• 25 اپریل, 2024

مسجد فتح عظیم زائن کا نشان

مسجد فتح عظیم زائن کا نشان
ہماری نسلوں میں عظیم انقلاب لائے گا

خاکسار اُن خوش قسمت احباب میں شامل تھا جن کو خاص طور پر سیدنا حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہٴ امریکہ اور مسجد فتح عظیم زائن کی تاریخی افتتاحی تقریب میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ امریکہ کی طرف سے جب دعوت نامہ موصول ہوا تو مجھ عاجز کی خوشی کی انتہا نہ رہی اس پر سجدہ شکر ادا کیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ امریکہ کے دورہ میں آپ کی اقتدا اور معیت میں نمازیں ادا کیں غرض یہ کہ آپ کی قربت سے بھرپور روحانی فائدہ اٹھایا اور خاص دعاؤں کی بھی توفیق میسر آئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلیفۂ وقت کی برکات سے مستفیض فرمائے اور ہمیشہ آپ کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

30؍دسمبر 2022ء جمعۃالمبارک کا دن ہماری زندگی میں ایک غیرمعمولی تاریخ ساز دن تھا۔ جس کو ہمیشہ یاد رکھاجائےگا۔ کیونکہ یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی کے بارہ میں عظیم الشان پیشگوئی کی تکمیل سے تعلق رکھتا ہے جو کہ خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں پوری ہونی تھی۔

اس بابرکت دن ہمارے پیارے آقا امام جماعت احمدیہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں فتح عظیم کا افتتاح کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عالمی نشان کی تکمیل کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام۔۔۔ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر ڈوئی کی ہلاکت کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ یہ نشان جس میں ’’فتح عظیم‘‘ ہوگی عنقریب ظاہر ہوگا۔

(ماخوذ از حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ511 حاشیہ)

اور دنیا نے دیکھا کہ پندرہ بیس دن کے اندر ہی اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کردیا اور بڑی ذلت سے ہلاک کردیا۔۔۔۔ آج اس کا اگلا قدم ہے جو اس شہر میں ہم مسجد کا افتتاح کررہے ہیں۔ آپ کے الہام کے ایک حصہ کو ہم نے تقریباً ایک سو پندرہ سال پہلے پورا ہوتے دیکھا اور اس کا اگلا قدم ہم آج پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

علاوہ ازیں آپ نے فرمایا: اس شہر کی اہمیت ایک نام نہاد دعویدار اور اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ غلط زبان استعمال کرنا پھر اس کا خاتمہ ہونا اور اس شہر میں جماعت احمدیہ کا قیام ہونا ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والا بناتا ہے اور بنانا چاہئے۔۔۔ اُس عظیم خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ جس نے ہمیں اس مسجد کی تعمیر کی توفیق دی۔ پس اس لحاظ سے ہم احمدیوں کےلیے ایک صرف خوشی کا دن نہیں بلکہ انتہائی شکر گزاری کا دن بھی ہے۔ جس نے ہمیں تعمیر مسجد کے ساتھ امام زمانہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق کی سچائی کا بھی زندہ نشان دکھایا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 16؍اکتوبر 2022ء)

اس نشان الہام پیشگوئی سے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو 20؍فروری 1907ء کو الہام فرمایا: ’’میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی۔ وہ عام دنیا کےلیے ایک نشان ہوگا اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا۔ چاہئے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیونکہ خدا عنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اس کی طرف سے ہے۔ مبارک وہ جو اس سے فائدہ اٹھاوے۔ آمین‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ560 ایڈیشن1989ء)

حضورانور فرماتے ہیں: ’’ہم مسجد فتح عظیم کا حقیقی مذہبی آزادی کے نشان کے طور پر افتتاح کررہے ہیں اس کے دروازے اس سنہری پیغام کے ساتھ کھولے جارہے ہیں کہ تمام افراد اور کمیونیٹیز کے مذہبی حقوق اور پُرامن عقائد کا ہمیشہ خیال رکھا جائے گا اور ان کا تحفظ کیا جائے گا۔‘‘

