• 24 اپریل, 2024

حواری

حواری
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواری

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے ۔ حواری آپ کی تربیت یافتہ جماعت تھے ۔ عہد نامہ جدید نے حواریوں کا جو مختصر کردار ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس کو مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس قرآن مجید حواریوں کو فرمانبردار، مطیع اور مدد گار بتاتا ہے ۔جیسا کہ قرآنی بیان کے مطابق حواریوں کا یہ قول ہے:

قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۚ وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ

(آل عمران :53)

ترجمہ: حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے انصار ہیں۔ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور تُو گواہ بن جا کہ ہم فرمانبردار ہیں۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ یہاں جن حواریوں کے بارہ میں ہم پڑھیں گے ۔وہ کون ہیں؟ ان کی اہمیت کیا ہے؟ اور ان خاص حواریوں کو اور کن کن ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے جو آج سے قریباً دوہزار سال قبل موجودہ فلسطین اور اسرائیل کی سر زمین میں مبعوث ہوئے۔ آپ نے توریت یا انبیاء کی دیگر کتب کومنسوخ نہیں کیا بلکہ آپ انہیں مکمل کرنے کے لئے آئے تھے ۔ جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں:
’’یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔‘‘

(متی باب 5 آیات 17اور 18)

جس طرح انبیائے سابقہ نے بھی اولین طور پر بنی نوع انسان کی تربیت اور فلاح کے لئے اور ان کو ایک واحدویگانہ خداکی طرف توجہ دلائی اور اسی کے سامنے جھکنے کا کہا بالکل اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنا کام سر انجام دیا ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام خاص کر جس قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے، اس کا ذکر خود ان الفاظ میں فرماتے ہیں آپؑ نےفرمایا:
’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘

(متی باب 15 آیت24)

جس طرح انبیائے سابقہ نے اپنے کام سر انجام دینے کے لئے اپنے حواریوں کی خاص طرز پر تربیت کی اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے شاگردوں کی تربیت کی تھی ۔ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے خصوصی تربیت پائی تھی ۔ان خصوصی اصحاب کو شاگرد، رسول یا حواری کہتے ہیں۔ ان کی تعداد 12 تھی۔ اغلباً یہ تعدادبنی اسرائیل کے 12 قبائل کی وجہ سے تھی ۔ چنانچہ جیسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اعلانیہ دعویٰ کے ساتھ لوگوں کو خدا کی طرف بلانا شروع کیا تو آپ کی شہرت سارے یروشلم اور قرب و جوارکے علاقوں میں پھیل گئی۔ جب آپ نے دیکھا کہ لوگوں کی حالت ان بھیڑوں کی مانند ہے جن کا کوئی چرواہا نہ ہو تو آپ نے انجیل کے بیان کے مطابق فرمایا:
’’۔۔۔ اور اس نے بارہ کو مقرر کیا تاکہ اس کے ساتھ رہیں اور وہ ان کو بھیجے کہ منادی کریں اور بدروحوں کا نکالنے کا اختیار رکھیں وہ یہ ہیں ۔۔۔۔۔‘‘

(مرقس باب 3آیات 14تا 16)

اس بارے میں ایک عیسائی مصنف اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتاہے:
’’۔۔۔۔ یہی منتخب رسول بعد ازاں کلیسیا کے اعلیٰ چوہان اور پاسبان ٹھہرے اور دنیا کی انتہا تک نجات کی خوشخبری پھیلانے کا ذریعہ بنے ۔ ایک مفکر کہتا ہے کہ یسوع نے بارہ کا انتخاب کرکے یہ ظاہر کیا کہ جس طرح عہدعتیق میں یعقوب کے بارہ بیٹے خدا کی برگزیدہ قوم اسرائیل کے نمائندے تھے، اسی طرح رسول بھی یسوع کی کلیسیا یعنی نئی اسرائیل کے راہنما اور قائدین بنیں ۔ مکاشفہ کی کتاب کے مطابق بارہ رسول علامتی معنوں میں وہ ستون اور بنیادیں ہیں جن پر آسمانی یروشلیم قائم ہے ۔‘‘

(یسوع کے حواری از ولیم بارکلے صفحہ 9۔10)

’’اور اُس شہر کی شہر پناہ کی بارہ بنیادیں تھیں اور ان پر بّرہ کے بارہ رسولوں کے بارہ نام لکھے تھے۔‘‘

