• 25 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط11)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط11)

9۔ ایک چرچ نے ایک ہائی سکول میں INTERFAITH PEACE PRAYERکا اہتمام کیااور خاکسار کو بھی دعوت دی۔ اس پروگرام میں دیگرمذاہب کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ خاکسار نے یہاں پرامن کی تعلیم اور دعا کے فلسفہ کو بیان کر کے اور سورۃ الفاتحہ اور دیگر دعائیں پڑھ کر ان کا ترجمہ پیش کیا۔ اس مجلس میں خاکسار کے ساتھ جماعت کے 15احباب تشریف لے گئے تھے۔ یہاں پر ایک اندازہ کے مطابق 150سے زائد حاضری تھی۔

اس چرچ کےمنتظمین دیگر مسلمانوں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی تھی مگر کوئی نہیں آیا۔

10۔PILGRIM CHURCH UNITED CHURCH OF CHRISTپلگرم چرچ یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ کےمنتظمین نے بھی خاکسار کو اپنے چرچ میں اسلام کے تعارف پر تقریر کرنے کے لئے بلایا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ½1 گھنٹہ سے زائد پروگرام کادورانیہ رہا۔ سوال و جواب بڑے اچھے ماحول میں ہوئے۔اس چرچ کے پادری Mr. Rev Stephen Andersonاچھے آدمی ہیں۔ کئی دفعہ جمعہ پر حاضر ہوئے۔ رمضان المبارک میں ہفتہ کے دن ہماری افطاری میں بھی شامل ہوتے رہے۔ حضور انور کا خطبہ بھی سنتے رہتے ہیں۔ 11؍ستمبر کے بعد جتنے فنکشن مسجد بیت الرحمان میں ہوئے، سب میں شامل ہوئے ہیں۔ 2مواقع پر تقریر بھی کی اور اچھے خیالات کا اظہار کیا۔

11۔ کونٹی ایگزیکٹو کی طرف سے مسجد بیت الرحمان میں سالانہ دعا کے پروگرام :کونٹی ایگزیکٹو کے نمائندہ نے خاکسار کو فون کیا کہ ہم اپنی ساتویں سالانہ دعائیہ کانفرنس مسجد بیت الرحمان میں کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس کا انتظام انہوں نے خود کیا۔ مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنی اپنی کتب سے دعا ئیہ کلمات پڑھے۔ خاکسار نے سب سے پہلے خوش آمدید کرنے کے ساتھ جماعت احمدیہ کا مختصر تعارف پیش کیا۔ یہ پروگرام سب نے بہت پسند کیا۔ اس موقع پر قریباً 250 امریکن لوگ شامل ہوئے۔ ایک نزدیکی سکول کے 60 کے قریب بچوں نے بھی شرکت کی اور ملک کا ترانہ پیش کیا۔ مسجد میں منعقدہ نمائش بھی سب نے دیکھی اور اچھے دوستانہ ماحول میں گفتگو ہوئی۔

منٹگمری کونٹی کے ایگزیکٹو Mr. Douglas M. Dunea اور اس کے نمائندوں نے شکریہ ادا کیا۔ اور جماعت کی اس فراخدلانہ ضیافت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہیں قرآن کریم کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔

12۔ مسجد بیت الرحمان کی ہمسائیگی میں قریباً ½1 میل کے فاصلہ پر مسلم کمیونٹی سینٹر ہے جسے MCCکہتے ہیں۔ ان کے صدر مسٹر صابر رحمان صاحب (جن کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہوں) نے فون پر دعوت دی کہ کل ہمارے سینٹر میں میری لینڈ سٹیٹ کی لیفٹیننٹ گورنر صاحبہ تشریف لارہی ہیں، اس موقعہ پر آپ بھی آئیں اور اپنے ساتھ 5 دوست مزید بھی لے آئیں۔ چنانچہ وہاں پر لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقات کا موقع ملا۔ خاکسار نے انہیں احمدیہ گزٹ اور مسجد بیت الرحمان کا بروشر پیش کیا۔ اس کے علاوہ گورنر صاحبہ کے آفس کے اعلیٰ عہدیداران اور افسران سے گفتگو اور تعارف کا موقع ملا۔

Welcome ایڈریس میں مسٹر صابر رحمان صاحب نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر مسلمانوں کی دیگر تنظیمیں بھی موجود ہیں اور ان کے لیڈر بھی۔ انہوںنےدیگرمسلمان تنظیموںکےساتھ جماعت احمدیہ کا نام بھی لیا گیا۔ اس موقعہ پر دیگر مسلمانوں کے نمائندگان سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔

13۔ PRESBYTERIAN CHURCH میں دوسری مرتبہ گیا۔ انہوں نے تقریر کا عنوان دیا UNDERSTANDING ISLAM TODAY۔ چنانچہ خاکسار جماعت کے دوستوں کے ساتھ وہاں گیا۔ خاکسار نے 20منٹ تقریر کی۔ سوال و جواب ہوئے۔ خاکسار نے پادری صاحب کو قرآن مجید کا تحفہ دیا اور اسلامی کتب بھی پیش کیں۔

