• 19 اپریل, 2024

مکرم چوہدری محمد علی مضطر کی نا قابل فراموش یادیں

مکرم چوہدری محمد علی کی المناک وفات کا سنا تویکم مئی 1970ء کا ایک منظر آنکھوں کے سامنے آگیا۔ وہ منظر پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے تین روزہ دورہ گیمبیا کا تھا جس میں ینڈوم (Yundum) ایئرپورٹ پر تشریف لانے والے احباب کے مبارک قافلہ میں چوہدری صاحب حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری شامل تھے۔اس بابرکت موقع پر آپ سے دیارغیر میں پہلا تعارف ہوا۔ خاکسار اُن دنوں گیمبیا میں بطور مربی سلسلہ متعین تھا۔ جیسا جنوری 1999ء میں مکرم چوہدری حمید اللہ کے اس ارشاد پر کہ چوہدری صاحب!اگر آپ پسند فرمائیں تو آپ اُن سے اپنے دفتر میں کام لے سکتے ہیں۔ چونکہ آپ نے مجھے دیکھا ہوا تھا اور تعارف بھی ہوچکا تھا لہٰذا فوراً رضامندی ظاہر کردی۔ خاکسار نے اُن کی رہنمائی میں 6 سال تک کام کیا۔ عرصہ ہذا میں مکرم چوہدری صاحب کے اوصاف حمیدہ اور جو خوبیاں اُن میں دیکھیں اُن کو تحریر میں لانے کی خاکسار کوشش کرے گا۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کے حسن سلوک، شفقت اور باہمی پیار و محبت کی دفتری فضا اور ماحول ہونے کی وجہ سے اس کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ جب آپ دفتر میں تشریف لاتے تھے تو بڑے پیار اور مُسکراتے ہوئے چہرہ کے ساتھ سلام کہا کرتے تھے۔ جب آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی تو بڑے ہی اچھے انداز میں بلاتے۔ سامنے کرسی پر بٹھاتے اور نرم لہجہ میں گفتگو کرتے۔ میرے ذمہ دفتری حساب کتاب کا کام تھا۔ ہر ماہ کے شروع میں پچھلے ماہ کے بلز برائے تصدیق پیش کرتا۔ آپ بڑی خندہ پیشانی سے چیک کرنے کے بعد بل پر اپنے دستخط ثبت کرتے۔

کسی شخص کے اخلاق، عادات و اطوار میں حسن و قبح، اچھائی اور بُرائی کا اسی وقت علم ہوتا ہے جب اس کے ساتھ کوئی سفر کرنے کا موقع ملے یا کبھی لین دین کا واسطہ پڑے۔ مجھے اس عرصہ 6 سال میں آپ کے ساتھ دو تین مرتبہ سفر کرنے کا موقع ملا۔ سفر میں آپ کا سلوک بہت ہی اچھا رہا۔ ایک دفعہ دفتر کے کارکن کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے جھنگ شہر تک ہم سفر بننے کا اتفاق ہوا۔ دوران سفر آپ کی عموماً یہ عادت تھی کہ آپ ویگن میں فرنٹ سیٹ پر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ہمراہیوں کے ساتھ تشریف فرما ہوتے تھے اور وقتاً فوقتاً ہلکی پھلکی مزاحیہ اور کبھی کسی دینی مسئلہ پر مشتمل گفتگو کیاکرتے تھے۔ ویسے زیادہ تر سفر دُعاؤں میں گزرتا تھا۔ان کی شفقت اور حسن سلوک کی ایک اور مثال پیش ہے۔

ایک دن دفتر کے چند کارکن دفتری کام کے سلسلہ میں لاہور جارہے تھے۔ میرا وہاں جانا ضروری نہ تھا۔ آپ کی شفقت ملاحظہ کیجئے۔ مجھے بلایا اور دریافت کیاکہ لاہور جانے کی خواہش تو نہیں، میرے ہاں میں جواب دینے پر آپ نے اجازت عنایت فرمادی۔ پھر ایک دفعہ جب آپ راولپنڈی دفتری کام کے لئے ہی تشریف لے جارہے تھے۔ آپ کو علم تھا کہ میرے بیٹے وہاں رہائش پذیر ہیں۔ مجھے بلایا اور کہا کہ بیٹوں سے ملاقات کرنی ہو تو میرے ساتھ ہم سفر بن جائیں۔ یہ سن کر خاکسار بہت متأثر اور خوش ہوا۔ خیال آیا کہ مکرم چوہدری صاحب کتنے مہربان ہیں انہیں اپنے ماتحت کارکنان کے احساسات کا کتنا خیال ہے۔ چنانچہ میں نے یہ سفر آپ کے ساتھ کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ سارا راستہ دُعا میں مصروف رہے اور نماز بھی قضا نہیں کی۔ آپ کا قیام راولپنڈی شہر کے علاقہ ویسٹرج کے گیسٹ ہاؤس میں تھا۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر میں نے آپ سے جانے کی اجازت مانگی تو آپ نے بخوشی دے دی۔ شام کافی ڈھل چکی تھی، کہاکل چلے جانا۔ عرض کیا کہ آپ کی اجازت مطلوب ہے۔ کہا دل تو نہیں چاہتا کہ آپ جائیں۔ پھر آپ مہمان خانہ کے گیٹ پر تشریف لائے اور الوداع کہا۔

