• 24 اپریل, 2024

خَیْرُالْجَلِیْسِ فِی الزَّمَانِ کِتَابٌ

مدیر کے قلم سے
خَیْرُالْجَلِیْسِ فِی الزَّمَانِ کِتَابٌ
(قسط سوم۔ آخری)

میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے

’’میں نے اس بحث کو اس کتاب میں بڑی دلچسپی کے ساتھ کامل اور قوی دلائل سے انجام تک پہنچایا ہے اور خدائے تعالیٰ نے اس تالیف (ازالہ اوہام۔ناقل)میں میری وہ مدد کی ہے جو میں بیان نہیں کر سکتا اور میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دُور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پُتلی کی طرح اس مشت ِخاک کو کھڑا کردیاہے۔ ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں۔ کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں؟کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں؟‘‘

(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 403)

ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے

’’میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے۔ اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذرّیت کو نہایت ضرورت ہے۔ سو میں اس لئے مستعد کھڑاہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیّبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدّم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے اُن علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں۔ مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ امریکہ اور یورپ میں تعلیم اسلام پھیلانے کے لئے کیاکرنا چاہیئے……… میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے۔ اور اگرچہ میں تمام فانی انسانوں کی طرح ناتواں اور ضعیف البنیان ہوں تاہم میں دیکھتاہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے اور نفسانی قلق کو دبانے والا ایک صبر بھی عطا ہوتا ہے اور میں جو کہتاہوں کہ اِن الٰہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہرکے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اور امید رکھتا ہوںکہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا اور میرے تمام ارادے اور امیدیں پوری کردے گا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 515 تا 520)

جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اورمعارف الٰہی کے خزانے ہیں

’’وہ خداجو رحمٰن ہے وہ اپنے خلیفہ سلطان کے لئے مندرجہ ذیل حکم صادر کرتا ہے کہ اس کو ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن علوم ومعارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی۔ یہ خدائے تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔ اس جگہ بادشاہت سے مراد دنیا کی بادشاہت نہیں اورنہ خلافت سے مراد دنیاکی خلافت۔ بلکہ جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اورمعارف الٰہی کے خزانے ہیں جن کو بفضلہ تعالیٰ اس قدر دوں گاکہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے۔‘‘

(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 566)

تفہیم الٰہی میرے شامل حال ہے

’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تفہیم الٰہی میرے شامل حال ہے اور وہ عزّاسمہٗ جس وقت چاہتا ہے بعض معارف قرآنی میرے پر کھولتا ہے اور اصل منشاء بعض آیات کا معہ ان کے ثبوت کے میرے پر ظاہر فرماتا ہے اور میخ آ ہنی کی طرح میرے دل کے اندر داخل کردیتا ہے اب میں اس خداداد نعمت کو کیونکر چھوڑ دوں اور جو فیض بارش کی طرح میرے پر ہورہا ہے کیونکر اس سے انکار کروں۔‘‘

(مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ 21)

ایک ایک حَرف خداتعالیٰ کی طرف سے آتاہے

’’میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خداتعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔ بارہا لکھتے لکھتے دیکھا ہےکہ ایک خداکی روح ہے جو تیررہی ہے۔ قلم تھک جایاکرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا ۔طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 482تا483)

تائید الٰہی سے مضامین کا دل پر نزول

’’تائیدات الٰہیہ ایک تو بین اور ظاہر طور پر ظہور پذیر ہوتی ہیں اور عام لوگ ان کو دیکھ سکتے ہیں،مگر بعض مخفی تائیدات ایسی ہوتیں ہیںجن کے لئے میری سمجھ میں کوئی قاعدہ نہیں آتا کہ عوام الناس کو کیوں کر دکھا سکوں۔ مثلاً یہی عربی تصنیف ہے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ عربی ادب میں کہاں تک دسترس ہےلیکن جب میں تصنیف کا سلسلہ شروع کرتا ہوں، تو یکے بعد دیگرے اپنے اپنے محل اور موقع پر موزون طور پر آنے والے الفاظ القاء ہوتے جاتے ہیں۔اب کوئی بتلائے کہ ہم کیوں کر اس تائید الٰہی کو دکھلا سکیں کہ خدا کیونکر سینہ پر الفاظ نازل کرتا ہے۔ اور دیکھو اس ایام الصلح میں اکثر مضامین ایسے ہیں جن کا میری پہلی تصانیف میںنام تک نہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس سے پہلے وہ کبھی ذہن میں نہ گزرے تھےلیکن اب وہ ایک ایسے طور پر آکر قلب پر نازل ہوئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آسکتا۔جب تک خود تائید الٰہی شامل حال ہو کر اس کو اس قابل نہ بنا دیوے۔اور یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے جو وہ ایسے بندوں پر کرتا ہے جن سے کوئی کام لینا ہوتا ہے۔یہ بھی ایک سچی بات ہے کہ تصنیفات کے لئے جب تک صحت اور فراغت نہ ہو،یہ کام نہیں ہو سکتا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ان لوگوں ہی کو ملتا ہے جن سے وہ کوئی کام لینا چاہتا ہے۔ پھر ان کو یہ سب سامان جو تصنیف کے لئے ضروری ہوتے ہیں،یکجا جمع کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ 176تا177)

