• 25 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ22مئی 2020ء

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 22مئی 2020ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

حضور انور کو چوٹ لگنے پراحبابِ جماعت کےآپ کیلئے غیر معمولی جذبات اور دُعائیں کرنے پرحضور انور کی طرف سےشکریہ کا اظہار

ہمیں دُعاؤں کے ساتھ اپنے نمونے بھی دکھانے کی ضرورت ہے، دُنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے حق ادا کر کے ہی تم اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کر سکتے ہو

رمضان میں کی جانے والی نیکیاں رمضان کے بعد بھی جاری رکھنے کی تلقین اورکرونا کی اس وباء کے ایّام میں ہم احمدی مسلمانوں کی ذمہ داریاں

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کیلئے حضرت مسیح موعودؑ کی نصائح اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے احباب جماعت کو بعض دعائیں کرنے کا اعادہ

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح ا لخامس ایدہ ا للہ تعالیٰ نےمورخہ 22مئی 2020ء کو مسجد مبارک ، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اے پر براہ راست نشر کیا گیا ۔حضور انور نے خطبہ کے شروع میں ان سب احمدیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے گزشتہ دنوں حضور انور کے گرنے کی وجہ سے چوٹ لگنے پر اپنے غیر معمولی جذبات کا اظہار کیا اور بڑی تڑپ سے دُعائیں کیں۔ فرمایا کہ یہ آپ لوگوں کی دُعاؤں کی ہی قبولیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر جلدی زخم جو ہیں مندمل ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کو میں نے یہی کہا تھا کہ علاج تو اپنی جگہ لیکن اصل چیز دُعائیں ہیں جو احمدی کر رہے ہیں۔ حضور انور نےان چوٹوں پرمرہم عیسیٰ اور اسی طرح ہومیو پیتھک کریم کینیڈولا لگانے کا ذکر کیا کہ شاید دوسروں کو بھی فائدہ ہو جائے بعض دفعہ ضرورت پڑتی ہے۔ فرمایاکہ اب یہ دُعا کریں کہ چوٹ کے جو باقی اثرات ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں بھی جلد بہتر فرمائے دُور فرمائے جو بداثرات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی اصل طاقت ہے جو دعاؤں سے ملتا ہے ۔پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو ہمیں ہر وقت مانگنا چاہئے اور اس کے آگے جھکنا چاہئے۔

حضور انور نے فرمایا: آج کل ہم جس حالت سے گزر رہے ہیں اس میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ رمضان تو ختم ہو رہا ہے اور اسی طرح کچھ حد تک لاک ڈاؤن پر بھی حکومت پابندیاں نرم کرنے کا ارادہ کر رہی ہے۔ ایک بات تو مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ پابندیوں پر نرمی کے ساتھ جو حکومت نے شرائط لگائی ہیں اس پر ہر احمدی کو کاربند ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کاروباروں کی اجازت اور باہر نکلنے کی نرمی اور پھر رمضان کے مہینے کا گزر جانا کسی احمدی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جو نیکیاں انہوں نے اپنائی تھیں اُنہیں ختم کرنے والا یا ان میں کمی کرنے والا نہ بنائے بلکہ نیکیوں کو اور باجماعت نمازوں کو جب تک مسجد میں جانے پر پابندی ہے گھروں میں جاری رکھنا اور جب مسجد جانے کی اجازت مل جائے گی تو مسجد کو آباد رکھنا اپنے پر پہلے سے بڑھ کر فرض کریں۔ عورتیں گھروں میں نمازوں کا خاص اہتمام کریں تا کہ بچے بھی اپنے سامنے نمونے دیکھنے والے ہوں ۔ گھروں میں درس و تدریس کا چند منٹ کے لئے سلسلہ جاری رہے تا کہ دینی علم بھی بڑھے ۔اسی طرح ایم۔ٹی۔اے کے پروگراموں کو دیکھنے کی طرف بھی توجہ رکھیں۔ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں اس بارے میں۔

