• 20 اپریل, 2024

جس کو یہ حظّ نصیب ہو جاوے

’’جیسا کہ عورت اور مرد کے جوڑے سے ایک قسم کی بقاء کے لیے حظّ ہے۔ اسی طرح پر عبودیت اور ربوبیت کے جوڑے میں ایک ابدی بقاء کے لیے حظّ موجود ہے۔ صوفی کہتے ہیں ۔جس کو یہ حظّ نصیب ہو جاوے وہ دنیا و مافیہا کے تمام حظوظ سے بڑ ھ کر تر جیح رکھتا ہے۔ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اُس کو معلوم ہوجاوے تو اُس میں ہی فنا ہوجاوے۔ لیکن مشکل تو یہ ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے۔جنہوں نے اس راز کو نہیں سمجھا ۔اور اُن کی نمازیں صرف ٹکریں ہیں اور اوپرے دِل کے ساتھ ایک قسم کی قبض اور تنگی سے صرف نشست وبرخاست کے طور پر ہوتی ہیں۔ مجھے اَور بھی افسوس ہوتا ہے ۔ جب مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ صرف اس لیے نمازیں پڑھتے ہیں کہ وہ دنیا میں معتبر اور قابلِ عزت سمجھے جاویں۔ اور پھر اس نماز سے یہ بات اُن کو حاصل ہوجاتی ہے۔ یعنی وہ نمازی اورپرہیز گا ر کہلاتے ہیں۔ پھر اُن کو کیوں یہ کھا جانے والا غم نہیں لگتا کہ جب جھوٹ موٹ اور بیدل کی نماز سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے تو کیوں ایک سچے عابد بننے سے ان کو عزت نہ ملے گی اور کیسی عزت ملے گی۔

غرض مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سُست اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کو اس لذت اور سُرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے۔ پھر شہروں اور گائوں میں تو اَور بھی سُستی اور غفلت ہوتی ہے۔ سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتا۔ پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ اُن کو اس لذّت کی اطلاع نہیں۔ اور نہ کبھی انہوں نےاس مزہ کو چکھا۔ اور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتا ہے۔ پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے۔ گویا ان کے دل دُکھتے ہیں۔ یہ لوگ بہت ہی قابلِ رحم ہیں۔ بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ اُن کی دکانیں دیکھو تومسجدوں کے نیچے ہیں ۔مگر کبھی جاکر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے۔ پس مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خداتعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہیے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں۔ نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے، کھا یا ہوا یاد رہتا ہے۔ دیکھو ! اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سُرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے۔ اور پھر اگر کسی بد شکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے ۔تو اس کی ساری حالت بہ اعتبار اس کے مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ ہاں۔ اگر کوئی تعلق نہ ہوتو کچھ یاد نہیں رہتا۔ اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر سردی میں وضو کرکے خوابِ راحت چھوڑ کر کئی قسم کی آسائشوں کو کھو کر پڑھنی پڑتی ہے۔ اصل بات یہ ہے ۔کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے۔ اس کو اطلاع نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدنمبر 1 صفحہ 161-163۔ ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2021