھ سے ہی اے خیر رسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے

اعلیٰ نمونہ اور محبت الہٰی حاصل کرنے کا ذیعہ

تمہارے لئے اللہ کے رسول (محمدصلی الله علیہ وسلم) میں ایک اعلی نمونہ ہے۔

(احزاب:22)

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوانِي يُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ

(اٰل عمران:32)

ترجمہ: تُو کہہ دے کہ (اے لوگو) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو (اس صورت میں) وہ بھی تم سے محبت کرے گا۔
ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ نمونہ قرار دیا گیا ہے اور حضورﷺ کی محبت و اطاعت کو اللہ تعالی کی محبت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

دلبرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔
’’رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے یہ دعوی کیا تھا کہ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِیعًا اس دعوے کے مناسب حال یہ ضروری تھا کل دنیا کے مکرومکا ید متفق طور پر آپ ﷺ کی مخالفت میں کئے جاتے۔ آپﷺ نے کس حوصلہ اور دلیری کے ساتھ مخالفوں کو مخاطب کر کےکہا کہ فَکِیدُوْانِي جَمِيْعًا (ہود :56) یعنی کوئی دقیقہ مکرکاباقی نہ رکھو سارے فریب مکر استعمال کرو۔ قتل کے منصوبے کرو۔ اخراج اور قید کی تدبیریں کرو مگر یا درکھو سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (قمر:37) آخر میری فتح ہے تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں گے تمہاری ساری جماعتیں منتشر اور پراگندہ ہو جاویں گی اور پیٹھ دے نکلیں گی جیسے عظیم الشان دعوى اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِیعًا کسی نے نہیں کیا اور جیسے فَکِیدُوْانِي جَمِيْعًا کہنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوئی۔یہ بھی کسی کے منہ سے نہ نکلا سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَیہ الفاظ اسی منہ سے نکلے جو خدا تعالی کے سائے کے نیچے الوہیت کی چادر میں لپٹا ہوا پڑا تھا۔‘‘

(الحکم 24 جولائی 1902)

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سوسو بار
پاک محمّد مصطفے نبیوں کا سردار

حرف آخر

غرض ہراعتبار سے حضرت محمد رسول الله ﷺ کی فضیلت وعظمت وجلالیّت و برتری کل انبیاء پر روز روشن کی طرح ثابت ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :۔
’’میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول الله صلی الٹ علیہ ولم کو الگ کیا جاتا اورکُل نبی جو اُس وقت تک گذر چکے تھے وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہرگز نہ کر سکتے۔ ان میں وہ دل اورقوّت نہ تھی جو ہمارے نبی ﷺ کوملی تھی۔اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذاللہ سُوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افتراء کرے گا۔ میں نبیوں کی عزت وحُرمت کرنا اپنے ایمان کا جُزوسمجھتا ہوں لیکن نبی کریم ﷺ کی فضیلت کُل انبیاء پرمیرے ایمان کاجزواعظم اور میرے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔‘‘

(الحكم17جنوری 1907)
(ماہنامہ انصاراللہ نومبر 1987ء)

(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ بینن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2020