• 25 اپریل, 2024

شانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم

جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اُس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا۔ بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی اس لئے قدرت کی تجلّیات کا پورا اور کامل حصّہ اُس کو ملا۔ اور وہ خاتم الانبیاء بنے۔ مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتم ہے بجُز اُس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجُزاُس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمتی ہونا لازمی ہے۔ اور اُس کی ہمّت اور ہمدردی نے اُمّت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا۔اور اُن پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا۔ ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیضِ وحی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اُمتی نہ ہو اُس پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو سو خدا نے اِن معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا۔ لہٰذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا اُمتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے مگر ظلّی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیضِ محمدیؐ سے وحی پاناوہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفتِ الٰہیہ جو مدارِ نجات ہے مفقود نہ ہو جائے۔

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 29تا30)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2021