• 24 اپریل, 2024

تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔(حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر اس عاشقِ صادق کے عشقِ رسول میں فنا ہونے اور دلی جذبات کے اظہار کا ایک اور نمونہ بھی دیکھیں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’مَیں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دُنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اُس کو دُنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اِس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مُرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی۔ زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اُس کے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُس وقت تک ہم مُنور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں‘‘۔

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد22۔ صفحہ119-118)

پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:۔ ’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمردنبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مُرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جس کے زیرِ سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی‘‘۔

(سراج منیر۔ روحانی خزائن۔ جلد12۔ صفحہ82)

پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کُل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے، سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، ہرگز نہ کر سکتے۔ اُن میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی کو ملی تھی۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذاللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا۔ مَیں نبیوں کی عزّت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں۔ لیکن نبی کریمؐ کی فضلیت کُل انبیاء پر میرے ایمان کا جزوِ اعظم ہے اور میرے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔ یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں۔ بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتاتھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے‘‘۔

(ملفوظات۔ جلد اول۔ صفحہ 420۔ مطبوعہ ربوہ)

آپ فرماتے ہیں:
’’نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو۔ تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی۔ بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اُس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے‘‘۔

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ14-13)

پھر آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کہ آپؐ کییہ زندگی کس طرح کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ عجیب بات ہے کہ دنیا ختم ہونے کو ہے مگر اس کامل نبی کے فیضان کی شعاعیں اب تک ختم نہیں ہوئیں۔ اگر خدا کا کلام قرآنِ شریف مانع نہ ہوتا’’، (یعنی اس کی وجہ سے کوئی روک نہ ہوتی) ‘‘تو فقط یہی نبی تھا جس کی نسبت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اب تک مع جسمِ عنصری زندہ آسمان پر موجودہے کیونکہ ہم اس کی زندگی کے صریح آثار پاتے ہیں۔ اس کا دین زندہ ہے۔ اس کی پیروی کرنے والا زندہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ذریعہ سے زندہ خدا مل جاتا ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ خدا اُس سے اور اُس کے دین سے اور اُس کے محب سے محبت کرتا ہے۔ اور یاد رہے کہ درحقیقت وہ زندہ ہے اور آسمان پرسب سے اُس کا مقام برتر ہے۔ لیکن یہ جسمِ عنصری جو فانی ہے یہ نہیں ہے بلکہ ایک اور نورانی جسم کے ساتھ جو لازوال ہے اپنے خدائے مقتدر کے پاس آسمان پر ہے‘‘۔

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد 22۔ صفحہ 118-119 حاشیہ)

(خطبہ جمعہ 21؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2021