حضور انور نے فرمایا: آج کل لوگ اس تلاش میں ہیں کہ یہ کورونا وائرس کی بیماری طبعی حادثہ ہے یا عذاب الٰہی ہے۔ فرمایا: صرف اسی کی تلاش میں نہ رہیں کہ یہ کیا چیز ہے اور یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بیشمار وعدے ہیں جو پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں اورآئندہ بھی ہوں گے۔ اگر کوئی انذاری پہلو رکھنے والی باتیں ہیں تو سب سے پہلے ایک مؤمن کا کام ہے کہ لرزاں و ترساں ہو خوفزدہ ہو اور اپنے ایمان و ایقان کو مضبوط کرے اپنے اچھے انجام کے لئے دُعا کرے۔ یہ آفات، طوفان اور بلائیں جو اس زمانے میں آ رہی ہیں ان کا حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانے سے خاص تعلق ہے۔ پس ہمیں اپنے ایمان و ایقان اور انجام بخیر کے لئے اور دُنیا کے بچانے کے لئے بھی بہت دُعائیں کرنی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ اُس وقت بھی جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو طاعون کو نشان کے طور پر ظاہر ہونے کی واضح خبر دی تھی بے چین ہو ہو کر دُنیا کے لئے دُعا کیا کرتے تھےکہ انسانیت کو اللہ تعالیٰ بچا لے۔ پس انسانیت کے لئے آپؑ کا رحم اور شفقت اللہ تعالیٰ کے آپ کو نشان کے بتانے کے باوجود غالب تھا اور ان کے اس وباء کی تباہی سے بچنے کے لئے آپؑ بڑے دَرد سے دُعا کر رہے ہوتے تھے۔ پس ہم نے بھی آپؑ کے اس نمونے کو دیکھنا ہے۔

حضور انور نے فرمایا: بعض لوگ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کے ایک مضمون “حوادث طبعی یا عذاب الہٰی” آج کل جو وائرس کی وباء پھیلی ہوئی ہے اس سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے تبصرے بھی کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے بعد آفات اور بلاؤں کی تعداد بڑھی ہے اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ نے واضح فرمایا ہوا ہے کہ یہ آئیں گے اور تباہیاں آئیں گی۔ اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن جیسا کہ مَیں گزشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض ایمان والے بھی قانون قدرت کے تحت اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں لیکن ان کا مقام شہید کو ہوتا ہے اور ان کا انجام بخیر ہوتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق بھی ان کا انجام اُنہیں جنت میں لے جانے والا ہوتا ہے ۔

فرمایا: لیکن ان وباؤں کے اثرات کو دیکھنے والی جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ اس سے عمومی طور پر دُنیا داروں پر کیا اثر ہو رہا ہے۔ دُنیا داروں کے تو ہوش و حواس گم ہو رہے ہیں اور آج کل یہ دُنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اُن کی حالت ہو چکی ہے۔ نہ صرف لوگوں کی بلکہ بڑی بڑی حکومتوں کی جو اپنے آپ کو پہاڑوں کی طرح مضبوط سمجھتی ہیں ۔ بڑی بڑی مضبوط حکومتوں کی معیشتیں اور نظام درہم برہم ہو گئے ہیں اور اس کے اثر سے اپنے عوام کی توجہ پھیرنے کے لئے جو وہ کوشش کر رہے ہیں وہ اور بھی زیادہ خطرناک ہے وہ ان کو جنگ اور معیشت کی مزید تباہی میں دھکیل دے گی۔ پس جب تک یہ لوگ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا نہیں کریں گے جس سے فسادوں کی کیفیت دُور نہ ہو ایک کے بعد دوسری تباہی میں یہ لوگ خود ڈوبتے چلے جائیں گے۔ بہرحال ہمارا کام دُعا کرنا اور دُنیا کو سمجھانا اور اپنی حالتوں کو پاک بنانا ہے۔