(مکاشفہ باب21 آیت14)

بہر حال یہ مختلف بیان کردہ وجوہات ہیں جنکی بناء پر ان بارہ 12 حواریوں کو چنا گیا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

لفظِ حواری

دراصل لفظِ حواری اردو زبان میں عربی سے آیا ہے۔ اہل عرب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رسولوں، شاگردوں اور اصحاب کو حواری کہتے ہیں۔ عرب اس کے مختلف معانی کرتے ہیں ۔چنانچہ لغت کی رُو سے اس لفظ کا مادہ (ح۔و۔ر) ہےجسکے مختلف معانی یہ ہیں:

  1. رجوع۔ لوٹنا، واپس ہونا۔
  2. التحیر۔ تردّد، حیرانگی
  3. النقصان۔ کم ہوجانا ۔
  4. القعر۔ تہہ
  5. العمق۔ گہرائی

الحور جمع کا صیغہ ہوتو اس کا مفرد مذکر کے لئے أحْوَرَ اور حوراء مؤنث کے لئے آتا ہے اور اس کے معانی ہوتے ہیں ’’آنکھ کی سفیدی کا بہت زیادہ سفید اور سیاہی کا بہت زیادہ سیاہ ہونا اور آنکھ کی پتلی کا گول ہونا اور پلکوں کا باریک ہونا اور اس کے ارد گرد والے حصوں کا سفید ہونا۔

(القاموس المحیط۔زیر لفظ حور)

حُوْر ٌ کے معانی ہیں آنکھ کی سیاہی میں قدرے سفیدی ظاہر ہونا اور یہ آنکھ کی خوبصورتی کی انتہا ہے ۔

(المفردات لامام راغب زیر لفظ حور)

اَلۡحَوَارِیُّوۡن۔ أَنْصَارُ عِیْسیٰ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مددگار ۔کہا جاتا ہے کہ وہ (1) قَصَّارِیْنَ یعنی دھوبی تھے۔ کپڑے دھوکر سفید کرنے والے۔ (2) صَیَّادِیْنَ۔ شکاری تھے۔ یعنی جہل و ظلمت کے جنگلوں سے لوگوں کو ہدایت و روشنی کی طرف شکار کرکے لاتے تھے اور حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتے تھے۔

بعض علماء کے نزدیک انہیں حواری اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں کو دین اور علم کے افادہ کے ذریعہ صاف و مطہر بناتے تھے اور دھوبی انہیں تمثیل و تشبیہ کے رنگ میں کہا جاتا ہے۔

الحواریون الحواری سے مشتق ہے جس کے معنیٰ درج ذیل ہیں:

1)الناصح۔ خیر اندیش
2)الحمیم۔ گہرا دوست
3)الناصر۔ مددگار و قیل ناصر الانبیاء یعنی انبیاء کے مددگار کو ہی حواری کہتے ہیں اور اسی سے حواری مشتق ہے۔ ان کو یہ نام ان کے خلوص نیت اور دل کے پاک صاف ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

(المنجد۔القاموس المحیط)

ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بہر حال واضح بات ہے کہ جس طرح عربی زبان کے الفاظ ذو معانی ہوتے ہیں اسی طرح اس لفظ حواری یا الحواریون بھی خاص نسبت اصحاب عیسیٰ علیہ السلام سے ہے ۔

عرب شعراء نے بھی اس لفظ کو استعمال کیا ہے ۔

اصمعیات میں حنابی بن حارث بن ارکاۃ البرجمی کے ایک قصیدہ میں یہ لفظ موجود ہے ۔چنانچہ شاعر حوارین کے شوق شہادت کا ذکر یوں کرتا ہے ۔

و کر کما کر الحواری ینبغی
الی اللّٰہ زلفی ان یکر فیقتلد

یعنی جس طرح حواری شوقِ شہادت اور تقرب الی اللہ کی وجہ سے لوگوں کے سامنے بار بار وعظ کرتے تھے اور نصیحت فرماتے تھے اسی طرح ممدوح بار بار کرتا ہے ۔

جاحظ نے امیہ بن ابی صلت کا ایک شعر کتاب الحیوان 7/17میں نقل کیا ہے جس میں حضرت حزقیل نبی کے اس مشہور و معروف رؤیا کو جس کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار اناجیل نویس حواریوں کے ساتھ ہے، بیان کیا ہے ۔چنانچہ وہ کہتا ہے:

رجل و ثور تحت رجل یمینہ
و النسر للاخری و لیث موصد

اس شعر میں انسان (رجل) سے مراد حواری متی ، بیل (ثور) سے مراد حواری لوقا ، عقاب (نسر) سے مراد حواری یوحنا اور شیر (لیث) سے مراد حواری مرقس ہیں۔

سموئیل شاعر کہتا ہے:

و سلیمان و الحواری یحییٰ
و متی یوسف کائی و لیت

اس شعر میں یوحنا حواری ،متی اور ان کے والد کا ذکر ہے ۔

(عربستان میں مسیحیت مؤلفہ پادری سلطان محمد صفحہ 268-269)

لفظِ حواری کے بارہ میں یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہ اردو زبان میں عربی سے آیا ہے اور بہت سے اور الفاظ کی طرح اب یہ بھی اردو زبان کا حصہ ہے اور اپنے خاص ماضی کی بناء پر عام طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے اصحاب اور پھر خاص طورپربارہ 12حواریوں کے بارہ میں استعمال ہوتا ہے ۔

عیسائی اردو ادب میں ’’رسول‘‘ کا لفظ بھی انہیں معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ انگریزی زبان میں ’APOSTLE‘ کا لفظ خاص کر انہی اصطلاحی معانی میں استعمال ہوتا ہے جن میں اردو زبان کا لفظ ِ ’’حواری‘‘ اور لفظِ ’’رسول‘‘ مستعمل ہے ۔

پس اب یہ واضح ہوگیا کہ حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاص اصحاب ہیں۔

رسول

لفظِ رسول کا مطلب ہے خدا کی طرف سے پیغام لانے والا اور عیسائی لٹریچر میں ان بارہ 12حواریوں کے لئے یہ خاص لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو دراصل یونانی لفظ aπoÕΤoλous کا ترجمہ ہے ۔انگریزی زبان میں لفظِ ’APOSTLE‘ اپاسل اصطلاحاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انہیں حواریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ رسول کے اور معانی ایلچی اور قاصد کے بھی ہیں اُردو کی طرح یہ یونانی لفظ بھی دو معنوں میں استعمال ہواہے ۔

عہد نامہ جدید میں

عیسائی اصطلاح میں یا یوں کہیں کہ عہد نامہ جدید میں بھی شاگردوں یا رسولوں کا ذکر آیا ہے ۔ ذیل میں چند اہم حوالے درج ہیں :
’’مسیح کے ان بارہ شاگردوں کے لئے جنہیں انہوں نے چنا اور اپنے ساتھ رکھ کر تربیت دی اور پھر منادی کے لئے بھیجا اور انہیں بد روحوں کو نکالنے کا اختیار بخشاُُ (مرقس باب 3آیات 13-15) اور انہیں رسول کا لقب دیا ۔(لوقا باب 6آیت 13) یہوداہ اسکریوتی کی خودکشی کے بعد بارہویں جگہ پُر کرنے کے لئے پطرس نے رسول کےچناؤکے لئے یہ معیار تجویز کیا کہ وہ خدا وند یسوع کے بپتسمہ سے لیکر اُن کے آسمان پر اٹھائے جانے تک برابر ان کے ساتھ رہا ہو اور ان کے جی اُٹھنے کا گواہ ہو ۔

(اعمال باب 1آیات 21تا 26)

وسیع تر معانی میںہم یہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا یونانی لفظ aπoÕΤoλous کسی عبرانی اصطلاح کی طرف اشارہ کرتا ہے ،تاہم عبرانی کا ایک لفظ ’’شلیخ‘‘ جس کا مادہ ش ل خ ہے ۔ا س قسم کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی کو باضابطہ نمائندہ بناکر خاص کام اس کے سپرد کرنا شائد پولوس اسی قسم کا ’’شلیخ‘‘ (نمائندہ) تھا۔ (اعمال باب 9آیت 2) پرانے عہد نامے میں اسی مادے کا لفظ 1سلاطین باب 14آیت 6 میں اخیاہ نبی کے متعلق استعمال ہوا ہے ’’کیونکہ میں تو تیرے ہی پاس سخت پیغام کے ساتھ بھیجا گیا ہوں ۔‘‘