14۔اسی چرچ کے پادری صاحب نے علاقہ کے دیگر مذہبی راہنماؤں کو بھی اپنے چرچ میں بلایا۔ خاکسار کے علاوہ 4 دیگرمذہبی لیڈرز بھی شامل ہوئےجو سب کے سب عیسائیت کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے مذہب اور فرقہ کا تعارف کرایا۔

ان کے ساتھ دوسری میٹنگ مسجد بیت الرحمان میں ہوئی۔ انہیں مسجد دکھانے کے علاوہ نمائش بھی دکھائی گئی۔ پھر مختلف موضوعات پر ایک گھنٹہ تک گفتگو ہوتی رہی جس میں اسلام میں عورت کا مقام خاص طور پر زیر بحث رہا۔ باقی پادریوں نے بھی مختلف سوالات کئے۔ جب خاکسار نے یہ تجویز دی کہ اگلے ایجنڈے میں ‘‘عورت کے مقام’’پر ہی گفتگو کی جائے اورہر فرقہ و مذہب اپنی اپنی کتاب سے ثابت کرے کہ عورت کا کیا مقام ہے۔ توکوئی بھی اس بات پر رضا مند نہ ہوابلکہ یہ تأثر دیا کہ اگر ہم نے یہ موضوع رکھ لیا تو ہمارے لئے چرچ میں مصیبت کھڑی ہوجائے گی۔ ان سب کو اسلامی اصول کی فلاسفی کاانگریزی ترجمہ بھی پیش کیاگیا۔

ان کے ساتھ تیسری میٹنگ ابھی حال ہی میں ہوچکی ہے۔

15۔ مسجد بیت الرحمان سے 45میل دور ایک مڈل سکول ہے۔ انہوں نے بھی اسلام پر تعارف کے لئے بلایا۔ چنانچہ ان کےساتھ دوسیشن اور بہت عمدہ سوال و جواب کاسلسلہ رہا۔بچوں کی تعداد 35 تھی۔ سب کو اسلام کے بارےمیں لٹریچر اور مسجد بیت الرحمان کی تصویر بھی تحفۃً دی گئی۔

16۔ گورنر آف میری لینڈ کے آفس سے ایک دعوت نامہ ملا جس میں انہوں نے رضاکارانہ طور پر خدمات بجا لانے کے لئے ایک سیمینار کرنا تھا۔ اس میں جماعت کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ خاکسار میری لینڈ کے 2 مخلص دوستوںمکرم امجد چوہدری صاحب اور مکرم اقبال خان صاحب کے ساتھ اس سیمینار میں شامل ہوا۔

اس سیمینار کے منعقد کرانے کے لئے جو کمشنر مقرر ہوئے تھےجب خاکسار اُن کو ملا اور اپنا کارڈ پیش کیا تو پڑھ کر فوراً چونکے ’’احمدیہ‘‘۔ احمدیہ کو تو میں جانتا ہوں۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے کہ میں سیرالیون ،مغربی افریقہ میں ماٹاٹوکا کے علاقہ میں رہاہوں،وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف احمدی تھے۔ میں نے بتایا کہ میں اس علاقہ میں مبلغ رہا ہوں اسپرانہوں نے خاکسار سے2مرتبہ خوشی کے ساتھ معانقہ کیا۔ ان کے ساتھ بہت دوستانہ ماحول میں باتیں ہوئیں۔ انہیں مسجد بیت الرحمان کے بروشر اور احمدیہ گزٹ کی کاپی بھی پیش کی گئی۔ اس سیمینار پر 15 افسران اور مذہبی لیڈروں سے ملاقات ہوئی۔ انہیںجماعت کا تعارف کرایا نیز لٹریچر بھی دیا۔

17۔ PILGRIMچرچ والوں کے ساتھ ہمارا رابطہ ہوا تھا جس کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس چرچ کے پادری کو دعوت دی گئی کہ وہ مسجد بیت الرحمان آکر اپنے عقائد کے بارے میں تقریر کرے اور اپنے ساتھ چرچ کے دیگر احباب کو بھی ساتھ لائے۔ چنانچہ وہ اپنے 12دوستوں کے ساتھ تشریف لائے۔ تقریر کی اور ہمارے احباب نے اُن سے سوال وجواب کئے۔ ان سب کو کھانا پیش کیا گیا۔ اب ان کی طرف سے پھر خط ملا ہےاور انہوں نے اپنے چرچ آنے کی دعوت دی ہے کہ قرآن کریم کے موضوع پر تقریر کریں اور سوال و جواب بھی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے ساتھ 20 احباب لاسکتے ہیںکیونکہ اُن کے پاس جگہ تھوڑی ہے۔ اس طرح چرچوں میں تقاریر اور اسلام کے بارے میں تعارف کایہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بہتر نتائج پیدا فرمائے۔ آمین۔

