• 19 اپریل, 2024

احمدیت نے ہمارے خاندان کو کیا دیا

محترم ایڈیٹر صاحب روزنامہ الفضل لندن نے گزشتہ دنوں اس موضوع پر لکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ درحقیقت یہ موضوع فی زمانہ نہ صرف وقت کی ایک اہم ضرورت ہے بلکہ احمدیت کی آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک تاریخی ورثہ ہوگا ان شاء اللہ۔

ہمارا خاندان ذات کے اعتبار سے راجپوت بھٹی کہلاتا ہے ۔ ہمارے آباو اجداد لودھی ننگل ضلع گورداسپور بھارت کے رہنے والے تھے ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوذ میرے پر دادا کے بھائی مکرم مولوی نور احمد صاحب ولد مولوی اللہ دتہ صاحب کے ذریعہ ہوا۔ مکتوبات احمد میں آپ کے متعلق درج ذیل تعارف درج ہے:

’’مولوی اللہ دتہ صاحب لودھی ننگل ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھےآپکے صاحبزادے مولوی حکیم نور محمد صاحب رضی اللہ عنہ جو ایک حکیم حاذق اور جید عالم تھے سلسلہ احمدیہ میں ایک بہترین مبلغ تھے۔ مولوی اللہ دتہ صاحب اہل حدیث مشرب کے تھے اور آپ کے صاحبزادہ حضرت مولوی نور احمد صاحب بھی فرقہ اہل حدیث میں ممتاز تھے ۔ 1872ء میں حضرت اقدس (علیہ الصلوٰة و السلام ) نے مولوی اللہ دتہ صاحب مرحوم کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب کی تعلیم کے لیے بلایا تھا اس لیے کہ وہ ایک جید عالم تھے۔ مولوی اللہ دتہ صاحب جب قادیان میں آئے تو اکثر حضرت اقدس سے بعض مسائل پر تبادلہ خیالات بھی ہوا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں فرقہ اہل حدیث (جو اس وقت وہابی مشہور تھے) کے لوگ بڑے خشک سمجھے جاتے تھے اور و ہ تقلید و عدم تقلید کے مسائل میں متشدد واقع ہوئے تھے۔ روحانیت کے ساتھ انہیں دلچسپی نہ تھی ۔ ظاہری امور پر زور دیتے تھے جیسے مسیح ناصر ی علیہ الصلوٰة والسلام کے عہد میں فقیہ اور فریسی ہوتے تھے۔

مولوی اللہ دتہ صاحب زیادہ عرصہ تک قادیان میں نہ رہ سکے اور اس کام کو چھوڑ کر چلے گئے مگر حضرت اقدس سے ان کو محبت اور اخلاص تھا اور حضرت اقدس کے زہد وورع کے وہ قا ئل تھے ۔ واپس جانے کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے حضرت اقدس کو ایک منظوم خط لکھا اور وہ فارسی زبان میں تھا۔ حضرت اقدس نے اس کا جواب فی البدیہہ فارسی نظم میں لکھ کر بھیج دیا اس خط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس، آنحضرت کی حیات کے اس وقت بھی قائل اور آپ کو زندہ نبی یقین کرتے تھے‘‘۔

(مکتوبات احمدجلد سوئم صفحہ301)

اس طرح ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوذ محترم مولوی نور احمد صاحب کی بیعت سے ہوا۔ جو میرے پردادا مکرم حبیب اللہ صاحب کے بھائی تھے۔ محترم مولوی نور احمد صاحب کی بیعت کے بعد میرے پردادا نے بھی خط لکھ کر بیعت کی سعادت حاصل کی اور یوں احمدیت کا نور ہمارے خاندان میں داخل ہوگیا ۔ تقسیم پاکستان سے قبل ہی یہ خاندان فیصل آباد کےایک گاوں چک 209گ ب لودھی ننگل میں آکر آباد ہوگیا۔ میرے دادا محترم منظور احمد صاحب محکمہ انہار میں ملازمت کرتے تھے ان کے تین بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ میرے والد محترم ریاض احمد نیازبھٹی صاحب نے 1965ء میں پاک آرمی جوائن کر لی اور 1999ء میں صوبیدار میجر کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ محترم والد صاحب کو دوران ملازمت مختلف علاقوں میں بطور صدر جماعت خدمت دین کی توفیق ملی۔ مجھے آج بھی فخر ہے کہ میں نے اپنے خاندان میں جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ نیک اور دینی ماحول تھاجہاں دیگر امور کے ساتھ ساتھ اسلامی پردہ کا اہتمام اس کی حقیقی روح کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ والدین اور بزرگوں کا نیک نمونہ ہمارے سامنے تھا اور اس میں ہما را کوئی کما ل نہیں تھا یہ محض خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے کہ میں نے ایک احمدی گھرانے میں پرورش پائی الغرض ہمارے خاندان پر احمدیت کے بے شمار احسانات ہیں کس کس کا ذکر کروں کہ

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے

احمدیت نے ہمارے خاندان کو جہاں زمانے کی دیگر آلائشوں سے محفوظ رکھا وہاں اس نے ہمیں خدمت دین اور وقف زندگی کی لذتوں سے بھی مالا مال کیا۔ تحدیث نعمت کے تحت عرض کرتی ہوں کہ میرا ایک بھائی (مکرم عزیز احمد شہزاد صاحب مربی سلسلہ) خدا کے فضل سے جامعہ احمدیہ تنزانیہ میں بطور ٹیچر خدمت کی توفیق پارہا ہے۔ ایک بہن (سعدیہ نیاز اہلیہ مکرم عامر ندیم صاحب) گیمبیا میں نصرت جہاں سکیم کے تحت اپنے خاوند کے ساتھ وقف کی برکات سمیٹ رہی ہیں۔ دوسری بہن (مبارکہ صدیقہ اہلیہ مکرم شیخ منیر احمد صاحب معلم وقف جدید) بھی اسی راستے پر گامزن ہیں ۔ سب سے چھوٹی بہن رابعہ بشریٰ سمیت خدا کے فضل سے ہم چاروں بہنوں کو شادی سے قبل نصرت جہاں ہومیو پیتھک کلینک ربوہ میں حضرت سیدہ آپا طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ کے زیر سایہ خدمت کی توفیق ملی ہے۔ مجھے یاد ہے شروع میں جب کلینک میں مریضوں کا بہت رش ہوا کرتا تھا اور لمبی لمبی لائنیں لگی ہوتی تھیں ہم دارالیمن سے تانگہ میں بیٹھ کر ڈیوٹی پر جایا کرتی تھیں۔ لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اتنی لمبی ڈیوٹی کے باوجود اس خدمت میں جو لذت اور سرور ہمیں ملتا تھا احمدیت سے باہر اس کا تصور بھی ہم نہیں کر سکتے تھے۔یہ سرور اور لذت صرف اور صرف احمدیت کےطفیل ہمارے خاندان کو ملی جس پر ہم اپنے مولا کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ پس احمدیت نے ہمیں نہ صرف عزت اور وقار دیا بلکہ خدمت دین کی اعلیٰ اور روحانی لذات سے بھی آشناکیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ احمدیت تو ایک ایسا شجر سایہ دار ہے جس کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں نہ صرف ہمیں دنیا کی تمازت سے بچاتی ہے بلکہ اس سے ایسی طراوت اور تازگی نصیب ہوتی ہے جو سدا بہار ہے۔ جس کی خوشبو ہر سو پھیلتی ہے اور ایک عالم کو سیراب کرتی ہے۔ یہ تو عافیت کا وہ حصار ہے جو سرا سر امن و آشتی کی نوید ہے اور محبتوں کا عمیق سمندر ہے۔ مامور زمانہ نے کیا خوب فرمایا ہے

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

خدمت دین کی شاہراہ پر چلنے کا سفر جس کا آغاز ہمارے بزرگوں نے کیا تھا وہ آج بھی جاری ہےمجھے آج بھی لجنہ اماء اللہ مقامی میں طوعی خدمت کی توفیق مل رہی ہے ۔ لودھی ننگل سے جس بابرکت سفر کا آغاز ہوا تھا وہ ہمارے خاندان کی نئی نسل کے ذریعے پاکستان اور پھر افریقہ میں جاری ہے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے شرف قبولیت عطا فرمائے آمین۔

٭…٭…٭

(طیبہ طاہرہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 25 جون 2020ء