• 18 اپریل, 2024

دبستانِ حیات (قسط پنجم)

دبستانِ حیات
قسط پنجم

تعارف میانوالی

میانوالی پنجاب کاسرحدی ضلع ہے۔ لوگ بظاہراپنی وضع قطع اور لباس سے بہت غير مہذّب لگتے ہیں۔لیکن ان میں رہنے سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ دل کے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ دوستی اور دشمنی میں انتہا کے قائل ہیں۔ موسم کے اعتبار سے چونکہ یہ علاقہ ایک ریگستان کی مانند ہے۔اس لئے اکثر یہاں آندھی کی کیفیت رہتی تھی۔ جسٹس کیانی کوایک وقت میں فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے سلسلہ میں میانوالی میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ ایک روز کسی نے میانوالی کے بارے میں ان سے یہ سوال پوچھا کہ سنا ہے میانوالی میں آندھیاں بہت آتی ہیں۔انہوں نے جوابا ًکہا کہ یہ تودرست نہیں ہے۔ادھر تو بس ایک دو آندھیاں آتی ہیں جو سال بھر چلتی ہیں۔

میانوالی میں آمد

مرکزی ارشاد ملا،کہ اب میری ٹرانسفرکھاریاں سے میانوالی کردی گئی ہے۔ وہاں پہنچ کراطلاع دیں۔ان دنوں مكرّم نثار احمد خان صاحب مرحوم وہاں پرمربّیِ سلسلہ تھے،دفتراصلاح وارشاد سے میانوالی مشن ہاؤس کا ایڈریس اور بنیادی معلومات حاصل کیں۔ منزلِ نَو کے لئے تیاری کی۔ کچھ مصروفیات تھیں اس لئے سوچا کہ شام کو روانہ ہوں گا۔سردی کا موسم تھا۔شام کوعازمِ میانوالی ہوا۔ ربوہ سےسرگودھا اور پھر وہاں سےمیانوالی کے لئے بس میں سوارہوگیا۔ رات گئے میانوالی لاری اڈہ پہنچا۔لاری اڈہ شہر سے کافی دور ایک سنسان جگہ پر نیا ہی بنا تھا۔ یہ میانوالی کے لئے میرا پہلا سفر تھا،اس علاقہ اورشہر کے ماحول سے بالکل نا آشنا تھا۔ بس سے اتر کر دیکھا کہ یہاں جنگل بیابان ہے۔ ایک رکشے والے سے بات کی اور اسے کلوریاں سٹریٹ پہنچانے کی درخواست کی۔ لاری اڈہ چونکہ شہر سے خاصےفاصلہ پرتھا، شہر جانے کے لئےنہر کے کنارے کنارے سفر کرنا تھا۔ اب میانوالی کا پردیسی ماحول،ہرسو تاریکی اوررات کی تاریکی میں رکشہ میں سوار نہر کے کنارے کنارے رواں دواں تھا۔ دلِ ناداں کئی قسم کے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اللہ،اللہ کرکے مشن ہاؤس پہنچے۔ یہ مکان نما مشن ہاؤس میانوالی ریلوے سٹیشن سےمختصرمسافت پرایک بند گلی میں واقع تھا.بخیریت پہنچنے پرخدا کا شکرادا کیا۔رکشہ والا شریف آدمی تھا۔اجرت لے کرفوری رفو چکر ہوگیا۔میں نے سامان اٹھایا اور مربی ہاؤس کے دروازہ پر پہنچا،گلی کافی تاریک تھی۔دروازہ پر دستک دی۔لیکن جواب نہ دارد۔جب دروازہ کوبغوردیکھا تومعلوم ہوا کہ یہاں تو تالہ لگا ہوا ہے۔

اب رات کا وقت ،ہر جانب هوكا عالم اورمیں بےبسی کی حالت میں کھڑا تھا کیونکہ میرا شہر بھر میں ایک ہی تو تعارف تھا اور وہ یہاں موجود نہیں۔ خیر،میں نےسامان اٹھایا اور پھر بھارى قدموں سے بازار میں آکھڑا ہوا۔ سوچا کم از کم کچھ روشنی تو ہے۔ شاید کوئی بھولا بھٹکا انسان مل جائے۔