(رپورٹ دورہٴ امریکہ قسط6 مطبوعہ الفضل آن لائن)

اس عظیم مسجد کے افتتاح کے موقع پر ہم نے اور ہزاروں افراد نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بھی الہام پورا ہوتے دیکھا:

’’اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْرُ‘‘

یعنی اے مسرور! میں تیرے ساتھ ہوں(تذکرہ صفحہ630) علاوہ ازیں اس سے قبل ہم یہ نظارہ کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ پہلی بار آپ کو خلافت پر متمکن ہوتے دیکھا۔ آئندہ بھی ایسے نظارے ہم دیکھتے رہیں گے اور ہماری نسلیں بھی۔ ان شاءاللّٰہ

جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہ لمحہ بڑی اہمیت کا حامل رہے گا کیونکہ اس دن کی تقریب کو ہزاروں احباب نے ذاتی طور پر اور لاکھوں ناظرین نے براہِ راست میڈیا پر دیکھا اور سُنا۔ یہ روحانی نظارہ ہم کبھی نہ بُھلاسکیں گے۔ جمعہ کی نماز میں ہم نے اکثر لوگوں کو بلکتے، آنسوؤں کے ساتھ روتے، دعائیں کرتے دیکھا۔ یہ عجیب و غریب نظارہ تھا جو خالص خداتعالیٰ کی حمدوشکر کے طور پر تھا۔ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کو یہ موقع میسر آیا اور حضورانور کے دیگر دورہ جات میں نصیب ہوا۔ ایسے مواقع نصیب والوں کو مقدر سے ملاکرتے ہیں اور کئی دہائیوں بعد ایسا ہی ایک واقعہ خاکسار کو قریباً 40سال قبل مسجدبشارت اسپین کے افتتاح پر میسر آیا تھا۔

زائن (ZION) شہر کی تاریخی اہمیت

زائن (ZION) شہر جو تاریخ میں صیہون کے نام سے بھی مذکور ہے یہ شہر ریاست ہائے متحدہ امریکہ الینائے میں ایک چھوٹا شہر ہے۔ اس کے مشرقی کونے پر جھیل مشی گن ہے۔ اس شہر کا بانی مشہور و معروف ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی تھا۔ یہ شہر 1901ء میں آباد ہوا۔ ابتدا میں اس شہر کی بنیادیں خاص طور پر رکھی گئیں۔ جیساکہ اس شہر کی اکثر سڑکوں اور گلیوں کے نام بائیبل کی نامور شخصیات اور مقامات کے نام پر بطور یادگار رکھے گئے ہیں۔ شہر زائن میں اس نے ایک عالیشان چرچ بنایا تھا جس کانام Christian Catholic Church of Zion ہے اور لفظ زائن سے مراد خدا کے وہ چنیدہ لوگ ہیں جو مسیح کی آمد ثانی کےلیے تیاری کررہے ہیں۔

یہاں ایک گول چوک ہے اسی چوک کے وسط میں ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی نے اپنے چرچ کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ چرچ آج بھی قائم ہے۔ یہ چرچ اب عیسائیت کے کسی فرقہ کی ملکیت ہے۔ اس علاقہ میں اس کا پُرانا گھر بھی ہے جوکہ اب بوسیدہ حالات میں بند پڑا ہے۔ ہم نے اس کے پرانے گھر اور اس کے مرکزی چرچ کو اچھی طرح دیکھا لیکن اندر جا نہ سکے کیونکہ اس کے لیے خاص دن اور وقت مقرر ہے۔ البتہ ہم نے اس کے بیرونی مناظر اور علاقہ کا بغور جائزہ لیا۔ بہرصورت اس شہر کو عام طور پر لوگ ڈاکٹر ڈوئی کے نام سے نہیں جانتے کئی عمررسیدہ لوگ بھی اس کی نشاندہی نہیں کرتے۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر یاد آیا

؎میں تھا غریب و بےکس و گمنام بےہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر

آج دنیا جان چکی ہے کہ ہے قادیاں کدھر کل اس زائن شہر کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے اور ڈوئی سے متعلق الہام پیشگوئی کی وجہ سے خوب جان جائے گی۔ آج مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد فتح عظیم کا افتتاح کر کے اس کو ایک خاص پہچان دے دی ہے کل جب یہاں مینارة المسیح بنے گا تو اس کی روحانی روشنی دنیا کے کونوں تک پھیلے گی اور مسجد فتح عظیم کا نشان ہماری نسلوں میں عظیم روحانی انقلاب لائے گا۔ ان شاءاللّٰہ

ڈاکٹر ڈوئی سے متعلق حالات اور واقعات

ڈاکٹر ڈوئی کی پیدائش اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں مئی 1847ء کو ہوئی۔ والد کا نام جان مرے ڈوئی تھا۔ اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نے بائیبل چھ سال کی عمر میں پڑھی۔ 1860ء میں اس کا خاندان ہجرت کرکے آسٹریلیا Adelaide شفٹ ہوگیا۔ اس کے ماموں کا جوتوں کا کاروبار تھا کچھ عرصہ اس نے یہاں کام کیا۔ پھر مختلف جگہوں پر ملازمتیں کیں۔ 20سال کی عمر میں اپنے لیے ایک ٹیچر کا بندوبست کیا اور پادری بننے کی تیاری کی۔ پھراس نے ایڈنبرا شہر یونیورسٹی میں الٰہیات (Teleology) میں داخلہ لیا۔ پھر اس نے ایک بڑے ہسپتال میں اعزازی پادری کی حیثیت سے کام کیا۔ 1873ء – 1874ء میں سڈنی شہر میں بطور پادری مقرر ہوا۔ یہاں کافی تعداد میں چرچ کے افراد وابستہ تھے اس کے بعد نیوٹن (Newton) کے مقام پر تقرری ہوئی۔ اس علاقہ میں بڑی تعداد میں طاعون کے باعث اموات ہوئیں۔

1876ء میں اس کی شادی اس کی چچازاد Jeanie سے ہوئی۔ اس کی زندگی میں یہ مرحلہ تنازعات کا شکار رہا کیونکہ عیسائیوں میں بالعموم کزن سے شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس سے اس کے تین بچے پیدا ہوئے۔

1878ء میں ڈوئی نے سڈنی آسٹریلیا میں تھیٹرہال کرائے پر لے کر وعظ کرنا شروع کردیا۔ اس اثنا میں اس نے اعلان کیا کہ وہ فری کرسچن چرچ کی بنیاد رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لوگوں نے خیرمقدم کیا۔ اس کے بعد اس نے الیکشن میں حصہ لیا لیکن یہ پارلیمنٹ الیکشن بھاری اکثریت سے ہار گیا اور قرض میں ڈوب گیا۔ مالی تنگی اور بیٹی کے انتقال پر بیوی کو خط لکھاکہ مجھے دن میں ایک وقت تو کیا 48گھنٹے بغیر کچھ کھائے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہےکہ میں موت کے نزدیک ہوں۔

1884ء میں ڈوئی کو مالی وسائل میسر آگئے جس سے اس نے ملبورن میں فری کرسچن چرچ قائم کیا اور ایک عبادت گاہ تعمیر کی۔ پھر اس نے ایک کنونشن میں (Ministry of Divine Healing) یعنی روحانی طریقہ علاج کا آغاز کیا۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ مرض شیطان کی طرف سے ہے اور شفا یسوع کی مدد سے ہی مل سکتی ہے۔ اس وعظ کے بعد اس کے مریدوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی مخالفت بھی بڑھتی گئی۔ اس کے باعث قانون بنایا گیا کہ اب سڑکوں، گلیوں پر میٹنگز اور واعظ نہیں ہوں گے۔ ڈوئی نے اس قانون کی خلاف ورزی کی اور کہا کہ اس نے انجیل کی تعلیمات پر عمل کیا ہے۔ اس طرز کی میٹنگز اس نے انگلستان اور آسٹریلیا میں بھی کیں جس پر اس کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جس پر 5پونڈ کا جرمانہ ہوا۔ جرمانہ نہ ادا کرنے پر اس کو 30روز کےلیے جیل بھیج دیا۔