18۔ مسجد کے ہمسایہ میں ایک اور چرچ ہے۔ اس کے پادری مسجد دیکھنے کے لئے تشریف لائےاور پون گھنٹہ تک بیٹھے رہے۔ اچھے ماحول میں گفتگو اور سوال و جواب ہوتے رہے۔ احمدیت و اسلام کے بارے میں لٹریچر بھی لے کر گئے۔

19۔ لیفٹیننٹ گورنر کے آفس سے 4 افسران اعلیٰ کو خاکسار نے مسجد بیت الرحمان دیکھنے کی دعوت دی چنانچہ یہ افسران تشریف لائے۔ مسجد اور نمائش دکھائی گئی۔ ضیافت کی گئی۔ اُن کے ساتھ 2گھنٹہ سے زائد ملاقات رہی۔ دلچسپ گفتگو کے علاوہ سوال و جواب اور لٹریچر بھی لے کر گئے۔ انہوں نے ہمارا MTAکا ارتھ سٹیشن بھی دیکھا اور بہت متاثر ہوئے۔ اس مجلس میں مکرم صدر جماعت میری لینڈ مکرم ڈاکٹر لئیق احمد صاحب اور مکرم امجد چوہدری صاحب بھی شامل تھے۔

20۔ ان پروگراموں کے علاوہ کونٹی کی طرف سے جن مزید پروگراموں میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا، ان میں زیادہ تر علاقہ کے مذہبی نمائندے، سیاسی نمائندے اور کونٹی کے ورکرز شامل ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے وفد کے دیکھتے ہی وہ خودہمارا تعارف کرانے لگ گئے ہیںکہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کے نمائندے بھی یہاں آئے ہوئے ہیں اور اُن کےفلاںفلاں نمائندےموجود ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل واحسان ہے۔ الحمدللہ۔

21۔ لوکل اخبارات میں کوریج کے بارے میں خاکسار نے تراشے بھی مرکز میں بھجوائے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلام کے بارہ میں جب عوام میں دلچسپی بڑھی اور انہوں نے مساجد اور اسلامک سینٹرز میں آنا شروع کیا اور افہام و تفہیم کا سلسلہ پھرسےچل نکلا تو فوراً ہی پریس اور میڈیا نے اسلام کے بارے میں دوبارہ منفی پراپیگنڈا کرنا شروع کر دیا۔ مختلف پادریوں نے اسلام کے خلاف TVپر تقریریں کرنی شروع کردیں اور اب تو یوں لگتا ہے کہ باقاعدہ ایک پلاننگ کے ساتھ اسلام پر حملہ ہورہا ہے۔ یہاں کے لوکل اخبارات میں بھی اسلام کے خلاف زہر اگلا جانے لگا اور Letters to the Editor میں مختلف یہودیوںاورعیسائیوں نے اعتراضات لکھ کر شائع کرانے شروع کردئیے۔ ہماری کونٹی کے ایک اخبار منٹگمری جرنل میں یہ اسلام مخالف مضامین شائع ہوتے رہے۔ چنانچہ ان خطوط اور مضامین کا نوٹس لیا گیا اورقریباً ہر ایک کا جواب دیا گیا۔ان مضامین میں خصوصیت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملےکئےگئے تھے کہ آپؐ نے خود ہی اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا۔ یہودی قبائل کو جلاوطن اور قتل کیا وغیرہ۔ نیز اسلام میں عورت کی کچھ حیثیت نہیں ہے اوراس قسم کے مختلف اعتراضات تھے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا شافی جواب لکھ کر اخبارات کو بھجوایا گیا۔ اخبارات نے ہمارا نقطہ نظر بھی بیان کیا لیکن کانٹ چھاٹ کر اور وہ بھی نامکمل ۔تاہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اب اس اخبار میں کوئی اعتراض والا خط پھر شائع نہیں ہوا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

خطوط کے جواب لکھنے میں خاکسار کی مدد مکرم مولونامختار احمد چیمہ صاحب، مکرم ڈاکٹر خالد عطاء صاحب، مکرم ڈاکٹر عمرخان صاحب نےکی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

22۔ لوگوں کو اسلام میں دلچسپی تھی اور اس موضوع پر لٹریچر بھی تیار کرنا تھا۔ چنانچہ محترم امیر صاحب کی ہدایت پرمکرم مختار احمدچیمہ صاحب اور خاکسار نے ایک پمفلٹ Islam The Religion Of Peace And Tolerenceتیارکرکے10 ہزار کی تعداد میں شائع کیا جو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قریباً سارا تقسیم ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ اسی پمفلٹ کو خطوط والے حصہ میںدو لوکل اخباروں منٹگمری جرنل اور گزٹ میں بھی خط کی شکل میں شائع کرا دیاگیا۔ اس طرح یہ قریباً 50 ہزار گھروں تک پہنچا۔الحمد للہ۔

