• 25 اپریل, 2024

ذکر الہٰی شیطان کے خلاف پناہ گاہ اور قرب الہٰی کا ذریعہ ہے

سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

اگر ہماری کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان میں قبولیت دعا اور اپنے قرب کے نظارے دکھائے تو یہ اس بات کا احساس دلانے کے لئے ہیں اور یہ ہمیں اس طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں کہ میں نے جو قرب تمہیں عطا کیا ہے اسے مستقل قائم رکھنے کی کوشش کرنا۔ اللہ تعالیٰ پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ صرف رمضان کے مہینہ میں ہی قریب آئے گا یا کوئی شخص کوئی عمل کرے یا نہ کرے اس نے ضرور رمضان کے مہینہ میں ہی اسے قرب عطا کرنا ہے۔ یہ مہینہ یا یہ دن جو اس نے خاص کئے ہیں تو یہ توجہ دلانے کے لئے کئے ہیں کیونکہ جب جماعتی طور پر اس طرف توجہ ہوتی ہے تو کمزور بھی اس طرف توجہ کرتے ہیں ورنہ اس کا یہ اعلان ہر وقت کے لئے ہے کہ ’’اِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘۔ کہ میں تو تمہارے ہر وقت قریب ہوں۔ پس آؤ اور میرے قرب سے فیض اٹھاتے رہو۔ رمضان میں کیونکہ تم جماعتی رنگ اور ایک کوشش کے ساتھ میرے قریب آنے اور مجھ سے مانگنے کی کوشش کرتے ہو اس لئے میں اپنے خاص احسان کے تحت اپنی برکات میں اضافہ کر دیتا ہوں۔ ورنہ دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی قربت کے حصول کا ذریعہ بتاتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا ربّ رات کے درمیانی حصہ میں بندے کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ فرمایا پس اگر تم سے ہو سکے تو اس گھڑی تم اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے بن جاؤ یا اگر بن سکو تو ضرور بنو۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب منہ حدیث 3579)

پس رمضان کے دنوں میں بہت سے لوگوں کو نفل پڑھنے کی جو عادت پڑی ہے اگر اس میں وہ باقاعدگی اختیار کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے وہ دعا بھی کریں اور رات کو پختہ ارادہ کر کے سوئیں تو اللہ تعالیٰ کی اس قربت سے ہمیشہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا قرب ہو تو انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں اور اس کے حصار میں ہوتا ہے اور یہ قرب رات کی دعاؤں کے ساتھ دن کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادات سے حاصل ہوتا ہے۔

آنحضرت ﷺ نے ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بڑے تنبیہ والے الفاظ میں فرمایا کہ ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات حدیث 6407)

پس یہ زندگی کے سامان تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے سارا سال ہی رکھے ہیں، قربت کے سامان تو سارا سال کیلئے رکھے ہیں۔ قبولیت دعا کے سامان تو ہر وقت کیلئے مہیا فرمائے ہیں۔ اپنے آپ کو صرف چند دنوں تک محدود کر کے باقی دنوں میں خدا تعالیٰ کی بات کی طرف توجہ نہ دینا انسان کو مردہ کر دیتا ہے۔ اگر ہم نے حقیقی زندگی حاصل کرنی ہے تو پھر سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت ﷺ نے تو ایک جگہ تاکیداً اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسے یاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ کو زیادہ یاد کرو اور ذکر کی مثال ایسی سمجھو کہ جیسے کسی آدمی کا اس کے دشمن نہایت تیزی کے ساتھ پیچھا کر رہے ہوں یہاں تک کہ اس آدمی نے بھاگ کر ایک مضبوط قلعہ میں پناہ لی اور دشمن کے ہاتھ لگنے سے بچ گیا۔ فرمایا کہ اسی طرح بندہ شیطان سے نجات نہیں پا سکتا مگر اللہ کی یاد کے ساتھ۔

(سنن الترمذی ابواب الامثال حدیث 2863)

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے حصار میں صرف خاص دنوں میں ہی نہیں رکھا بلکہ اس کا اِنِّی قَرِیْبٌ (البقرہ:187) کا اعلان ہر وقت اور ہر جگہ ہے۔ اس کی مضبوط پناہ گاہیں ہر جگہ موجود ہیں اور ہر وقت موجود ہیں اور ہر وقت مومن کو پناہ دینے کے لئے ان کے دروازے کھلے ہیں اور شیطان کو روکنے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو شیطان سے بچانے کیلئے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے مستعد حفاظت کرنے والے محافظ ان جگہوں پر کھڑے ہیں۔ اگر انسان ہی اپنی بے عقلی سے کام لیتے ہوئے اپنے دشمن سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی پناہ گاہ کی طرف دوڑنے کی بجائے خطرناک راستوں کی طرف چلنا شروع کر دے تو پھر یہ انسان کا اپنا قصور ہے اور اس کی بے وقوفی کی، کم عقلی کی انتہا ہے۔ پس رمضان میں جس محفوظ حصار میں آنے اور جس مضبوط قلعہ میں آنے کی کوشش کی ہے اور پناہ لی ہے ہمارا کام یہ ہے کہ اب اس پناہ میں رہنے کیلئے تمام احتیاطوں کو استعمال کریں۔ یہ نہ ہو کہ ہماری کسی بے احتیاطی کی وجہ سے، لاپرواہی کی وجہ سے ہم قلعہ سے باہر نکل کر اپنے بدترین دشمن کے ہاتھ لگ جائیں۔

(خطبہ جمعہ 30جون 2017ء)


پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 24 ۔اپریل2020 ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اپریل 2020