• 26 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے(قسط 76)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 76

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 23-29؍ستمبر 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’آپ کی صرف ایک مسکراہٹ دل جیت سکتی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون پہلے گزر چکا ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 23؍ستمبر 2011ء میں صفحہ B-30 پر ہماری ایک خبر ایک تصویر کے ساتھ اس عنوان سے شائع کی ’’رمضان میں چینو کی مسجد میں روحانی باتیں‘‘۔ تصویر میں احباب مسجد میں بیٹھے درس سن رہے ہیں۔ تصویر کے نیچے اخبار نے لکھا کہ ’’یکم اگست سے رمضان شروع ہوا تھا۔ چنانچہ ہر روز مسجد بیت الحمید چینو میں لوگ جمع ہوتے اور رمضان کی عبادات بجا لانے کے ساتھ ساتھ روزانہ امام شمشاد ناصر سے قرآن کریم سے روحانی باتیں بھی سنتے۔‘‘

الانتشار العربی نے اپنے عربی سیکشن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور کی تصویر کے ساتھ اپنی 28؍ستمبر 2011ء کی اشاعت میں صفحہ20 پر ’’صدق اور سچائی کا خلق‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ نفس مضمون وہی ہے جو دوسرے اخبار (الاخبار) کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 30؍ستمبر 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’قوم کا رخ کس طرف ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے اس زمانے میں پریس اور میڈیا کی افادیت کے بارے میں لکھا۔ اس کے بعد انصار عباسی صاحب نے اپنے ایک کالم میں جو انہوں نے ہفت روزہ پاکستان ٹائمز جمعرات 22؍ستمبر 2011ء میں صفحہ5 پر لکھا، کا ایک حصہ درج کیا جس میں وہ لکھتے ہیں:۔ ’’کیا ہم اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بے خوف ہوچکے ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ لکھ کر قوم کو جھنجوڑا ہے۔

اور ایک مولانا کی تقریر کے حوالہ سے ترمذی شریف کی ایک حدیث بھی پیش کی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جب حکمران حکومت کے خزانے کودونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کریں گےامانت کو ہڑپ کیا جائے گا، مالدار لوگ زکوٰۃ چھوڑ دیں گے، علم دنیا کے لئے حاصل کیا جائے گا……… ماؤں کے نافرمان ہوں گے، دوست سے تو اچھا سلوک کریں گے، باپ سے بدسلوکی کریں گے۔قبیلے کا سردار فاسق ہوگا۔ حکومت نکمے انسانوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔ بظاہر ایک دوسرے کا احترام کیا جائے گا اندر شر چھپا ہوگا۔ لوگ ایک دوسرے کے شر سے مسکرا کر ملیں گے، مسجدوں میں لڑائی جھگڑے ہوں گے اور گانے والیاں عام ہوجائیں گی، موسیقی کے آلات عام ہوجائیں گے، شراب پی جائے گی اور ریشم پہنا جائے گا۔ اس امت کا اول آخر کو بُرا بھلا کہے گا (یعنی نئے دور کا مسلمان پرانے دور کے مسلمان کو برا بھلا کہے گا) تو ایسے میں نبی کی امت انتظار کرے، موسم کی بے رحمی کا، ہواؤں کا، سرخ آندھیوں کا، خوفناک موسم کا، زلزلوں کا، زمین میں دھنسائے جانے کا، آسمان سے اللہ کے عذاب کے اترنے کا اور اوپر سے نیچے سے تابڑ توڑ عذاب کے حملوں کا۔‘‘ یہ لکھ کر انہوں نے مزید لکھا ہم اس پر (حدیث کے مضمون پر) پورا اترتے ہیں بلکہ ہم تو شاید اللہ کی نافرمانی میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔

اس کے علاوہ خاکسار نے ہفت روزہ اردو لنک کی 23؍ستمبر 2011ء کی اشاعت صفحہ 5 سے محمود بن عطاء کے ایک مضمون سے بھی اقتباس پیش کیا ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’رمضانی میاں کا رمضان‘‘ انہوں نے وطن عزیز پاکستان میں رمضان کے حوالے سے مسلمانوں کے جوش و خروش کا ذکر کیا اور پھر لکھا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس کے بارے میں ہم پروپیگنڈا تو یہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو مساویانہ حقوق حاصل ہیں یہ صرف کہنے کی حد تک ہے۔ عملاً اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہری دوسرے اور تیسرے درجہ کے شہری ہیں۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والا ایک مرکزی وزیر شہباز بھٹی دارالحکومت میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ قاتل جائے واردات پر پمفلٹ پھینک کر فرار ہوگئے۔ آج تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ عذاب الٰہی کی شکل میں زلزلے، سیلاب، خون خرابے، قانون شکنی، اغواء، اقتصادی بدحالی، طوائف الملوکی، مہنگائی سب اسی عذاب کے شعبے ہیں۔

اس کے بعد کالم نویس رمضان کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ قتل و غارت، خون خرابہ، ٹارگٹ کلنگ، غریبوں اور رشتہ داروں کے حقوق کی پامالی، پولیس اور فوج کے اہل کاروں کے ہاتھوں قتل کا جنون،اغوا برائے تاوان، اغوا برائے زنا بالجبر، پبلک تنصیبات پر حملے کرنے کا کلچر، اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ، چوری، لوٹ مار، ڈکیتی، توہین رسالت کا شرمناک داغ، ناجائز آتشیں اسلحہ اور شراب کی بوتلوں کی برآمد، قسمیں اور لعنتیں۔

انہوں نے میڈیا سے وابستہ شخصیات کے خیال افروز مشاہدات سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ ایک بزرگ نے اسی رمضان میں بڑے درد سے متوجہ ہو کر فرمایا قرآن مجید میں جن جرائم کی وجہ سے یہود پر فرد جرم عائد کی گئی ہے وہ سب جرائم آج مسلمانوں میں موجود ہیں۔ ایک اور اخبار نے اپنے کالموں کے صفحہ پر جو سرخیاں لگائیں وہ بھی خاکسار نے لکھیں مثلاً ’’ہماری قیادت اور مجرمانہ غفلت‘‘، ’’قدرتی آفات اور پاکستان‘‘، ’’حکمران چلتی پھرتی لاشیں ہیں‘‘، ’’ڈینگی سیاست‘‘، ’’سیلاب، سیاست اور سرد مہری‘‘ اور ’’دہشت گردی کا المناک واقعہ۔‘‘

ان کالموں کے بارے میں خاکسار نے الگ مختصر طور پر یہ لکھاکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کی بیماریوں کا ذکر کیا۔ حدیث اوپر درج کی جاچکی ہے۔ وہی امت کی بیماریاں ہیں۔ تو کیا آپ نے صرف بیماریوں کو ہی بتایا یا ان کا کچھ علاج بھی تجویز فرمایا ہے؟ کیا کوئی مریض جب ڈاکٹر کے پاس جائے اور ڈاکٹر اسے بتائے کہ تمہارے اندر یہ یہ بیماریاں پائی جاتی ہیں اور وہ صرف بیماری کی نشاندہی کر کے اسے واپس بھیج دے۔ تو کیا وہ مریض تندرست ہوجائے؟ کبھی نہیں اور نہ ہی ایسا ڈاکٹر، ڈاکٹر کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کے سب سے بڑے حکیم تھے۔ آپ نے مرض کی شناخت بھی کر دی اور مرض نہ صرف پیدا ہوگیا ہے بلکہ لاکھوں اس مرض میں مبتلا ہو کر راہی ملک عدم بھی ہوچکے ہیں۔ حیرت ہے کہ اس علاج کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا تھا۔ اس کا پہلا علاج تو سورۃ الفاتحہ میں ہے۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ۔ یعنی اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا اور ان انعام یافتہ لوگوں کی تشریح اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادی ہے کہ وہ کون ہیں؟ نبی، صدیق، صالح اور شہید۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اسلام صرف نام کا رہ جائے گا۔ قرآن کے صرف الفاظ رہ جائیں گے۔ اس زمانے کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ کیا کوئی مسیحا نہیں ہے جو ان بیماریوں کا علاج کرے؟

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 6-11؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’قوم کا رخ کس طرف ہے‘‘ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم۔ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ نفس مضمون وہی ہے جو پہلے اوپر گذر چکا ہے۔

