• 18 اپریل, 2024

سگریٹ نوشی

آج کل کے ذرائع آمدورفت اور ذرائع ابلاغ میں اس قدر ترقی ہو چکی ہے کہ جہاں دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے وہاں سفر بھی روز مرہ کے معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم اپنے گھر اور قصبہ میں رہتے ہوئے ان معاشرتی برائیوں سے واقف ہیں جو آج کی دنیا میں نہ صرف عام ہیں بلکہ قانونی طور پر بھی جائز ہیں جن میں سگریٹ نوشی اور شراب جیسی لغویات ہیں۔

دنیا کے تمام ممالک کے محکمہ صحت ان لغویات کو صحت کے لئے مضر قرار دیتے ہوئے اپنے عوام کی بہتری کیلئے اقدامات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ افراد اور نوجوان ہیں جو کم علمی کی وجہ سے یا کسی اشتہار یا کسی دوست کے بہکانے سے ان لغویات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہم سب کا کام یہ ہونا چاہئے کہ ان لغویات سے بچنے کے بارے میں ٹھیک سے راہنمائی حاصل کرکے اس موضوع کو زیر بحث لا کر اپنے ہم عصر بھائیو کی راہنمائی کرنی چاہیئے۔

خاکسار ذیل میں چند اقتباسات اس سلسلے میں پیش کرتے ہوئے اس موضوع کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں۔ تم سنبھل جاؤ۔ تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو۔ ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو۔ انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجہ، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے۔ سو تم اس سے بچو۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہرایک سال ہزارہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کر تے جاتے ہیں اور آخرت کا عذاب الگ ہے۔ پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ۔‘‘

(کشتی نوح، صفحہ88-89)

پھر فرمایا:
’’اے مسلمانو!۔۔۔ تمہارے نبی علیہ السلام تو ہر ایک نشہ سے پاک اور معصوم تھے۔ جیسا کہ وہ فی الحقیقت معصوم ہیں۔ سو تم مسلمان کہلا کر کس کی پیروی کرتے ہو۔ قرآن انجیل کی طرح شراب کو حلال نہیں ٹھہراتا۔ پھر تم کس دستاویز سے شراب کو حلال ٹھہراتے ہو۔ کیا مرنا نہیں ہے۔‘‘

(کشتی نوح صفحہ89 حاشیہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطابات جمعہ میں اس موضوع کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:
سگریٹ نوشی اور یہ چیزیں جو ہیں عموماً ایسی بُری عادتیں ہیں جن کو چھوڑنا بہتر ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ یہ فرمایا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ تمباکو وغیرہ ہوتا تو یقیناً اس سے آپ منع فرماتے۔

(خطبہ جمعہ 25؍مئی 2012ء)

ایسے دوست جن کو سگریٹ پینے کی عادت ہوتی ہے ان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے سگریٹ کی عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے دوسری نشہ آور اشیا بھی استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو ایسے لوگ جو اس طرح بگاڑنے کی کوشش کریں غلط قسم کے بیہودہ اور لغو لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں، ان سے تعلقات ختم کرنے چاہئیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں اور لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم صفحہ359)

ایک دفعہ ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی سے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اشتہار سنایا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: ’’اصل میں ہم اس لئے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نو عمر لڑکے، نوجوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار و مبتلا ہو جاتے ہیں تا وہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیز کے نقصانات سے بچیں‘‘۔ یعنی جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں وہ یہ باتیں سنیں تو اس کے نقصانات سے بچیں۔ فرمایا: ’’اصل میں تمباکو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضا کے واسطے مضر ہے۔ اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے پرہیز ہی اچھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ110)

تو وہ لوگ جو اس لغو عادت میں مبتلا ہیں کوشش کریں کہ اس سے جان چھڑائیں اور والدین خاص طور پر بچوں پر نظر رکھیں کیونکہ آجکل بچوں کو نشوں کی باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے عادت بھی ڈالی جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ ہو جاتا ہے کہ بیچارے بچوں کے برے حال ہو جاتے ہیں۔ آپ یہاں بھی دیکھیں کس قدر لوگ ان نشوں کی وجہ سے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد ان ملکوں میں جن میں آپ رہ رہے ہیں، آپ دیکھیں گے سگریٹ پینے کی وجہ سے حشیش یا دوسرے نشوں میں مبتلا ہو گئی اور اپنے کاموں سے بھی گئے، اپنی ملازمتوں سے بھی گئے، اپنی نوکریوں سے بھی گئے، اپنے کاروباروں سے بھی گئے، اپنے گھروں سے بھی بے گھر ہوئے اور زندگیاں برباد ہوئیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’حدیث میں آیا ہے ومِنْ حُسْنِ الْاِسْلَامِ تَرْکُ مَالَا یَعْنِیْہِ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے۔ اسی طرح پر یہ پان، حقہ زردہ (یعنی تمباکو جو پان میں کھاتے ہیں) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرے شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے۔ افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ طبّی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے ان کو ضائع کر دیتی ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ219)

فرمایا کہ:
’’شراب جو ام الخبائث ہے اسے حلال سمجھا گیا ہے اس سے انسان خشوع و خضوع سے جو کہ اصل جزو اسلام ہے بالکل بے خبر ہو جاتا ہے۔ ایک شخص جو رات دن نشہ میں رہتا ہے ہوش اس کے بجا ہی نہیں ہوتے تو اسے دوسری بدیوں کے ارتکاب میں کیا رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ موقع موقع پر ہر ایک بات مثل، زنا، چوری، قمار بازی وغیرہ کر سکتا ہے۔ ہماری شریعت میں قطعاً اس کو بند کر دیا ہے۔ یہاں تک لکھ دیا ہے کہ یہ شیطان کے عمل سے ہے تاکہ خدا کا تعلق ٹوٹ جاوے۔‘‘

اور یہ تو آجکل کی میڈیکل میں ثابت شدہ ہے کہ شراب ہزاروں دماغ کے سیل اور خلیوں کو نقصان پہنچا دیتی ہے اور آہستہ آہستہ آدمی کی بہت ساری دماغی کمزوریاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 20؍اگست 2004ء)

چیف روگر ریڈمین (Roger Redman) کہتے ہیں کہ مجھے سگریٹ نوشی کی بہت عادت ہے اور ہم لوگ تمباکو کا استعمال کرتے ہیں بلکہ ہمارے قبیلے میں یہ ہے کہ سگریٹ نوشی اور تمباکو کا استعمال فرسٹ نیشن کے لوگوں کا ایک مذہبی رکن ہے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمباکو کا استعمال روحانیت میں ترقی کے لئے خاص عنصر ہے۔ مگر جلسہ سالانہ کے موقع پر جب خلیفۂ وقت نے جماعت کے لوگوں کو یہ کہا کہ سگریٹ نوشی سے اجتناب کرنا ہے۔ تو چیف نے کہا کہ میں نے بھی عہد کیا اور اس بات کا اظہار بھی کیا کہ میں جلسہ کے دنوں میں سگریٹ نوشی سے پرہیز کروں گا اور پھر یہ اپنے وعدے پر قائم بھی رہے۔

(خطبہ جمعہ 10؍اگست 2018ء)

مسلمان ملکوں میں اگر شراب کھلے عام نہیں ملتی، پاکستان وغیرہ میں تو مجھے پتا ہے کہ قانون اب اس کی اجازت نہیں دیتا تو چھپ کر ایسی قسم کی شراب بنائی جاتی ہے جو دیسی قسم کی شراب ہے اور پھر پیتے بھی ہیں اور اس کا نشہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ امیر طبقہ اور اور بہانوں سے اعلیٰ قسم کی شراب کا بھی انتظام کر لیتا ہے۔ پھر یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس کو مَیں نے دیکھا ہے کہ ایسے سیرپ یا دوائیاں، خاص طور پر کھانسی کے سیرپ جن میں الکوحل ملی ہوتی ہے، اُس کو نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے کیونکہ اس میں دوسری دوائیاں بھی ملی ہوتی ہیں۔ پس ایسے معاشرے میں بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اپنی قوتِ ارادی سے ان برائیوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔

آجکل یہاں یورپین ملکوں میں بھی علاوہ ایسے نشوں کے جو زیادہ خطر ناک ہیں، شیشے کے نام سے بھی ریسٹورانوں میں، خاص طور پر مسلمان ریسٹورانوں میں نشہ ملتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں حقّے کے نام سے نشہ کیا جاتاہے۔ وہ خاص قسم کا حقّہ ہے اور مجھے پتا لگا ہے کہ یہاں ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ شیشہ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں نشہ نہیں ہے یا کبھی کبھی استعمال کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی حرج نہیں ہے۔

یاد رکھیں کہ یہ کبھی کبھی کا جو استعمال ہے ایک وقت آئے گا جب آپ بڑے نشوں میں ملوث ہو جائیں گے اور پھر اس سے پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

پس ابھی سے اپنی قوتِ ارادی سے کام لینا ہو گا اور اس برائی سے چھٹکارا پانا ہو گا اور اس کے لئے اپنے ایمان کو دیکھیں۔ ایمان کی گرمی ہی قوتِ ارادی پیدا کر سکتی ہے جو فوری طور پر بڑے فیصلے کرواتی ہے جیسا کہ صحابہ کے نمونے میں ہم نے دیکھا، ورنہ قانون تو ان میں روکیں نہیں ڈال سکتے۔ جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں قانون بھی ہے، ملتی بھی نہیں لیکن پھر بھی لوگ پیتے ہیں اور انتظام بھی کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کئی طرح کے طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں ایک زمانے میں کھلے عام شراب کی ممانعت کی کوشش ہوئی تو اس کے لئے لوگوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور سپرٹ (spirit) پینا شروع کر دیا اور سپرٹ (spirit) پینے کے نقصانات بہت زیادہ ہیں تو اس کی وجہ سے لوگ مرنے بھی لگے۔ حضرت مصلح موعودنے لکھا ہے کیونکہ ایمان نہیں تھا اس لئے دنیاوی قانون کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ نشے کے ہاتھوں ایسے مجبور ہوئے کہ سپرٹ پی کر اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتے تھے۔ حکومت نے پھر قانون بنایا کہ اگر ڈاکٹر اجازت دیں، بعض اسباب ایسے ہوں جو اس کو (justify) کرتے ہوں تو پھر شراب ملے گی اور ڈاکٹروں کا اجازت نامہ بھی بعض وجوہات کی وجہ سے تھا۔ تو اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ ہزاروں ڈاکٹروں نے اپنی آمدنیاں بڑھانے کے لئے غلط سرٹیفکیٹ جاری کرنے شروع کر دئیے۔ تو ایسے ڈاکٹر جن کی پریکٹس نہیں چلتی تھی اُن کی اس طرح آمدنی شروع ہو گئی کہ شراب پینے کے سرٹیفکیٹ دے دئیے۔ آخر ایک وقت ایسا آیا کہ قانون کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور آہستہ آہستہ اب ہر جگہ عمر کی پابندی کے ساتھ شراب ملتی ہے۔ کہیں یہ عمر اکیس سال ہے، کہیں اٹھارہ سال ہے اور کہیں کہتے ہیں کہ اگر بڑا ساتھ ہو تو پندرہ سولہ سال، سترہ سال کے بچے بھی بعض خاص قسم کی شرابیں پی سکتے ہیں۔ پس اپنے قانون کی بے بسی پر پردہ ڈالنے کے یہ بہانے ہیں۔ جوں جوں ترقی یافتہ ہو رہے ہیں برائیوں کی اجازت کے قانون پاس ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ برائیوں کو روک نہیں سکتے تو قانون میں نرمی کر دیتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے احکامات میں جو برائی ہے وہ ہمیشہ کے لئے برائی ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری مرضی کا پابندنہیں بلکہ ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہونا ہو گا اور یہ پابندی اُس وقت پیدا ہو گی جب ہماری ایمانی حالت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو گی۔

(خطبہ جمعہ 17؍جنوری 2014ء)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے پیاروں کو سگریٹ نوشی اور شراب جیسی مضرصحت اور بری عادت سے محفوظ رکھے۔ آمین

(شیراز احمد۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

برکینا فاسو سے جلسہ قادیان کا آنکھوں دیکھا حال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2023