• 24 اپریل, 2024

درود شریف کی برکات

تنگی دور کرنے کا ذریعہ

حضرت جابر بن سمرہ سوائی ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور مجھ پر درود بھیجنا تنگی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے۔

(جلاءالافہام بحوالہ حلیہ ابی نعیم اختصارا ص51)

ساری مرادیں پوری ہونگی

حضرت اُبی بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک دفعہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ حضور ﷺ کے لئے مخصوص کیا کروں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا جتنا چاہو۔ عرض کیا ایک چوتھائی؟فرمایا جتنا چاہو۔ اور اگر اس سے زیادہ کر دو تو زیادہ بہتر ہوگا۔میں نے عرض کیا نصف حصہ؟ آپ ﷺ نے فرمایاجتنا چاہواور اگر اس سے بھی بڑھا دو تو اور بھی بہتر ہوگا۔میں نے عرض کیا دوتہائی؟ فرمایا جتنا چاہواور اگر اس سے بھی بڑھا دو تو اور بھی بہتر ہوگا۔حضرت ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ آئندہ میں اپنی تمام دعا کو حضور کے لئے مخصوص رکھا کروں گا۔اس پر حضور ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا کرو تو اس میں تماری سب ضرورتیں آجائیں گی اوراللہ تعالیٰ تمہارے سارے کام درست کردے گا۔اور تماری ساری مرادیں پوری کر دے گا۔اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔ (جامع ترمذی)

قبولیت دعا کا بہت بڑا ذریعہ

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں لاہور میں دفتر اکاؤ نٹنٹ جنرل ملازم تھا 1898ءکا یا اس کے قریب کا واقعہ ہے کہ میں درود شریف کثرت سے پڑھتا تھا ۔اور اس میں بہت لذت اور سرور حاصل کرتا تھا ۔انہی ایام میں مَیں نے ایک حدیث میں پڑھا کہ ایک صحابی نے رسول کریم ﷺ کے حضور میں عرض کیا کہ میری ساری دعائیں درود شریف ہی ہوا کریں گی۔یہ حدیث پڑھ کر مجھے بھی پر زور خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی ایسا ہی کروں ۔چنانچہ ایک روز جب کہ میں قادیان آیا ہوا تھا ۔اور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں حاضر تھا۔میں نے عرض کیا کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنی تمام خواہشوں اور مرادوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے درود شریف ہی کی دعا مانگا کروں ۔حضور ؑ نے اس پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور تمام حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر اسی وقت میرے لئے دعا کی ۔تب سے میرا اس پر پر عمل ہے کہ اپنی خواہشوں کو درود شریف کی دعا میں شامل کر کے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں۔اور یہ قبولیت دعا کا ایک بہت بڑا ذریعہ میرے تجربہ میں آیا۔

(رسالہ درود شریف از حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب جلالپوری138)

قرض دور کرنے کا ذریعہ

روایات میں آتا ہے کہ ایک صالح بزرگ پر تین ہزار دینار قرض تھے۔ قرض خواہ نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا قاضی نے مرد صالح کو تین ماہ کی مہلت دی ۔وہ مرد صالح مسجد میں آکر درود پڑھ کر خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے محراب میں بیٹھ گیا۔اس ماہ کی ستائیسویں شب خواب میں دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ حق تعالیٰ تیرے قرض کو ادا کرتے ہیں۔تو علی بن عیسیٰ وزیر کے پاس جا اور کہنا کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا قرض ادا کرنے کے لئے تین ہزار دینار دے دیں۔مرد صالح کہتے ہیں کہ جب میں بیدار ہوا تو میں نے اپنے اندر خوشی کے آثار پائے۔لیکن اپنے دل میں خیال کیا کہ اگر وزیر نے دریافت کیا کہ اس واقعہ کی علامت کیا ہے تو میں کیا کہوں گا؟ میں یہ سوچ کر اس دن وزیر کے پاس نہ گیا۔دوسری رات پھر حضور کو خواب میں دیکھتا ہوں۔آپ ﷺ نے جو کچھ شب اول میں ارشاد فرمایا تھا وہی دوبارہ فرماتے ہیں ۔میں نہایت خوشی سے بیدار ہوا لیکن بہ مقتضائے بشریت آج بھی علی بن عیسیٰ کے پاس نہیں گیا۔تیسری رات پھر دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نہ جانے کا سبب دریافت فرماتے ہیں ۔میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ میں اس واقعہ کی سچائی میں کوئی علامت چاہتا ہوں ۔آنحضرت ﷺ نے میری اس بات پر خوشی کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر تم سے علامت دریافت کرے تو کہہ دینا کہ تم ہر روز نماز فجر سے طلوع آفتاب تک کسی سے کلام کرنے سے پہلے پانچ ہزار بار تحفہ درودشریف ہمارے پاس بھیجتے ہو۔جس کو خداتعالیٰ اور کراماً کاتبین کے سوا کوئی نہیں جانتا۔میں وزیر کے پاس گیااوراس کے سامنے خواب والا واقعہ بیان کیا ۔نیز جو علامت حضور ﷺ نے بتائی تھی وہ بھی کہہ دی ۔اس پر وزیر بہت خوش ہوا ۔اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے قاصد کو مرحبا۔تین ہزار دینار مجھے دیئے اور کہا کہ یہ اپنے قرض کی ادائیگی میں دینا۔تین ہزار اوردیئے کہ ان کو اپنے اہل وعیال پر خرچ کروں۔اس کے علاوہ تین ہزار دینار دئیے کہ ان کو تجارت میں لگاؤں۔اس کے بعد مجھے قسم دی کہ یہ محبت کا تعلق مجھ سے ہر گز قطع نہ کرنا۔تمہیں جو ضرورت ہو مجھ سے لے جایا کرو۔میں تین ہزار دینار لے کر قاضی کے پاس گیا تاکہ میں قرض ادا کروں ۔قرض خواہ اتنی رقم دیکھ کر حیران و پریشان ہوگیا ….سارا قصہ قاضی کے سامنے بیان کیا ۔قاضی نے کہا یہ فضیلت وزیر کو کیوں دی جائے۔اس قرض کو تیری طرف سے میں ادا کروں گا۔قرض خواہ نے کہا یہ شرف اور عزت آپ کو کیوں دی جائے میں زیادہ مستحق ہوں کہ اس مرد صالح کی ذات کو اپنے قرضہ سے بری کردوں ۔میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر معاف کیا ۔قاضی نے کہا جو کچھ میں نے اللہ اور رسول کے نام پر دیا ہے اس کو واپس ہر گز نہ لوں گا۔میں وہ تمام رقم لے کر گھر آگیا۔اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔

(تیس جواہرات از داؤد احمد منصورص185-186)

