• 20 اپریل, 2024

’’مساجد نمبر‘‘ میں 82 مساجد کے تعارف پر اظہار تشکر

نوّے کی دہائی کی بات ہے کہ جب جماعت احمدیہ کا ٹی وی چینل ’’ایم ٹی اے‘‘ دنیا میں منصہ شہود میں آنے کے بعد انٹرنیٹ کی دنیا میں ابھی جگہ بنا رہا تھا، مَیں اس وقت لاہور پاکستان میں بطور مربی ضلع خدمات بجا لا رہا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس چینل نے آسمان کی بلندیوں کو چھونا شروع کیا۔ پاکستان جیسے ملک میں بھی ہر کس و ناکس کی زبان پرایک فقرہ تھا کہ ایک اسلامی چینل آیا ہے جس میں اشتہارات کے بغیر اسلامی تعلیم بیان ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مَیں ہال روڈ پر ایک احمدی دوست کی دکان پر بیٹھا تھا جو ٹی وی اور ڈش کا کاروبار کرتے تھے۔ ایک دوست آئے جنہوں نے مڑا سا باندھا ہوا تھا اور دکاندار سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ مجھے وہ ڈش دو جس پر ایک بابا جی آتے ہیں اور دینی باتوں کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کرتے۔

یوں اس ’’ایم ٹی اے‘‘ نے شہرت کی بلندیوں کو چُھوا اور جب یہ عوام الناس میں مقبول ہونے لگا تو مولویوں نے بھی دیکھا اور اس کی مین اسکرین کے ماتھے پر لگی خانہ کعبہ کی تصویر دیکھ کر رَولا ڈال دیا کہ خانہ کعبہ تو ہمارا ہے، مرزائیوں کو اس کی تصویر آویزاں کرنے کا کوئی حق نہیں، یہ تو کافر ہیں۔

یہ خانۂ خدا، بیت اللہ یا بیت العتیق کہلاتا ہے۔ اس کے ذیل میں دنیا بھر میں لاکھوں بیت اللہ (مساجد) تعمیر ہو چکی ہیں۔ مکرم ربیب احمد مرزا مبلغ سلسلہ ایم ٹی اے شعبہ ترجمانی لندن کے ایک مضمون بعنوان ’’اور زمین اپنے ربّ کے نور سے جگمگا اٹھی‘‘ میں دنیا بھر میں احمدیوں کی مساجد کی تعداد 20356 درج ہے۔ جوآپ نے خلفاء کے جلسہ ہائے سالانہ کے دوسرے دن کے خطابات سے مرتب کی۔ نیز وہ لکھتے ہیں کہ مشن ہاؤسز، نماز سینٹر اور بعض بنی بنائی جو مساجد جماعت کو ملتی رہتی ہیں ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

(الفضل آن لائن 22؍دسمبر 2022ء)

اس تعداد میں پاکستان کی احمدیہ مساجد شامل نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نےادارہ الفضل آن لائن کو دنیا بھر کے ایسے ممالک اور جزائر کی ایسی مساجد کی تاریخ جمع کرنے کی توفیق دی جو سب سے پہلے تعمیر ہوئیں اور موٴرخہ 22؍دسمبر تا 30؍دسمبر 2022ء کے الفضل کے 8 دن کے شماروں میں 124صفحات پر مشتمل باتصویر مساجد کےتعارف کی توفیق پائی۔ ان کا آغاز خانہ کعبہ، مسجد قبا اور مسجد نبوی سے کیا گیا کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہماری ہزاروں کی تعداد میں مساجد،خانہ کعبہ ہی کے ذیل میں ہیں۔ یہ ہمارا ورثہ ہے، اس کی حفاظت کے لیے دعائیں مانگنا ہمارا اولین فرض ہے۔ مدینہ کی مسجد قبا اور مسجد نبوی بھی مدینۃ النبی میں پہلی پہلی مساجد تھیں۔ ہمارے دشمن روئیں، سر پیٹیں ہمارے لیے ان مساجد میں نمازیں ادا کرنا (جن کو بھی توفیق ملے) باعث فخر و برکت ہے۔ جو احمدی دنیا بھر سے حج یا عمرہ کے لیے سعودی عرب تشریف لے جاتے ہیں واپس آکر اپنے مبارک سفر کی روئیداد بیان کرتے ہوئے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں نمازوں کی کیفیت بیان کرتے رو پڑتے ہیں۔ ان کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں۔

یہاں اس دلچسپ اور ایمان افروز بات کا ذکر قارئین کے لیے کرتا چلوں کہ پاکستان میں نام نہاد مولویوں کی ایما پر ایک جابر و ظالم ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے پاکستان میں احمدیوں کو اپنی عبادت گاہوں کو مساجد کہنے سے روک دیا تھا۔ جماعت احمدیہ نے سر تسلیم خم کر کے اپنی عبادت گاہوں کو بیوت یا بیت کہنا شروع کر دیا اور یہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے کہلوایا کیونکہ اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر ہونے والا بیت الاوّل (خانہ کعبہ) بیت اللہ یا بیت العتیق کہلایا۔ اسے مسجد نہیں کہا گیا۔ اس کو بیت قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ کہ یہ پہلا گھر ہے جو مکہ معظمہ کے مقام پر لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس بیت اللہ کے تناظر میں ہم نے اپنی مساجد کو بیوت کا نام دیا۔

