• 24 اپریل, 2024

شریعت کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو

تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب

گذشتہ مجلس مشاورت جو اپریل ١٩٢٧ء میں قادیان میں منعقد ہوئی تھی۔اس میں ایک امر نظارتِ تعلیم وتربیت کی طرف سے یہ بھی پیش ہوا تھا کہ جو احمدی کہلانے والے لوگ شریعت کے ان احکام کی پابندی اختیار نہیں کرتے جو انسان کے ظاہری شعار کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مثلاً داڑھی کا رکھنا وغیرہ ذٰلک۔ ان کے متعلق کیا طریق اختیار کیا جائے۔ یعنی اگر وہ باوجود باربار کی پندونصیحت کے داڑھی نہ رکھیں تو آیا ان کے متعلق کوئی سرزنش کا پہلو اختیار کرنا مناسب ہوگا یانہیں اور اگر مناسب ہوگا توکیا۔ اس کے متعلق مجلسِ مشاورت نے بعض تجاویزپیش کیں جنہیں حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے منظور فرمایا اور جوانہی دنوں میں الفضل میں شائع کردی گئی تھیں مگران تجاویز کے منظور فرمانے کے ساتھ ہی حضرت خلیفۃالمسیح ایّدہ اللہ بنصرہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کے اس مسئلہ کے متعلق نظارت تعلیم وتربیت کو چاہیئے کہ مضامین وغیرہ کے ذریعہ جماعت میں یہ احساس پیداکرے کہ وہ اپنی ظاہری صورتوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء مبارک کے مطابق بنائیں اور شریعت کے کسی حکم کو بھی چھوٹا سمجھ کرنہ ٹالیں بلکہ سب کی پابندی اختیار کریں تاکہ اعلیٰ درجہ کے مومنین میںان کا شمار ہو اور خداکی نعمت کاکوئی دروازہ بھی ایسانہ رہے جو ان پر بندہو۔ سو اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے خاکسار اپنے احباب کے سامنے یہ چند سطور پیش کرتا ہے اور امید رکھتاہے کہ وہ میری اس عرضداشت کی طرف پوری پوری توجہ کریں گے اور اپنے نمونہ سے یہ ثابت کردیں گے کہ اطاعت رسول کے لئے ان کے اندر ایک ایسا شوق اور ولولہ موجود ہے کہ اس علم کے ہونے کے بعد کہ کوئی ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے، دنیا کی کوئی روک جسے شریعت روک نہیں قراردیتی ان کو اس کی تعمیل سے باز نہیں رکھ سکتی۔

سب سے پہلے جو بات میں عر ض کرنا چاہتاہوں۔ وہ ایک اصولی بات ہے اور وہ یہ کہ بےشک شریعت کے احکام میں تفاوت ہے اور کوئی عقلمند ان میں مدارج کے وجود کا انکار نہیں کر سکتا اور داڑھی کا رکھنا یقیناً ان اصولی باتوں میں سے نہیں ہے جن پر انسان کی روحانی زندگی کا بلاواسطہ دارومدار ہے لیکن بایں ہمہ اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں کہ شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جاسکتا۔ دراصل چونکہ شریعت کا یہ منشاء ہے کہ وہ ہر جہت سے انسان کو کامل بنائے اور تمام ان امور کی طرف توجہ کرے جو با لواسطہ یا بلاواسطہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی پر اثرپیدا کرتی ہیں۔ اس لئے خداوند تعالیٰ نے شریعت میں صرف اصولی باتوں کو ہی داخل نہیںفرمایا بلکہ بعض فروعی امور میں بھی ہدایات جاری کی ہیں اور یہ سب انسان کی روحانی حیات کے لئے کم وبیش ضروری ہیں اور خداتعالیٰ نے صرف ان باتوں کو شریعت میں داخل کرنے سے احترازکیا ہے، جو انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی سے اس قدردُور کا تعلق رکھتی تھیں کہ ان میں دخل انداز ہونا فائدہ کی نسبت نقصان کے زیادہ احتمالات رکھتا تھا۔ یا جن کے متعلق انسان اپنے ظاہری علوم کی بناء پر خود طریق ثواب اختیارکر سکتا تھا اور اس لئے ان کے متعلق احکام جاری کرنا بے فائدہ قیود کا پیدا کرنا تھا۔

دراصل جیسا کہ عیسائیت بیان کرتی ہے (گو وہ اس معاملہ میں حد اعتدال سے بہت تجاوز کر گئی ہے) شریعت کے احکام کے متعلق ایک پہلو نقصان کا بھی ضرور موجود ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کے توڑنے سے انسان مجرم اور گنہگار بن جاتا ہے اور اسی لئے اسلام نے نہایت حکیمانہ طور پر اس معاملہ میں اعتدال کے طریق کو اختیار کیا ہے اور شرعی احکام صرف اس حد تک جاری کئے ہیں کہ جس حد تک بالکل ضروری اور لابدی تھے اور باقی امور میں انسان کو اس کی عقلِ خداداد اور شریعت کے اصولی قیاس پر چھوڑدیا ہے تاکہ وہ خود اپنے لئے اپنا راستہ بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں شریعت کو ایک رحمت قراردیا ہے اور دوسری طرف اسی قرآن میںخود فرمایا ہے کہ زیادہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں مسئلے نہ پوچھا کرو تاکہ تمہارے لئے تفصیلی احکام نازل ہوکر تنگی کا موجب نہ بنیں۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ اگر شریعت سراسر رحمت ہی رحمت ہے تو پھر اس روک کے کیا معنی ہیں؟ کیا نعوذباللہ خدا اس رحمت کے دائرہ کو ہم پر تنگ کرنا چاہتا ہے کہ اس نے ہمیں شریعت کے احکام کے نزول کے محرک بننے سے روک دیا ہے؟ اس ظاہری تضاد کا یہی حل ہے کہ شریعت بیشک ایک رحمت ہے لیکن شریعت کے ساتھ ایک پہلو عذاب کا بھی ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے احکام کو توڑنا خدا کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے اور اگر بعض تفصیلی امور جو طریق بودوباش اور تمدن وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان میں شریعت دخل انداز ہو تو یہ عذاب کا پہلو رحمت کے پہلو سے غالب ہوجاتا ہے یعنی ان کے ماننے میں فائدہ کا پہلو اتنا غالب نہیں ہوتا جتنا ان کے نہ ماننے میں (اگر وہ شریعت کا حصہ بن جائیں) نقصان کا پہلو غالب ہوتا ہے اور اسی لئے جب شریعت ان تفصیلات کی حد کو پہنچتی ہے تو کمال حکمت سے وہ آگے جانے سے رک جاتی ہے اور لوگوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ اپنی عقلِ خداداد اور شریعت کے قیاس کے ماتحت خود اپنے واسطے ان تفصیلات میں طریقِ عمل قائم کریں۔

اس جگہ اس بات کا بیان بھی ضروری ہے کہ درحقیقت کسی شرعی حکم کے توڑنے میں دو قسم کا نقصان اور اس کے مان لینے میں دو قسم کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک فائدہ یا نقصان تو یہ ہے کہ چونکہ ہر شرعی حکم کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اپنے اندر بعض طبعی خواص رکھتا ہے اس لئے اس کا مان لینا وہ نیک اثرات پیدا کرتا ہے جواس کا طبعی نتیجہ ہیں اور اسی طرح اس کانہ ماننا وہ بد اثرات پیدا کرتاہے جو طبعی طور پر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے چاہئیں اور دوسرا فائدہ یا نقصان یہ ہے کہ چونکہ خدا کا یہ حکم ہے کہ شریعت کی پابندی اختیار کی جائے۔ اس لئے کسی شرعی حکم کا مان لینا قطع نظر اس کے فائدہ کے خدا کی رضا کا موجب اور اس کا نہ ماننا قطع نظر اس کے نقصان کے خدا کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ایسے تفصیلی امور کو شریعت کا حصہ بنانے سے احتراز فرمایاہے۔ جن کے اختیار کرنے میں کوئی بڑے فوائد مترتب نہیں ہو سکتے مگر ان کے ترک کرنے میں خدا کی ناراضگی کا پہلو ضرور موجود ہے تاکہ کمزور لوگ ان امور میں نافرمانی کرکے خدا کی ناراضگی کانشانہ نہ بنیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ شریعت نے صرف انہی امور میںدخل دیا ہے جن میں دخل دینا انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کےلئے ضروری اور لابدی تھا۔ اور باقی امور میں انسان کواختیار دے دیا ہے کہ وہ خود اپنا طریق عمل قائم کرے اور اس لئے درحقیقت شریعت کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں سمجھا جاسکتا اور گو احکام میں تفاوت ضرور ہے لیکن سب احکام یقینا ًایسے ہیں جو انسان کے اخلاق وروحانیت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ معتدبہ اثر ڈالتے ہیں۔ پس اگر کسی بات کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ وہ ایک شرعی حکم ہے تو کسی مومن کے لئے ہرگز یہ زیبا نہیں کہ وہ یہ سوال اٹھائے کہ یہ حکم چھوٹا ہے۔ اس لئے اس کے ماننے کی چنداں ضرورت نہیںیا یہ کہ اس بات کو دین و ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہستی جس نے ہمارے لئے دین وایمان کا نصاب مقرر فرمایا ہے اور جس کے سامنے جاکر ہم نے کسی دن اس نصاب کا امتحان دینا ہے وہ جب کسی بات کو ہمارے دین وایمان کاحصہ قرار دیتی ہے تو ہمیں کیا حق ہے کہ ہم اسے لاتعلق سمجھ کر ٹال دیں اور اگر ہم اپنی نادانی سے ایسا کریں گے تو نقصان اُٹھائیں گے۔ کیونکہ ہمارا ممتحن ہمارے خیال کے مطابق ہمارا امتحان نہیں لے گا بلکہ اس نصاب کے مطابق لے گا جو اس نے مقرر کیا ہے۔

اندریں حالات بحث طلب امر صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئی بات

شریعت کا حصہ ہے یا نہیں یا موجودہ بحث کے لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آیا داڑھی کا رکھنا شریعت کا حصہ قرار پاتا ہے یا نہیں سواس کے متعلق یا درکھنا چاہیئے کہ ہروہ بات جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکیا ہے اور اس کے کرنے کا اپنی اُمت کو حکم دیا ہے وہ شریعت کا حصہ ہے بشرطیکہ اس کے خلاف کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہواور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ شارع جس کام کو کرے اور اس کے کرنے کا حکم دے وہ شریعت کا حصّہ ہونی چاہیئے۔ ہاں البتہ ایسی باتوں کے متعلق اختلاف ہے جن کو شارع نے خود تو کیا ہے مگر ان کے کرنے کاحکم نہیں دیا۔ یا جن کے متعلق شارع نے بعض صورتوںمیں ہدایت تودی ہے لیکن خود اس کی پابندی اختیار نہیں کی کیونکہ ان دونوں صورتوں میں شبہ کا احتمال ہے کہ ممکن ہے وہ شارع کی ذاتی خصوصیت یا ذاتی میلان طبع کے ساتھ تعلق رکھتی ہوں اور دین کا حصہ نہ ہوں اور اسی طرح بعض اور باتوں کے متعلق بھی اشتباء کا پہلو ہوسکتا ہے کہ کیا وہ شریعت کا حصّہ ہیں یا نہیں اور اسی لئے ان کے متعلق علماء میں اختلاف ہے مگر بہرحال یہ مسلّم ہے کہ جس بات کو شارع نے کیا اور اس کے کرنے کا حکم دیا وہ شریعت کا حصّہ ہے بشرطیکہ کوئی واضح قرینہ اس کے خلاف موجود نہ ہو۔

اب اس تشریح کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ داڑھی کا رکھنا شریعت اسلامی کا حصّہ ہے کیونکہ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا حکم دونوں واضح طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں اور حدیث شریف سے یہ ہر دو باتیں ثابت ہیں۔یعنی اول یہ کہ آپؐ کی داڑھی تھی چنانچہ آپؐ کے متعلق حدیث میں کَثَّ اللحیۃ کے الفاظ آتے ہیں یعنی آپ کی داڑھی گھنی تھی اور اسی قسم کی اور بہت سی احادیث ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ آپ نے اپنی اُمت کو یہ ارشاد فرمایا کہ داڑھی رکھا کرو۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں:-

احضوااللحی وقصّواالشوارب

یعنی ’’داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹ کر چھوٹا کرو‘‘۔ اور یہ بھی حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ بعض غیر مسلم لوگ آپ کے سامنے آئے جن کی داڑھیاں منڈی ہوئی تھیں ان کو دیکھ کر آپؐ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اور دوسری طرف اس بات کے متعلق قطعاً کوئی قرینہ موجود نہیں ہے کہ آپؐ کا یہ تعامل اور آپؐ کا یہ ارشاد یونہی ایک ذاتی پسندیدگی کے اظہار کے طور پر تھا اور دین کا حصّہ نہیں ہے۔ اور سنت کے لحاظ سے دیکھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی بس نہیں ۔بلکہ جتنے بھی نبی دنیا میں گذرے ہیں اور ان کی تاریخ محفوظ ہے ان سب کی داڑھیاں تھیں۔ چنانچہ حضرت ہارونؑ کی داڑھی کا تو قرآن شریف میں بھی ذکر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی داڑھی کو لاکھوں احمدی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اندریں حالات کوئی مسلمان اور خصوصیت کے ساتھ کوئی احمدی ہرگز یہ نہیں کہہ سکتاکہ داڑھی رکھنا شریعتِ اسلامی کاحصّہ نہیںہے۔ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ احکام کے مدارج میں اختلاف ہے اور داڑھی کے حکم کو ہم قطعاًان اہم احکام میں شمارنہیں کرسکتے جن پرہر انسان کی روحانی زندگی کا بلاواسطہ دارومدار ہے مگر بہرحال اس میں کلام نہیں کہ وہ شریعت کاحصہ ہے۔ اب کوئی مومن اس حکم کو چھوٹا کہہ کر ٹال نہیں سکتا کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ چھوٹی باتوں کو شریعت نے اپنے دائرہ میں شامل نہیں کیا اور جن کو شامل کیا ہے۔ وہ چھوٹی نہیں ہیں۔

(مطبوعہ الفضل یکم نومبر ١٩٢٧ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2021