شرافت زندہ تھی

کچھ دیر کےبعددوپولیس آفیسرایک جانب سے آگئے۔ علیک سلیک کےبعد انہیں بتایا کہ ایک مسافرہوں۔ پہلی بار یہاں آیا ہوں۔ میراتعلق جماعتِ احمدیہ سے ہے۔ لیکن اتفاق سے میرا میزبان گھرپرنہیں ملا۔ کیا آپ کسی احمدی کو اس شہر میں جانتے ہیں۔انہوں نے بتایا ہم تو کسی احمدی کو نہیں جانتے لیکن آپ فکر نہ کریں کچھ کرتے ہیں۔کہنے لگے آپ ہمارے ساتھ آئیں، ہم چل پڑے ۔ تھوڑی دور ایک دوکان میں دونوجوان سفیدی کررہے تھے۔پولیس آفیسر نے انہیں پوچھا۔کیا آپ کسی قادیانی کو یہاں جانتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہاں یہاں قریب ہی ایک قادیانی کا گھر ہے۔جس پر وہ نوجوان مجھےاس گھرپر لے گیا۔یہ فرشتہ سیرت بزرگ قریشی احمد شفیع صاحب کا گھر تھا۔انہوں نے کمال محبت اورالفت سے بڑی ہی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔آج تک وہ نظارہ میرے دل ودماغ پر نقش ہے۔

میانوالی کی چند شخصیات
حضرت غلام حسن صاحب پشاوری رضی اللہ عنہ

مکرّم حضرت غلام حسن خان نیازی صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےابتدائی صحابہ کرام میں سے ہیں۔

آپ کا تعلق میانوالی کےمعروف قبیلہ نیازی سے ہے۔لیکن اوائل جوانی میں بغرضِ تعلیم پشاورتشریف لےگئے۔ پھر ساری عمر پشاورمیں رہے۔جس کی وجہ سے پشاوری کہلائے۔ان کے روحانی مقام کا ادراک اس بات سے ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاپنے صاحبزادے حضرت مرزا بشیراحمد صاحب کی شادی حضرت غلام حسن خان صاحب کی صاحبزادی سرور سلطان صاحبہ کے ساتھ کی۔اس طرح حضرت مرزا مظفر احمد صاحب مکرم حسن خان صاحب کے نواسے ہیں۔

نیازی خاندان میانوالی کا ایک بہت ہی مضبوط اور دنیاوی اعتبار سےبااثر قبیلہ ہے۔ان کے خاندان میں کسی اورکوقبولِ حق کی سعادت نصیب نہيں ہوئی ۔

قریشی احمد شفیع صاحب

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

میانوالی شہرمیں ایک احمدی بزرگ مکرّم قریشی احمد شفیع صاحب رہتے تھے۔اب تو خدا کو پیارے ہو چکے ہیں ۔اللہ تعالی انہیں غریقِ رحمت کرے اورکروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔موصوف حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے۔ جو کسی زمانہ میں بھیرہ سے میانوالی آکر آباد ہوگئے تھے۔یہ بزرگ شہر بھر میں واحد احمدی تھے جن کا یہاں پر اپنا ذاتی مکان تھا۔باقی جو چند احمدی اس شہر میں تھے وہ بغرضِ کسبِ معاش یہاں آکر آباد تھے۔

انبیاء کرام کو ماننے والوں پر جب ابتلاءآتے ہیں۔تو اس کسوٹی کے ذریعہ ایمان والوں کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔سب دیکھنے اور سننے والے بھی اس امر کے گواہ بن جاتے ہیں۔کہ یہی وہ طریق ہے ۔ایمان لانے والوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور وہ کس طرح جوانمردی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے حصول کی خاطر صبروشکیب کا مظاھرہ کرتے ہیں۔جن کی مثال صرف اور صرف انبیاء علیہم السلام کے سچّے پیروؤں کی سنت ہوتی ہے۔

