• 20 اپریل, 2024

اسلام میں عورت کا مقام اور حیثیت

قدیم سے یہ سنت اللہ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے اپنے انبیاء کو اس دنیا میں مبعوث کرتا ہے جن کا کام تمام بنی نوع انسان کو اللہ تعالی کے احکامات کی روشنی میں چلانا ہوتا ہے۔آنحضور ﷺ کی بعثت تمام انسانوں کے لئے اور قیامت تک آنے والے تمام زمانوں کے لئے ہوئی۔اور اللہ تعالی کا یہ تمام بنی نوع انسان پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے نبی کو تمام بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لئے اس دنیا میں معبوث فرمایا جس کا احسان مرد پر بھی بہت بڑا ہے اور عورتوں پر بھی کہ انہوں نے عورت کو اس دلدل سے نکالا جس میں وہ بے وجہ پھنستی جارہی تھی۔

قرآن مجید میں عورت کی اہمیت اور مقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔عورت خواہ ماں ہو یا بہن ہو،بیوی ہو یا بیٹی اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔ ماں کا شکر ادا کرنا ،اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا ان کے اہم ترین حقوق میں سے ہے۔حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے ،کیونکہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا،جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسان ہے۔

ظہور اسلام اور اس کی مخصوص تعلیمات کے ساتھ عورت کی زندگی ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوئی جو زمانہ جاہلیت سے بہت مختلف تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان، مصر، عراق، ہند ، چین غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا۔ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ اللہ فرماتا ہے۔

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ۔يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ۔

(النحل:59و60)

ترجمہ ۔ (اور) جس بات کی اسے خبر دی گئی ہے اس کی(مزعومہ) شناعت کے باعث وہ لوگوں سے چھپتا (پھرتا) ہے (وہ سوچتا ہے کہ) آیا وہ اسے(پیش آنے والی) ذلت کے باوجود( زندہ ) رہنے دے یا اسے( کہیں ) مٹی میں گاڑ دے ۔ سنو جو رائے وہ قائم کرتے ہیں بہت بری ہیں۔

پھر فرمایا ۔وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ۔ بأیِّ ذنبٍ قُتِلَتْ۔(التکویر:9و10)ترجمہ ۔ اور جب زندہ گاڑی جانے والی( لڑکی) کے بارے میں سوال کیا جائے گا (کہ آخر) کس گناہ کے بدلے میں اس کو قتل کیا گیا تھا۔

اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ اہل عرب کا عورت کے ساتھ بدترین رویہ تھا۔ قرآن حکیم نے واضح کیا کہ زمانۂ جاہلیت میں عورت کا مرتبہ ناپسندیدہ تھا وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لئے تھی۔ اس میں عورتوں کا حصہ نہ تھا حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بیکار چیزیں عورتوں کو دیتے۔ اہل عرب کے اس طرز عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے۔

وَقَالُوْا مَا فِيْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓي اَزْوَاجِنَا ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مَّيْتَةً فَهُمْ فِيْهِ شُرَكَآءُ سَيَجْزِيْهِمْ وَصْفَهُمْ ۭاِنَّهٗ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ۔

(الانعام:140)

ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹوں میں ہے وہ خالصتاً ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری بیویوں پر حرام کیا گیا ہے ہاں اگر وہ مُردہ ہو تو ( سب) اس میں شریک ہیں۔ وہ ضرور ان کی بات کی انہیں سزا دے گا۔ یاد رکھو کہ وہ حکمت والا ( اور ) بہت جاننے والا ہے۔

اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں رائج شادی کے مختلف طریقے

شادی جو خاندانی زندگی کے قیام و تسلسل کا ذریعہ ہے، اہل عرب کے ہاں اصول و ضوابط سے آزاد تھا جس میں عورت کی عزت و عصمت اور عفت و تکریم کا کوئی تصور کارفرما نہ تھا۔ اہل عرب میں شادی کے درج ذیل طریقے رائج تھے۔

زواج البعولۃ

یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا۔ اس میں یہ تھا کہ ایک مرد بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا۔ بعولت سے مراد مرد کا عورتیں جمع کرنا ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی۔اس میں مرد جتنی چاہتا تھا عورتیں جمع کرتا تھا اور نہ ہی یہ ضروری تھا اور نہ اس پر یہ فرض تھا کہ وہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف قائم کرے۔

