• 20 اپریل, 2024

دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
خواتین بھی گھومنے پھرنے میں احتیاط اور پردے کی رعایت رکھیں۔ لیکن بعض دفعہ غیر خواتین بھی آئی ہوتی ہیں وہ تو ویسی پابندی نہیں کر رہی ہوتیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ جلسے پر آئی ہوئی ساری خواتین احمدی ہیں لیکن بعض غیر احمدی بھی ہوتی ہیں غیر از جماعت ہوتی ہیں تو وہ پابندی نہیں کر رہی ہوتیں۔ اس لئے انتظامیہ یہ خیال رکھے کہ عورتوں اور مردوں کے رش کے وقت راستے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں۔ چھوٹے بچوں میں بھی ان دنوں میں خاص طور پر جماعتی روایات کا خیال رکھتے ہوئے ٹوپی پہننے کی عادت ڈالیں۔ ایسے بچے جو نمازیں پڑھنے کی عمر کے ہیں۔ اور اس طرح ایسی بچیاں جو اس عمر کی ہیں ان کو سر پر چھوٹا سا دوپٹہ بھی لے دینا چاہئے بجائے اس کے کہ یہاں کے لباس پہن کر پھریں۔ بعض دفعہ شکایت آ جاتی ہے گو یہ بہت معمولی ہے ایک آدھ کیس ایسا ہوتا ہو گا کہ بعض لفٹ دینے والے مہمانوں سے پیسے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ تو مہمانوں کی عزت و اکرام اور خدمت کے بارے میں میں پہلے ہی کہہ چکاہوں اس کو خاص اہمیت دیں۔ محبت خلوص ایثار اور قربانی کے جذبے کے تحت ان کی خدمت کریں۔ یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں ان کے ساتھ نرم لہجہ اور خوشدلی سے بات کریں۔ یہ تفصیلی ہدایت تو پہلے میں دے چکا ہوں۔ جو مہمان آ رہے ہیں وہ بھی یہ خیال رکھیں کہ نظم و ضبط کا خاص خیال رکھیں اور منتظمین جلسہ سے پورا پورا تعاون کریں۔ ان کی ہر طرح سے اطاعت کریں۔ بعض مائیں اپنے بچوں کی بڑی غیرت رکھتی ہیں کوئی ڈیوٹی والا اگر کسی کو کچھ کہہ دے تو لڑنے مارنے پہ آمادہ ہو جاتی ہیں وہ بھی سن لیں کہ اگر وہ تعاون نہیں کر سکتیں اور اتنی غیرت ہے تو پھر جلسے کے وقت اس دوران اس مارکی میں نہ آئیں۔ کھانا کھاتے وقت بھی بعض باتیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ بعض دفعہ ضیاع ہو جاتا ہے۔ اب اس دفعہ انہوں نے کچھ انتظام بدلا ہے۔ کیونکہ پہلے ہی پیکنگ کرکے دے رہے ہیں اور میں نے دیکھا ہے اتنی مقدار ہے کہ امیدہے ضائع نہیں ہو گی عموماً ایک آدمی اتنا کھا ہی لیتا ہے لیکن بعض کو بعض چیزیں نہ کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں اگر آلو نہیں بھی پسند تب بھی مجبوراً کھا لیں اور ضائع نہ کریں کیونکہ پھر یہاں ڈمپ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔

  • بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں ایک دوسرے پر مذاق میں ہو رہی ہوتی ہیں وہ بھی بعض دفعہ بڑی لڑائیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ان سے بھی پرہیز کریں، اجتناب کریں۔ اور زبان کی نرمی بڑی ضروری ہے۔ اور دونوں مہمان بھی اور میزبان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ نرم زبان کا استعمال ہو اور کسی بھی قسم کی سختی دونوں طرف سے نہیں ہونی چاہئے۔ اور پیار سے، محبت سے ایک دوسرے سے ان دنوں پیش آئیں بلکہ ہمیشہ پیش آئیں اور خاص طور پر دعاؤں میں یہ دن گزاریں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں۔ اور جلسے کی جو خاص برکات ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ بعض دفعہ جہاں کھانا کھایا جاتا ہے وہاں لوگ اپنی پلیٹیں چھوڑ جاتے ہیں یا انہوں نے جو پیک بنائے ہیں وہ چھوڑ جاتے ہیں تو ان کو اٹھا کے جہاں ڈسٹ بن بنائے گئے ہیں وہاں پھینکیں۔
  • حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے میں یہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ یہ جماعتی جلسہ ہے اس کو میلہ نہ سمجھیں کیونکہ آپس میں ملاقاتیں وغیرہ یا فیشن کا اظہار تو یہاں مقصود نہیں ہے۔ عورتیں اکٹھی ہوں تو باتیں شروع کر دیتی ہیں اور پھر ختم نہیں ہوتیں۔ ان کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اور انتظامیہ اس کا خاص طور پر خیال رکھے اور نگرانی کرے۔

اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔

بعض باہر سے آنے والے یہاں شاپنگ کرنے کے لئے قرض لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات قناعت کی صفت کو گدلا کر رہی ہوتی ہے۔ قناعت کی صفت میں ایساا ظہار ہو رہا ہوتا ہے جو لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ تو اس سے بچنا چاہئے۔ اتنا ہی خرچ کریں جتنی توفیق ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ شاپنگ کرنے کے لئے جتنی ضرورت ہے رقم آپ کے پاس ہے اتنی شاپنگ کریں، عزیزوں رشتہ داروں سے قرض نہ لیں۔ یہ بڑا غلط طریقہ ہے۔ جلسہ سننے کی غرض سے آتے ہیں تو جلسہ سننا چاہئے اور جو روحانی مائدہ یہاں تقسیم ہو رہاہے اس سے ہر ایک کو اپنی جھولیاں بھرنی چاہئیں۔ گو کہ یہی کہا جاتا ہے کہ مہمان نوازی تین دن کی ہوتی ہے لیکن بعض لوگ دور سے آرہے ہوتے ہیں خرچ کرکے آ رہے ہوتے ہیں اور پھر یہ خیال ہوتا ہے کہ دوبارہ موقع مل سکے یانہ مل سکے تو زیادہ ٹھہرنا چاہتے ہیں۔ اگر اپنے قریبی عزیزوں رشتہ داروں کے ہاں ٹھہر جائیں تو ان کو خوشی سے ٹھہرا لینے میں حرج نہیں ہے۔ او ربعض طبیعتیں بڑی حساس ہوتی ہیں ایسے مہمانوں کو مذاقاً بھی احساس نہیں دلانا چاہئے جو مالی لحاظ سے ذرا کم ہوں یا قریبی عزیز ہوں کہ تین دن ہو گئے اور مہمان نوازی ختم ہو گئی۔ اس طرح اس سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ حفاظتی طور پر بھی خاص نگرانی کاخیال رکھنا چاہئے اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں۔ یہ ہر ایک کا فرض ہے۔ اجنبی آدمی یا کوئی ایسا شخص آپ دیکھیں جس پر شک ہو تو متعلقہ شعبہ کو اطلاع دیں لیکن خود کسی سے اس طرح نہ پیش آئیں جس سے کسی قسم کا چھیڑ چھاڑ کا خطرہ پیدا ہو اور آگے لڑائی جھگڑے کا خطرہ پیدا ہو۔ لیکن اگر اطلاع کا وقت نہیں ہے پھر اس کا بہترین حل یہی ہے کہ آپ اس شخص کے آپ ساتھ ساتھ ہو جائیں، اس کے قریب رہیں۔ تو ہر شخص اس طرح سیکیورٹی کی نظر سے دیکھتا رہے تو بہت سارا مسئلہ تو اسی طرح حل ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ بعض خبروں کی بنا پہ، گزشتہ سالوں میں آتی رہی ہیں، انتظامیہ بعض دفعہ چیکنگ سخت کرتی ہے۔ تو اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو چیکنگ سخت ہو رہی ہو تو مکمل تعاون کرنا چاہئے خاص طور پر عورتوں کو وہ عام طور پر جلدی بے صبری ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ہماری حفاظت کے نقطۂ نظر سے ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہوتاہے۔ اس لئے تعاون ہر ایک کا فرض ہے۔

پھر یہ کہ جو آپ کو کارڈ دئے گئے ہیں وہ اپنے پا س رکھیں اور اگر کسی کا کارڈ گم ہوگیا ہو تو متعلقہ شعبہ کو اطلاع کریں تاکہ ان کو بھی پتہ لگ جائے کون سا کارڈ گم ہوا ہے کس کا گم ہوا ہے تاکہ اگر کسی اور نے ایسا لگایا ہو وہ بھی پتہ لگ جائے اور آپ کو بھی کارڈ میسر آ جائے۔

قیمتی اشیاء اپنی نقدی یا پیسے وغیرہ کی حفاظت بھی آپ پر فرض ہے کہ خود کریں۔ کیونکہ یہاں بہت سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور کھلی جگہیں ہیں ٹینٹ میں اجتماعی قیام گاہیں ہیں تو بعد میں شکایات نہیں ہونی چاہئیں۔ اس لئے آپ خود اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جو اس جلسہ کے لئے دعائیں ہیں وہ حاصل کرنے والے ہوں اور ان مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے آپؑ نے جلسوں کا اجراء فرمایا تھا اور ان دنوں میں ہمیں دعاؤں کی بھی توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی بھی توفیق ملے۔

(خطبہ جمعہ 30؍جولائی 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سکاسو ریجن مالی میں جلسہ سیرۃ النبی ؐ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 دسمبر 2021