اپریل 2003ء کے اوائل کی بات ہے کہ میں نے اپنے بچوں کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے آپ کو دعوتی کارڈ دیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور بچوں کے لئے بطور سلامی مبلغ پانچ صد روپے عنایت کئے۔ گوالے کو دفتر میں دودھ پہنچانے کا کہا ہوا تھا اور مددگار کے فرائض میں دودھ اُبالنا بھی شامل تھا ،کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مددگار کسی ضروری کام کے لئے دفتر سے باہر گیا ہوا ہوتا تو یہ کام مجھے سرانجام دینا پڑتا۔ دو تین مرتبہ ایسا ہوا کہ دودھ کو اُبالنے کے لئے چولہے پر رکھا اور خود دفتر کے کسی کام میں مشغول ہو گیا تو نتیجہ یہ نکلتا کہ دودھ اُبلتا رہتا اور برتن سے باہر گرتا رہتا۔ اس طرح دودھ بہت کم رہ جاتا مگر چوہدری صاحب کا ظرف دیکھئے کہ آپ نے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا کہ آج دودھ کیوں کم ہے۔ ایک مرتبہ تو دودھ زیادہ اُبل جانے اور جل جانے کی وجہ سے بہت کم رہ گیا۔ چنانچہ بازار سے منگوا کر یہ کمی پوری کر دی گئی اور مکرم چوہدری صاحب کو دودھ کم ہونے کا احساس ہونے نہیں دیا گیا۔

آپ میں مہمان نوازی کا وصف بھی نمایاں طور پر موجود تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دفتر میں جب بھی آپ سے ملنے گیا تو آپ نے کبھی بھی خالی یعنی بغیر کھلائے پلائے واپس نہیں آنے دیا۔ آپ کی عادت تھی کہ جونہی آپ کو میرے آنے کا علم ہوتا آپ بڑی شفقت سے اپنے کمرے میں بلاتے، حال وغیرہ دریافت کرتےاور ساتھ ہی مددگار کو جُوس یا چائے لانے کا ارشاد فرماتے۔ یہی حال آپ کا کوٹھی میں ہوا کرتا تھا کہ جس روز ناسازیٔ طبع کی وجہ سے دفتر تشریف نہ لاسکتے، دفتری کام کی تکمیل کے لئے وہاں بُلا لیتے تو کچھ نہ کچھ کھانے کے لئے دیا کرتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے آپ کے ذمہ ترجمہ کا نہایت نازک اور بہت ہی مشکل کام کیا تھا۔

جسے آپ نے مکمل کرنے کی تادم آخر جدوجہد کی۔ آپ کو اپنے اس فرض اور کام کو پورا کرنے کا بڑا احساس تھا۔ باوجود دل کی پُرانی اور لمبی تکلیف کے نیز پیرانہ سالی کے آپ دفتر تشریف لے جاتے تھے۔ میں نے کئی دفعہ واکر کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دفتر جاتے دیکھا۔ یہ احساس ذمہ داری آخری دم تک جاری رہا۔ آپ کے ایک کارکن ساتھی نے بتایا کہ جس رات آپ کی وفات ہوئی۔ قبل ازیں دن بھر دفتر میں کام کرتے رہے۔ اسی رات اڑھائی بجے دل کی تکلیف شروع ہوئی جو اتنی بڑھ گئی کہ جان لیوا ثابت ہوئی۔ ایک اور کارکن (ڈرائیور)نے بتایا کہ مجھے مکرم چوہدری صاحب کے ساتھ لاہور اور راولپنڈی کا سفر کرنے کا موقع تو نہیں ملا البتہ کئی دفعہ انہیں گوجرہ شہر کے قریب واقع اُن کے گاؤں لے جانے اور لانے کا موقع ملا۔ میں نے انہیں بہت منکسرالمزاج اور دُعاگو پایا۔

مکرم چوہدری صاحب میں عاجزی، انکساری، اور فروتنی بہت پائی جاتی تھی۔ تکبر، نخوت اور بڑا پن نام کو نہیں تھا۔ میں ان کے متعلق بڑے وثوق کے ساتھ اور بِلاجھجک کہہ سکتا ہوں کہ آپ میں کبِر و نخوت، غرور، ریا وغیرہ بالکل نہیں تھا۔ آپ اگرچہ چوہدری کہلاتے تھے اور اپنے گاؤں میں وسیع زرعی زمین بھی تھی۔ مگر آج کل کے چوہدریوں والی چوہدراہٹ آپ میں ہرگز نہ تھی۔ آپ جب بھی کسی سے ملتے تو نہایت خندہ پیشانی سے ملتے۔ آپ سے ملنے والے کو ذرا سا بھی احساس نہ ہوتا کہ آپ چوہدری ہیں یا کوئی بڑے آدمی ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ آپ کے درجات بلند فرمائے اور اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

(مرزا محمد اقبال)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ بینن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2020