مکرّم قریشی صاحب پورے شہر میں اکیلے ہی احمدی دوکاندار تھے۔جب 1953 کے فسادات ہوئے،ان کی دوکان پر ہجوم نےدھاوا بول دیا۔جو کچھ کسی کے ہاتھ لگااپنے باپ کا مال سمجھ کر چلتا ہوا۔ دوکان خالی ہوگئی۔ لیکن اللہ نے فضل فرمایا۔ پھر آپ نے پس انداز کی ہوئی قلیل پونجی سے کاروبار شروع کیا، اللہ نے دستگیری کی اورپھر ديکھتے ہی دیکھتے کاروبار نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنی شروع کی اور بہت جلد قریشی صاحب کا کاروبار مستحکم ہو گیا۔

1974میں پھردشمنانِ حق نے اینٹی احمدیہ تحریک شروع کی۔اوریہ مسموم ہوا میانوالی میں بھی پہنچ گئی۔ایک بار پھر شیطان کے چیلوں اور فساد کےمتوالوں نے شہر بھرمیں جلوس اور ہنگامے شروع کردئے۔

ایک بار پھر قریشی صاحب ان کے مظالم کا نشانہ بنے۔آپ کوسرِبازارماراپیٹا گیا۔جس سے آپ خاصے مجروح ہوئے۔ان فسادیوں کا ایک اہم مقصد تو دوکان کو لوٹنا تھا۔وہ بھی لوٹی گئی۔

جب فسادات کا زور ٹوٹا اورحالات سازگار ہوئے۔ تو مکرّم قریشی صاحب ایک بار پھر اپنی دوکان میں آئے۔تھوڑا سا سامان ادھار لے کر دوکان میں سجا لیا۔

ایک روز ایک عمر رسیدہ شخص آپ کی دوکان پرآیا ۔یہ شخص آپ کا پرانا شناسا تھا۔آپ سےمخاطب ہوا،کہنے لگا ۔قریشی صاحب۔اگر مرزا صاحب اپنے دعوی میں سچے ہیں ۔توبخدا تمھارامقام صحابہ کا ہے۔

ایک دفعہ ایک شخص جو قریشی صاحب کاخاصااچھا دوست اورہمدرد تھا۔ آپ کے پاس آیا ۔اور کہنے لگا قریشی صاحب آپ کواس مارپیٹ اورمال ومتاع کے کئی بار لوٹےجانےکے بعد بھی خوف نہیں آتا؟

قریشی صاحب کہنے لگے۔ بھائی جب انسان نہاتا ہے تو پہلی دفعہ پانی جسم پر ڈالنے سے ڈر لگتا ہے۔لیکن جب ایک دفعہ ٹھنڈا پانی جسم پر ڈال لیتا ہے تواس کے بعد جتنی بارمرضی پانی ڈالتے جائیں۔ تکلیف نہیں ہوتی۔اس لئے مجھے مارپیٹ اور نقصانات سےاب کوئی خوف نہیں آتا ۔

صوبیدار بشیر احمد صاحب خلافت سے عشق

میانوالی جماعت کے صدر مکرّم صوبیدار بشیر احمد صاحب تھے۔کہیں دوسرے علاقہ سے بغرضِ ملازمت یہاں تشریف لائے بعد ازاں ان کے بیٹوں نے وہیں ورکشاپ کھول لئے۔اس طرح موصوف میانوالی کے ہی بن گئے۔لمبا عرصہ خدمتِ دین کی توفیق پائی۔ہمدرد اورنیک انسان تھے۔

مکرم صوبیدار صاحب خلافت کےعاشقِ صادق تھے۔ ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔

جس شام مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے انتقال کی خبر ملی۔میں نے اسی رات سب احمدیوں کے گھروں میں جاکر یہ افسوسناک خبر پہنچادی۔ تاکہ اگر کوئی دوست ربوہ جانا چاہیں تو بروقت تیاری کرسکیں۔اسی سلسلہ میں،میں مکرم صوبیدار بشیر احمد صاحب کے گھر پہنچا ۔تو اندر سے اونچی اونچی گریہ وزاری اور سسکیوں کی آواز آرہی تھی۔یہ صوبیدارصاحب تھے۔جو رات کی تاریکی میں اپنے صحن میں اپنے امام اورروحانی باپ کی شفا يابی کےلئےاللہ تعالی کے حضوراس کی رحمت کےدروازہ پر دستک دے رہے تھے۔انہوں نے دروازہ کھولا۔میں نےانہیں خبر سنائی۔جس پر ان کے دکھ درد کی کیفیت ناقابل بیان ہے۔