گویا مَیں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں

’’اور تحریر میں مجھے وہ طاقت دی گئی کہ گویا مَیں نہیں بلکہ فرشتے لکھتے جاتے ہیں گو بظاہر میرے ہی ہاتھ ہیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ160)

کلام نے وہ معجزہ دکھلایا کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکا

’’یَا اَحۡمَدُ فَاضَتِ الرَّحۡمَتُ عَلٰی شَفَتَیْکَ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 517۔ ترجمہ۔ اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری کی جاویگی۔ بلاغت اور فصاحت اور حقائق اور معارف تجھے عطا کئے جاویں گے۔ سو ظاہر ہے کہ میری کلام نے وہ معجزہ دکھلایا کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکا۔ اس الہام کے بعد بیس20 سے زیادہ کتابیں اور رسائل میں نے عربی بلیغ فصیح میں شائع کئے مگر کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔ خدا نے ان سے زبان اور دل دونوں چھین لئے اور مجھے دے دئے۔‘‘

(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18 صفحہ 510)

مجھے اپنی جناب سے فہم سلیم اور عقل مستقیم عطا کی

’’اور قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے دیکھا اور مجھے قبول کیا ۔مجھ پر احسان کیا اور میری پرورش کی ۔اور مجھے اپنی جناب سے فہم سلیم اور عقل مستقیم عطا کی اور کتنے ہی نور ہیں جو اس نے میرے دل میں ڈالے جن کے باعث میں نے قرآن سے وہ کچھ جان لیا جو میرے غیر نہیں جانتے اور میں نے اس سے وہ کچھ پایاجو میرے مخالف نہیں پاتے اور میں اس کے سمجھنے میں اس مرتبہ پر پہنچ گیا جس سے اکثر لوگوں کے فہم قاصر رہتے ہیں ۔اور یہ اس کا سراسر احسان ہے اور وہ سب سے بہتر احسان کرنے والا ہے۔‘‘

(حمامۃ البشری، روحانی خزائن جلد7صفحہ 284تا285ترجمہ عربی عبارت)

کتب کی اہمیت۔ خلفاء کرام کے ارشادات

اس مضمون میں خاکسار کے مدنظر دنیا کے مختلف علوم و فنون پر لکھی جانے والی کتب کے علاوہ اسلامی کتب جس میں سب سے اہم کتاب الہٰی قرآن کریم، احادیث پر مشتمل کتب اور پھر آج کے دور میں امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کی کتب، خطبات و خطابات کے ذخیروں کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرنا مقصود تھا۔ جو ہمیں روحانی زندگی دے سکتی ہیں۔ جو ہمارے اخلاق سنوار سکتی ہیں جو ہمارا قبلہ درست کرسکتی ہیں۔ علم و عرفان اور حقائق و دقائق کے حوالہ سے ان کتب کے بارہ میں خلفائے خمسہ نے جو تحریکات فرمائیں۔ ان میں سے ایک ایک حوالہ یہاں پیش ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا:
’’حضرت پیر ومرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجا لاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کردوں۔ حضرت پیر و مرشد نابکار شرمسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے۔ میرا منشاہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے پھر جو قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو، مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 36)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے احباب جماعت کو مخاطب ہوکر فرمایا:
’’اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم نے مرزا صاحب کو امام مانا، صادق سمجھا، بہت اچھا کیا لیکن کیا اس غرض و غایت کو سمجھا کہ امام کیوں آیا ہے؟ وہ دنیا میں کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کی غرض یا مقصد میری تقریروں سے یا مولوی عبدالکریم کے خطبوں سے یا کسی اور کی مضمون نویسیوں سے معلوم نہیں ہوسکتی اور نہ ہم اس غرض اور مقصد کو پورے طور پر بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہمارے بیان میں وہ زور اور اثر ہوسکتا ہے جو خود اس رسالت کے لانے والے کے بیان میں ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 314)