پروٹسٹنٹ ترجمہ میں لفظ رسول اور اس کی جمع پرانے عہد نامہ میں چار جگہ استعمال ہوا ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔

(یسعیاہ باب 42آیت 19۔باب44آیت 26۔ملاکی باب 2آیت 7اور باب 3آیت 1)

کیتھولک ترجمہ بھیجے ہوئے اور پیامبر ہے لیکن یہ عبرانی کے اس لفظ کا ترجمہ ہے جس کا مادہ م ۔ل۔ک ہے اور ترجمہ فرشتہ ہے یعنی عربی کا مَلَک جمع ملائکہ اور یاد رہے کہ یونانی لفظ angelos کے معانی ہیں خبر دینے والا اسی لئے evangelion انجیل سے مراد خوشخبری ہے ۔

نئے عہد نامے میں یونانی لفظaπoÕΤoλous تقریبا 80مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔لوقا میں 6مرتبہ ۔اعمال میں 28۔ پولوس کے خطوط میں 34۔عبرانیوں، یہوواہ ،متی ،مرقس اور لوقا اور یوحنا میں ایک ایک مرتبہ اور پطرس کے خطوط میں 3مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

(قاموس الکتاب زیر لفظ رسول)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے عیسائی ان بارہ 12حواریوں ۔رسولوں ۔شاگردوں ۔اصحاب کو بڑے عزت و احترام کے جذبات سے دیکھتے اور یاد کرتے ہیں۔ گو جیسا کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا اہل عیسائی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور آپ کے ان حواریوں کی اصل تعلیم کو تو بھلا چکے ہیں ،بالکل اسی طرح جس طرح وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی حقیقی توحید کی تعلیم کو بھول چکے ہیں ۔ اس کے باوجود اب بھی عیسائیوں کے نزدیک ان بارہ 12حواریوں کا مقام و مرتبہ مُسَلَّمْ ہے ۔بہر حال یہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی السابقون الاولون کی جماعت تھی ۔

مسیح علیہ السلام کی ہجرت

حواریوں کی تعداد اور اسماء کا ذکر کرنے سے قبل اناجیل میں درج وہ آخری حواریوں اور مسیح کی ملاقات کا ذکر ضروری ہے جس کے بعد عیسائی اور عام مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق مسیح علیہ السلام آسمان پر چلے گئے۔چنانچہ لکھا ہے
’’پھر وہ انہیں بیت عنیاہ کے سامنے تک باہر لے گیا اور اپنے ہاتھ اٹھا کر انہیں برکت دی اور جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا ۔تو ایسا ہوا کہ وہ ان سے جدا ہوگیا اور وہ اس کو سجدہ کرکے بڑی خوشی سے یروشلیم کو لوٹے۔‘‘

(لوقا باب 24آیات 50-52)

اس بیان میں ایک تو حواریوں کی خوشی کا ذکر ہے اور ایک سجدہ کا۔ جہاں تک خوشی کا تعلق ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ حواری جانتے تھے کہ مسیح کا کہا ںجانے کا ارادہ ہے ورنہ کسی کے ہمیشہ کے لئے جدا ہونے پر اور ایک طرح سے مرجانے پر خوش نہیں ہوا جاتا اور جہاں تک سجدہ کا تعلق ہے تو اس کی دو وجوہات ممکن ہیں ایک اطاعت کا اظہار اور دوسرا ممکن ہے یہ سجدہ مسیح کے ساتھ مل کر خدائے واحد و یگانہ کو ہی ہوا ہو جس کے دوران مسیح علیہ السلام چلے گئے تا ان کو میری اصل سمت کا علم نہ ہو اور اس طرح دشمن جو چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے ان حواریوں پر ظلم کرکے بھی نہ اگلوالیں ۔

خاص حواری

بہرحال جب اس طرح مسیح علیہ السلام بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے حواریوں سے رخصت ہر کر چلے گئے تو اس وقت آپ نے اپنے پیچھے کل ایک سوبیس شاگردوں کوچھوڑا جو ایک چھوٹا سا گروہ تھا ۔