ایسے لگتا تھا جیسے انہیں الہام ہورہا ہو

میانوالی ریلوے پولیس سٹیشن میں ایک پولیس آفیسرشاہ صاحب تھے۔جن کا تعلق میرے آبائی علاقہ سے تھا۔میں کبھی کبھار ان کے پاس جایا کرتا تھا اوروہ بھی چند دفعہ باوردی میرے پاس مسجد تشریف لائے۔بہت سلجھے ہوئے انسان تھے۔ایک دن میں ان کو ملنے کے لئے پولیس سٹیشن گیا ،وہاں پرایک اورپولیس آفیسربھی تشریف فرماتھے۔شاہ صاحب نے مہمان کے بارے میں مجھے بتایا کہ یہ صاحب بھی میری طرح پولیس آفیسر ہیں اوران کا گاؤں چیچیاں ہے جو ہمارے گاؤں کے قریب ہے اور میرے بارے میں انہیں بتایا کہ یہ جماعت احمدیہ کےمربّی ہیں اور ہمارے ہی علاقہ سےان کا تعلق ہے۔ مہمان دوست کہنے لگے۔ہمارے ایک عزیز چوہدری محمدعالم صاحب آف فتح پوربھی احمدی ہیں۔بسا اوقات وہ ہمارے ہاں تشریف لاتے تھے۔ان کی عجیب شخصیت تھی۔جب وہ باتیں کرتے تھےتو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے انہیں الہام ہو رہا ہے۔

چوہدری محمد عالم صاحب کا تعلق ہمارے گاؤں سے ہی تھا۔بہت ہی نیک،بہادرا نسان اورسماجی شخصیت تھے۔انہیں ایک لمبا عرصہ بطورصدر جماعت احمدیہ خدمت کی توفیق ملی۔اس سے معلوم ہوتا ہےکہ غیراز جماعت لوگوں پر بھی احمدی احباب کا ایک نیک اثر ہوتا تھا۔

مکرم شیخ منیر احمد صاحب شہید

(امیر جماعت احمدیہ لاہور)

1982میں مکرم شیخ منیر احمد صاحب کا بطور سیشن جج میانوالی میں تبادلہ ہوا۔ مکرم شیخ صاحب نے فوری طورپر مسجد سے رابطہ کیا۔ موصوف اپنے فارغ اوقات میں نمازوں کے لئے مسجد میں تشریف لاتے۔چندہ جات میں بڑے باقاعدہ ،نماز و روزہ میں ایک قابل تقلید مثال تھے۔

حدیقۃ الصالحین ایک لاجواب کاوش

ازمکرم ملک سیف الرحمان صاحب مفتی سلسلہ عالیہ

غیراز جماعت جج کے تأثرات

ایک دن مکرم شیخ صاحب نے بتایا کہ چند روز پہلے ایک جج صاحب کی ٹرانسفر میانوالی شہرمیں ہوئی ہے۔اتفاق سےانہیں میرے ساتھ والا بنگلہ مل گیا۔میں نے حسبِ توفیق ان کی خاطرمدارت کی۔ مزیدان کی خدمت میں عرض کی کہ اگر کوئی اور خدمت درکار ہو تو بلا جھجھک ارشاد فرمادیں ۔ موصوف کہنے لگے میرا سامان بند پڑا ہے۔اس لئےاگر ہو سکے تو مجھے کوئی کتاب پڑھنے کے لئے دیدیں۔شیخ صاحب کہنے لگے،میں سوچ میں پڑ گیا کہ معلوم نہیں ،جج صاحب کا ذوق کیا ہے۔