دنیا انٹرنیشنل نے اپنی اشاعت 30؍ستمبر تا 6؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ15 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’توہین رسالت اور مرتد کی سزا، قرآن و سنت نبوی کی روشنی میں‘‘ مسجد نبوی اور خاکسار کی تصویر کے ساتھ رنگین صفحہ پر شائع کیا۔ یہ مضمون دوبارہ شائع کیا گیا تھا۔ یہ مضمون بھی اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 7 تا 13؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’حج کے آداب اور عید الاضحی‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے تفصیل کے ساتھ یہ بتایا کہ حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے انہیں حج کے لئے ضرورجانا چاہیئے۔ حج کا بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص خدا کے لئے اس گھر کی زیارت کے لئے یہاں آیا اور بے حیائی اور شہوانی باتوں سے بچا اور فسق و فجور میں مبتلا نہ ہوا تو وہ پاک و صاف ہو کر ایسا لوٹتا ہے جیسا کہ وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔

حج زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ زیادہ کی توفیق ملے تو بہت ہی اچھا ہے۔ حج سے واپس آکر انسان کو اپنی زندگی یاد الٰہی، خوف خدا، تقویٰ و طہارت، لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری میں گذارنی چاہیئے۔ نام کا حاجی انسان نہ بنے۔ بلکہ اپنے اعمال سے ثابت کرے کہ حج نے اس کی ذات پر نیک اثر ڈالا ہے۔ حج کے ساتھ قربانی کا بھی تعلق ہے۔ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قربانی متقین کی ہی قبول کی جاتی ہے اور جو قربانی تقویٰ کے معیار پر پوری نہ اترے وہ خواہ مکہ میں کی جائے یا مدینہ میں اس کی قبولیت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور جو تقویٰ کے ساتھ ہوگی۔ خدا اسے ہر جگہ قبول فرمائے گا۔ قرآن کریم نے قربانیوں کے ضمن میں یہ بھی فرمایا ہے کہ قربانیوں کا گوشت اور خون خدا کو نہیں پہنچتا بلکہ تمہارے دل کا تقویٰ خدا تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔ خاکسار نے اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک اقتباس خطبہ الہامیہ سے بھی پیش کیا ہے جس میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حدیثوں میں آیا ہے کہ یہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے قرب کا موجب ہیں۔ اس شخص کے لئے جو قربانی کو اخلاص اور خدا پرستی اور ایمان داری سے ادا کرتا ہے اور یہ قربانیاں شریعت کی بزرگ تر عبادتوں میں سے ہیں۔‘‘ اس کے بعد خاکسار نے ’’عید‘‘ کے معانی بیان کئے اور عید کے موقعہ پر خوشی کیسے منانی چاہیئے۔ کیا اس عید کے موقع پر ہم اس وجہ سے خوش ہیں کہ

  1. حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔یا
  2. اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کی جان بچا لی تھی۔ یا
  3. اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو قربان کر دیا۔ یا
  4. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اسلام کے لئےبہت ساری قربانیاں دیں۔ یا
  5. ہم اس وجہ سے خوش ہیں کہ ہم نے آج گوشت کھانا ہے یا اچھے کھانے کھانے ہیں یا اچھے کپڑے پہننے ہیں؟

میرے خیال میں عید منانے کے لئے یا خوشیاں منانے کے لئے ان میں سے ایک بات بھی درست نہیں ہوگی بلکہ ہم اس بات پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ حضرت ابراہیمؑ سے کیا تیری ذریت دنیا میں پھیلے گی۔ اس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں اور یہ وعدہ ہر سال اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پورا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو ماننے والے آپ پر درود پڑھنے والوں کا گروہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوا اور ہوتا جارہا ہے۔ پس جہاں یہ عید ہم نے منائی ہے یا منانی ہے وہاں اس بات کو نہیں بھولنا کہ ہم نے اس پیغام کو بھی ساری دنیا میں پہنچانا ہے۔ جو پیغام توحید حضرت ابراہیمؑ لائے اور جس کو آگے پہنچانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے بے شمار قربانیاں دیں اور تاوہ پیغام آگے ہی آگے پہنچتا چلا جائے۔