27دسمبر 1920ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’تم بے شک ظاہری علوم پڑھو مگر دین کا علم ضرور حاصل کرو اور اپنے اندر دین کی باتیں سمجھنے اور اخذ کرنے کا ملکہ پیدا کرو۔اس کے لیے ایک تو قرآن کریم سیکھو اور دوسرے حضرت صاحب کی کتابیں پڑھو اور خوب یاد رکھو کہ حضرت صاحب کی کتابیں قرآن کی تفسیر ہیں۔ کل میں ان کے متعلق ایک خاص نکتہ بتاؤں گا۔ آج صرف اتنا ہی کہتا ہوں کہ وہ قرآن کی تفسیر ہیں ان کو پڑھو۔‘‘

(اصلاحنفس، انوارالعلوم جلد5صفحہ447)

اگلے دن حضورؓ نے وہ خاص نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔ براہین احمدیہ خاص فیضان الٰہی کے ماتحت لکھی گئی ہے اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو لے کر پڑھنے کے لیے بیٹھا ہوں دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملائکة اللہ، انوارالعلوم جلد5صفحہ560)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی گھرانہ میں کتب حضرت مسیح موعود موجود ہوں اور زیر مطالعہ ہوں اور انہیں بچوں کو پڑھانے کا انتظام ہو…….. احباب ہر تین ماہ میں کم از کم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب ضرور خرید لیا کریں اور خریدنے کی ترتیب یہ رکھیں کہ حضور علیہ السلام نے جو آخری کتاب تصنیف فرمائی اسے پہلے خرید کر پڑھیں اور پھر اس سے قبل کی کتب علی الترتیب خریدتے چلے جائیں کیونکہ آخری دور کی کتب حضور نے عوام کو مخاطب کرکے نہایت عام فہم اور آسان زبان میں تصنیف فرمائیں جبکہ ابتدائی زمانہ کی کتب علماء کو مخاطب کرکے لکھی گئیں جن کی وجہ سے وہ بہت گہری اوردقیق ہیں لیکن بہر حال وہ بھی بے شمار اور نہایت لطیف اور پُر معارف نکات پر مشتمل ہیں۔‘‘

(الفضل 29 اکتوبر 1977ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر میں غور کرتا ہوں تو اس سے ملتی جلتی حدیثیں یاد آتی ہیں اور جب حدیثوں کو غور سے پڑھوں تو صاف سمجھ آجاتی ہے کہ یہ منبع تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حکمت کا۔ وہ حدیثیں پڑھیں تو قرآن ان کا منبع نظر آتا ہے غرض یہ کہ سلسلہ وار بندوں سے بات شروع ہوکے خدا تک جا پہنچتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1998ء)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
’’اس زمانے میں جیسا میں نے پہلے بھی کہا کہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کے لئے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردومیں ہیں، چند ایک عربی میں بھی ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 401)

نام سلطان القلم اور قلم ذوالفقار

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘

(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 333)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے براہین احمدیہ کے متعلق فرمایا کِتَابُ الْوَلِیُّ ذُوْالْفِقَارُ عَلِیٍّ کہ ولی کی کتاب علی کی تلوار کی طرح ہے۔ یعنی مخاطب کو نیست و نابود کرنے والی ہے اور جیسے علیؓ کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کار دکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی۔

اس کی تشریح میں فرمایا کہ
’’یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلے میں۔ اس لئے ہم کو چاہیئے کہ ہرگز بیکار نہ بیٹھیں۔ مگر یاد رکھو کہ ہماری حزب ان کے ہمرنگ ہو جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہیئے اور وہ ہتھیار ہے قلم۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘

(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 58)

الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو بحیثیت سلطان القلم سیف کا کام قلم سے کردکھایا اور اسلام کو فتح دلائی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں قلم کو استعمال کریں۔ ایسی قلم جو ذوالفقار علی جیسی ہے جو تمام مخالفین کے مُنہ کو ساکت کرے۔

لوہے کی قلم

اللہ تعالیٰ نے جو ’’حدید‘‘ یعنی لوہے کے نازل ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ وہ تمام چیزیں لوہے سے بنی جو بطور پیشگوئی کے تھیں جیسے ریل، دخانی جہاز، کارخانے وغیرہ

اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’میں بھی سارے مضمون لوہے کے قلم ہی سے لکھتا ہوں۔ مجھے بار بار قلم بنانے کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے لوہے کے قلم استعمال کرتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے لوہے سے کام لیا ہم بھی لوہے ہی سے لے رہے ہیں اور وہی لوہے کی قلم تلوار کا کام دے رہی ہے۔‘‘

(حضرت اقدس جس قلم سے لکھا کرتے ہیں وہ ایک خاص قسم کا ہوتا ہے جس کی نوک آگے سے داہنی طرف کو مڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس کی شکل تلوار کی سی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر)

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 584)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 ستمبر 2020