1889ء میں یہ نقل مکانی کرکے امریکہ چلا گیا یہاں اس نے International Divine Healers Association کی بنیاد رکھی۔ اس کا گھرانہ بھی نیوزی لینڈ سے امریکہ آگیا۔ یہاں آتے ہی اس نے روحانی علاج کا پرچار شروع کردیا پھر اس نے شکاگو، امریکہ کے مضافات میں (Evanton) میں رہائش اختیار کی۔ یہاں پر اس کی مخالفت شروع ہوئی اس کو جھوٹا اور بہروپیا قرار دیا گیا۔

ایک اور شخص Furth Jacob Schwin جس نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہوا تھا اس کی اپنی جماعت بھی تھی جس میں عورتوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ ڈاکٹر ڈوئی کے مداحوں کے مطابق ڈوئی اس سے ملاقات کرنے گیا اور اس کو خوب لاجواب بھی کیا۔ اس ملاقات کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان کے مطابق اس گفتگو میں ڈوئی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ تبصرہ کیا۔ ضمناً عرض ہے 1890ء میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰة والسلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ فرمایا۔ آپؑ نے رسالہ ’’فتح اسلام‘‘ لکھا جو 1891ء میں شائع ہوا آپ نے فرمایا:
’’مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔‘‘

مزید فرمایا:
’’مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کردیا جائے۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ10 حاشیہ11)

ڈاکٹر ڈوئی نے 1893ء میں جب امریکہ کے شہر شکاگو میں رہائش اختیار کی تو عوام میں اس کو پذیرائی نہ ملی لیکن لوگ اس کے پاس روحانی علاج کی غرض سے آنےلگے پھر جب اس کےگروہ نے کچھ گھر کرائے پر لیے تو شدید مخالفت ہوئی اور لوگوں نے ان کو پاگل خانوں کا نام دیا۔ اس دوران اس نے اپنا اخبار لیو آف ہیلنگ (Leave of Healing) کے نام سے جاری کیا۔

جس سے اس کو پروپیگنڈا میں آسانی ہوگئی۔ اس سے اس کے مداحوں میں مزید اضافہ ہوتا رہا اور اسی طرح مخالفت میں اضافہ بھی۔ اس کی مخالفت میں شکاگو کا بورڈ آف ہیلتھ بھی شامل ہوگیا۔ اس پر ڈوئی کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے۔ عدالت سے اس کو جرمانہ کی سزا ہوئی۔ 1896ء میں ڈوئی نے اپنے عروج کے بارے میں پیشگوئی کہ
’’اگر خدا نے اسے زندگی دی اور وہ چرچ کا جنرل اوررسٹیئر کے مقام پر فائز ہوا تو اس کاکرسچن کیتھولک چرچ اتنا مضبوط اور دولت مند ہوجائے گا کہ دنیا نے اس کی نظیر نہ دیکھی ہوگی۔‘‘

(ڈوئی کا عبرتناک انجام صفحہ24)

25؍اگست 1900ء میں ڈاکٹر ڈوئی نے اسلام دشمنی میں کہا تھا کہ ’’میں امریکہ اور یورپ کی عیسائی اقوام کو خبردار کرتاہوں کہ اسلام مردہ نہیں ہے اسلام طاقت سے بھرا ہوا ہے۔ اگرچہ اسلام کو ضرور نابود ہونا چاہیے۔ ’’محمڈن ازم‘‘ کو ضرور تباہ ہونا چاہیے مگر اسلام کی بربادی نہ تو مضمحل لاطینی عیسویت کے ذریعہ ہوسکے گی نہ ہی بےطاقت یونانی عیسویت کے ذریعہ۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ242)

