• 20 اپریل, 2024

دوست رمضان کے عہدکو یاد رکھیں یہ مہینہ اصلاح نفس کاخاص مہینہ ہے

تبرکات

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ

بعض گزشتہ سالوں میں یہ خاکسار احباب جماعت کی خدمت میں یہ تحریک کرتا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کے مہینہ میں اپنی کسی کمزوری کے متعلق دل میں خدا سے عہد کیا کریں کہ وہ آئندہ اس کمزوری سے ہمیشہ مجتنب رہیں گے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ارشاد بڑی حکمت پرمبنی ہے ۔کیونکہ اول تو انسان کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ ہی اپنے نفس کا محاسبہ کر کے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا رہے اور اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک خدا سے قریب تر ہوتا جائے۔ اس کے علاوہ رمضان کا مہینہ اپنے خاص روحانی ماحول اورنماز روزه اور نوافل اور تلاوت قرآن مجید اور ذکر الٰہی اورصدقہ و خیرات کی وجہ سے اس قسم کے محاسبہ اور ترک منہیات کے ساتھ مخصوص مناسبت رکھتا ہے اور اس مشہورمثال کے مطابق کہ لوہا اسی وقت اچھی طرح کُوٹا جاسکتاہے جب کہ وہ گرم اور نرم ہو۔ رمضان کے مہینہ کو اصلاح نفس کے ساتھ خاص جوڑہے پسں ہمارے بھائی اوربہنوں کو چاہئے کہ وہ موجودہ رمضان میں بھی اس زرّیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کمزوریوںکو دُور کرنے کی کوشش کریں اور اپنی کسی خاص کمزوری کو سامنے رکھ کر دل میں خدا سے عہد کریں کہ وہ ان شاء اللہ آئندہ ہمیشہ اس کمزوری سے الگ رہیں گے اور کبھی اس کے مرتکب نہیں ہوں گے اس عہد کو کسی پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ظاہر کرنا عام حالات میں اس کی ستاری کے خلاف ہےاس لئے صرف دل میں عہد کرنا کافی ہے مگر عہدایسا ہو کہ ’’جان جائے مگر بات بن جائے‘‘ کا مصداق بن جائے کیونکہ کان عہد اللّٰه مسئولا یعنی خدا کے ساتھ کئے ہوئے عہد کےمتعلق قیامت کے دن پُرسش ہوگی۔

اس عہد کے لئے ہر انسان اپنے نفس کے محاسبہ کے ذریعہ اپنے واسطے خود کسی مناسب کمزوری کا انتخاب کر سکتا ہے مگر بہتر ہوگا کہ ایسی کمزوری کو چنا جائے جو دوسروں کے لئے ٹھوکر یا خراب نمونہ کا موجب بن رہی ہواور جماعت کی بدنامی کا باعث ہو لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو توپھر خواہ کوئی کمزوری ہو جسے انسان اپنے حالات کے ماتحت جلد تر ترک کرنے کی طاقت رکھتا ہو اس کے متعلق عہدکیا جا سکتا ہے اور یاد رکھنا چاہئے کہ ایک کمزوری کا ترک کرنا اسی طرح دوسری کمزوریوں کو ترک کرنے کی طاقت پیدا کرتا ہے جس طرح ایک نیکی کا اختیار کرنا دوسری نیکیوں کا رستہ کھولتا ہے۔ ذیل میں مثال کے طور پرچند معروف کمزوریوں کا ذکر کیا جاتا ہے تا دوستوں کو انتخاب میں سہولت پیدا ہو۔

1۔ سب سے اول نمبر پر نماز میں سستی ہے۔اور نماز میں سستی کے اند ر با جماعت نماز میں کوتاہی نماز کوصرف ٹھونگیں مار کر پڑھنا اور سنوارکر ادا نہ کرنا اور اس کی ظاہری اور باطنی شرائط سےغفلت برتنا سب شامل ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اعمال صالحہ میں سے سب سے پہلے نماز کے متعلق پرسش ہوگی اور یہ بھی حدیث میں آتا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے جس میں نماز پڑھنے والا گویا خدا سے باتیں کرتا ہے پسں نماز نہ پڑھنا یا نماز میں سستی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