حضور انور نے فرمایا: حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکے جس مضمون کی مَیں نے بات کی ہے وہ لمبا مضمون ہے لیکن ہر احمدی کو جس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے اس مضمون کے پڑھنے سے وہ صرف یہ نہیں کہ پہلی قوموں کے ساتھ کیا ہوا یا اب کیا ہوا یا کیا ہو رہا ہے اور کیا تباہی ہے اور کیا نہیں۔ یقیناً یہ باتیں بھی خوفزدہ کرنے والی ہونی چاہئیں ،اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے والی ہونی چاہئیں لیکن جو اصل بات ہے جو الفاظ قابل غور ہیں وہ یہ ہے جو کہ آپ نے لکھا ہوا ہے کہ جماعت احمدیہ کے لئے اس میں تنبیہ اور بشارت بھی ہے۔ تنبیہ یہ کہ صرف احمدیت کا عنوان بچانے کے لئے کافی نہیں ہو گا بلکہ تقویٰ کی شرط بھی ساتھ لگی ہوئی ہے اور بشارت کا پہلو یہ ہے کہ جماعت میں جو عملی کمزوریاں آ چکی ہوں گی بڑی تیزی کے ساتھ ان کی اصلاح کی کوشش احمدی کرے گا اور ساتھ ساتھ یہ کہ جنہوں نے بیعت کا صرف نام لگایا ہوا ہے ایک لیبل ہے وہ آپ کی پاک تعلیم کی طرف لوٹیں گے تو پھر ہی بچت ہے اور خدا کی طرف لوٹنا ہی یہ ان کے لئے بشارت ہے ورنہ کوئی بشارت نہیں ۔ پس ہمیں دُعاؤں کے ساتھ اپنے نمونے بھی دکھانے کی ضرورت ہے، دُنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے حق ادا کر کے ہی تم اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کر سکتے ہو اور خدا تعالیٰ جو واحد خدا ہے اس کا رحم حاصل کئے بغیر نہ دُنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ہماری کوشش کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ مرنے کے بعد انجام بخیر ہو سکتا ہے۔ پس ان دنوں میں ہم خدمت انسانیت کر کے بندوں کو خدا کے قریب لانے کا بھی ذریعہ بن سکتے ہیں جس کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ نہ یہ کہ یہ دیکھتے رہیں کہ تباہی آتی ہے یا نہیں آتی اور پھر رمضان میں جو سبق ہمیں اس میں دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنے کا ملا ہے اسے بھی جاری رکھنا چاہئے کہ ہمیشہ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے رہیں۔

حضور انور نے فرمایا: پس ایک دُنیا کا ماحول جو عمومی طور پر اس وباء کی وجہ سے بنا ہوا ہے اور ایک رمضان کا ماحول اب ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والا بنا رہنا چاہئے۔ رمضان تو کل یا پرسوں چلا جائے گا ختم ہو جائے گا لیکن اس کی نیکیاں ہمیں ہمیشہ اپنے اندر رکھنی چاہئیں وہ پاک تبدیلیاں جو ہم نے کی ہیں وہ ہمیشہ اپنے اندر رکھنی چاہئیں اور جب پھر لاک ڈاؤن میں نرمی آئے تو ہمیں اپنی ذاتی بھی اور انسانیت کے لئے بھی ذمہ داریوں کو نہیں بھولنا چاہئے۔ پس ہمیں ہر وقت آپؑ کی نصائح کی جگالی کرتے رہنا چاہئے تا کہ حقیقی ایمان و ایقان ہمیں حاصل ہو۔ دوسروں کی کمزوریوں کی طرف نظر رکھنے کی بجائے ہم اپنی حالتوں کا جائزہ لیتے رہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ چاہئے کہ ہر شخص تہجد میں اُٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں۔ ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے توبہ کرے۔ توبہ سے مراد یہ ہے کہ اُن تمام بد کاریوں اور خدا کی نارضا مندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کریں۔ عادات انسانی کو شائستہ کریں غضب نہ ہو توضع اور انکسار اس کی جگہ لے لے۔ اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔

پھر فرمایا ۔ آپس میں اخوّت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ ۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دے۔ اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صُلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں۔ فرمایا : چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ۔ ہرایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اُٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ۔ لوگ تمہاری مخالفت کریں گےلیکن تم نے ہر گزی تندی اور سختی سے کام نہیں لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ۔

ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا۔ نوعِ انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ اُن پر ٹھٹھے کئےجاتے ہیں۔ اُن کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے جو لوگ غربا کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے ان کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کا سلوک کریں اور اس خدا داد فضل پر تکبّر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں۔ خدا تعالیٰ کا منشا یہی ہے کہ ذاتی اعداء کوئی نہ ہوں۔خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا دُشمن نہ ہو۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کی عزت کے لئے الگ امر ہے ۔پھر اخلاقی معیاروں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔’’اخلاقی حالت ایسی درست ہو کہ کسی کو نیک نیتی سے سمجھانا اور غلطی سے آگاہ کرنا ایسے وقت پر ہو کہ اُسے برامعلوم نہ ہو۔ کسی کو استخفاف کی نظر سے نہ دیکھا جاوے۔ دل شکستی نہ کی جاوے۔ جماعت میں باہم جھگڑے فساد نہ ہوں۔ دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو۔ مال ودولت یا نسبی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو متقی ہے ۔ دوسروں کے ساتھ بھی پورے اخلاق سے کام لینا چاہئے۔ دانش مندی، حِلم اور در گزر کے ملکہ کو بڑھاؤ ،نادان سے نادان کی باتوں کا جواب بھی متانت اور سلامت روی سے دو۔ یاوہ گوئی کا جواب یاوہ گوئی نہ ہو۔ فرمایا کہ مناسب ہے کہ ان ابتلا کے دنوں میں اپنے نفس کو مار کر تقوی اختیار کریں۔ میری غرض ان باتوں سے یہی ہے کہ تم نصیحت اور عبرت پکڑو۔ دُنیا فنا کا مقام ہے آخر مرنا ہے خوشی دین کی باتوں میں ہے۔ اصل مقصد تو دین ہی ہے۔

حضور انور نے فرمایا: ان دنوں میں جبکہ پاکستان اور بعض ممالک میں احمدیوں کے خلاف ایک اُبال اُٹھا ہوا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ہر قسم کا حیلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کا مقام و مرتبہ اور آپؐ کے اُسوہ کی حقیقت ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح فرمائی اور ہمیں بار بار یہی فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی راہ کو نہ چھوڑو۔ آپ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی سچی اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپ ﷺ کی اتّباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا رہے گوہر ِمقصود اس کو حاصل نہیں ہوسکتا ۔ آنحضرت ﷺ کے نقشِ قدم پر چلو اور ایک ذرّہ بھر بھی اِدھر یا اُدھر ہونے کی کوشش نہ کرو۔پھر فرماتے ہیں ’’غرض مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت ﷺ نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے۔

حضور انور نے فرمایا: اسیران راہ مولیٰ کے لئے دُعائیں کریں ۔ گزشتہ دنوں ایک احمدی خاتون رمضان بی بی کو توہین رسالت کی دفعہ لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی معجزانہ رہائی کےسامان پیدا فرمائے اور اپنا رحم فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پہچاننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت تمام محبتوں پر غالب ہو۔ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنےوالے ہم ہوں۔ ہمارے گھر پیار اور محبت کے نمونے ہوں۔ جو بچے اپنے ماں باپ کے آپس کے جھگڑوں سے پریشان ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی پریشانیاں بھی دُور فرمائے۔ تمام واقفین زندگی کے لئے دُعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں بے نفس ہو کر خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور وہ اپنا وقف نبھانے والے ہوں۔ واقفین نو کے لئے دُعا کریں اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنے اور اپنے ماں باپ کے عہد کو پورا کرنیکی توفیق عطا فرمائے۔ شہدائے احمدیت اور اُن کے خاندانوں کے لئے دُعا کریں۔ مشکلات میں گھرے ہوئے تمام احمدیوں کے لئے دُعا کریں۔ بچیوں کے رشتوں کے لئے دُعائیں کریں خاص طور پر اُن بچیوں کے لئے جن کے رشتوں میں بلا وجہ کی تاخیر ہو رہی ہے۔ ان حالات میں مالی قربانی کرنے والوں کے لئے بھی بہت دُعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوش میں بے انتہا برکت دے۔ ایم۔ٹی۔اے کے کارکنان کے لئے بھی دُعائیں کریں۔ عالمِ اسلام کے لئے دُعا کریں ،ان کے آپس کے جھگڑے بھی ختم ہوں اور امن کے ساتھ رہنا سیکھیں وہ لوگ اور اسلام مخالف طاقتوں کے شر سے ان کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ان کے آپس کے اختلافات ختم ہوں۔ حضور انور نے ان علاوہ بعض اور عربی دُعاؤں کا اعادہ فرمایا۔پھر فرمایا: اس رمضان کا یہ آخری جمعہ ہے ۔اس رمضان میں جو نیک کام ہم سے ہوئے یا جو تبدیلیاں ہم نے پیدا کی ہیں ان کو جاری رکھنے کی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور یہ دُعائیں بھی ہمارے حق میں قبول فرمائے۔

عید کے بارے میں فرمایا کہ اگر کسی ملک کے ایک علاقے میں چاند نظر آ سکتا ہو تو باقی جگہ بھی عید کی جا سکتی ہے۔ جن مسلمان ممالک میں رؤیت ہلال کمیٹیاں ہیں وہ بھی اسی طرح جائزے لیتی ہیں۔ تو بہرحال اس جائزے کے بعد دو تین دفعہ دوبارہ جائزہ لینے کے بعد یہی فیصلہ ہے کہ یہاں انشاء اللہ تعالیٰ عید اتوار کو ہو گی چوبیس تاریخ کو۔

پچھلا پڑھیں

اسلام میں عورت کا مقام اور حیثیت

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