• 25 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 22؍اپریل 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍اپریل 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خطّ وخال ہیں
خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیاہے، چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰی قرآن شریف کا لفظ ہے، یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ر وحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کےبعد ارشاد فرمایا۔آج کل ہم رمضان کے مہینہ سے گزر رہے ہیں اور تقریبًا دوعشرےختم ہو گئے، الله تعالیٰ کے فضل سےہر مؤمن اِس مہینہ میں یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اِس مہینہ کے فیض سے حصہ لے۔

رمضان کے فیض سے ہم تبھی حصہ پا سکیں گے

الله تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت کےحکم میں شروع میں ہی روزہ کا یہ مقصد بیان فرمایا ہے کہ روزے تم پر اِس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ پس روزوں اور رمضان کے فیض سے ہم تبھی حصہ پا سکیں گے جب ہم روزوں کے ساتھ اپنے تقویٰ کے معیار بھی بلند کرنے والے ہوں گے، ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کے لئے الله تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں گے۔

آنحضرت ؐنے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے

کیا صرف نام کا روزہ رکھنا ہی ہمارے لئے کافی ہے؟ سحری اور افطاری کرنا ہی کافی ہے؟ کیا ہمارا اتنا کام ہی ہمیں روزہ کی ڈھال کے پیچھے لے آئے گا کہ ہم نے سحری اور افطاری کر لی؟ نہیں! بلکہ اِس کے لوازمات کو بھی دیکھنا ہو گا اور بنیادی مقصد جوالله تعالیٰ نے بتایا ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ وہ یہ ہے کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ پس اگر ہم نے اپنے روزوں کو، اپنے رمضان کو وہ روزے اور رمضان بنانا ہے جو الله تعالیٰ کی خاطر ہو، الله تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو، جس کا اجر خود الله تعالیٰ بنتا ہو تو ہمیں پھر اُسے اُس معیار پر لانا ہو گا جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔

پس ہمارا فرض ہے

ہم اپنے آپ کو مؤمن کہتے ہیں ، مسلمان کہتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرتؐ کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئےآپؐ پر اپنے ایمان کو کامل کرتے ہوئے اِس بات کو بھی مانا ہے کہ آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق جس مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ حضرت مرز اغلام احمد قادیانی علیہ السلام کے وجود میں آ چکا ہے اور اب دین اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام الله تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق اِس مسیح و مہدی کے ہاتھ سے ہی ہونا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ اپنے اندر اسلام کی حقیقی روح کو قائم رکھنے کے لئے مسیح موعود ؑ سے ہی رہنمائی لیں۔

تو پھر سنو! ایمان کا پہلا مرحلہ یہ ہے
کہ انسان تقویٰ اختیار کرے

چنانچہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ تقویٰ کے متعلق آپؑ کیا ارشاد فرماتے ہیں تو اِس مضمون سے بھی ہمیں آگاہی ہوتی ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟ جیساکہ مَیں نے کہا کہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اورہم ایمان لانے والوں میں شامل ہیں تو حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں تو پھر سنو کہ ایمان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے۔

اور پھر فرمایا کہ تقویٰ کیا ہے؟

تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا۔ اب اگر ہم جائزہ لیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں، ہمیں اپنے جائزے سے ہی پتا چل جائے گا کہ کیا ہم تقویٰ کا حق ادا کرتے ہوئے حقوق الله کی ادائیگی کر رہے ہیں، کیا ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے الله تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کر رہے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا! یہ بات کہ تقویٰ کیا ہے اُس وقت تک پتا نہیں چل سکتی جب تک اِن باتوں کا مکمل علم نہ ہو۔ علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ بغیر علم کےکوئی چیز حاصل ہی نہیں ہو سکتی، اُس کو آدمی پا ہی نہیں سکتا۔

اِس کے لئے بار بار قرآن شریف کو پڑھو

آپؑ نے فرمایا! یہ علم حاصل کرنے کے لئے کہ کیا الله تعالیٰ کے حق ہیں ، کیا بندوں کے حق ہیں، کن باتوں سے الله تعالیٰ نے روکا ہے، کن باتوں کے کرنے کا الله تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اِس کے لئے بار بار قرآن شریف کو پڑھو۔ فرمایا! اور تمہیں چاہئے کہ برے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ جب قرآن شریف پڑھ رہے ہو اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ اِن بدیوں سے بچتے رہو۔