سیاست، مذھب، تاریخ کی کونسی کتاب انہیں پیش کروں۔ میں متذبذب تھا۔ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا تھا۔ بالآخر میں نے مختلف موضوعات پر کتب لیں اوران کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ ان کتب میں مکرم ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم (سابق مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ) کی تصنیفِ منیف حدیقۃ الصالحین بھی تھی۔ اگلی صبح اس دوست سے ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں پوچھا۔ چند کتابیں رات کو آپ کی خدمت میں پیش کی تھیں ۔نہ معلوم وہ آپکے ذوقِ سلیم کے موافق تھیں یا نہیں۔جج موصوف فرمانے لگے۔میں نے صرف حدیقۃ الصالحین کا ہی مطالعہ کیا ہے۔بخدا پہلی بار حدیث کی کتاب پڑھنے کا لطف آیا ہے۔ کسی بھی موضوع کو سمجھنے کی توفیق ملی ہے۔بڑی بڑی کتب توکسی نتیجہ پر پہنچانے کی بجائے نارسا ذہن میں متعلقہ موضوع کے بارے میں اور بہت سے سوالات پیدا کردیتی ہیں۔کیونکہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پرائمری کے طالب علم کو یونیورسٹی کی کتاب پڑھنےکو دے دیں۔

تیری سادگی پر

1982میں جماعتِ احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے دن تھے۔ ربوہ میں احمدیت کے دیوانوں کا ایک ایسا ہجوم تھاکہ کھوّے سے کھوّا چھلتا تھا۔ سخت سردی کے ایّام تھے۔ بازار میں مختلف قسم کی دوکانیں اور ٹھیلے لگے ہوئے تھے۔بعض لوگوں نے سرِ بازار زمین پر ہی پرانے کپڑوں کے ڈھیر لگائے ہوئے تھے۔ بہت سارے لوگ مالی وسعت نہ ہونے کی وجہ سے ان پرانے کپڑوں کی خریداری کرکے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک روز میں بازار سے گزر رہا تھا۔ ایک جگہ پر بہت سے لوگ اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق پرانے کپڑے خریدنے کے لئے انتخاب کررہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ مکرم شیخ منیر احمد صاحب جو کہ ایک بہت ہی اعلی عہدہ پر فائز تھے۔ وہ بھی اس کپڑوں کے ڈھیر کے پاس کھڑے خریداری فرمارہے تھے۔ میں ایک جانب سے گزر گیا۔ لیکن آج تک وہ نظارہ میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ میرے دل میں اس واقعہ نے ان کے مقام کو اور رفعت اور عظمت بخش دی۔ پاکستان میں توان کے شعبہ سے وابستہ چھوٹے چھوٹے کارکن بھی پُر تعیّش زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ جبکہ احمدی افسران بڑی ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہیں اور کسی طرح بھی کسی ناجائز ہتھکنڈے سے کسی کی حق تلفی نہیں کرتے.

فعل الحکیم لا یخلو ا عن الحکمۃ

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالی کا کوئی بھی ارشاد حکمت سے خالی نہیں ہے۔ بسا اوقات انسان اپنی کم علمی اورکم فہمی کی بنا پر اسے سمجھ نہیں پاتا اور نقصان اٹھاتا ہے۔

