• 20 اپریل, 2024

دعا کی طر ف ہر وقت توجہ دیتے رہنا چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
تو دعا کی طر ف ہر وقت توجہ دیتے رہنا چاہئے۔ کیا پتہ کس وقت وہ گھڑی آجائے جوقبولیت دعا کی گھڑی ہو، قبولیت دعا کاوقت ہو۔ تو ان تڑپنے والے دلوں کو جو پاکستان میں مختلف جگہوں سے، حالات کی وجہ سے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، مَیں یہ کہتاہوں کہ جمعوں کی رونق بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جذبات کا اظہار کریں۔ اور جب پورے یقین کے ساتھ اس سے مانگیں گے اور اس سے مانگ رہے ہوں گے تووہ بھی اپنے وعدوں کے مطابق سنے گا بھی اور آپ کی ضروریات بھی پوری کرے گا اور آپ کی دعاؤں کو قبول کرے گا اور آسانیاں پیدا فرمائے گا۔ ان شاء اللہ۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتاہے کہ اس سے مانگا جائے اور بہترین عبادت کشائش کا انتظار کرنا ہے۔

(ترمذی کتاب الدعوات باب فی انتظار)

تواللہ تعالیٰ یہ پسند کرتاہے کہ اس سے مانگا جائے لیکن مانگنے والے مانگنے سے تھکیں نہیں۔ بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں۔ کیونکہ جیساکہ مَیں نے پہلے ذکر کیاہے کہ اگر پھنس گئے تو پھر نئے سرے سے سفر شروع کرنا پڑے گا۔ تو اللہ تعالیٰ مختلف رنگ میں دعائیں قبول کرنے کے نظارے ہمیں دکھاتابھی رہتاہے۔ تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ڈھارس بندھانے کے لئے، تسلی دینے کے لئے دکھاتاہے تاکہ بندہ یہ تسلی رکھے کہ اگر خداتعالیٰ دعا کے طفیل وہ کام کرسکتاہے جن کو ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے، ان کو ہمیں حاصل کرنے کی یا ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی تو اس اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت بھی ہے کہ یہ جو بظاہر مشکل اور بڑے کام نظر آتے ہیں ان کو بھی کردے۔ اس لئے صبر اور حوصلے سے دعائیں مانگتے رہنا چاہئے اور کبھی تھکنا نہیں چاہئے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘۔

(ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی فضل الدعاء)

حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دعا ایسی مصیبت سے بچانے کے لئے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت کے بارہ میں بھی جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو۔ پس اے اللہ کے بندو! دعاکو اپنے اوپر لازم کر لو‘‘۔

(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فی فضل الدعاء)

پس اس حدیث کے مطابق بھی ہمیں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ذاتی طورپر بھی، جماعتی طورپر بھی، ہر پریشانی اور مصیبت اور بلا سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام مشکلات کو جن میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں جلد دور فرمائے، ہمیں مزید ابتلاؤں اور امتحانوں میں نہ ڈالے، ہمیں ہر شر سے محفوظ و مامون رکھے۔ اللہ تعالیٰ جلد ترہمیں اپنے مخالفین پر غلبہ عطا فرمائے۔ لیکن بات وہی ہے کہ ایک اضطراری کیفیت ہمیں اپنے اوپرطاری کرنی ہوگی اور یہ حالت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’اگر میرے بندے میر ی نسبت سوال کریں کہ وہ کہاں ہے تو ان کو کہہ کہ وہ تم سے بہت قریب ہے۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا سنتاہوں۔ پس چاہئے کہ دعاؤں سے میرا وصل ڈھونڈیں اور مجھ پر ایمان لاویں تاکہ کامیاب ہوں۔

(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۱۳۹۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ ۶۴۸)

پس ہم بہت ہی بدقسمت ہوں گے اگر ہم اللہ تعالیٰ کی اس بات پر یقین نہ کریں۔ یقین نہ کرنے والی بات ہی ہے کہ اگر ہم اس کے کہنے کے باوجود اس کاقرب نہ ڈھونڈیں، اس کو تلاش نہ کریں۔ اور رمضان میں جو فضل ہم پر اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں ان کو بھلادیں اور ایمان میں کمزوری دکھائیں۔ اللہ نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسی حرکت کرنے والا ہو۔ بلکہ ہمارے ایمانوں میں دن بدن ترقی ہو، زیادتی کے نظارے نظر آتے ہوں، ہر نیادن ہمیں اللہ تعالیٰ کے اور قریب لانے والا دن ثابت ہو۔ اس شکرگزاری کے طورپر کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان کی برکتوں سے فیضیاب کیا، ہم مزید اس کے حضور جھکتے چلے جائیں اور اپنی تمام حاجتیں اپنے پیارے خداکے سامنے پیش کرنے والے ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’دعا جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں۔ ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہوکر توحید پر پختگی حاصل ہو کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے۔ دوسرے یہ کہ تا دعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو۔ تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الٰہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے۔ چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رؤیا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اُسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الٰہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے‘‘۔

(ایام الصلح صفحہ۱۴۔ تفسیر حصرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ۶۷۲)

(خطبہ جمعہ 28؍ نومبر 2003ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2021