• 23 اپریل, 2024

پاکستان میں درندگی اور سفّا کی کی ایک بدترین مثال

پاکستان میں درندگی اور سفّا کی کی ایک بدترین مثال
مکرم مبارک احمد باجوہ صاحب شہید ، چک312ج ب کتھو والی گوجرہ کا ذکر خیر

حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبۂ جمعہ میں ارشاد فرمایا:۔
’’… پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کے لئے ایک درد ہے اور جس کی آپ نے ان غیر احمدی مولویوں سے بھی اپیل کی ہے کہ خدا کے لئے اس تعلیم کو جو شدت پسندی کی ہے اپنے ذہنوں سے نکالو اور محبت اور پیار کی تعلیم کو رائج کرو۔ لیکن یہ بات سننے کو کب یہ نام نہاد مولوی تیار ہوتے ہیں۔ ان کے مقاصد تو اب دین اسلام کے تقدس کو قائم کرنے کی بجائے سیاسی اور ذاتی مفاد کا حصول ہو گیا ہے۔ جہاں تک مَیں نے دیکھا ہے اس واقعہ پر غم و غصے کا اظہار بھی علماء کی طرف سے پُر زور طریقے پر نہیں ہوا۔ شاید آج جمعہ پر بعض لوگوں نے کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ کہ اللہ سے ڈرو۔ یقینا ًاللہ تعالیٰ اس بات سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ ہر معاملے کی خبر صرف خبر رکھنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر عمل انسان کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ ظلم کرنے والے جو ہیں وہ یقینا ًاپنے بد انجام کو پہنچتے ہیں۔ پس اگر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سامنے رکھیں کہ دشمن سے بھی انصاف کا سلوک کریں اور پھر کلمہ گوؤوں کے بارے میں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (الفتح: 30)۔ لیکن یہاں رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ تو دُور کی بات ہے یہ تو اپنوں سے بھی دشمنوں سے بڑھ کر سلوک کرتے ہیں جس کے نظارے ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ اب یہ لاکھ، ڈیڑھ لاکھ، دو لاکھ آدمی جو صرف ایک ملک میں مار دئیے یہ اپنوں کے ساتھ ظلم کے سلوک ہی ہیں ناں یا یہ بھی ظلم کی انتہا ہی ہے کہ اس سلوک میں بچوں کو مارا، شہید کر دیا۔

کیا یہ سمجھتے ہیں کہ جو ظلم انہوں نے کیا ہے یا یہ کرتے رہتے ہیں اس پر سے بغیر پکڑ کے یہ گزر جائیں گے۔ نہیں اس طرح کبھی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا (النساء: 94) کہ وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔ جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے۔ وہ اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے۔ اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کی۔ اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

… اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کو یہ عقل آ جائے۔ پاکستان کے لئے اور مسلم ممالک کے لئے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں امن قائم فرمائے اور حکومتیں بھی اور عوام الناس بھی حقیقی اسلامی قدروں کی پہچان کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ شام، عراق، لیبیا وغیرہ میں احمدی ان حالات کی وجہ سے جن میں سے یہ ملک اس وقت گزر رہے ہیں ایک تو وہاں کے شہری ہونے کی وجہ سے اور پھر احمدی ہونے کی وجہ سے بھی تکلیف میں ہیں۔ ان کے لئے بھی خاص دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان مشکلات سے نجات دے۔ بعض بڑی کسمپرسی کی حالت میں آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔ دونوں گروہ احمدیوں کے مخالف بنے ہوئے ہیں۔ کوئی مدد بھی ایسے حالات میں نہیں پہنچ سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنا فضل فرمائے اور رحم فرمائے اور جلد ان لوگوں کو ان تکلیف کے دنوں سے نکالے۔

… نمازوں کے بعد میں کچھ جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ تو ہمارے ایک شہید بھائی کا ہے۔ مبارک احمد صاحب باجوہ ابن مکرم امیر احمد باجوہ صاحب چک 312ج ب کتھو والی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ہیں۔ ان کو شہید کیا گیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَٓیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو کچھ نامعلوم افرادنے 26؍اکتوبر 2009ء کو ان کے ڈیرے سے اغوا کر لیا تھا اور ان کے بارے میں اب تک معلوم نہیں ہو سکا تھا۔ تا ہم چند روز قبل گجرات کے ایک علاقے سے گرفتار ہونے والے چند دہشتگردوں نے انکشاف کیا کہ ہم نے کتھو والی کے ایک مبارک باجوہ کو بھی گستاخ رسول قرار دے کر قتل کر کے بھمبھر نالہ واقع ضلع گجرات میں گڑھا کھود کر دبا دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَٓیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اب یہ سارے فتوے دینے والے بھی بن گئے ہیں۔ مبارک احمد صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم پیر محمد صاحب کے ذریعے ہوا۔ انہیں جماعت سے بہت لگاؤ تھا۔ نہایت دیندار گھرانہ ہے۔ شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے۔ شہید مرحوم 1953ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کی اور زمیندارہ کرتے تھے۔ شہید مرحوم نہایت ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے والد امیر احمد باجوہ صاحب اور بھائی مکرم رشید احمد باجوہ صاحب دونوں یکے بعد دیگرے کتھو والی جماعت کے صدر جماعت بھی رہے۔ ایک بیٹا ظہور احمد اس وقت بطور قائد مجلس خدمت کی توفیق پا رہا ہے۔ ان کی اہلیہ شاہد بیگم صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے ظہور احمد، منصور احمد اور نصیر احمد اور عتیق احمد ہیں۔ اسی طرح ان کے دو بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں جو سوگوار ہیں۔ واقعہ کی کچھ مزید تفصیل اس طرح ہے کہ مبارک احمد باجوہ صاحب اور ان کے غیر از جماعت ملازم سکندر محمود کو جس کی عمر چودہ سال تھی کچھ لوگوں نے 26، 27؍اکتوبر 2009ء کی رات کو آج سے پانچ سال پہلے ان کے ڈیرے سے اغوا کر لیا۔ اغوا کار دو کاروں پر سوار تھے۔ چند دن بعد اغوا کاروں نے مذکورہ ملازم کو ایک موبائل دے کر چھوڑ دیا۔ پھر اس موبائل نمبر پر تاوان کے لئے رابطہ کیا۔ دو کروڑ تاوان کی رقم کا مطالبہ کیا گیا جو کم ہو کے دس لاکھ پر آ گیا۔ اغواکاروں کی شرط یہ تھی کہ رقم کوہاٹ یا پارہ چنار پہنچائی جائے۔ پھر اغواکاروں سے رابطہ ختم ہو گیا۔ پولیس بھی کسی نتیجہ تک نہ پہنچ سکی۔ اب مکرم امیر صاحب ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ نے اطلاع دی کہ ڈی پی او ضلع نے مغوی کے بھائی عزیز احمد باجوہ صاحب کو بلا کر کہا ہے کہ آپ کے بھائی کے بارے میں کچھ معلومات ڈی پی او گجرات کے پاس ہیں ان سے مل لیں۔ وہ وہاں گئے۔ ڈی پی او گجرات سے ملاقات ہوئی۔ تو ڈی پی او گجرات نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان افضل فوجی گروپ (یہ بھی بہت سارے گروپ وہاں بنے ہوئے ہیں) کے چند لوگ پکڑے گئے ہیں۔ جن میں واجدنامی شخص نے مبارک احمد باجوہ صاحب کو اغوا کرنے کے بعد چھریوں سے ذبح کر کے نعش کو بھمبھر نالے میں دبانے کا انکشاف کیا ہے۔ جب عزیز احمد باجوہ صاحب اور دیگر افراد مذکورہ زیر تفتیش واجدنامی شخص سے ملے تو اس نے بھی اس قتل کی تصدیق کی۔ اس سوال پر کہ کیا کوئی مقامی آدمی بھی اس کے ساتھ تھا تو مذکورہ ملزم نے کہا کہ ساتھ والے گاؤں کا احمدنامی ایک شخص ساتھ تھا جس نے ہمیں مبارک احمد باجوہ مرحوم کے گستاخ رسول ہونے کا بتایا تھا۔ یہ شخص پہلے عیسائی تھا۔ بعد میں مسلمان ہو کر تحریک طالبان میں شامل ہو گیا۔ اس کا والد باجوہ فیملی کا ملازم رہا تھا۔ اور پھر اس نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے اغوا کیا اور کوٹلی گاؤں میں مسجد کے تہہ خانے میں ان کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا اور پھر ایک دن ہم نے عشاء کی نماز کے بعد ان کو اسی طرح جیسا کہ بتایا گیا ہے گردن پر چھری پھیر کے اور پھر ٹکڑے ٹکڑے کر کے گڑھے میں دبا دیا۔ تو پولیس اہلکار نے مذکورہ مجرم سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا کہ ہمیں ہمارے کمانڈر کا حکم ہے کہ یہ لوگ گستاخ رسول ہیں۔ لہٰذا ان کو قتل کردو۔ اور اس کا حکم ماننا ہمیں ضروری تھا۔ یہ حال ہے۔ ابھی جو بچوں کو قتل کیا تو اب یہ کس پاداش میں کیا؟ یہ بھی طالبان کا ہی کام ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ بہرحال پتا تو لگ گیا پہلے صرف اغوا کی خبر تھی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 19؍ دسمبر 2014ء)

(مرسلہ: خاور رشید باجوہ، جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2021

اگلا پڑھیں

گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو۔