• 22 اپریل, 2024

نشانِ کسوف و خسوف۔انکار بھی اقرار بھی

کسوف و خسوف حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی مشہور و معروف اور زبان زد عام علامت اور صداقت کا ایک زبردست نشان ہے اور حدیث کی ایک کتاب دارقطنی میں ان الفاظ میں درج ہے:

’’ اِنَّ لِمَھْدِیَّنَا آیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خلق السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، تَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لأَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ، وَ تَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْہُ، وَلَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمَوَاتِ وَ الأَرْضَ ‘‘

(سُنَنُ الدَّارقطنی کتاب العیدین)

یقینًا ہمارے مہدی کے لئے دو نشانیاں ہیں جو تخلیق ارض و سماء سے لے کر آج تک وقوع میں نہیں آئیں، رمضان کی اول راتوں میں چاند گرہن اور اس کے نصف میں سے سورج گرہن اور یہ تخلیق ارض و سماء سے لے کر آج تک وقوع میں نہیں آئیں۔

دارقطنی کی یہ حدیث مندرجہ ذیل کتابوں میں قدیم علماء نے علامتِ مہدیؑ کے طور پر بیان کی ہے:

•العرف الوردی فی اخبار المھدی از جلال الدین السیوطی
•القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر از ابن حجر المکی الہیثمی
مکتوبات امام ربانی حضرت مجدّد الف ثانیؒ حصہ ہفتم دفتر دوم مکتوب نمبر 67
•البرہان فی علامات مھدی آخر الزمان از علامہ علی بن حسام الدین
•الاشاعۃ لأشراط الساعۃ از البرزنجی

اس نشان کے بارے میں احمدیہ جماعت کے لٹریچر میں بہت کچھ لکھا جاچُکا ہے۔ اس مضمون میں اس کے متعلق ایک اور پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لوگ انبیاٗ علیہم السلام سے نشانات طلب کرتے ہیں لیکن جب وہ نشان ظاہر ہوجاتا ہے تو اس کا انکار کردیتے ہیں۔

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ لَّیُؤۡمِنُنَّ بِہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشۡعِرُکُمۡ ۙ اَنَّہَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ

(الانعام:110)

ترجمہ:اور وہ اللہ کی پختہ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر اُن کے پاس ایک بھی نشان آجائے تو وہ اس پر ضرور ایمان لے آئیں گے۔ تو کہہ دے کہ ہر قسم کے نشانات اللہ کے پاس ہیں لیکن تمہیں کیا سمجھائے کہ جب وہ (نشانات) آتے ہیں وہ ایمان نہیں لاتے۔

منکرین کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور کے علماء نے پہلے توآپؑ سے اس نشان کا مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ اگر آپ وہی امام مہدی ہیں تو پھر آپ کے لئے کسوف و خسوف کا نشان کیوں نہیں ظاہر ہوا۔ لیکن جب وہ نشان زمین کے مشرقی نصف کرہ میں اور پھر اگلے سال میں مغربی نصف کرہ میں ظاہر ہوا تو علماء نے اس مندرجہ بالا حدیث کو حضرت امام محمد الباقرؓ کا قول کہہ کر اسے حدیث ہی ماننے سے انکار کردیا۔ جبکہ پچھلی صدیوں کے بہت سے علماء و صوفیاء نے کسوف و خسوف کو امام مہدی ؑ کی علامات میں سے ایک اہم علامت قرار دیا ہے بلکہ اس زمانہ کے علماء بھی اپنی کتب میں اسے ایک ناقابل تردید علامت اور امام مہدی ؑ کی صداقت کا ثبوت قرار دیتے ہیں۔

’’اس واقعہ کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس سے قبل گزشتہ رمضان المبارک میں چاند سورج دونوں کو گرہن لگ چکا ہوگا‘‘

(آثار قیامت اور فتنہ دجال کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں از شاہ رفیع الدین محدث دہلوی صفحہ19)

’’اس واقعہ کی علامت یہ ہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہِ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگ چکے گا‘‘

(الامام المھدی۔ترجمان السنۃ کا ایک باب۔از بدر عالم میرٹھی صفحہ4)

’’اس واقعہ کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس سے قبل گزشتہ رمضان المبارک میں چاند سورج دونوں کو گرہن لگ چکا ہوگا۔‘‘

(علاماتِ قیامت سے متعلق رسولِ اکرم ﷺ کی پیشگوئیاں از ختم نبوت اکیڈیمی لنڈن یوکے۔ صفحہ 210)

’’حضرت امام مہدیؓ کے ظہور کی ایک عجیب و غریب علامت جو کہ سائنسی نقطۂ نظر کے بالکل خلاف ہوگی کہ جس سال ان کا ظہور مقدر ہوگا اس کے رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا اور اسی رمضان کی پندرہ تاریخ کو سورج گرہن ہوگا اور یہ دونوں چیزیں تخلیق کائنات سے لے کر اب تک اس طرح ظہور پذیر نہیں ہوئیں کہ کسی مہینے کی پہلی رات کو چاند گرہن ہو پھر اس کی پندرہ تاریخ کو سورج گرہن ہوجائے کیونکہ سائنسی نقطۂ نظر اور جدید فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی مہینے کی 15،14،13 تاریخوں کے علاوہ چاند گرہن ممکن نہیں۔ بعض حضرات کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی اس علامت میں تردد پیش آیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اس کا انکار کردیا ہے چنانچہ ماہنامہ البلاغ کے شمارہ صفر المظفر1424ھ میں مولانا عمر فاروق لوہاروی کا ایک مضمون ’’کیا ظہور مہدی 2004 میں؟‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں موصوف نے اس بات کی پرزور اور مدلل تردید کی ہے کہ امام مہدیؑ کے ظہور کے لئے ماہ و سن کی تعیین درست نہیں۔ یہاں تک تو بات صحیح تھی۔ لیکن آگے موصوف اس تردید میں ماہرین فلکیات کی رائے پیش کرکے جو بات سمجھے ہیں، درحقیقت اس میں انہیں اشتباہ ہوا ہے۔۔۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ امام مہدیؓ کے ظہور کے لئے ماہ و سن کی تعیین درست نہیں لیکن سرے سے اس علامت کا انکار کردینا ناروا ہے جو آغاز تخلیق سے لے کر اب تک رونما ہی نہیں ہوئی جیسا کہ یہ بات پیچھے بیان ہوئی اور علامت تو ہوتی ہی خلاف عادت اور خرق عادت کے طور پر ہے۔‘‘

(اسلام میں امام مہدی کا تصوّر مؤلف حافظ محمد ظفر اقبال۔ صفحہ102 تا 105)

ان حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ ایک طرف تو مخالفین احمدیت اس حدیث کا انکار کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اسے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

(انصر رضا۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ بینن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2020