میانوالی شہر میں ایک دوست عبدالرحمان بھٹی صاحب رہتے تھے۔ کسی دورمیں نہ معلوم کس وجہ سے میانوالی آکر آباد ہوئے اور انہوں نے اپنا مکان بھی خرید لیا۔ لیکن 1974 کے فسادات میں ان کی دوکان لوٹ لی گئی۔ جس کے بعد ان کی فیملی ربوہ منتقل ہوگئ۔ لیکن خود کاروباری سلسلہ میں میانوالی میں رہتے تھے۔ ایک دن میں ربوہ سے میانوالی رات گئے پہنچا۔ اگلے روز پہلا روزہ تھا۔ جس کا مجھے علم نہ ہوسکا۔ فجر کی نماز پر ایک دوست نے مجھ سے پوچھا۔ مربّی صاحب کیا آپ نے روزہ رکھا ہے؟میں نے بتایا، مجھے تو روزہ کے بارے میں علم نہیں ہوا۔ بہرحال میں روزہ رکھ ہی لیتا ہوں۔ مکرم بھٹی صاحب بھی قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے چلو میں بھی روزہ اسی طرح رکھ لیتا ہوں۔ (یعنی آٹھ پہرہ روزہ) میں نے بھٹی صاحب کو عرض کی میں تو جوان ہوں آپ بزرگ بھی ہیں اور شوگر کے مریض بھی ہیں اس لئے آپ روزہ نہ رکھیں۔ مگر وہ مصر رہے اور انہوں نے روزہ رکھ لیا۔ اسی روز نماز ظہر کے قریب وہ بے ہوش ہوگئے۔ انہیں ربوہ لے جایا گیا۔ لیکن تير کمان سےنکل چکا تھا اور مکرّم بھٹی صاحب باوجود ہرممکنہ کوشش کے جانبرنہ ہوسکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

احمدیت ایک روحانی پیدائش

مکرم عزیز الرحمان صاحب منگلا ۔1982 میں مکرم منگلا صاحب سرگودھا شہر میں بطور مربّیِ سلسلہ خدمت بجا لارہےتھے۔ آپکا تعلق سرگودھا کے ایک معروف قصبہ چک منگلا سے تھا۔ 1953 میں احمدیت کے خلاف فسادات میں پیش پیش تھے۔ ان پُرآشوب دنوں میں احمدیت کی تائید و نصرت میں چند معجزات دیکھے، سعید فطرت تھے، احمدیت قبول کرلی۔موصوف جماعت کے ایک جیّد عالم تھے۔ بڑے ہی سادہ لوح اور ہمدرد وجود تھے۔آپ کا لباس نہایت سادہ ہوتا تھا۔ سرپرعام سی پگڑی ہوتی، شلوارکی بجائے تہبند کا استعمال کرتے تھے۔ ایک دفعہ خاکسار نے انہیں میانوالی جماعت کے کسی اجلاس میں تقریرکی دعوت دی۔ا حبابِ جماعت کو آپکی آمد کی خبردی۔آپ جب تشریف لائے توحاضرینِ مجلس جن میں سے اکثریت سرکاری افسران اور دیگر پڑھے لکھے احباب کی تھی۔ انہیں مہمان کے اس مخصوص لباس کو دیکھ کر قدرے مایو سی ہوئی۔ کہتے ہیں ’’الناس باللباس‘‘ یعنی ۔پہلے لوگ کسی نووارد کے بارے میں اس کےلباس کی بنا پراسکی شخصیت وحیثیت کو جانچتے ہیں۔ پھر اگر اس سے بات چیت کا اتفاق ہو تو پھر اسکی گفتگو سے اس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔بعدازاں اس سے صحبت کے نتیجہ میں کردارکی باری آتی ہے۔

جب منگلا صاحب کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ آپ منبر پر تشریف لائے۔ آغازِ تقریر میں آپ نے بتایا کہ میری ایک پیدائش میانوالی شہرکی ہے۔ پھر بتایا کہ انسان کی دو پیدائشیں ہوتی ہیں۔ایک جسمانی اورایک روحانی اور میرے استاذ مکرم پیر منورالدین صاحب کا تعلق بھی میانوالی کےعلاقہ سے تھا۔جن کی ہِدایت اورایماء پر میں نے احمدیت قبول کی۔اس لئے میری روحانی پیدائش اس شہر کی ہے۔ اس کے بعد آپ نےایک ایسی علمی اور پُرمعرفت اور پر مغز تقریر کی جس کا ذکرتا دیرسامعین کےوردِزبان رہا۔

جماعت احمدیہ میانوالی

ضلع بھرمیں صرف چند مقامات پر اکّا دکّا احمدی دوست تھے۔ یہ سب دوست کسبِ معاش کے سلسلہ میں اس علاقہ میں مقیم تھے۔

(از منو راحمد خورشید ۔واقفِ زندگی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2021

اگلا پڑھیں

گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو۔