23۔ جس یہودی ربائی کا ذکر خاکسار پہلے کر چکاہے، اس نے اپنے ایک سکول کی پرنسپل کو میرا نام اور کارڈ بھی دیا۔ چنانچہ اس سکول کی پرنسپل نے خاکسار کو اپنی سنڈے کلاس کے بچوں کےساتھ،(اُن کے سینیگاگ میں) وزٹ کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ خاکسار 30 بچوں،14 اساتذہ اور 2 خدام کے ساتھ ان کے سکول گیا۔ وہاںایک پروگرام منعقد کیاگیا جس میں عہد نامہ قدیم کے بارے میں اُن کی ایک بچی نے تقریر کی جبکہ ایک دوسری بچی نے یہودی مذہب میں تہواروں کے بارے میں بیان کیا۔

انہوں نے مجھے اسلام کے تعارف کے علاوہ اسلام میں مہمان نوازی کے بارہ میں تعلیم پر کچھ کہنے کی درخواست کی تھی۔ خاکسار نے احادیث کی روشنی میں مہمان نوازی کے واقعات سنائے جس کا بچوں اور بڑوں پر اچھا اثر ہوا۔ پرنسپل سمیت 5 لوگوں کو مسجد بیت الرحمان کا بروشر اور پمفلٹ دیئے گئےنیزسب بچوں کوتحائف بھی دئیےگئے۔

اس کے بعد 7؍اپریل کویہ بچے اور اساتذہ ہماری مسجد دیکھنے آئے۔ اس پروگرام میں ہم نے بھی اپنے دو بچوں سے اسلام کا تعارف اور قرآن کے تعارف پر تقاریر کرائیں اور ان کے سوالوں کے جواب دیئے۔ نیز انہیں مسجد اور نمائش بھی دکھائی گئی۔

24۔ لوگوں میں اسلام کے بارہ میں ابھی بہت منفی خیالات پائے جاتے ہیں اور پریس اور میڈیا اس میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ چنانچہ ہم نے ایک اور پروگرام ترتیب دیا جس کےمطابق مہینہ میں کم از کم ایک بار مسجد بیت الرحمان میںمجلس سوال و جواب کا انعقاد ہوتا جہاں ہمسایوں، دوستوں اور چرچ کے لوگوں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ مسجد آئیں اور سوال و جواب کریں۔ چنانچہ ہم نے ایک بڑا بینر اس دعوت کا بنوا کر مسجد کے باہر لگایا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے 13غیر از جماعت اور غیر مسلم اس پہلی میٹنگ میں شامل ہوئے۔ ایک گھنٹہ تک پروگرام جاری رہا۔ سوالوں کے جواب دینے میں مکرم برادر سلام صاحب مشنری بالٹی مور، مکرم ڈاکٹر خالد عطاء صاحب آف میری لینڈ اور ہمارے نیشنل جنرل سیکرٹری ملک مسعود احمد صاحب نے خاکسار کی مدد کی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔

ان 13 احباب میں تھائی لینڈ کی ایک فیملی، ایک ایفرو امریکن فیملی، ایک وائٹ امریکن فیملی، ایک چرچ کا نمائندہ اور2 پاکستانی جن میں ایک ڈاکٹر تھے، تشریف لائے۔ پاکستانی ڈاکٹر بہت متاثر ہوئے اور اگلی میٹنگ میں دوبارہ اپنے ساتھ امریکن دوستوں کو لانے کا وعدہ کر کے گئے۔ خاکسار نے میٹنگ کے شروع میں اس کا مقصد اور جماعت کا تعارف کرایا اور ایک سوال کے جواب میں جماعت احمدیہ کے دوسرے مسلمان فرقوں سے جو اختلاف ہے، اس کو بیان کیا۔

25۔ لیفٹیننٹ گورنر آف میری لینڈ کے آفس سے ایک افسر نے فون کیا اور خاکسار کو لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ ایک میٹنگ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔قریباً 150افراد تھے جن میں حکومتی نمائندے، گورنر کی پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران، مذہبی نمائندےاورپاکستانی کمیونٹی کے لوگ شامل تھے۔یہاں پر بھی انفرادی طور پر لوگوں کے ساتھ ملاقات اور تعارف کا موقع ملا۔ گورنر کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی اور انہیں اس سے قبل مسجد بیت الرحمان کا بروشر اور احمدیہ گزٹ پیش کیا گیا تھا۔

11؍ستمبر کے سانحہ کے بعد مختلف لوگوں کے ساتھ، اداروں کے ساتھ، مذہبی لیڈروں کے ساتھ حکومتی سطح پرخدا تعالیٰ کے فضل سے رابطہ ہوااور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

سانحہ 9/11 کے بعد بعض شر پسند عناصر اور سخت جنونی قسم کے لوگوں نے ہمیںفون پردھمکیاں بھی دیںلیکن یہ صرف برائے نام تھیں اور ایک قدرتی ردّ عمل تھا کیونکہ بار بار مسلمانوں کا نام TV اور اخبارات میں آرہا تھا۔اس کے برعکس رابطے اور نتائج خوشکن ہیں۔