اس کے بعد خاکسار نے قرآنی آیت مع ترجمہ لکھی ہے جس میں حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں کہ میں نے اپنی اولاد کو وادیٔ غیر ذی زرع میں چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ نمازوں کا قیام کریں۔ پس عبادت الٰہی کے قیام کا پیغام بھی اس عید میں مضمر ہے جس کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیئے۔

ایک اور پیغام اس عید سے بچوں کی صحیح تربیت کا بھی ملتا ہے۔ خصوصاً اس مغربی معاشرہ میں جہاں بچوں کے پھسلنے کے امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں بہت ہی سنبھل کر رہنے کی ضرورت ہے جس میں صحیح تربیت اور دعا کا بہت بڑا دخل ہے اور تربیت میں بھی سب سے اول نمبر پر نماز ہے۔ بچوں کو نماز سکھانی چاہئے۔ ترجمہ سکھانا چاہیئے اور انہیں باقاعدہ نمازی بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اس سے انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے اور یہ انسان کو بُرے کاموں سے بے حیائیوں اور فحشاء سے روکتی ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کا بھی قرآن کریم میں اس حوالہ سے مزید ذکر ہے کہ وہ باقاعدگی سے اپنی اولاد اور اہل و عیال کو نماز کا عادی بنانے کے لئے ترغیب دیتے تھے۔ پس جانوروں کی قربانی دینا ہی کافی نہیں۔ بلکہ وہ سبق بھی اس عید سے لینا چاہیئے جس کے لئے یہ عید ہر سال آتی ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 7؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا مضمون خاکسار کی تصویر کے ساتھ بعنوان ’’حج کے آداب اور عید الاضحی‘‘ شائع کیا ہے نفس مضمون وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ٹائمز شکاگو نے اپنی اشاعت 13 تا 19؍اکتوبر 2011ء صفحہ3 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’اے لوگو! ظلم مت کرو، ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا۔‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے لکھا کہ عربی زبان میں ظلم اللیل کے معانی ہیں رات کا تاریک ہونا۔ اندھیرے میں داخل ہونا۔ الظلم کے معانی ہیں کسی چیز کا غلط استعمال یا کسی چیز کو غیر محل رکھنا، شرارت، حق کی کمی وغیرہ۔

ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہے یا مظلوم۔ صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو سمجھ آئی ہے کہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد کریں مگر یہ سمجھ نہیں آئی کہ ظالم کی بھی مدد کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کا ہاتھ ظلم سے روک دو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد جگہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم کو پسند نہیں کرتا۔ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ ظالموں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ہم نے آل فرعون کو غرق کیا وہ ظالم تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا بھی سکھائی ہے۔ اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم میں سے نہ بنا یو۔ حضرت یونس ؑ کی دعا بھی قرآن کریم مذکورہے:۔ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ

ان آیات کے لکھنے کے بعد یہ لکھا کہ اس وقت دنیا میں بہت ظلم ہو رہا ہے ایک دوسرے کا گلا کاٹا جارہا ہے۔ خواتین پر کتے چھوڑکر انہیں بے عزت اور رسوا کیا جارہا ہے۔ (یہ خبر اس وقت دو تین دن پہلے ٹی وی پر آئی تھی) بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک دوسرے کا مال ناحق لوٹا جا رہا ہے۔دیہاتوں میں ایک دوسرے کی زمینوں پر قبضہ کر لینا تو عام سی بات ہے۔

لوڈشیڈنگ کی وجہ سے حکومتی تنصیبات کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ بس سے لوگوں کو نکال کر جان سے مار دیا گیا۔ ہڑتالیں کرنا، ٹائر جلانا، بسوں کو آگ لگانا، توڑ پھوڑ کرنا، جلسے جلوس، ریلیاں، دھرنا مارنا اور راہگیروں کی لوٹ مار عام ہوگئی ہے۔ خاکسار نے یہ لکھ کر بتایا کہ یہ سب کچھ مسلمان کر رہے ہیں اور اسلامی مملکت پاکستان میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ظلم کی یہ داستان شائد لکھنے میں تو آسان ہے مگر جب TV پر یہ خبریں سنی جاتی ہیں تو انسانی بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یقین کریں کہ بعض خبریں تو دیکھی اور سنی بھی نہیں جا سکتیں۔ اس وقت دعا کا سہارا کام آتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ظلم ہے اور قوم کو پھر بھی سمجھ نہیں آرہی اور یہ قوم اپنے آپ کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبیین ہیں کے نام سے منسوب کرتی ہے۔ اب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بیان کرتا ہوں۔