زواج البدل

اس سے مراد بدلے کی شادی تھا ، یعنی دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ ۔ یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی۔ بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پاجاتا۔

النكاح المتعہ

یہ نکاح بغیر خطبہ، تقریب اور گواہوں کے ہوتا۔ عورت اور مرد آپس میں کسی ایک مدت مقررہ تک ایک خاص مہر پر متفق ہو جاتے اور مدت مقررہ پوری ہوتے ہی نکاح خود بخود ختم ہو جاتا تھا طلاق کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی اور اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ماں کی طرف منسوب ہوتی اسے باپ کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔

النكاح الخدن

یعنی دوستی کی شادی۔ اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا کسی قسم کی طلاق کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی ۔ اگر اس سے اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب کردی جاتی تھی جس سے باپ کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا ۔

النکاح الضغینہ

جب عرب میں جنگ کے بعد مال اور قیدی ہاتھ لگتے تھے اور جاہلیت میں فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب فاتح کی ملکیت بن جاتا تھا تو یہ عورتیں بھی فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انہیں بیچ دیتا ، چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا۔ یوں ایک آزاد عورت غلام بن کربک جاتی۔ اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی۔

النکاح الشغار

یہ وہ نکاح تھا کہ ایک شخص اپنی زیرسرپرستی رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا۔ اس میں مہر بھی مقرر کرنا ضروری نہ تھا ۔

النکاح الاستبضاع

یعنی فائدہ اٹھانے کے لئے عورت مہیا کرنا ۔ مراد یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے شوہر کے پاس آجاتی۔

النکاح الرہط

اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس آدمی ایک ہی عورت کے لئے جمع ہوتے اور ہر ایک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ ان سب کو بلواتی اور وہ بغیر کسی پس وپیش کے آجاتے پھر وہ جسے چاہتی اسے کہتی کہ یہ بچہ تیرا ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔

النکاح البغایا

یہ بھی نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس میں دو فرق تھے، ایک تویہ کہ اس میں دس سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے تھے جبکہ نکاح رہط میں دس سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہیں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا۔

ان تمام طریقوں سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کی حیثیت بہت زیادہ خراب تھی جب وہ کسی گھر میں پیدا ہوتی تھی تواس کی ماں گھبراتی تھی اور افسوس کرتی تھی اور باپ ماتم مناتا تھا ۔ اللہ تعالی نے جب عورت کی یہ حالت دیکھی تو اس نے اپنے سب سے پیارے نبی سرور کائنات فخرِ موجودات حضرت محمد مصطفی ﷺ کو تمام بنی نوع انسان کے لئے رحمۃٌللعالمین بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپؐ نے نہ صرف عورت کو اس کے حقوق دلوائےبلکہ اس زمانے میں اس معاشرے میں اس کو وہ مقام بخشا جس کی وہ حقدار تھی ۔

اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ؟

عورت کو جتنی عزت ، رتبہ اور مقام اسلام میں حاصل ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ کی بیشمار احادیث میں بھی عورت کی عزت و تکریم کا حکم ملتا ہے۔ اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔

خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا۔

(النساء:1)

ترجمہ ۔ اللہ نے تمہیں ایک (ہی) جان سے پیدا کیا ۔ اور اس کی جنس سے ہی اس کا جوڑا پیدا کیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے بہت اچھی طرح واضح کر دیا ہے عورت اور مرد بحیثیت انسان ایک ہی منصب پر فائز ہیں، مطلب یہ کہ عورت سے غیر انسانی برتاؤ کی مکمل نفی ہو گئی۔ وہ انسان ہے، اور ہر مرد کی طرح اس کے جذبات ہیں، احساسات ہیں، وہ بھی مردوں کی طرح کھاتی، پیتی ، سانس لیتی اور دیگر معاملات میں مردوں کی طرح مساوی حیثیت کی حامل ہے۔

عورتوں کی تعلیم کا حق

اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں سب کو ختم کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایاکہ

طَلَبُ العِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔

(سنن ابن ماجہ)

عِلم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد (و عورت)پرفرض ہے۔ اور دوسری جگہ حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ

فَلَہُ الْجَنَّةُ مَنْ عَالَ ثَلاثَ بَنَاتٍ فَأدَّبَہُنَّ۔

(ابو داؤد)