2۔ جماعتی چندوں میں سستی بھی بڑی کمزوریوں میں سے ہے جس میں شرح کے مطابق چندہ نہ دینا یا کسی مدمیں تو چندہ دینا اورکسی میں غفلت اختیار کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ اس زمانہ میں جوتبلیغ اور اشاعت اسلام کا مخصوص زمانہ ہے۔ چنده اول درجہ کی نیکیوں میں شامل ہے اورمیرا تجربہ ہے کہ اس کی وجہ سے مال ہرگز گھٹتا نہیں بلکہ مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کے چندے اور تحریک جدید کے چندے اور وصیت کا چنده اورجلسہ سالانہ کا چنده اورنئی وقف جدید کا چندہ وغیرہ سب نہایت اہم ا در نہایت مبارک چندے ہیں اور لاریب یہ تمام چندے مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ میں شامل ہیں جس کے متعلق قرآن مجید نے اپنے شروع میں ہی بہت تاکید فرمائی ہے۔

3۔لین دین اور تجارت میں بددیانتی کی بدی بھی اس زمانہ میں بہت بھیانک صورت اختیار کرگئی ہے جس کا نہ صرف انسان کے اخلاق پر بلکہ مجموعی نیک نامی بھی بھاری اثر پڑتا ہے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ مَنْ غَشَّنَا، فَلَيْسَ مِنَّا یعنی جو شخص دوسروں کے ساتھ دھوکا کرتا اور خیانت کا رویہ اختیار کرتا ہے اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہر سچے مسلمان کو ڈرانے کے لئے کافی ہو نا چا ہے۔ قرآن مجید نے بھی ایسے لوگوں کے لئے جو دھوکہ کرتے ہیں اور دوسروں کا حق مارتے ہیں ویل یعنی ہلاکت کی تہدید فرمائی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنے کی عادت اورسودخوری بھی اسی ذیل میں آتی ہے سود کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ سودلینے والا خدا تعالیٰ سے جنگ کرنے کے لئےتیار ہووے اور جھوٹ تو گناہ کے انڈے پیدا کرنے کی مشین ہے۔

4۔رشوت بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ ہر احمدی کا دامن اس لعنت سے اس طرح پاک ہونا چاہئے جس طرح دھوبی کے گھر سے واپس آیا ہواکپڑا میل کچیل سے پاک ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ کِلَا ھُمَا فِی النَّارِ یعنی رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں آگ میں ہیں کیونکہ اس سے قوم کے اخلاق تباہ ہوتے ہیں اور ملک ذلیل ہوجاتا ہے میں یہ باتیں صرف مثال کے طور پر لکھ رہا ہوں ورنہ میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا کے فضل سے احمدیہ جماعت کی بھاری اکثریت ان کمزوریوں سے پاک ہے۔

5۔شراب نوشی بھی جسے ام الخبائث (یعنی تمام بدیوں کی ماں کہا گیا ہے اس زمانے کے مسلمانوں میں عام ہورہی ہے اور گومیں یقین رکھتا ہوں کہ احباب جماعت خدا کے فضل سے اس ناپا ک عادت سے محفوظ ہیں لیکن آج کل یہ بدی تعلیم یافتہ طبقہ میں اور خصوصاً مغرب زدہ لوگوں میں ایسی عام ہو رہی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کابعض خام طبع نوجوان اور خصوصاً فوجی نوجوان اس کمزوری میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ خود تو شراب سے کنارہ کش رہیں لیکن اپنی دعوتوں میں دوسروں کو شراب پلا دیا کریں حالانکہ یہ فعل بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے سراسر خلاف ہے۔ اسی طرح جوا بھی شراب کی طرح بہت مخرب اخلاق بدی ہے۔ قرآن مجید نے اسے شراب کے ذکر کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے۔ آج کل تاش کے کھیل میں جوا بازی یا گھوڑے دوڑ وغیرہ میں جوئے کی شرطیں لگانا عام ہورہا ہے۔

6۔بے پردگی کا مرض آج کل کے مسلمانوں میں عام ہے اور خصوصاً پاکستان بننے کے بعد یہ کمزوری بہت بڑھ گئی ہے اورفیشن کی اتباع میں اپنی بیویوں کو بے پرد کر کے مردوں کی مجلسوں میں لانے اور بےحجابانہ کھلے پھرانے اور قرآنی ارشاد وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ کو پس پشت ڈالنے کا مرض وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اسلام ہرگز نہیں کہتا کہ عورتیں گھروں میں قید رہیں یا یہ کہ وہ تعلیم نہ پائیں۔ یا یہ کہ وہ قومی زندگی میں حصہ نہ لیں بلکہ وہ اس معاملے میں بعض دانشمندانہ حدبندیاں لگاتا ہے جو مرد اور عورتوں دونوں کے اخلاق کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں ۔پسں ہمارے احمدی نوجوانوں کو عیسائیوںکی اندھی تقلید اور دوسرےمسلمانوں کی نقالی سے بچتے ہوئے اس معاملے میں بہت محتاط رہنا چاہئے۔ اسلام کی ابتدائی زمانہ میں مسلمان عورتیں مسنون پردہ بھی کرتی تھیں اور قومی زندگی میں حصہ بھی لیتی تھیں اور بعض عورتوں نے بڑی نمایاں خدمات انجام دی ہیں میں احمدیت کی غیور بیٹیوں سے بھی امید رکھتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں اپنے خاوندوں اور باپوں پر اچھا اثر ڈالیں گی۔

7۔ اسلام بے شک انسان کی ذاتی اور خاندانی اور قومی ضرورتوں کے ماتحت تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے مگر ساتھ ہی سخت تاکید فرماتا ہے کہ جو شخص دوسری شادی کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ پورے پورے عدل وانصاف سے کام لے اور سب بیویوں کے درمیان اپنے وقت اور مال اور اپنی ظاہری توجہ کو اس طرح بانٹے کہ انصاف کا ترازو بالکل برابر رہے مگر آجکل بعض لوگ دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کو کالمعلقہ یعنی لٹکا ہوا چھوڑ دیتے ہیں جو نہ تو صحیح معنے میں خاوند کی بیوی سمجھی جا سکتی ہے اور نہ وہ اپنے لئے کوئی اور راستہ اختیار کرنے کے لئے آزاد ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایسے لوگ حشر کے میدان میں اس طرح اُٹھیں گے کہ ان کا نصف دھڑ مفلوج ہو گا۔

8۔ ماں باپ کی خدمت میں غفلت برتنا بھی اس زمانہ کی ایک عام کمزوری ہے۔ خصوصاً شادی کے بعد کئی نوجوان اپنے والدین کی خدمت بلکہ ان کے واجبی ادب تک میں کمزوری دکھانے لگتے ہیں حالانکہ اسلام نے شرک کے بعد حقوق والدین کو دوسرے نمبر کا گناہ قرار دیا ہے۔قرآن مجید نے کیا عجیب دعا سکھائی ہے کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ یعنی اے خدا تو میرے ماں باپ پر اسی طرح رحم فرما جس طرح کہ انہوں نے میرے بچپن میں مجھے رحم اور شفقت کے ساتھ پالا۔ اس دعا میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ جس طرح تمہارے ماں باپ نے تمہیں تمہاری کمزوری کے زمانہ میں اپنے پردوں کے نیچے رکھ کر پالا تھا اسی طرح ان کے بڑھاپے میں تم انہیں اپنے پروں کے نیچے رکھو۔

9۔ مردوں کے لئے یہ خاص حکم ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خیرکم خیرکم لاهله یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے اور عورتوں کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کی پوری طرح وفادار اور خدمت گزار رہیں حتٰی کہ آنحضرت صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ بیوی خاوند کو سجدہ کرے۔یہ معمولی باتیں نہیں بلکہ سماجی بہبود اور خانگی امن کے لئے گویا ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

10۔ ہمسایوں کے ساتھ سلوک کا بھی اسلام میں خاص حکم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھےجبریل علیہ السلام نے ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنےکی اس طرح بار بار تاکید کی ہے کہ مجھے گمان گزرا کہ شاید ہمسایہ کو انسان کا وارث ہی بنا دیا جائے گا۔ دراصل انسان کے اخلاق کا حقیقی ثبوت اس سلوک سے ملتا ہے جو وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ کرتا ہے اور لازماً ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی ایک بہت بڑی بدی ہے۔

11۔ جماعتی انتظام کےماتحت اپنے مقامی امیروں کے ساتھ عدم تعاون اور تفرقہ پیدا کرنے کی عادت بھی بڑی ناپاک بدیوں میں سے ہے جو نہ صرف جماعتی تنظم کو تباہ کرنے والی بلکہ جماعت کو بدنام کرنے والی اور جماعتی رعب کو مٹانے والی اور جماعت کو اتحاد کی برکتوں سے محروم کرنے والی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق تاکید فرمائی ہے کہ بارہا فرماتے تھے کہ اگر تمہارے خیال میں تمہارا کوئی امیر اپنا حق تو تم سے چھینتا ہے مگر تمہارا حق تمہیں دینے کو تیار نہیں تو پھر بھی تم اس کی اطاعت کرو اور اپنے حق کے لئے خدا کی طرف دیکھو۔ نیز فرماتے تھے مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی ا لنَّار یعنی جو شخص جماعت میں تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ آگ میں ڈالا جائے گا۔

12۔ اس زمانہ میں تمباکو نوشی میں ایک عالمگیر کمزوری سی بن گئی ہے اورغالباً ہماری جماعت میں بھی کافی پائی جاتی ہے۔ اس مرض میں منہ کی بدبو اور روپے کے نقصان اور وقت کے ضیاع اور سرطان یعنی کینسر وغیرہ کی امراض کو دعوت دینے کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ بعض کرسی نشین فلسفی اس سے طبیعت کا وقتی سکون حاصل ہونے کے مدعی بنتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایاکرتے تھے کہ مجھے اس چیز سے طبعی نفرت ہے اور فرماتے تھے کہ اگر تمباکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ آپؐ اسے منع فرماتے۔ پس دوستوں کو اس کے ترک کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ لیکن اگر کسی شخص کے لئے لمبی عادت کی وجہ سے فوری ترک ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنی احتیاط تو رکھی جائے کہ دوسروں کے سامنے تمباکو نوشی سے پرہیز کیا جائے تاکہ ان کی یہ کمزوری اپنے تک محدود رہے اور ان کی اولاد یا دوسرے عزیزوں اور دوستوں میں سرایت نہ کر نے پائے۔

13۔ بالآخر اس زمانہ میں سینما دیکھنے کی عادت بھی ایک وبا کی صورت اختیار کرکے لاکھوں انسانوں کی زندگی کو تباہ کر رہی ہے اور گندی اور فحش فلموں اورخلاف اخلاق مناظر کو دیکھنے کے نتیجہ میں ان کے دل و دماغ میں گویا گھن لگ گیا ہے اور سینما کی ناپاک کشش نے خام طبیعت کے نوجوانوں کو مختلف انواع کے جرائم کی طرف بھی مائل کر رکھا ہے۔ ہماری جماعت میں سینما جانا منع ہے مگر سنا جاتا ہے کہ بعض بے اصول احمدی بھی کبھی کبھی اس کمزوری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی خالصۃً علمی یا طبی یا تاریخی یا جغرافیائی یا جنگی فلم ہوتی جو الف سے لے کر ی تک گندے مناظر سے پاک ہوتی تو لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے تھے مگر موجودہ صورت میں جو فلمیں بظاہر اچھی سمجھی جاتی ہیں ان میں بھی دودھ کے گلاس میں چند قطرے پیشاب کے بھی ملے ہوتے ہیں۔ پس بہرحال ان سے اجتناب لازم ہے۔

یہ چند کمزوریاں میں نے صرف مثال کے طور پر شمار کی ہیں ورنہ کمزوریاں تو بے شمار ہیں مثلاً بدنظری، غیبت، گالی گلوچ کی عادت، فحش گوئی، فحش اور گندے رسالے پڑھنا، بیکاری میں وقت گزارنا وغیرہ وغیرہ۔ ہر شخص اپنے حالات کا جائزہ لے کر اپنے متعلق خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اگر وہ ساری بدیاں نہیں چھوڑ سکتا تو کم از کم اسے پہلے کس بدی کو ترک کرنا چاہئے؟ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک منشاء کے مطابق احباب جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ا س رمضان میں اپنی کسی نہ کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر اسے ترک کرنے کا عہد کریں اور پھر خدا سے نصرت چاہتے ہوئے اس بدی سے ا س طرح الگ رہیں جس طرح کہ صاحب عزم مومنوں کا شیوہ ہوتا ہے تاکہ ان کا رمضان ٹھوس اور معین نتیجہ پیدا کرنے والا ثابت ہو جیسا کہ میں نے کہا ہےاس عہد کوکسی پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہمارا خدا ستار ہے اور ستاری کو پسند کرتا ہے مگر تفصیل ظاہر کرنے کے بغیر بزرگوں اور دوستوں سے دعا کی تحریک کرنے میں حرج نہیں کیونکہ مومن ایک دوسرے کے لئے سہارا ہوتے ہیں۔ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۔ وَعَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

یہ خاکسار بھی اپنی کمزوریوں اور فروگزاشتوں کے لئے احباب کرام کی مخلصانہ دعاؤں کا طالب ہے۔
وَلاَ حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَظِیْمِ۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔


پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 24 ۔اپریل2020 ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اپریل 2020