اسی سلسلہ میں مقامی پولیس اور حکومتی اداروں کی کارکردگی اور تعاون بھی مثالی رہا۔جوں ہی ملک میں مسلمانوں کی چند مساجد کے گھیراؤ اور نقصان کے بارہ میں خبریں ملیں، مقامی پولیس ہر جگہ مساجد کی حفاظت کی خاطر پہنچ گئی اور ہر ممکن تعاون کیا۔ اس کے علاوہ ہمسایوں نے اور دیگر عوام نے بھی بہت ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔ لوگ مسجد پھول لے کر آتے رہے۔ کئی لوگوں نے ہمدردی کےکارڈز ہمیں بھجوائے۔ کئی لوگوں نے خطوط لکھے اور ہمدردی کا اظہارکیا۔

مسجد کے ہمسایہ چرچ کے پادری خود تشریف لائے اور کہا کہ اگر آپ کی خواتین اور بچیوں کو کچھ پرابلم ہو، ٹرانسپورٹ نہ ہو، جاب پر جانے کا مسئلہ ہوتو ہمیں بتائیں ہم ہر ممکن مدد کریں گے۔ ایک چرچ کے چند نوجوان ایک بڑا پوسٹر بنا کر لائے جس پر دعائیں لکھی ہوئی تھیں۔ اسی چرچ کے لوگوں نے ایک 18افراد کی فہرست دی۔ اُس فہرست پر نام، پتے اور فون نمبرز لکھے تھے کہ یہ لوگ آپ کی خدمت کے لئے موجود ہوں گے۔ آپ انہیں فون کر کے بلا سکتے ہیں۔ یہ کردار بھی ان لوگوں کا عظیم کردار ہےجنہیں لوگ کافر کہتے ہیں۔

خاکسار نے اس وقت تک جو کچھ بھی آپ کی خدمت میںاس سانحہ کےحوالےسے پیش کیا ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی مساعی کو سیاسی ومذہبی اور حکومتی سطح پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مسجد بیت الرحمان میں (ہیڈکوارٹرز) اور دیگر جگہوں پر جہاں بھی جماعت نے نمائندگی کی،خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کی خاص توفیق جماعت احمدیہ کے حصہ میں آئی۔

(اس سانحہ عظیمہ پر جماعت کے امیر مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم نے پریس ریلیز جاری کی اور امریکہ کے صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ کو تعزیت نامہ ارسال کیا۔ کونٹی کے مختلف ہائی آفیشلز کی طرف سے شکریہ کے خطوط موصول ہوئے)

ان خطوط سےخدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو کئی جگہوں پر اور کئی طریق پر نائن الیون کے بعد خدمت کی توفیق ملی۔ اور اسلام کی حسین تعلیم بیان کرنے اور لوگوں کے شکوک وشبہات کے ازالہ کی توفیق ملی جسے ہر طبقہ کے لوگوں نے سراہا ۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

نائن الیون کے بعد کے حالات لکھنے سےقبل خاکسار اب اخبارات کے تراشوں کی طرف آتا ہے جن میں اس علاقہ یعنی مسجد بیت الرحمان میری لینڈ ہیڈکوارٹر کے علاقہ میں ہماری مساعی کو کوریج ملی۔

دی گزٹ: یہ اخبار بہت سارے علاقوں میں شائع ہوتا ہے اور ہر کونٹی کا الگ الگ اور ہے۔ چنانچہ اس اخبار نے اپنی 19؍ستمبر 2001ء کی اشاعت میں نائن الیون کے حادثہ کے ٹھیک 9دن بعد ایک بڑی تصویر شائع کی جس میں خاکسار مسجد بیت الرحمان میں نماز پڑھا رہا ہے اور دیگربہت سے احمدی نماز میں شامل ہیں۔ اس خبر کی سٹاف رائٹر TERRIE HEARTLY ہیں۔ تصویر کے نیچے انہوں نے لکھا کہ امام شمشاد ناصر جو بیت الرحمان سلور سپرنگ میں مذہبی منسٹر(یعنی امام) ہیں، نائن الیون کے متاثرہ لوگوں کے لئے نماز میں دعا کرا رہے ہیں۔

خبر کا عنوان ہے: ’’ہم سب کے لئے یہ ایک افسوسناک حادثہ فیونرل (جنازہ) کی طرح ہے۔‘‘ خبر میں انہوںنےلکھاہے کہ باوجودیکہ علاقہ کے مختلف جگہوں پر نائن الیون کے متاثرہ لوگوں کے لئےدعائیں ہورہی ہیں اور تقریبات منعقد کی جارہی ہیں لیکن پھر بھی یہاں کے لوکل مسلمان ایک خوف کی حالت میں رہ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں نیویارک اور واشنگٹن میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے لوکل مسلمان بھی ان دعائیہ تقریبات میں حصہ لے رہے ہیںان دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کر رہے ہیں۔ اخبار نے ایک مسلمان مکرم حبیب غنیم صاحب جو یہاں کا لوکل باشندہ ہے ،کامذمتی بیان بھی شائع کیا۔