پاکستان میں احمدیوں پر مظالم کی داستانیں تو اپنی جگہ۔ احمدیوں کی ذاتی و جماعتی جائیدادیں بھی محفوظ نہیں۔ جماعتی جائیدادوں میں سب سے اوّل تو ہماری مساجد ہیں جو معاندین احمدیت کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ اب تک سینکڑوں مساجد یا گرا دی گئیں یا اس کے مینارے، محراب وغیرہ توڑ دئیے گئے اور بعضوں کو جزوی نقصان پہنچایا گیا۔ اب تو رات کے اندھیرے میں سرکاری اہلکار پولیس وردی میں اپنا یہ فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ مساجد پر لکھے کلمہ طیبہ کی پاک عبارت پر نالیوں میں بہتے گندے پانی سے کُوچیاں گیلی کر کے کلمہ طیبہ پر پھیری گئیں، ہتھوڑوں اور چھینیوں سے سیمنٹ سے لکھے کلمہ طیبہ کو بڑی بے دردی سے توڑا گیا اور سیمنٹ کے ٹکڑے جن پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا اوپر سے گر گر کر گندی نالیوں میں گرتے رہے اور بعض جگہوں پر ان کلموں کو، میناروں کو لکڑی، ٹن کی چادروں سے ایسے رنگ میں Coverکر دیا گیا کہ باہر سے سرکاری مسلمانوں کو نظر آکر ان کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ مسجد کی طرز پر عمارت بنانے کی سختی سے ممانعت ہے۔ ہاں ہال بنا سکتے ہیں اور بعض جگہوں پر ہال کو قبلہ رخ بنانے کی بھی مخالفت کا سامنا ہے۔

مخالفت اور دشمنی کی نیز جماعت پر مظالم کی بات چلی ہے تو یہ بھی بتا دیا جائے کہ احمدیوں کی جانوں اور جائیدادوں کو نقصان پہنچانے کے بعد ہمارے مُردے بھی جن کی تکریم ہر مذہب میں واجب ہے ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں اور آج کل قبروں کے کتبے توڑنے کا سلسلہ سرکاری اہلکاروں کی معیت و مدعیت میں جاری ہے۔ ہم ان غیر اسلامی حرکات پر إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہیں اور ان کی ہدایت کے لیے دعا گو ہیں۔

پاکستان میں جب احمدیہ مساجد کو گرانے اور نقصان پہنچانے کا سلسلہ لارج اسکیل پر جاری ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے احباب جماعت کو تحریک فرمائی کہ اگر یہ ایک مسجد گرائیں گے تو ہم اس کی جگہ دس مساجد تعمیر کریں گے۔ یہ اسی تحریک کا نتیجہ ہے کہ بیرون پاکستان احمدیہ مساجد کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ صرف جرمنی میں 78 کے قریب بڑی خوبصورت، عالیشان مساجد تعمیر ہو چکی ہیں۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک

اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی کامیابی صرف اور صرف اس قربانی کے صلہ کے طور پر دی ہے جو احمدی پاکستان میں جانی و مالی نقصان برداشت کر کےکر رہے ہیں۔ 2019ء میں جب خاکسار کو مرکزی نمائندہ کے طور پر سیرالیون جلسہ سالانہ میں شمولیت کا موقع ملا تو مین شاہراہوں سے گزرتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر (وقفہ) کے بعد پاکستانی مساجد کے طرز پر مساجد پر مینار اور گنبد بنے نظر آتے ہیں۔ جو افریقن مستریوں کے لیے بنانے کافی مشکل ہیں۔ مجھے مکرم سعید الرحمن امیر سیرالیون نے بتایا کہ پاکستان سے ہمارے ایک احمدی مستری دوست یہاں آئے تھے وہ ایک افریقن احمدی کو پاکستانی مساجد کی طرز پر مینار کی تعمیر سکھا گئے ہیں۔ اب یہی افریقن احمدی پورے سیرا لیون میں جہاں بھی احمدیہ مسجد کی تعمیر ہو، مینار بناتے ہیں۔ جبکہ کئی مالکیہ گروپ کے مسلمان احمدیہ مشن سے رابطہ کرتے اور اس جیسے مینار تعمیر کروانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ اب خدا کی شان دیکھیں۔ ایک طرف پاکستان میں مینار گرائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف احمدیوں سے احمدی مساجد کی طرز پر مینار تعمیر کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ سبحان اللّٰہ۔ پورے سیرا لیون میں جب آپ کو اس طرز کے مینار نظر آئیں تو سمجھیں کہ یہ احمدیوں کی مسجد ہیں۔ الحمدللّٰہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور ہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے۔ پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض للہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو۔ تب خدا برکت دے گا۔یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصّع اور پکی عمارت کی ہو۔ بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کردینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔ خدا تعالیٰ تکلّفات کو پسند نہیں کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخیں ہی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔ پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا۔ اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتاہے۔ شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔ غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کردینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ93)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مساجد کی اہمیت، ضرورت اور برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہر مسجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اس مسجد میں آنے والے کا دل ہر قسم کے ظلموں اور حقوق غصب کرنے کے خیالات سے پاک ہے۔ یہ ہماری مساجد اس بات کا نشان اور مرکز ہیں کہ یہاں آنے والے دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے والے ہیں اور ان حقوق کی ادائیگی کے لئے قربانی کرنے کے لئے جہاں اپنوں کے لئے ان کے دل رحم کے جذبات سے پُر ہیں وہاں دشمن کی دشمنی بھی انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حق کی ادائیگی سے نہیں روکتی۔ یہ مساجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں یہ اس بات کا اعلان ہیں کہ مذہبی آزادی کا سب سے بڑاعلمبردار اسلام ہے اور اس کے اظہار کے لئے ہماری مسجدوں کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہیں۔ ہر شخص جو خدا کی عبادت کرتا ہے اسے مسجد میں عبادت کرنے میں کوئی روک نہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ ہماری مساجد اور اس میں آنے والا ہر احمدی اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیم کے مطابق ہر حقیقی مسلمان پر تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور فرض ہے اور اس ذمہ داری کا اداکرنا اس کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنی مسجد کی حفاظت کرنا۔ ہماری مساجد ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتی ہیں کہ مومن کے ایمان کا حصہ ملک سے وفاداری بھی ہے۔ ایک مومن اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ملک و قوم کا وفادار نہ ہو۔‘‘

آپ نے مزید فرمایا:میں نے شروع میں جو آیت (سورۃ توبہ آیت 18) تلاوت کی تھی اس میں بھی خدا تعالیٰ نے مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اس آیت کی وسعت خانہ کعبہ سے نکل کر ہر اس مسجد تک پھیلتی چلی جاتی ہے جو ان خصوصیات کے حامل لوگوں سے آباد ہوتی ہے جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ جو ایمان لانے والوں میں شامل ہیں۔ ان مومنوں میں شامل ہیں جن کے ایمان کے معیار اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمائے ہیں۔ فرمایا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ۔ یعنی مومنوں کی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ کوئی دوسری دنیاوی محبت ان پر غالب نہیں ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ دنیاوی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کو بھول جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ یہ نہیں کہ اپنے کام کے بہانے کرکے نمازوں کو انسان بھول جائے۔ مالی مفادکا فائدہ اٹھانے کے لئے جھوٹ کا سہارالے لے۔ یہ کام کرتے وقت انسان کو سو چنا چاہئے کہ میری محبت خدا تعالیٰ سے زیادہ ہے یا دنیاوی مفادات سے؟ اگر دنیاوی چیزیں اللہ تعالیٰ کے حکموں سے دُور لے جارہی ہیں تو دنیا کی محبت غالب آرہی ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔ ایمان جو ہمیں سب سے پیارا ہے۔ وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔‘‘

(الفضل آن لائن (مساجد نمبر) 22؍دسمبر 2022ء صفحہ7)

ہم اس موقع پر ’’شکر رب عز و جل خارج از بیاں‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے مساجد نمبر کے اجرا پراُس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے حضور کی دعاؤں کے طفیل میری ٹیم کو توفیق بخشی کہ وہ 82مساجد کا تعارف پیش کرنے کی سعادت پائے۔ جن کو پڑھ کر اور ان کی عالی شان تصاویر دیکھ کر دل حمد الٰہی سے بھر گئے اور قارئین نے لکھا کہ یہ شمارے Faith inspiring ہیں اور ہم شکرانے کے طور پر حمد الٰہی کے گیت گانے لگے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کنارے تک اللہ کے گھر کی تعمیر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کو بار بار پورا کیا۔ یہ اہم تاریخی نمبر جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر جاری کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بیت اللہ اور مسجد نبویؐ کے تناظر میں آج کے اُخروی دور میں جو سب سے پہلے مسجدیں تعمیر ہوئیں وہ قادیان میں تھیں اور جلسہ کے دنوں میں مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک میں عازمین قادیان اپنی عبادات کر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان مساجد کو اپنا نام بلند سے بلند تر کرنے کا ذریعہ بنائے۔ یہ مساجد آباد ہوں اور خدا کی توحید پھیلانے کا ذریعہ بنیں۔

اے اللہ تُو اسے ایسا ہی کر۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

دوسرا سالانہ ریجنل اجتماع واقفین/ واقفات نو گیمبیا 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2023