19؍اکتوبر1899ء، میں ڈوئی نے شکاگو میں ایک لیکچر دینے کا اعلان کیا جس کا عنوان ’’Doctors, Drugs and Devil‘‘ یعنی ’’ڈاکٹر دوائیاں اور شیطان‘‘ اس کا مقصد تھا طبی دنیا پر حملہ کرنا۔ جس پر میڈیکل کے طلبا اور طب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شدید ردِعمل دکھانے کا فیصلہ کیا۔ جونہی تقریب شروع ہوئی لوگوں نے اس پر حملہ کردیا۔ شکاگو سے باہر بھی لوگوں نے ایسا ہی سلوک کیا۔

1899ء میں ڈاکٹر ڈوئی کے چرچ شکاگو میں برائیوں کے خلاف ’’مقدس جنگ‘‘ کا اعلان کیا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس کا آغاز کرتے ہوئے ڈوئی نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے ’’ملاکی‘‘ نبی کی پیشگوئی پڑھ کر سنائی کچھ عرصہ بعد اس نے اعلان کرنا تھا کہ وہ اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔ اس نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ گزشتہ مالی سال میں چرچ کو دس لاکھ ڈالر کے عطیات ملے۔

1899ء- 1900ء کے درمیان ڈاکٹر ڈوئی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا اور اس فرقہ کا نام تبدیل کرکے کرسچن کیتھولک اپاسٹک چرچ رکھا۔

(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ241)

اسی سال اس نے اپنی دو صنعتوں کو شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جوکہ Lace کے کپڑے کی صنعت تھی۔ 15؍جولائی 1901ء میں صیہون شہر کی بنیاد رکھی اور ظاہر کیا کہ مسیح اسی شہر میں نازل ہوگا۔

(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ241-242)

مئی1901ء میں اس کے ایک نمایاں مرید (Deacon Judd) کی بیوی ایمالیسی جڈ کی حالت بچہ کی پیدائش کے دوران بگڑتی گئی۔ ڈاکٹر ڈوئی کے چرچ کی روایت کے مطابق ڈاکٹروں کی مطلوبہ مدد نہیں لی گئی اور اسی تکلیف کی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا۔ معاملہ عدالت میں گیا ڈوئی نے بیان دیا کہ مریضوں کے علاج کےلیے ڈاکٹروں کی کوئی ضرورت نہیں جیوری نے ڈوئی اور عورت کے خاوند کو ذمہ دار قرار دیا۔ ان دونوں کو حراست میں لیا گیا۔ جج نے دونوں سے دس دس ہزار ڈالرز کی ضمانت لی لیکن گرینڈ جیوری نے ان دونوں کو مقدمہ سے بری کردیا۔

جون1902ء میں ڈوئی نے اعلان کیا کہ صیہون، یروشلم کو اپنے بادشاہ کےلیے خریدے گا اس طرح کئی صیہون شہر آباد کرلیں گے اور ہر سال 10لاکھ ڈالر کا انتظام کرلیں تو ہم ترکوں، مسلمانوں اور یہودیوں کو خرید سکتے ہیں۔

2؍ جون 1902ء ڈوئی نے اچانک ایک آڈیٹوریم میں 5ہزار کے مجمع میں یہ اعلان کیا کہ:
’’میں ایلیا (الیاس) نبی ہوں جوکہ پہلی مرتبہ یہ ایلیا کی صورت میں منظرِعام پر آیا دوسری مرتبہ بپتسمہ دینے والے یوحنا (یحییٰ) کی صورت میں۔ اب میری صورت میں یہ ظاہر ہورہا ہے۔ میں تمام چیزوں کو بحال کرنے کےلیے آیا ہوں۔ ایلیا ایک نبی تھا اور یوحنا ایک مبلغ تھا۔ لیکن مجھ میں ایک رسول کی خصوصیات بھی ہیں۔ ایک منادی کی خصوصیات بھی ہیں اور میں بغیر کسی خوف کے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جو ایلیا کا جسمانی اور روحانی بروز بھی ہوں۔ اور زمین پر میرے تیسری مرتبہ آنے کی پیشگوئی ’’ملاکی نبی نے بھی کی تھی‘‘ پطرس نے بھی کی تھی اور تین ہزار سال قبل موسیٰ نے بھی کی تھی۔ جو مجھ پر ایمان لاتے ہیں کھڑے ہوجائیں اسی وقت تین ہزار سے زائد افراد نے کھڑے ہوکر ڈوئی پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔

14؍مئی 1902ء کو ڈاکٹر ڈوئی کی اکلوتی بیٹی Esther Dowie جو شکاگو یونیورسٹی کی طالبہ تھی ڈوئی کے دعویٰ رسالت کے چند ماہ بعد اس کی بیٹی صبح کے وقت شکاگو اپنے گھر میں اپنے بال سیدھے کررہی تھی کہ قریب لیمپ سے اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ اس سے لڑکی کا جسم بُری طرح جل گیا۔ ڈوئی اپنی بیوی کے ہمراہ شہر صیہون میں تھا۔ یہ خبر سن کر شکاگو اپنی بیٹی کے گھر گیا اور دعا میں مصروف ہوگیا۔ لیکن لڑکی کی حالت ابتر ہوتی گئی اور رات کو 9بجے وہ اسی تکلیف کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئی۔ چونکہ ڈوئی کا عقیدہ تھا کہ بیماروں کا صرف روحانی طریق سے علاج کرنا چاہئے اس لیے کوئی امداد نہیں لی گئی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائری سے
اقتباس 6؍اگست 1902ء قادیان

امریکہ کے مشہور مفتری مدعی ایلیا ڈوئی کا اخبار پڑھا گیا جو مفتی محمد صادق صاحب ایک عرصہ سے سنایا کرتے ہیں۔ ڈوئی نے اپنے مخالف قوموں، بادشاہوں اور سلطنتوں کی نسبت پیشگوئی کی ہے کہ وہ تباہ ہوجائیں گے۔ اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی رگِ غیرت و حمیت دینی جوش میں آئی اور فرمایا: ’’مفتری کذاب اسلام کا خطرناک دشمن ہے۔ بہتر ہے اس کے نام ایک کھلا خط چھاپ کر بھیجا جاوے اور اس کو مقابلہ کےلیے بلایا جاوے۔ اسلام کے سوا دنیا میں کوئی سچا مذہب نہیں ہے اور اسلام کی ہی تائید میں برکات اور نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ خداتعالیٰ اس افتراء کی اس کو سزا دے۔‘‘

غرض یہ قرار پایا کہ 7؍اگست کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک خط اس مفتری کو لکھیں اور اسے نشان نمائی کے میدان میں آنے کی دعوت کریں۔

لہٰذا ستمبر 1902ء کو حضرت اقدس علیہ السلام نے ڈوئی کو مباہلہ کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:
’’سو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں باآدب عرض کرتے ہیں۔۔۔ مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے‘‘ (اشتہار ڈوئی کی پیشگوئی کا جواب جو اس نے تمام مسلمانوں کی ہلاکت کےلیے کی ہے)

(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ568-570)

یہ چیلنج ریویو آف ریلیجنز (انگلش) ستمبر1902ء میں انگریزی میں شائع ہوا۔ اور اس کی اشاعت وسیع پیمانہ پر کی گئی اور امریکہ بھی پہنچادیا گیا۔ اس کے بعد دسمبر1902ء میں ڈاکٹر ڈوئی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کا مذاق اُڑایا اور پھر آپ کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی اور یہ کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اشتہار میں واقعہ صلیب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ بچنے اور سری نگر انڈیا میں یوزآسف کی قبر کا ذکر فرمایا تھا۔ اس کے جواب میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے ڈوئی نے کہا:
(ترجمہ) ہندوستان میں ایک بیوقوف شخص ہے جوکہ (دینِ حق سے وابستہ) مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ مسلسل مجھے لکھتا رہتا ہے کہ مسیح کا جسم ہندوستان کے کشمیر میں دفن ہے۔ وہ یہ کبھی نہیں کہتا کہ اس نے خود دیکھا ہے۔ لیکن یہ بیچارہ، تنگ نظر اور جاہل شخص یہ لایعنی دعویٰ کرتا رہتا ہے کہ مسیح کی وفات ہندوستان میں ہوئی تھی۔ مسیح بیت عیناہ کے مقام پر آسمان پر چلا گیا تھا اور وہاں پر اپنے روحانی جسم کے ساتھ موجود ہے۔ میں معین طور پر بتاسکتا ہوں کہ وہ کب ظاہرہوگا۔ لیکن میں کسی دن، کسی ہفتہ اور کسی سال کا نام نہیں لیتا۔

جبکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس اشتہار کو ایک سال گزر گیا مگر ڈاکٹر ڈوئی نے ایک لفظ منہ سے نہ نکالا اور نہ ہی چیلنج کو قبول کیا نہ انکار کیا۔

(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ244)

ڈاکٹر ڈوئی کہتا ہے کہ لوگ بعض دفعہ مجھے کہتے ہیں کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے۔ میں جواب دوں! اس ضمن میں ڈاکٹر ڈوئی کا متکبرانہ جواب ملاحظہ فرمائیں۔

تم کیا سمجھتے ہوکہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں۔ میں اگر ان پر پاؤں رکھوں تو یہ کچلے جائیں گے۔ میں انہیں موقع دیتا ہوں کہ وہ اُڑ جائیں اور اپنی زندگی بچالیں۔ صیہون کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ رُک کر ان کا جواب دے۔ ان کی مثال اسی طرح ہے جیسے ایک چوہا ایک بجلی سے چلنے والی آری کو کہے کہ تم رُک جاؤ ورنہ میں تمہیں کاٹ لوں گا۔ اسے کاٹنے دو اسی وقت اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

23؍اگست 1903ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دوسرا اشتہار مباہلہ کا لاہور سے انگریزی زبان میں شائع کروایا جو 6صفحات پر مشتمل تھا۔

آپ فرماتے ہیں:
’’ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارةً میرے مقابلے پر کھڑا ہوگا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیا فانی کو چھوڑ دے گا… آج جو 23؍اگست 1903ء ہے اس کو پورے سات ماہ کی مہلت دیتا ہوں اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلہ پر آگیا اور جس طور پر مقابلہ کرنےکی میں نے تجویز کی ہے جس کو میں شائع کرچکا ہوں اس تجویز کو پورے طور پر منظور کرکے اپنے اخبار میں عام اشتہار دے دیا تو جلدتر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوگا۔ میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور وہ جیساکہ بیان کیا جاتا ہے پچاس برس کا جوان ہے۔‘‘

(اشتہار پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں، مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ606-607)

دیکھئے! اس مباہلہ کے چند روز بعد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے کہ ڈاکٹر ڈوئی کو بہت بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے منہ سے وعظوں کے دوران ایسے فقرات جاری ہونے لگے کہ حاضرین کو اس کے ذہنی توازن پر شبہ ہونے لگا۔

فروری1905ء میں یہ خبریں شائع ہونا شروع ہوئیں کہ ڈاکٹر ڈوئی، اس کی تنظیم کے اعلیٰ عہدیدار اور ان کے اہلِ خانہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں یکم اکتوبر1905ء کو اس پر فالج کا حملہ ہوا۔ پھر 19؍دسمبر کو اس نے صیہون میں اپنےمرکزی گرجا (Shiloh Tabernacle) میں وعظ کرنے کی کوشش کی تو یہ لڑکھڑا کر گرگیا۔ اس کے بعد اس کو کرسی پر بیٹھ کر بولنا پڑا۔ اور اس کی آواز مدہم اور کانپ رہی تھی۔ 19؍دسمبر کو اس پر دوبارہ فالج کا حملہ ہوا۔ تب اس کے تمام مرید اس کو چھوڑ گئے اس کے بیوی بچے الگ ہوگئے۔ اس کی حالت ایسی ہوگئی کہ یہ ایک قدم نہ چل سکتا تھا۔