اخبار نے خاکسار کے حوالے سے لکھا :امام شمشاد احمد ناصر جو بیت الرحمان میں مذہبی منسٹر ہیں، نے کہا ہے کہ ہمیں حکومت کے قوانین کی پوری پوری پابندی کرنی چاہیئے۔ انہوں نے گذشتہ جمعہ کے روز اپنے خطبہ جمعہ میں نائن الیون کے متاثرہ لوگوں کے لئے دعا بھی کرائی اور کہا کہ ہماری مسجد ہر شخص کے لئے کھلی ہے۔ ہمارا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ ’’محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام تو ہر ایک کے لئے بلا امتیاز ہمدردی سکھاتا ہے۔

صفحہ 9A پر خبر جاری رکھتے ہوئے اخبار نے دو تصاویردی ہیں۔ ایک مسجد بیت الرحمان کی باہر سے اور ایک میں مسجد کے اندر بیٹھے لوگ خطبہ سن رہے ہیں۔ مسجد بیت الرحمان کی تصویر کے ساتھ امریکہ کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ اور اسے نمایاں دکھایا گیا ہے۔ خبر میں مزید لکھا ہے کہ یہاں کی مسلم کمیونٹی سینٹر نے بھی اس سلسلہ میں تقاریب کیں۔ اس خبر میں گرونانک فاؤنڈیشن (سکھ گردوارہ) کے حوالہ سے بھی کہا گیا ہے کہ لوگوں کو مسلمان اور سکھوں میں امتیاز کرنا چاہیئے۔ اور سمجھنا چاہیئے کہ ہر دو میں فرق ہے۔ چونکہ سکھ بھی سر پر پگڑی باندھتے ہیں اور ان کی داڑھی ہوتی ہے۔ اور مسلمان بھی ایسا کرتے ہیں۔ صرف لباس کے سٹائل سے ہی نہ سمجھ لیں کہ سکھ بھی مسلمانوں کی طرح ہیں۔

آخر میں خاکسار کے حوالہ سے انہوں نے لکھا کہ ناصر نے کہا ہے کہ جب میں گذشتہ ہفتے مسجد میں نماز پڑھانے آیا تو مسجد کے باہر دروازے پر پھولوں کے گلدستے پڑے تھے اور غیر مسلم ہمسایہ کی طرف سے ایک تحریری نوٹ تھا: کہ ہمیں آپ کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے۔ ہمیں کونٹی پولیس اور دیگر لوگوں کی طرف سے بہت اچھا تعاون ملا ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس حادثہ کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ نفرت سے پیش آرہے ہیں اور مسجد کی سڑک کے سامنے سے گذرتے ہوئے وہ ہمیں گالیاں دیتے ہوئے گذرتے ہیں۔ ناصر نے کہا یہ بات سمجھ میں آرہی ہےکہ یہ لوگوں کا طبعی رد عمل ہے۔

دی منٹگمری جرنل:۔ 3؍اکتوبر 2001ء کی اشاعت میں صفحہ 1-A اور اپنی بقیہ خبر صفحہ A6پر دیتے ہوئے سرخی لگاتا ہے۔ ’’پولیس نفرت پھیلانے کے جرم پر قابو پارہی ہے۔‘‘ مسلمانوں کو ہوشیار رہنے کی تلقین اور پولیس کی نفری میں زیادتی کر دی گئی ہے۔ 11؍ستمبر میں جو دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ورجینیا اور نیویارک میں مسلمانوں کو ٹارگٹ بنایا گیا ہے۔ HATE کرائم کے کوارڈینیٹر مسٹرڈیوڈ آر بیکر اور پولیس کے نمائندہ نے کہا ہے کہ ممکن ہے بہت زیادہ واقعات ہوئے ہوں جو ابھی تک پولیس کے علم میں نہیں آئے۔

مسلمانوں کے کمیونٹی کے صدر نے کہا ہے کہ ذاتی طور پر تو انہیں کسی قسم کا خوف نہیں ہے لیکن یہ واقعات مسلمانوں کو بہرحال خوفزدہ کرنے والے ہیں۔

Mr. DUG DUNCAN۔ منٹگمری کونٹی کے چیف نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس سے ان کی زندگی پر اثرات پڑیں۔ اسی طرح چیف پولیس نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگرچہ دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا ہے اس لئے ہمیں مزید واقعات کو روکنے کے لئے اقدام کرنے پڑیں گے۔

مذہبی منسٹر امام شمشاد احمد ناصر کےجو مسجد بیت الرحمان میں ہوتے ہیں، نے کہا ہے کہ۔ 11؍ستمبر کے واقعہ کے بعد ہمیں بہت سی دھمکیوں آمیز فون کالز آئی ہیں جس میں ایک شخص نے کہا ہے ’’DEATH TO ISLAM‘‘ کہ اسلام مردہ باد۔ اور اسرائیل زندہ باد کے نعرے لگائے گئے تھے، نیز کہا گیا تھا امریکہ زندہ باد۔ تم سب کو اس دہشت گردی کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

امام شمشاد احمد صاحب نے مزید کہا کہ اب جب کہ حکومت اور پولیس اس کی نگرانی کر رہی ہے۔ اس قسم کے واقعات پر قابو پالیا جائے گا۔
دی گزٹ جوکمیونٹی کا اخبار ہے نے 3؍اکتوبر 2001ء صفحہ A4 پر ایک تصویر کے ساتھ مختصراً یہ خبر دی ہے۔ جس میں مسٹر ڈگ ڈنکن چیف کونٹی ایگزیکٹیو مسلم کمیونٹی سینٹر میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں ۔ تصویر میں مسلم کمیونٹی سینٹر کی مسجد کا مینارہ ہے۔ اور کونٹی ایگزیکٹیو کے ساتھ مسلمانوں کی کمیونٹی کے صدر صابر رحمان اور خاکسار (سید شمشاد احمد ناصر) نیز جماعت کے اور نمائندگان بھی ساتھ ہیں۔

تصویر کے نیچے لکھا ہوا ہے کہ کونٹی ایگزیکٹیو ڈگ ڈنکن چیف پولیس دیگر مسلمان اور مذہبی راہنماؤں کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی اور نسلی امتیاز کی مذمت کرتے ہیں۔

دی منٹگمری جرنل:۔ 4نومبر2001ء کی اشاعت صفحہA9پر دنیائے مذاہب کے آخرت کے بارے میں عقائد کو بیان کیا گیا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ یہودی مذہب، بدھ ازم، عیسائیت کے مذہبی لیڈروں کے آخرت کے بارے میں ان کے عقائد کا بیان ہے۔ یہ سارے انٹرویوز دیگر مذاہب کے، اخبار کے رائٹر KARL HILLE نے لئے ۔ خاکسار کے بارے میں انہوں نے لکھا: شمشاد احمد ناصر امام مسجد بیت الرحمان نے بتایا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں (انسانوں کو) دوزخ کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ جنت میں رہنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ ناصر نے دوزخ کو ایک ہسپتال کے ساتھ تشبیہ دی۔ جیسا کہ اس دنیا میں ہم ہسپتال میں رہنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ صحت و توانائی والی زندگی گزارنے کے لئے ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنی صحت کا ہر لحاظ سے (جسمانی و روحانی) خیال رکھنا پڑے گا۔

امام شمشاد نے مزید بتایا کہ ’’ایمان امید اور خوف کے درمیان ہوتا ہے۔ اور زندگی ہمیشہ بہتری کی طرف کوشش کو کہتے ہیں۔‘‘

دی گزٹ برٹنس وِل نے 20؍نومبر 2001ء کی اشاعت میں صفحہ A4 پر پورے صفحہ کی خبر لگائی اس میں ایک تصویر ہے جس میں خاکسار مسجد بیت الرحمان میں نماز پڑھا رہا ہے اور پیچھے احمدی نماز پڑھ رہے ہیں۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے شمشاد ناصر، امام مسجد بیت الرحمان رمضان کے پہلے دن مسجد میں اپنے لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ یہ خبر TERRIE HEARTLEY نے لکھی ہے۔

خبر یوں شروع ہوتی ہے کہ مسجد بیت الرحمان کی FENCE (چار دیواری ۔ جنگلہ) کے باہر ایک بینر پر لکھا ہوا ہے جو کہ نیلے رنگ کا ہے۔ جس پر ’’السلام علیکم‘‘ لکھا ہوا ہے۔ یعنی تم پر سلامتی ہو احمدی مسلمان رمضان کس طرح گزارتے ہیں۔

ایک احمدی خاتون ڈاکٹر نجمہ الٰہی نے بتایا کہ رمضان ہمارے لئےتربیت کا مہینہ ہے۔ اور جو کچھ بھی ہم اس مہینہ میں سیکھیں اس کو ہمیں سارا سال اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیئے۔

اس ایک صفحہ کے مضمون میں رمضان کے روزوں کے علاوہ مسلمانوں کے باقی ارکان اسلام کی بھی تفصیل ہے مثلاً روزہ کس طرح رکھا جاتا ہے۔ نمازوں کے کیا کیا اوقات ہیں وغیرہ۔ اخبار لکھتا ہے کہ شمشاد ناصرجوکہ امام ہیں انہوںنے کہا کہ رمضان ہمارے لئے روحانی ترقیات کا مہینہ بھی ہے۔ جس طرح موسم بہار آنے پر لوگ خوش ہوتے ہیں۔ اسی طرح رمضان کا مہینہ ہمارے لئے موسم بہار کا مہینہ ہے۔ نمازوں کے علاوہ یہاں پر ہر روز جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ریکارڈ شدہ درس القرآن بھی سب کے لئے لگائےجاتےہیں۔

اخبار نے بتایا کہ خواتین بھی مردوں کی طرح ہی نماز پڑھتی ہیں اور ان کی نماز کے لئے الگ ہال بنا ہوا ہے۔ جو کہ مردوں کے ہال کے اوپر ہے۔ جب ہم نماز میں صفیں بناتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہم سب برابر ہیں۔ ہمارے نبی (بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ نماز میں صفیں سیدھی بنائی جائیں۔ نمازمیں مردوں اور عورتوں کا الگ الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں اس معاملہ میں (مرداور عورت میں) مساوات نہیں ہے۔ وہ بھی بالکل اُسی طرح نماز پڑھتی ہیں جس طرح مردنماز پڑھتے ہیں۔