بیماری اور تکلیف سے نجات کا ذریعہ

چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1945ء کا واقعہ ہے کہ حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب اپنے چھوٹے بھائی محترم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کو ٹانگ کے آپریشن کے لئے انگلستان لائے۔جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا بے شمار انگریز فوجی زخمی ہو کر واپس آرہے تھے ۔ہسپتال بھرے پڑے تھے۔چوہدری عبداللہ خانصاحب کوبہت زیادہ تکلیف تھی۔حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب ؓ نے اپنے انگریز دوستوں سے رابطہ کر کے کسی ہسپتال میں داخلہ کی کوشش کی مگر منزل قریب نظر نہ آئی ۔ایک دن حضرت چوہدری صاحب انتہائی خوش تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ کی حمد کر رہے تھے۔حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پوچھا چوہدری صاحب اس خوشی کی کیا وجہ ہے ؟ چوہدری صاحب نے فرمایا رات مایوسی کی حالت میں بڑی دعا کا موقع ملا۔میں نے سن رکھا تھا کہ روہمپن میں ایک ہسپتال ہے جہاں ٹوٹے ہوئے اعضاءکا علاج ہوتا ہے اور مصنوعی اعضاء بھی لگائے جاتے ہیں۔ میں بغیر واقفیت کے وہاں چلا گیا۔سارا راستہ بس درود شریف پڑھتا رہا وہاں جاکر انچارج ڈاکٹر کو ملا اپنا تعارف کروایا۔عبداللہ خان کی کیفیت بیان کی اور اب تک علاج کی رپورٹ دکھائی۔ڈاکٹر رپورٹ پڑھ رہا تھا اور میں آنحضرت ﷺ پر درود بھیج رہا تھا۔ڈاکٹر نے سر اٹھایا اور کہا کہ آپ کے بھائی کو فوری داخل کرنا پڑے گا۔میں نے شکریہ ادا کیا اور کمرہ سے باہر نکل کر لان میں سجدہ شکر بجالایا ۔ پھر بھائی عبداللہ سے کہا عبداللہ خان تیار ہوجا ہسپتال آرام دہ نظر نہیں آتا مگر ہمیں تو علاج سے غرض ہے۔چوہدری عبداللہ خان صاحب کا اس ہسپتال میں آپریشن ہوا۔گٹنے کے جوڑ میں پن ڈال کر ٹانگ سیدھی کر دی گی۔پھر وہ ٹانگ جھکانہیں سکتے تھے۔مگر کہا کرتے تھے کہ جو تکلیف میں نے سالہاسال دیکھی ہے اس کے مقابل پر اب جنت میں ہوں اس کے بعد لمبے عرصہ تک بڑی مصروف زندگی گزاری۔ چوہدری عبداللہ خان صاحب جب صحتیاب ہو کر وطن واپس آگئے تو حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کچھ دیر انگلستان میں رہے۔آپ دوستوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے طور پر اپنے بھائی کے ہسپتال میں داخلہ کا واقعہ سنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے۔ دوستوں کا سہارا کام نہ آیا مگر آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کی برکت سے مشکل مرحلہ آسان ہوگیا۔

(سوانح حیات چوہدری ظہور احمد باجوہ ص276-277)

روزانہ ایک ہزار دفعہ درود بھیجنے والے

1956ءکی بات ہے کہ پشاور کی احمدیہ مسجد میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے دوران گفتگو میں کہا کہ احمدی لوگ آنحضرت ﷺ کی تعظیم نہیں کرتے یہ بات سن کر مکرم مصلح الدین صاحب راجیکی کہنے لگے کہ کیا وہ لوگ جو نبی کریم ﷺ پر دن میں ہزار دفعہ درود بھیجتے ہیں ،آپ اُن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ حضور ﷺ کی تعظیم نہیں کرتے؟ غیر احمدی مولوی صاحب نے کہا کہ کون حضور ﷺ پر دن میں ہزار مرتبہ درود بھیجتا ہے ؟ مکرم مصلح الدین صاحب نے فرمایا کہ ایک احمدی تو میں ہوں کہ روزانہ کم از کم ہزار بار درود بھیجتا ہوں۔یہ سن کر وہ مولوی صاحب دیر تک آپ کی طرف دیکھتے رہے اور پھر خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔(تابعین احمد جلد 2ص13)

محسن نبی (ﷺ) پر درود بھیجو

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:اُس محسن نبی(ﷺ) پر درود بھیجو جو خداوند رحمان ومنان کی صفات کا مظہر ہے کیونکہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جس دل میں آپ ﷺ کے احسانات کا احساس نہیں اُس میں یا تو ایمان ہے ہی نہیں اور یا پھر وہ اپنے ایمان کوخود تباہ کرنے کے درپے ہے۔اے اللہ اس امی رسول اور نبی (ﷺ )پر درود بھیج جس نے آخرین کو بھی سیراب کیا ہے جیسا کہ اس نے اولین کو سیراب کیا تھا۔

(ترجمہ از عربی عبارت اعجاز المسیح ص3-4)

(مرسلہ: محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2020