• 24 اپریل, 2024

آپؐ کا ہر عمل، ہر فعل، دعویٰ نبوت سے پہلے بھی سچائی اور حق گوئی سے سجا ہوا تھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
انبیاء دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو لوگوں کو اپنی گزشتہ زندگی کا حوالہ دے کر یہ کہتے ہیں، قوم کے لوگوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ یہ جو ہماری زندگی تمہارے سامنے گزری اس میں ہمارا جو کردار بھی تمہیں نظر آئے گا یا نظر آیا وہ یہی نظر آئے گا کہ سچ بات پر قائم رہے اور سچ کہا اور سچ پھیلانے کی کوشش کی۔ اور اس وصف کے اعلیٰ ترین معیار ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ آپؐ کی زندگی کا ہر لمحہ اس اعلیٰ خُلق کے نور سے منور تھا۔ آپؐ کا ہر عمل، ہر فعل، دعویٰ نبوت سے پہلے بھی سچائی اور حق گوئی سے سجا ہوا تھا۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس اعلیٰ خُلق کی مثال دیتے ہوئے کفار کو مخاطب کرکے اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے فرمایا ہے کہ توُ کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں تم پر اس کی تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ اللہ تمہیں اس بات پر مطلع کرتا۔ پس میں اس رسالت سے پہلے بھی تمہارے درمیان لمبی عمر گزار چکا ہوں، کیا تم عقل نہیں کرتے؟۔ تم جو مجھ پر یہ الزام دے رہے ہو کہ یہ جو مَیں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے یہ غلط ہے، جھوٹ ہے اور قطعاً مَیں خداتعالیٰ کی طرف سے مبعوث نہیں کیا گیا، مَیں دنیاداروں کی طرح اپنی لیڈری کی دکان چمکانے کے لئے (نعوذ باللہ) یہ دعویٰ کر رہا ہوں تاکہ تم لوگ کسی طرح مجھے اپنا سردار تسلیم کر لو یا تنگ آ کر میرے سے شرائط طے کرنے لگ جاؤ۔ تو سن لو کہ ان بکھیڑوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ان دنیا داری کی باتوں سے مجھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر یہ باتیں، یہ چیزیں مجھے چاہئے ہوتیں تو مَیں تمہاری مرضی کی باتیں تمہیں بتاتا جو تمہیں خوش کر دیتیں۔ مجھ پر تم اعتراض کرنے والے نہ ہوتے بلکہ فوراً مجھے وہ مقام دینے والے بن جاتے۔ لیکن مَیں تو تمہیں حق کا وہ پیغام پہنچا رہا ہوں جو خداتعالیٰ نے مجھ پر اتارا ہے۔ اس لئے مجھ سے اس بارہ میں نہ لڑو۔ اگر اللہ یہ پیغام تم تک پہنچانا نہ چاہتا تو مَیں قطعاً تمہیں وہ باتیں نہ کہتا جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھائیں اور مَیں نے تمہیں بتائیں۔ تم مجھے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہو کہ شاید یہ ساری باتیں مَیں نے اپنے پاس سے گھڑ لی ہیں۔ کچھ تو ہوش کرو۔ میں تمہارے درمیان ایک عرصے سے رہ رہا ہوں۔ دو چار سال کا عرصہ نہیں ہے، دس بیس سال کا عرصہ نہیں ہے گو کہ یہ عرصہ بھی کسی کے کردار کو جانچنے کے لئے بہت ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کہا جا سکتا ہے کہ جوانی کی عمر ہے کئی اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ فرمایا کہ میری تو یہ عمر بھی گزر گئی ہے جو جوانی کی عمر ہوتی ہے اور چالیس سال کی پختہ عمر ہو گئی ہے۔ اور یہ تمام عرصہ مَیں نے تمہارے درمیان گزارا ہے۔ یہ تو وہ عمر ہے جس میں اب عمر ڈھلنے کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ میری گزشتہ چالیس سالہ زندگی تمہارے سامنے ہے۔ مَیں نے کبھی بھی کسی بھی معاملے میں جھوٹ تو درکنا ر، حق سے اور سچ سے رتّی بھر بھی انحراف نہیں کیا، ذراسا بھی حق سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اب اس عمر میں کیا مَیں تمہاری سرداری لینے کے لئے خدا پر جھوٹ بولوں گا؟۔

تو یہ ہے وہ شاندار گواہی جو خداتعالیٰ نے وحی کرکے آپؐ کے ذریعے کفار تک پہنچائی، دنیا تک پہنچائی کہ کچھ تو ہوش کے ناخن لو، کیوں تمہاری مت ماری گئی ہے، تمہاری عقل کو کیا ہو گیا ہے۔ آج بھی جو لوگ قرآن کو نہیں مانتے ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کا کام اسلام اور بانی ٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قرآن میں سے تم دکھا رہے ہو اور ہم لوگ تو اس کو مانتے نہیں کہ یہ الہامی کتاب ہے۔ تم نے کہانی بنا کر خود ہی اس کے بارے میں گواہی دے دی۔ تو ایسے لوگوں کو کم از کم حقائق اور واقعات سے ہی سچائی کو پرکھ لینا چاہئے۔

یہ جو آپؐ نے اتنا لمبا عرصہ کفار میں گزارا اور یہ جو اتنا بڑا دعویٰ کفار کے سامنے رکھا کہ تمہارے سامنے میری زندگی ہے اس پر غور کرو۔ اس پر کبھی کفار مکہ نے انگلی نہیں اٹھائی کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، فلاں فلاں موقع پر جھوٹ نہیں بولا تھا؟ یاد کرایا جائے۔ ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس استدلال پر اس دلیل کو ردّ کیا ہو، کوئی اس پہ اعتراض کیا ہو۔ اس کے برعکس آپؐ کو صدوق کہا جاتا تھا۔ اس کی مثالیں ہیں۔ یعنی جھوٹ بولنا تو ایک طرف رہا، صداقت کا ایسا اعلیٰ نمونہ تھے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسے واقعات کی بعض مثالیں مَیں پیش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’انبیاء وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راستبازی کی قوی حجت پیش کرکے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے حضرت خاتم الانبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے {فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ۔ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ} (سورۃ یونس الجزو 11 آیت نمبر 17) یعنی میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افتراء کروں۔ دیکھو مَیں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افتراء ثابت کیا؟ پھر کیا تم کو اتنی سمجھ نہیں یعنی یہ سمجھ کہ جس نے کبھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا وہ اب خد اپر کیوں جھوٹ بولنے لگا۔ غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے‘‘ (یعنی واضح اور ثابت شدہ ہے) ’’کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہو رہی ہے۔ مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اس کتاب میں لکھی جائیں گی، قطع نظر کر کے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انھیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کر ے گا اور کیوں کر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلا اختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں ‘‘۔

(براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 108-107)

(خطبہ جمعہ 11؍ فروری 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2021