نجمہ الٰہی صاحبہ کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ اس وقت جوزمانہ کی موجودہ حالت ہے اس کی وجہ سے ہمارے لئے اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں اس ماہ میں تربیت کریں اور انہیں اپنی روایات سکھائیں۔

ایک اور احمدی دوست عارف نسیم صاحب کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ ہم عفو اور بخشش پر یقین رکھتے ہیں انتقام پر نہیں۔ 11؍ستمبر کا واقعہ ایسے لگتا ہے کہ یہ ہم سب پر حملہ تھا۔

شمیم احمد صاحب کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ دہشت گرد جنہوں نے نائن الیون کے دن حملہ کیا ہے معلوم ہوتا ہے ان کا خدا پر بالکل یقین نہیں تھا اور وہ خدا سے دور جا چکے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ ہر دو کی سیاست ہے۔ یعنی دہشت گردوں کی اور امریکہ کی۔ خبر کے آخر میں خاکسار کے حوالہ سے لکھا کہ ہم ساری امت مسلمہ کے لئے دعا کرتے ہیں اور ساری انسانیت کے لئے یہ بہت اہم ہے۔

دی منٹگمری جرنل نے اپنی اشاعت 27؍دسمبر 2001ء میں ایک شخص Mr. LAWRENCE K. MARSH کا خط شائع کیا ہے جس میں اس نے اسلام پر اعتراض کئے ہیں مسلمانوں کا مذہب اسلام کس قدر امن والا ہے؟ اس نے لکھا کہ موجودہ حکومت جو بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے نہ کہ مسلمانوں یا اسلام کے خلاف تو آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام کا مذہب کس قدر پر امن ہے۔ یا کس قدر امن کی تعلیم دیتا ہے؟

مضمون نگار نے قرآن کریم 9:5 کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے اس کو پڑھ کر دیکھ لیں کہ مسلمان کس قدر پُرامن ہیں۔ اور ان کے اندر کس قدر دوسرے مذاہب کے لئے برداشت کا مادہ ہے؟ اسی طرح اس نے قرآن سے 9:73 اور 5:49 کا حوالہ بھی دیاہے۔ اور پھر 5:51-74 کا حوالہ دے کر بتایا کہ یہ آیات پڑھ لیں کہ ان کی روشنی میں پھر کیا ہوگا؟

مصنف نے مزید لکھا کہ اگرچہ امریکہ میں بے شمار مسلمان امن سے رہتے ہیں لیکن انفرادی طور پر موجودہ حالات آپ کو بتا رہے ہیں کہ یہ کہاں تک درست ہے؟ عیسائی اس وقت مسلمانوں کے ہاتھوں تکالیف برداشت کر رہے ہیں خصوصاً انڈونیشیا، سوڈان اور دیگر مسلمان ممالک میں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کسی عیسائی حکومت میں مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جارہی لیکن اس کے برعکس مسلمان حکومتوں میں عیسائیوں پر مظالم ہورہے ہیں۔ مصنف نے اپنے خط کے آخر میں عیسائی مذہب کی پرامن تعلیم کا ذکر کیا ہے۔

خاکسار نے اس خط کے شائع ہونے پر اس کا جواب لکھ کر بھجوایا۔ اور اس کے علاوہ ہر جگہ جہاں بھی ہمیں میٹنگز یا انٹرفیتھ اور سکول اور کالجوںیاحکومتی سطح پر کسی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا اس کا جواب دیا گیا۔ اور ہر سطح پر قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونہ سے ثابت کیاگیاکہ اسلام پرامن مذہب ہے۔

خاکسار نے بتایا کہ اگر کوئی انفرادی طور پر کسی کے خلاف قدم اٹھاتا ہے یا ظلم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ اسلام اس غلط کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ خاکسار نے سوالات کے جوابات میں بھی اس بات کو بار بار پبلک میں دہرایا کہ اسلام ہر لحاظ سے مکمل اور امن کی تعلیم دینے والا مذہب ہے۔

پاکستان پوسٹ اردو کا اخبار ہے۔ اس اخبار کی 27؍دسمبر 2002ء کی اشاعت میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں لیفٹیننٹ گورنر میری لینڈ کیتھلین کینڈی مسلم کمیونٹی سینٹر میں خطاب کر رہی ہیں اس موقعہ پر جماعت کے وفد کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ خاکسار مکرم امجد چوہدری صاحب، مکرم سید شوکت علی صاحب مکرم اسلم پرویز صاحب، مکرم چوہدری مشتاق صاحب اورمکرم مجیب خان صاحب کے ساتھ اس میں شامل ہوا۔ ان میں سے بعض احباب شائع ہونے والی چار تصاویر میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

٭…٭…٭

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2020