رمضان میں قرآن شریف اِس سوچ سے پڑھنا چاہئے

پس اِس رمضان میں ہم قرآن شریف بھی پڑھ رہے ہیں اور عمومًا قرآن کریم پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے تو اِس سوچ سے پڑھنا چاہئے کہ اِس کے اوامر و نواہی پر ہم نے غور کرنا ہے اور برے کاموں سے رکنا ہے اور اچھے کاموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔آپؑ نے فرمایا! قرآن شریف میں اول سے آخر تک اوامر و نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے۔

آپؑ نے اِس بات کو بڑے زور سے بیان فرمایا

جب تک انسان متقی نہیں بنتا اُس کی عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ الله تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ (المآئدہ: 28) یعنی بے شک الله تعالیٰ متقیوں ہی کی عبادت کو قبول فرماتا ہے۔ فرمایا! یہ سچی بات ہے کہ نماز، روزہ بھی متقیوں کا ہی قبول ہوتا ہے۔

عبادات کی قبولیت اور اِس سے مراد کیا ہے؟

تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہو گئی ہے تو اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں فرمایا! اُس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں۔ پس ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ہمارا رمضان، ہمارے روزے ہمیں اِس معیار پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرمایا! پس پہلی منزل اور مشکل اُس انسان کے لئے جو مؤمن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ برے کاموں سے پرہیز کرے اور اِس کا نام تقویٰ ہے۔

حصول تقویٰ کی کوشش نہیں کی
تو روزوں کا مقصود پورا نہیں کیا

پس اگر ہماری عبادتوں، ہمارے روزوں، ہمارے قرآن کریم پڑھنے نے اگر ہم میں عملی تبدیلیاں پیدا نہیں کیں اور تقویٰ جس کا حصول روزوں کا مقصود ہے وہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی تو ہم نے اپنے روزوں کےمقصد کو پوارا نہیں کیا۔ ہم نے اُس ڈھال کے متعلق باتیں تو کی ہیں جس کے بارہ میں آنحضرتؐ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے لیکن ہم نے اُس ڈھال کے استعمال کا طریق سیکھنے کی کوشش نہیں کی، ہم نے سحری اور افطاری کا اہتمام تو کیا لیکن ہم نے سحری اور افطاری کھانے کے مقصد کو پورا نہیں کیا، ہم نے سارا دن بغیر کھائے پیئےگزار تو دیا لیکن ہم نے اُس فاقہ کے مقصد کو پورا نہیں کیا جو مقصد تقویٰ سے پورا ہوتا ہے اور جو تقویٰ ہم میں پیدا ہونا چاہئے تھا۔ پس یہ ہمیں جائزے لینے ہوں گے کہ ہؤا یا نہیں۔

تقویٰ کے بارہ میں
حضرت مسیح موعودؑ کے بعض اور اقتباسات

مزید برآں حضور انور ایدہ الله نے حضرت مسیح موعودؑ کے بعض اور اقتباسات بھی تقویٰ کے بارہ میں پیش فرمائے جس سے ہماری رہنمائی ہوتی ہے کہ اصل تقویٰ کیا ہے اور کس قسم کا تقویٰ حضرت مسیح موعودؑ ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

قرآن شریف نے تقویٰ
کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے

آپؑ فرماتے ہیں۔ جب تک واقعی طور پر انسان پر بہت سی موتیں نہ آ جائیں وہ متقی نہیں بنتا۔۔۔ سب طرف سے آنکھیں بند کر کے پہلے تقویٰ کی منازل طے کرو، جتنے نبیؑ آئے سب کا مدعا یہی تھا کہ تقویٰ کی راہ سکھلائیں۔ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ (الانفال: 35) مگر قرآن شریف نے تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے۔۔۔ مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا:
مختلف زاویوں سے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے ہمیں نصائح فرمائی ہیں وہ بعض حوالے مَیں نے پیش کئے ہیں تاکہ ہمیں تقویٰ کے مطلب اور اُس کی گہرائی کا بھی علم ہو اور ہم جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے آپؑ کی جماعت میں شامل ہو کر تقویٰ کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے اُس پر چلنے والے بھی ہوں۔رمضان کے اِن بقیہ دنوں میں جس حد تک ممکن ہو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ تقویٰ کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے حقوق الله اور حقوق العباد ادا کرنے والے بنیں ۔ الله تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق عطاء فرمائے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

رمضان کے تیسرے عشرہ (آگ سے نجات) اور اس کے متعلق حضرت مسیحِ موعودؑ کی دعائیں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