• 19 اپریل, 2024

ہمارے مربیان اور امراء اور عہدیداران کو اپنے اپنے دائرے میں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے

ہمارے مربیان اور امراء اور عہدیداران کو اپنے اپنے دائرے میں
اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس کے لئے ہمارے مربیان اور امراء اور عہدیداران کو اپنے اپنے دائرے میں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ بتا کر اصلاح کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کی کامل پیروی کرنے والے خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے اور ایسے لوگوں کی اکثر دعاؤں کو خدا تعالیٰ سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ ہیں اور مجھے لکھتے بھی رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بعض واقعات کا مختلف وقتوں میں ذکر بھی ہوتا رہتا ہے اور میں بھی بیان کرتا رہتا ہوں۔ پس ایسے واقعات ہیں جو نقل کی تحریک پیدا کرنے والے ہونے چاہئیں۔ نقل اگر کرنی ہے تو ایسے واقعات کو سن کر اپنے اوپر بھی یہ حالت طاری کرنے کے لئے نقل کرنی چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ سے قرب کا رشتہ قائم ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:
’’دنیا میں جس قدر قومیں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو۔ … کیا ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے یسوع کو خدا مانا ہے۔ وہ میری دعا کو سنتا اور اس کاجواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے جس نے کہا۔ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن: 61) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے۔ کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ (یہ چیز اہم ہے جو فرمایا ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ) اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا رہے۔ آخر اس کی دعاؤں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ148 ایڈیشن 2003ء)

پس یہ باتیں بار بار جماعت کے سامنے بیان کی جائیں تو یقینا اس میں طاقت پیدا ہو سکتی ہے۔ یا جماعت کے ایک بھاری حصے میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے اور اُس کی قوتِ ارادی ایسی مضبوط ہو سکتی ہے کہ وہ ہزاروں گناہوں پر غالب آ جائے اور اُن سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے جو کبھی ڈانوا ڈول ہونے والا نہ ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ انسانیت کو گناہوں سے بچایا جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی رضا ہر چیز پر مقدم ہو جائے۔ عبادت سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے یا فرض سمجھ کر جلدی جلدی ادا کرنے کی بجائے، جس طرح کہ سر سے، گلے سے ایک بوجھ ہے جو اتارنا ہوتا ہے، اُس طرح اتارنے کی بجائے ایک شوق پیدا ہو۔

(خطبہ جمعہ 24؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

دوسرا سالانہ ریجنل اجتماع واقفین/ واقفات نو گیمبیا 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2023