’’اُن دنوں میں جب تقریباً 120 لوگ جمع تھے ’’(اعمال باب1 آیت 15) اور بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ قبر سے نکلنے کے بعد ایک دفعہ پانچ سو کے قریب شاگردوں پر بھی ظاہر ہوئے تھے ۔ اس 120یا 500 کی جماعت میں سے گیارہ تھے ،جن کو آپ نے تبلیغ کے لئے منتخب کیا تھا ۔ دراصل یہ بارہ تھے ۔بارہواں ان میں یہوداہ اسخریوطی تھا جو بعد ازاں مسیح علیہ السلام کو گرفتار کروانے کا سبب بنا اور برے حال میں جلد مر گیا ۔چنانچہ متی باب 27آیت 5میں لکھا ہے۔‘‘ اِس پر یہوداہ سِکے ہیکل میں پھینک کر چلا گیا اور جا کر پھانسی لے لی۔‘‘ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقرر کردہ مبلغ گیارہ ہی رہ گئے جن کے نام عہد نامہ جدید کی مختلف کتابوں میں چار جگہ فہرست کی صورت میں موجود ہیں ۔

حواریوں کی تعداد اور نام
متی باب 10آیات 2تا4

’’اُن 12 رسولوں کے نام یہ ہیں (1) شمعون جنہیں پطرس بھی کہتے ہیں اور اُن کے بھائی (2) اندریاس (3) یعقوب اور (4) یوحنا جو زبدی کے بیٹے ہیں (5) فِلپّس (6) برتُلمائی (7) متی جو ٹیکس وصول کرتے تھے (8) توما (9) یعقوب جو حلفئی کے بیٹے ہیں (10) تدی (11) شمعون قنانی اور (12) یہوداہ اِسکریوتی جس نے بعد میں یسوع کے ساتھ غداری کی۔‘‘

مرقس باب3 آیات 16تا19

’’جن 12 شاگردوں کو یسوع نے چُنا،‏ اُن کے نام یہ تھے:‏ (1) شمعون جنہیں یسوع نے پطرس کا نام بھی دیا زبدی کے بیٹے (2) یعقوب اور (3) یوحنا (‏جن کو یسوع نے ’’بوانرگس‘‘ کا نام بھی دیا جس کا مطلب ہے:‏ گرج کے بیٹے (4) اندریاس (5) فِلپّس (6) برتُلمائی (7) متی (8) توما (9) یعقوب جو حلفئی کے بیٹے تھے (10) تدی (11) شمعون قنانی اور (12) یہوداہ اِسکریوتی جس نے بعد میں یسوع کے ساتھ غداری کی۔‘‘

لوقا باب6 آیات 14تا16

’’اُن 12 کو اُنہوں نے رسولوں کا خطاب بھی دیا۔‏اُن کے نام یہ تھے: 1) شمعون جن کا نام اُنہوں نے پطرس بھی رکھا 2) اندریاس جو شمعون کے بھائی تھے (3)‏ یعقوب (4)‏ یوحنا (5) فِلپّس (6) برتُلمائی (7) متی (8) توما (9) حلفئی کے بیٹے یعقوب (10) شمعون عرف جوشیلا یعقوب کے بیٹے (11) یہوداہ اور (12) یہوداہ اِسکریوتی جو بعد میں غدار بن گیا۔‘‘

اعمال باب1 آیات 13اور 14

’’وہ یہ لوگ تھے (1) پطرس(2) یوحنا (3) یعقوب (4) اندریاس (5)‏ فِلپّس،‏ (6) توما،‏ (7) برتُلمائی،‏ (8) متی،‏ حلفئی کے بیٹے (9) یعقوب،‏ (10) شمعون عرف جوشیلا اور یعقوب کے بیٹے 11) یہوداہ۔‘‘

حواریوں کے نام میں اختلاف

لوقا کی فہرست اور اعمال کی فہرست میں صرف دو ناموں میں اختلاف ہے ۔ ایک تدی اور دوسرا شمعون ۔جہاں تک شمعون کا تعلق ہے تو شمعون غیور اور شمعون قانوی ایک شخصیت کے دو نام ہیں اور تدی جس کی جگہ لوقا اور اعمال میں یہوداہ یعقوب کے بیٹے کا ذکر ہے لیکن اکثریت کے نزدیک یہ حواریوں میں شامل نہیں۔

(از راجہ برہان احمد ۔مربی سلسلہ ۔استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2021

اگلا پڑھیں

گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو۔