؂شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظلم سے بچو کیوں کہ ظلم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا۔ حرص، بخل اور کینہ سے بچو کیوں کہ ان چیزوں نے پہلوں کو ہلاک کیا۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ کون سا ظلم سب سے بڑا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے کچھ حصہ زمین دبا لے۔ پھر اس زمین کا ایک کنکر بھی جو اس نے لیا ہو گا طوق بن کر قیامت کے روز اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔

(مسند احمد بن حنبل)

اس حدیث میں انذار ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے بھائی بہنوں کا حصہ دبالیتے ہیں اور اس جائیداد میں سے حصہ نہیں دیتے۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کی جس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا ناحق خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا ہوگا پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی یہاں تک کہ اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دیئے جائیں گے اور اس طرح جنت کی بجائے اس شخص کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ یہی شخص دراصل مفلس ہے‘‘۔ پس اس حدیث کا مطلب تو واضح ہے انسان کو نہ ہی ظالم بننا چاہیئے اور نہ ہی ویسا مفلس جو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس وقت وطن عزیز پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ اسے ظالم بھی بنا رہا ہے اور مفلس بھی۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔

خاکسار نے اس سلسلہ میں کچھ اور احادیث بھی بیان کی ہیں اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کا حصہ بھی لکھا ہے اور آخر میں لکھا کہ اگر آپ لوگ ظلموں سے باز نہ آئے تو اس کا بھیانک نتیجہ نکلے گا۔ جیسا کہ اب ہورہا ہے۔ سایۂ خدا ذوالجلال۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 7؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ7 پر ایک مختصر خبر شائع کی ہے جس کا عنوان ہے۔ ’’موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران تعلیم القرآن کلاس کا انعقاد‘‘ کلاس 5 تا 10؍جولائی ہوئی۔ امام شمشاد خصوصی کلاسوں کے پرنسپل تھے۔

کیلی فورنیا۔ جماعت احمدیہ کے نیشنل سیکرٹری تعلیم القرآن منصور احمد اور سیکرٹری تربیت ملک ناصر محمود کے بنائے ہوئے پروگرام کے مطابق ہر سال کی طرح اس سال بھی موسم گرما کی تعطیلات میں قرآنی کلاسز کا انعقاد کیا گیا۔ قرآنی کلاسز کے یہ پروگرام سارے امریکہ میں 1999ء سے ہو رہے ہیں۔

جماعت احمدیہ کی رپورٹ کے مطابق اس سال 8 جماعتوں میں کلاسز کا پروگرام کیا گیا۔ ان جماعتوں میں شکاگو، ڈیٹرائٹ، ہیرس برگ، ہیوسٹن، نیویارک، سی آٹل، واشنگٹن اور لاس اینجلس شامل تھے۔

پریس ریلیز کے مطابق ریجنل مبلغ، سیکرٹری تعلیم القرآن، سیکرٹری تربیت نے پروگراموں کو کامیاب بنانے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ اس ضمن میں جو نصاب مرتب کیا گیا تھا اس میں کلاس کا آغاز نماز تہجد سے ہونا تھا اور اختتام سوال و جواب پر۔ روزانہ پانچ نمازوں کے قیام کے علاوہ درس قرآن، درس حدیث اور درس ملفوظات بھی دیا جاتا رہا۔ مسجد بیت الحمید میں یہ کلاس 5 تا 10؍جولائی کو ہوئی۔ کلاس کے پرنسپل امام سید شمشاد ناصر تھے اور وائس پرنسپل عاصم انصاری صاحب تھے۔ کلاس کی معاونت کے لئے 3 جامعہ کے طلباء بھی کینیڈا سے آئے تھے۔ مذکورہ کلاس میں پڑھائے جانے والے مضامین اور اساتذہ کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ حاضری 120 طلباء پر مشتمل رہی۔ کلاس کی اختتامی تقریب میں ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نے بچوں میں اسناد تقسیم کیں۔

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی