• 24 اپریل, 2024

آنحضورﷺ کے دور کے مسلمان بچوں کے سنہری کارنامے

آنحضورﷺ کے دور کے مسلمان بچوں کے سنہری کارنامے
حاصل مطالعہ ( قسط سوم و آخر)

اس وقت میرے ہاتھوں میں سیرت رسولﷺ پر لجنہ اماء اللہ کراچی کی شائع کردہ کتاب ’’حضرت رسول کریمؐ اور بچے‘‘ ہے۔ جو مکرمہ امتہ الہادی زوجہ مکرم محمد رشید الدین کی کاوش ہے۔ گو یہ 92 صفحات پر مشتمل مختصر سی کتاب ہے ، لیکن بہت مفید اور دلچسپی کی ہے۔

خاکسار نے جب اس کا مطالعہ کیا تو فوراً ذہن قارئین الفضل لندن آن لائن کی طرف گیا کہ ان کو بھی اس دلچسپ اور ایمان افروز کتاب کے مطالعہ میں شامل کروں۔ چنانچہ خاکسار نے اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

  1. آنحضورﷺ کی پھول جیسے بچوں کو نصائح
  2. بچوں کی تربیت کے حوالہ سے آنحضورﷺ کی والدین اور بزرگوں کو نصائح
  3. آنحضورﷺ کے زمانے کے مسلمان بچوں کے سنہری کارنامے

اوپروالے دو عناوین پر ’’حاصل مطالعہ‘‘ اس سے قبل اخبارکا حصہ بن چکا ہے۔ آج اس کے تیسرے عنوان پر کچھ ایمان افروز واقعات پیش کرنے جارہا ہوں۔ بچے قوم کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ آنحضورﷺ نے اپنے دور کے بچوں کی اس رنگ میں تربیت فرمائی کہ وہ قوم کے رہنما بنے جنہوں نے آنحضورﷺ سے حاصل کی گئی تربیت کے پیش نظر ایسے جانثار، وفادار اورایمان دار لوگ پیدا کئے۔ جس کو دیکھ کر اور واقعات سن کر دل عش عش کرتا ہے۔

حضرت عثمانؓ بن العاص

آپؓ نے آنحضورﷺ کے آخری زمانہ میں اسلام قبول کیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر بہت چھوٹی تھی۔ آپؓ نے اس کم سنی میں ہی اسلامی تعلیمات کا علم حاصل کرلیا کہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ ’’یہ لڑکا تفقہ فی الاسلام اور علم القرآن کا بڑا حریص ہے۔ کم سنی کے باوجود علمی امتیاز کے باعث آنحضورﷺ نے آپؓ کو بنی ثقیف کا امام مقرر فرمایا تھا‘‘۔

(تہذیب الناس)

حضرت سعدؓ بن زراہ

آپؓ کو آنحضورﷺ نے بوجہ آپؓ کی علمیت کے بنو نجار کا نقیب مقرر فرمایا۔ آپؓ تمام نقیبوں سے سب سے چھوٹے تھے۔

(اسد الغابہ)

حضرت شداد اوسؓ

کم سنی کی عمر میں آپؓ بہت عابد وزاہد تھے، رات کو دیر تک عبادت میں مصروف رہتے۔ بسا اوقات عبادت کر چکنے پر بستر پر جاتے ہی دوبارہ عبادت کے لئے جائے نماز پر حاضر ہوجاتے۔

(اسد الغابہ)

حضرت علیؓ

آپؓ کے متعلق حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کَانَ مَا عَلِمْتُ صَائِمًا قَوَّامًا کہ جہاں تک مجھے علم ہے حضرت علیؓ بہت روزے دار اور عبادت گزار تھے۔

(ترمذی، کتاب المناقب)

آپؓ بچپن سے ہی آنحضورﷺ کی محافل عرفان میں شرکت کیا کرتے تھے۔ آپؓ فرماتے ہیں ’’میں جس طرح اونٹنی کا بچہ اُونٹنی کے پیچھے رہتا ہے اس طرح آنحضورﷺ کے پیچھے رہتا ہوں۔‘‘

ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے اپنے خاندان کے افراد کو دعوت پر بُلایا تو آپؐ نے تبلیغ اسلام کرنے کے بعد پوچھا کون ہے جو میرا مددگار و معاون ہو؟ تو حضرت علیؓ نے جن کی عمر 10 سال تھی۔ تینوں بار پوچھنے پر ہر دفعہ اپنا ہاتھ کھڑا کیا کہ میں آپ کا معین و مددگار ہوں۔

(طبری)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ

آپؓ بچپن میں ہی عبادت گزار تھے۔ رکوع اتنا لمبا کرتے کہ سورۃ البقرہ پڑھی جاسکے اور سجدے میں اس قدر محویت طاری ہوتی تھی کہ چڑیاں آپؓ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتی تھیں۔

(ابن اثیر)

حضرت انسؓ

خادم رسولؐ حضرت انسؓ جب 8-10 سال کے تھے تو آنحضور ﷺ نے کسی کام کے لئے بھیجا۔ جب وہ کام کرکے آئے تو گھر جانے میں دیر ہوچکی تھی۔ والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو آپؓ نے والدہ سے کہا کہ حضورؐ نے کسی کام سے بھیجا تھا۔ والدہ نے اس خیال سے کہ کہیں بہانہ نہ ہو کام کی نوعیت پوچھی تو حضرت انسؓ نے فرمایا۔ والدہ! وہ ایک خفیہ بات تھی۔ خاکسار آپ کو نہیں بتاسکتا۔ یہ سن کر والدہ نے بھی بطور نصیحت تاکیدًا کہا کہ بیٹا! پھر کسی اور سے بھی ہرگز ذکر نہ کرنا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ

ایک روز قریش کو قرآن کریم کےسنانے کا پروگرام بنا اور اس مشکل کام کو سرانجام دینے کے لئے سوچا جارہا تھا کہ کون یہ خطرناک مگر اہم کام سرانجام دے۔ عبداللہ بن مسعودؓ جو حافظ قرآن تھے نے فوراً اپنے آپ کو پیش کردیا۔ کئی صحابہ نے مخالفت کی یہ ابھی بچہ ہے اور ناموزوں ہے کوئی ایسا ہو جو اپنے خاندان کے لحاظ سے ایک مقام رکھتا ہو۔ مگر اگلے روز آپ نے خود ہی قریش کی محفل میں جاکر قرآن سنانا شروع کردیا۔ تمام مجمع مشتعل ہوگیا اور آپ کو مارنا شروع کردیا حتی کہ چہرہ متورم ہوگیا اور آپ نے مسلسل قرآن کو جاری رکھا۔ جب واپس آئے تو صحابہ نے کہا کہ یہی ڈرتھا جس کی وجہ سے تمہیں روکتے تھے۔ آپ نے پھر کہا کہ اگر کہو تو کل پھر جاکر سناؤں۔

(اسدالغابہ)

حضرت سلمہؓ بن اکوع

ایک دفعہ چند کفار آنحضرتﷺ کے اونٹوں کے چرواہے کو قتل کرکے اونٹ لے کر چل دئیے۔ اتفاق سے ایک ننھے بچے سلمہؓ کی نظر پڑگئی۔ آپ فوراً پہاڑ پر چڑھ کر مسلمانوں کو پکارنے لگے۔ آپ 12 سال کے تھے۔ بہت تیز رفتار بھاگتے تھے۔ آپ نے اکیلے ہی ڈاکوؤں پر تیروں کی بوچھاڑ کردی۔ لوگوں نے آپ کو پکڑنے کی کوشش کی۔ آپؓ نے بلند آواز سے کہا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم میں سے کوئی مجھے پکڑنا چاہے تو ہرگز نہیں پکڑ سکتا البتہ میں تم کو پکڑسکتا ہوں۔ اس طرح آپ نے ڈاکوؤں کو باتوں میں لگائے رکھا اوراس اثناء میں مسلمان وہاں پہنچ گئے اور اونٹ واگزار کروالئے۔

حضرت سہلؓ و سہیلؓ

ہجرت کے بعد آنحضورﷺ کی مدینہ آمد پر ہر شخص کی خواہش تھی کہ حضورؐ کا قیام اس کے گھر میں ہو مگر آپؐ کی اونٹنی دوکم سن خوش نصیب یتیم بچوں کی زمین میں جاکر بیٹھ گئی۔ یہ سعادت ان بچوں کے حصہ میں آئی۔

(بخاری)

حضرت اسماء اور حضرت ابو سعید خدریؓ

خادم رسولؐ حضرت اسماء کی عمر 13 سال کی تھی جب وہ میدان جنگ میں حضورؐ کے ساتھ شریک ہوئے اور حضرت ابو سعید خدریؓ کی عمر بھی یہی تھی جب حضورؐ نے انہیں جنگ میں شامل ہونے کے لئے نہ چُنا تو آپ کے والد نے اپنے اس کمسن بچے کا ہاتھ پکڑ کر آنحضورﷺ کو دکھلایا کہ دیکھیں حضور! پورے مرد کا ہاتھ ہے۔

(بخاری)

اسی طرح جنگ بدر میں ایک بہت ہی کمسن بچہ (برادر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص) بھی لشکر کی تیاری کے وقت اس ڈر سے کہ کہیں ان کو نکال نہ دیا جائے۔ لشکر کے پیچھے چھپ گئے۔ جب آپ کو واپسی کا حکم ملا تو وہ بہت روئے اور چلائے چنانچہ حضورؐ نے ان کے اس جذبہ کو دیکھ کر لشکر میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔

چنانچہ آپ کو جب تیار کیا گیا تو تلوار اس کمسن سپاہی سے بڑی تھی۔ آپ شامل ہوئے اور جام شہادت نوش فرمایا۔

حضرت معوذؓ اور معاذؓ

جنگ بدر میں دو ننھے بچوں نے ابو جہل کی شناخت کروا کردیکھتے ہی دیکھتے آناً فاناً قتل کردیا۔ دشمن خدا ابو جہل نے مرتے ہوئے بڑی حسرت سے کہا کہ میں کمسن لڑکوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔

(بخاری، کتاب المغازی)

حضرت رافعؓ

جنگ احد میں حضورؐ نے لشکر کی تیاری کے وقت رافع نوخیز بہادر بچے کو چُنا۔ یہ دیکھ کر ایک اور نوخیز نوجوان نے آگے بڑھ کر حضورؐ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! دونوں میں کشتی میں مقابلہ کروالیں۔ اگر میں نے رافع کو پچھاڑ لیا تو پھر مجھے بھی شامل کرلیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس لڑکے کو بھی شمولیت کی اجازت مل گئی۔

(ابن ہشام)

حضرت جابرؓ

سات یتیم بہنوں کے بھائی جابرؓ نے بھی حضورؐ کے سامنے گٹنے ٹیک کر جھک کر اس قدر عاجزی کے ساتھ جنگ میں شمولیت کے لئے درخواست کی کہ حضورؐ نے ان کو جنگ میں شمولیت کی اجازت دے دی۔

حضرت زیدؓ بن ثابت

حضرت زیدؓ بن ثابت نے گیارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کرتے ہی قرآن شریف نہ صرف پڑھنا شروع کردیا بلکہ حفظ کرنے کا بھی آغاز کر دیا اور ہجرت مدینہ کے وقت 17 سورتیں حفظ کر چکے تھے۔ آپؓ کی ذہانت اور یادداشت کے پیش نظر حضورؐ نے فرمایا کہ ’’میرے پاس سریانی اور عبرانی زبان میں بھی خط آتے ہیں اور یہ زبانیں سوائے یہودیوں کے کوئی اور نہیں جانتا اس لئے تم یہ زبانیں سیکھ لو تا خطوط کا جواب بھی دیا جاسکے۔ چنانچہ آپؓ نے بہت محنت اور اسی قدر شوق سے یہ زبانیں سیکھیں کہ 15 ہی روز میں خطوط پڑھنے اور ان کے جواب لکھنے پر قادر ہوگئے۔

(مسند احمد)

(نوٹ یہ تمام واقعات لجنہ اماء اللہ کراچی کی شائع کردہ کتاب ’’حضرت رسول کریمؐ اور بچے‘‘ سے لئے گئے ہیں)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2020