• 19 اپریل, 2024

میری والدہ مکرمہ ملک انجمن آراء

میری والدہ مکرمہ ملک انجمن آرا ء اہلیہ مکرم ملک عبدالقدیر عاصم، مغل پورہ لاہور 26مئی 1926ءکو نوشہرہ کینٹ میں پیدا ہوئیں۔آپ حضرت حافظ نور محمدؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی اور مکرم رحمت اللہ خان شاکر (مرحوم) سابق ایڈیٹر الفضل کی بیٹی تھی۔آپ 5 یا 6 سال کی تھیں کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔

آپ کی پرورش قادیان کے علمی اور تربیتی ماحول میں ہوئی۔ آپ کےوالد جماعتی اخبار کےایڈیٹر تھے تو گھر میں بھر پور علمی ماحول تھا۔ دادا جان حافظ قرآن تھے جن کا کام سارا دن لوگوں کو قران کی تعلیم دینا ہوتا تھا ۔آپ سے ہی میری والدہ نے پہلے قرآن ناظرہ اور پھر لفظی ترجمہ پڑھا اور ساتھ قرآن کریم حفظ کرنے کا آغاز کیا ۔آپ 12 سال کی تھیں تو حضرت مصلح موعود ؓ کی ایک تحریک کے نتیجہ میں اپنے محلّے میں بوڑھی اور ایسی خواتین جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتی تھیں، اُن کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جو آپ کی زندگی کی آخری بیماری تک جاری رہا ۔

آپ کی شادی 1946ءمیں لاہور مغلپورہ میں ہوئی۔آپ کی شادی پر حضرت مصلح موعودؓ نے لڑکی والوں کی طرف سے اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد نے بارات کے ساتھ شمولیت فرمائی۔ آپ نے لاہور آ کر بھی اپنے خاوند کی اجازت سے تدریسِ قرآن کا کام جاری رکھا۔میرے دادا جان حضرت عبدالکریم ؓ آف مغل پورہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ میری بہو جیسی بہو ہر گھر میں نہیں تو ہر محلّے میں یا کم از کم ہر شہر میں ایک ہونی چاہئے۔ آپ نے بہت صبر اور ہمت کے ساتھ تنگی و ترشی کے حالات میں بہت اچھی اور مسکراتے ہوئے زندگی گزاری ۔

46 سال کی عمر میں 9 بچوں کے ساتھ جب کہ سب سے بڑے بچے کی عمر 21 اور سب سے چھوٹا بچہ 6 سال کا تھا، تو آپ کا جیون ساتھی ایک طویل علالت کے بعد اس دنیا سے رُخصت ہو گیا ۔ پاکستان جیسا ملک 9 بچے اور سر پر خاوند کا سایہ نہ ہونا بہت صبر آزما حالات تھے مگر الحمدللہ میری والدہ نے بہت صبر کے ساتھ یہ سارا وقت گزارا۔ بچوں کو مناسب دینی اور دینوی تعلیم دلوائی ۔بڑے بھائی نے جاب شروع کر کے گھر کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے سر لیا۔ اُن سے چھوٹے بھائی نے بھی تعلیم ترک کر کے جاب کا آغاز کیا تو والدہ کے سر سے کچھ بوجھ کم ہوا ۔ جب تک ہم مغل پورہ لاہور میں رہے ہم نے اپنے گھر کا یہی ماحول دیکھا کہ صبح فجر کی نماز کے بعد بچوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا، والدہ سارا گھر کا کام کرتی جاتیں، ساتھ ساتھ قران کریم اور ترجمہ پڑھاتی جاتیں۔ چونکہ آپ کو قرآن حفظ تھا اس لئے آپ کو کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی۔ برتن دھو رہی ہوں ،کپڑے دھو رہی ہوں یاکھانا بنا رہی ہوں یہ سلسلہ رات کو مغرب یا عشا کی نماز تک جاری رہتا۔

آپ لمبا عرصہ حلقہ مغل پورہ لاہور کی صدر لجنہ رہی اور ساتھ ساتھ نگران قیادت لاہور بھی رہی۔ 1984ء میں والدہ کو اللہ تعالیٰ نے حج کی سعادت سے نوازا ۔جب اُن کا حج کا ویزہ لگا تو اُن کو کئی ماہ سے مسلسل بخار رہتا تھا جو دن چڑھنے کے ساتھ کم ہو جاتا مگر شام ڈھلتے ہی ٹمپریچر میں اضافہ ہو جاتا۔ مگر آپ نے کہا کہ جیسی بھی حالت ہو اللہ نے موقع عطا کیا ہے تو وہی توفیق بھی عطا کر دے گا۔ بہرحال آپ روانہ ہو گئیں، آپ بتایا کرتی تھی کہ جس دن میں نے حج سے پہلے عمرہ ادا کیا ، اُس دن میری یہ حالت تھی کے میرے پیروں کی اُنگلیوں میں شوگر کی وجہ سےزخم تھے اور مجھے چپل پہننے میں بہت دشواری کا سامنا تھا ۔امّی کی اس حالت سے میرے بھائی نے یہی محسوس کیا کہ امّی کو عمرہ کروا دیتا ہوں وہاں اتنا رش نہیں ہوتا مگر حج کا رسک نہیں لیتا۔ امّی کہتی تھی کہ نہیں اللہ نے یہاں تک آنے کی توفیق دی ہے تو حج کی سعادت بھی دے گا ان شاءاللہ ۔آپ نے حج سے کوئی ایک ہفتہ قبل عمرہ کیا تو آپ کہتی ہیں کہ سارے عمرے کے دوران بیٹے نے ساتھ ساتھ رہنے کی بھر پور کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے کسی ایک لمحہ کو بھی مجھے کمزور نہیں پڑنے دیا ۔ اس عمرے کے بعد آپ 22 سال حیات رہیں،بہت بیماریاں دیکھیں جن میں کئی بار فالج کے حملے بھی ہوئے مگر ان 22 سالوں میں دوبارہ کبھی آپ کو بخار نہیں ہوا ۔الحمدللہ

1985ءمیں آپ بڑے بھائی کے پاس لندن تشریف لائیں اور 1986ءمیں جرمنی میں ہم لوگوں سے ملنے آئیں مگر پھر آپ نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا اور میرے ساتھ فرانکفورٹ میں رہائش رکھی۔آپ پہلے فرانکفورٹ حلقہ مسجد نور کی صدر منتخب ہوئیں اور جب تک ہم فرانکفورٹ میں رہے آپ اس حلقہ کی صدر رہیں اور فرانکفورٹ سے ہی آپ نے بچوں اور خواتین کو ٹیلی فون پر قرآن کریم پڑھانے کا سلسلہ جاری کر دیا۔ پھر ہم فرانکفورٹ سے کچھ دُور ایک اور شہر بابن ہاؤزن منتقل ہو گئے،آپ نے وہاں بھی اس سلسلے کو قائم رکھا اور پھر جلد ہی اس جماعت کی صدر منتخب ہوئیں اور لمبا عرصہ صدرات کی ذمہ داری آپ کے پاس رہی ۔

آپ بہت شفیق اور ملنسار تھیں۔ ہر شخص جو آپ کو ایک بار مِل لیتا ،آپ کا گرویدہ ہو جاتا اور آپ بھی ہمیشہ پھر اس کو اپنی دُعاؤں میں شامل کر لیتیں اور اگر رابطے میں کچھ طوالت آ جاتی تو یاد کرواتی کہ فلاں رشتہ دار یا تمہارا وہ دوست اتنے عرصہ سے نہیں ملا خیریت تو ہے ؟

آپ کا خلافت سے بے تحاشا محبت اور عقیدت کا تعلق رہا ۔آپ نےچار خلافتوں سے فیض پایا۔2002 ءمیں آپ نے مجھ سے اپنی ایک دلی خواہش کا اظہار کیا کہ میری بہت خواہش ہے کہ تم نے کئی بار قرآن کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا مگر کبھی مکمل نہیں کیا۔ میں چاہتی ہوں ایک بار تم مکمل ترجمہ پڑھ لو۔ مَیں نے اُسی دن اُن سے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ مَیں ضرور مکمل کروں گا اور پھر مَیں نے اپنے اس وعدے کو اللہ کی دی ہوئی توفیق سے نبھایا ۔مَیں روزانہ کام سے آ کر اپنے گھر سے والدہ کے گھر جاتا ۔کوئی 15 کلو میٹر دُور تھا، روزانہ سبق پڑھتا، اُن کو سناتا اور اگلا سبق لیتا۔ اس طرح مَیں نے تقریباً ڈیڑھ سال میں قرآن کریم کا مکمل لفظی ترجمہ آپ سے پڑھا۔ جس دن میرا قرآن ختم ہوا ،اُس دن آپ کی آنکھوں میں ایک خاص چمک اور خوشی کا ایک عجیب سا اظہار تھا ۔ میری اہلیہ نے 16 سال میری والدہ کے ساتھ گزارے۔ اس دوران میری اہلیہ نے 7 بار میری والدہ سے قرآن کا لفظی ترجمہ پڑھا ۔

میری والدہ الحمدللہ صاحبِ کشف، تہجدگزار اور پنجوقتہ نماز کی عادی تھیں۔ قرآن تو اُن کے دِل کی دھڑکن تھا۔ اُن کی وفات کے بعد ان کی تینوں بیٹیاں اور 3 بہوئیں اپنے اپنے مقام پر تدریسِ قرآن کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ نے 34 سال بیوگی کی زندگی کاٹی اور بہت مصائب کا سامنا کیا مگر کبھی کوئی شکوہ آپ کی زبانی ہم نے نہیں سنا۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ہی ادا کیا ۔ جب آپ کا آخری وقت آیا تو اللہ کے فضل سے آپ کے 6 بیٹے 3 بیٹیاں 6 بہوئیں 3 داماد، پوتے پوتیاں اورنواسے نواسیاں آپ کے پاس موجود تھے ۔ 28 مارچ 2006ء کو صبح 10بجکر 35 منٹ پر بروز منگل آپ کی وفات ہوئی اور 31 مارچ کو بروز جمعہ فرانکفورٹ کے قبرستان میں آپ کی تدفین ہوئی ۔

آپ کے آ خری ایّام میں چونکہ حضور انور ایدہ اللہ کو مسلسل دُعا کے لئے فیکس یا ٹیلی فون کے ذریعہ دُعا کی درخواست کا سلسلہ جاری رہتا تھا تو مکرم منیر جاوید پرائیوٹ سیکریٹری نے بتایا کہ منگل والے دن 10 بجکر 40 پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اُنہیں ہدایت فرمائی کہ ٹیلی فون کر کے شاہد ملک کی والدہ کی خیریت دریافت کریں، مجھے خیریت نہیں لگتی اور اُس سے 5 منٹ قبل والدہ صاحبہ اپنی جان جانِ آ فریں کے سُپرد کر چکی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

(راشد محمود رامش۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

اصل خوبصورتی دل کی ہے