ترجمہ : جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے

معاشرتی میدان

دیگر معاشروں نے عورت کے مقام کو مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی یعنی محمد ﷺ۔ آپؐ نے اس مظلوم طبقہ پرشفقت کی نگاہ ڈالی اور فرمایا کہ

حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ۔

فرمایاکہ مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی کہ نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

(ابن ماجه ، کتاب النکاح ، باب ماجاء فی فضل النکاح حديث1846)

چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے بچوں کی معلم ومربی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ۔

(البقرہ:188)

ترجمہ: عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔

عورت کے اسلام میں معاشی حقوق

لَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَةً وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ ۚ مَتَاعًۢابِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ۔

(البقرہ:237)

ترجمہ: تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو اس وقت بھی طلاق دے دو جب کہ تم نے ان کو چھوا تک نہ ہو یا مہر نہ مقرر کیا ہو ۔ اور( چاہئے کہ اس صورت میں) تم انہیں مناسب طور پر کچھ سامان دے دو یہ (امر) دولتمند پر اس کی طاقت کے مطابق ( لازم ہیں) اور نادار پر اس کی طاقت کے مطابق (ہم نے ایسا کرنا) نیکوکاروں پر واجب (کردیا) ہے

وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ ۭ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْٓــًٔـا مَّرِيْٓـــًٔـا ۔

(النساء:5)

ترجمہ ۔ اور عورتوں کو ان کے مَہر دلی خوشی سے ادا کرو ۔ پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے اس میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو یہ جانتے ہوئے کہ وہ تمہارے لئے مزے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے تم اسے پیش کھاؤ ۔

وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ

بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔

ترجمہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے ۔ اگر میت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہئے۔ اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے۔

(النساء:12)

اسلام میں عورتوں کے تمدنی حقوق
شوہر کاانتخاب

آج ہمارے معاشرے میں عورت پر یہ ظلم کیا جاتا ہے کہ اس سے بنا پوچھے اس کی شادی طے کردی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کو اپنا جیون ساتھی چننے کی اجازت نہیں ہے لیکن شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ارشاد نبویﷺ ہےکہ

لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن۔

(مشکوٰة، باب عشرة النساء)

ترجمہ:بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔

خلع کا حق

اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔

اسلام میں عورت سےحسن معاشرت و حسن سلوک کا حق

جیسا کہ اوپر بیان کر چکے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کی حالت بدترین تھی اس کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا اور اس کی معاشرے میں کوئی عزت نہ دی اور نہ ہی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر اللہ تعالی کا عورت پر یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے نبی حضور ﷺ کو دنیا میں بھیجا جنہوں نے عورت کو معاشرے میں وہ عزت دلائی جس کی وہ حقدار تھی۔ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا۔

(النساء:20)

ترجمہ : اور عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی نا پسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔

قرآن میں عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر فرض کیاگیا ہے۔ جیسے مطلقہ عورت کے بارے میں صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ

وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لَّتَعْتَدُواْ۔

(البقرہ:23)

ترجمہ: ایذا دِہی کے خیال سے ان کو نہ روک رکھو، تاکہ تم زیادتی کرو۔

پھر اسی طرح عورتوں کے زبردستی وارث نہ بننے اور ان کے حق مہر کو کھا نہ جانے کا واضح حکم ہے فرمایا کہ

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ۔

(النساء:20)

ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو ۔ اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مہر کا کچھ حصہ اُڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو ۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں۔

عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نےکی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی ۔مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا ہے

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ

(البقرہ: 229)

کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پرہیں ۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں گالیاں دیتے ہیں۔حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں ۔

چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اورحقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا سے صلح ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے ۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 300)

اسلام نے عورت کو وہ مقام بخشا ہے جس کی وہ حقدار تھی اوراسلام ان تمام الزامات کا بھی رد کرتا ہے جو دوسرے لوگوں کی طرف سے یا مستشرقین کی طرف سے اسلام پر لگائے جاتے ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔اسلام نے نہ صرف ان تمام الزامات کا رد فرمایا بلکہ دنیا کے سامنے عورت کو وہ مقام مرتبہ فراہم کیا جس کی نظیر دنیا کے کسی بھی مذہب میں موجود نہیں ۔

(سعیدالدین حامد۔دہلی)

پچھلا پڑھیں

اصل خوبصورتی دل کی ہے

اگلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ22مئی 2020ء