یکم اپریل1906ء میں ڈاکٹر ڈوئی کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا پانچ ہزار کے مجمع میں ڈوئی کے مقرر کردہ انچارج Volia نے اعلان کیا کہ ڈوئی ایک جھوٹا اور منافق انسان ہے۔ اس مجمع میں اس کی بیوی اور بیٹا بھی موجود تھے۔ ڈوئی پر کئی الزامات کے علاوہ ایک یہ بھی تھا کہ یہ تعدد ازدواج کا حامی ہے اس وقت ڈوئی صیہون میں موجود نہ تھا وہ جمیکا چلا گیا تھا۔

اس عرصہ میں اس کا تمام کاروبار اور جریدے لیوز آف ہیلنگ یہ تمام مالی بدحالی کا شکار ہوچکے تھے اور خود بھی اس کی صحت خراب اور ذہنی توازن بگڑ چکا تھا اس کے بیوی بچے بھی اس کو چھوڑ کر دوسرے شہر چلے گئے تھے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: مجھے 9؍فروری 1907ء کو الہام ہوا کہ ’’اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلیٰ‘‘ یعنی غلبہ تجھ کو ہوگا اور پھر اسی تاریخ کو مجھ پر یہ الہام ہوا ’’اَلعید الاٰخرتنال منہ فتحًا عظیمًا‘‘ یعنی ایک اور خوشی کا نشان تجھ کو ملے گا۔

(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ510 حاشیہ)

خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایک نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی۔ وہ تمام دنیا کےلیے ایک نشان ہوگا اور خداکے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا چاہیے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیونکہ خدا اس کو عنقریب ظاہرکردےگا۔

(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ510)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: 9؍مارچ 1907ء لنڈن کی تار میں خبر آئی ہے جو سول اخبار میں شائع ہو گئی کہ ڈوئی جس نے امریکہ میں پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور جس کی نسبت میں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ اپنے دعویٰ میں کاذب ہے خدا اُس کو نہیں چھوڑے گا۔ وہ مفلوج ہوکر مرگیا۔فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک بڑا نشان ظاہر ہوا۔ منہ

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 حاشیہ صفحہ492)

ڈاکٹر ڈوئی نے اپنے اخبار لیوز آف ہیلنگ 19؍ دسمبر1902ء میں لکھا تھا کہ: ’’میرا کام یہ ہے کہ میں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس شہر اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آجائے کہ مذہب محمدی دنیا سے مٹایا جائے۔‘‘

(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ509)

دیکھئے! یہ شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو مٹانے چلا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہتا تھا کہ تم کیا سمجھتے ہو میں ان مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں میں اگر ان پر پاؤں رکھوں تو یہ کچلے جائیں گے۔ اور یہ دنیا اپنے شہر میں آباد کرنے کا سوچ رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ کی تقدیر ایسی غالب آئی اس پر تُف (لعنت) ڈالی گئی۔ یہ مفتری کاذب اپنی ناکامیوں، نامرادیوں، بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ مفلوج ہوکر اس دنیا فانی سے کوچ کرگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ انتہائی ذلت کے ساتھ شدید عذاب سے تجھے ہلاک کرے گا اور تجھے رسوا کرے گا اور تجھے افتراء کی سزا کا مزا چکھائے گا من و عن پورا ہوا۔

لہٰذا زائن صیہون سے ڈاکٹر ڈوئی کی پہچان ختم ہوگئی اور آج دینِ محمدی اور جماعت احمدیہ کی پہچان اس شہر سے اُٹھے گی اور جو پودا حضورانور نے مسجد فتح عظیم کا لگایا ہے وہ ان شاءاللّٰہ پُھولے گا پھلے گا اور ساری دنیا اس سے فیض حاصل کرےگی۔ ان شاءاللّٰہ

؎جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارو نزار

(درثمین)

(محی الدین عباسی۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی