• 25 اپریل, 2024

خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے پہلے شہید

خداتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ ہر ایک نے فنا ہوجانا ہے اور اس دار فانی کو الوداع کہہ جانا ہے۔ لیکن کچھ لوگ جو خدا کو بہت پیارے ہوتے ہیں ان کا اس دنیا سے جانااور ہی رنگ رکھتا ہے۔وہ خداتعالیٰ کے لیے جیتے ہیں اور اسی کی راہ میں قربان ہوکر اس دار فانی سے کو چ کرتے ہیں اور اپنے رب کے دربار میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی زندگی اور موت انفرادی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ ان کی زندگی میں ایک قوم کو ان کا فیض مل رہا ہوتا ہے اور وہ اپنی موت سے بھی ایک قوم کو زندگی بخش پیغام دے جاتے ہیں۔خداتعالیٰ شہدائے احمدیت کی قربانیوں کو دو چند قبول فرمائے اوران کے ثمرات احمدیت کی نسلوں میں ہمیشہ پھلتے پھولتے اور پنپتے رہیں۔

؎خوں شہیدان امت کا اے کم نظر
رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائیگا
ہر شہادت تیرے دیکھتے دیکھتے
پھول پھل لائے گی پھول پھل جائے گی

ڈاکٹر صاحب کی شہادت کو ایک عرصہ گزر گیا لیکن ان کی شہادت کل کا واقعہ معلوم ہوتاہے۔ جب ان کا خیال آتا ہے تو قرآن کریم کی آیت مبارکہ میں شہداء کے بارے میں بیان فرمودہ مضمون اپنی پوری سچائی کے ساتھ صادق آتا دکھائی دیتا ہے جس میں فرمایا:

وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ

(سورۃ البقرہ آیت:155)

یعنی جو اللہ کی راہ میں قربان کیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔

بے شک شہید قوم کو زندگی کا پیغام دے جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں بھی اسی طرح احساس ہوتا ہے کہ گویا ڈاکٹر صاحب ہمارے آس پاس ہی ہیں اور لوگوں نے بھی ان کی یادوں کو آج بھی تازہ رکھا ہوا ہے جس کا اظہار مختلف ذرائع سے ہوتا رہتا ہے۔ لوگ ان کی طرف سے چندے ادا کرتے ہیں،قربانی دیتے ہیں،ہمیں اپنی دعاؤں کے لازوال خزانہ میں یاد رکھتے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ہر راہ مولیٰ میں قربان جب جاتا ہے تو یہ پیغام دے کر جاتا ہے کہ میں مرا نہیں بلکہ زندہ ہوں۔اب تم بھی یہ یاد رکھو کہ جماعت اور حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا کا یہی تعلق تمہیں بھی زندگی دے گا‘‘

خداتعالیٰ یہ سلسلہ فیض رساں نسل در نسل ہم میں جاری رکھے اور ہمیں وفادار مومن بنے رہنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

کسی بھی انسان کی زندگی مختلف ادوار کا مجموعہ ہوتی ہے۔ میری زندگی کے بہترین اور یادگار ایام وہ بیس سالہ دور ہے جو ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے ساتھ ازدواجی حیثیت میں گزرا۔ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب سے میری شادی 1988ء میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے والدین کی باہمی رضامندی سے طے پانے والا یہ رشتہ ہم دونوں کے لیے قرآنی تعلیمات کی روح سے باعث راحت و سکون بنا۔میں ہمیشہ اپنے آپ کو خوش قسمت گردانتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اتنے پیارے انسان کو میرے لیے چناجو اللہ تعالیٰ کو بھی بہت پیار اتھا۔ہم دونوں حکم الٰہی ھُنَ لباسُ لَکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسُ لَّھُنّ (سورۃ البقرہ آیت:188) کے مطابق ایک دوسرے کے لیے لباس بنے رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں کو ہمیشہ اسی طرح بنائے اور ہمارے گھروں کو ا س شعر کا مصداق بنائے:

؎تمہاری صبح حسین ہو رخ سحر کی طرح
تمہاری رات منور ہو شب قمر کی طرح
کوئی بہشت کا پوچھے تو کہہ سکو ہنس کر
کہ وہ خوب جگہ ہے ہمارے گھر کی طرح

شادی کے کچھ عرصہ بعد ایک روز یونہی چلتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک اخباری تراشہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ شعر وشاعری سے مجھے کوئی اتنی دلچسپی تونہیں لیکن یہ اشعار اچھے لگے۔میں نے اسے محفوظ کرلیا وہ اشعار درج ذیل تھے:

ہمسفر

راہیں اگر کٹھن ہوں، اچھا سا ہمسفر ہو
یوں زندگی کا رستہ، جنت کی راہگذر ہو
جہاں قدم ڈگمگائیں، نازک سا ہو سہارا
تھوڑی سی جب تھکن ہو، اک پیار کی نظر ہو
جب پوجنا ہی ٹھہرا، تو داد سے غرض کیا
ہویار کی پرستش، چاہے وہ بے خبر ہو
جب صاف نیتیں ہوں، جذبوں میں ہو صداقت
پھر دو پریمیوں کی، چاہت نہ کیوں امر ہو
ہوں چھوٹے موٹے جھگڑے، پھر ہو صلح صفائی
ہر بار رنگ الفت، پہلے سے تیز تر ہو
یوں روٹھتے مناتے، کٹ جائے زندگانی
ہر رات خوبصورت، ہر دن حسین تر ہو

ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کی شخصیت جب میرے سامنے آتی ہے تو تین باتیں فوری ذہن میں ابھرتی ہیں۔ نفیس وسادہ طبیعت،انتہائی مخلص اور سچے انسان۔ آپ کو متانت و سنجیدگی اپنی والد ہ محترمہ سے اور ذہانت و رعب اپنے والد ماجد سے ملا۔آپ ہمیشہ سادہ اور نفیس لباس پہنتے تھے،کھانا بھی بہت نفاست سے تناول کرتے،ہمیشہ تھوڑی مقدار میں کھانا لیتے اور خوب مزے سے کھاتے۔ اچھے کھانوں کے شوقین تھے۔ گھر کے کھانوں کے علاوہ باہر سے کھانا بھی پسند کرتے تھے۔اچھا کھانا بنا ہوتا تو ضرور تعریف کرتے اور اگر پسند نہ بھی آتا تو خاموشی سے کھا لیتے،کوئی نقص نہ نکالتے۔غیر ضروری تنقید تو بالکل نہ کرتے تھے۔تکلف بالکل نہ تھا۔ اچانک کوئی مہمان آتا، جو ہوتا پیش کردیتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے کہ مہمان کےساتھ کھانا کھائیں۔دوستوں کو دعوت پربلاکر کھانے میں شامل کرتے اور اس میں بہت فرحت محسوس کرتے تھے۔

آپ کی ہاسپٹل میں مصروفیت کی وجہ سے دوپہر کا کھانا میں وہیں بھجوایا کرتی تھی۔کچھ کھانا زائد بھیجا کرتی تھی تا دیگر ساتھ شامل ہونے والے احباب بھی بآسانی کھا سکیں۔ڈاکٹر صاحب اپنے ساتھ کام کرنے والے دیگر افراد گارڈز وغیرہ کا بہت خیال رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ وہ بھی اسی وقت کھا سکتے ہیں جب میں کھانا کھاتا ہوں۔ اس وقت بھی ا گر کوئی مہمان آجاتا اسے اپنا کھانا بھی پیش کردیتے تھے۔ ایک غیر احمدی ڈاکٹر کہا کرتے تھے کہ پتا نہیں کیامعاملہ ہے ڈاکٹر صاحب کے ٹِفن میں غیر معمولی برکت ہے،ہم بھی ان کے ساتھ کھا لیتے ہیں اور سیر ہوجاتے ہیں۔ امریکہ میں جب آپ اپنی Residency(ٹریننگ) کررہے تھے تو بعض اوقات ہاسپٹل میں آپ کی رات کی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی۔ ہاسپٹل گھر سے کچھ زیادہ دور نہ تھااس لیے میں بعض اوقات آپ کو وہاں کھانا پہنچاآیا کرتی تھی۔وہاں بھی آپ اکثر اپنے غیرملکی دوستوں کو بھی ساتھ کھانے کی دعوت دیتے۔

مہمان نوازی کے علاوہ لوگوں کو دعوت پر بلانے کا ایک اور اہم مقصد تبلیغ احمدیت کے لیے راہ ہموار کرنا ہوتا تھا۔ میرپور خاص میں ہمارے گھر پر ہر طبقہ کے لوگ آتے تھے جنہیں دعوت الی اللہ کی غرض سے مدعو کیا جاتا۔کبھی چائے اور کبھی کھانے کا انتظام ہوتا۔مہمانوں کے سوالات کے جوابات دیئے جاتے۔ اکثر غیر از جماعت دوستوں کو ربوہ کی زیارت اور یو کے کے جلسہ پر جانے کی دعوت دیتے۔ اسی طرح امریکہ میں Residencyکے دوران آپ اپنے Colleagues کو جلسہ سالانہ یوایس اے پر مدعو کرتے تھے۔ کسی نہ کسی مہمان کو لے کر جاتے۔ آپ کی شہادت پر امریکہ کے ایک مشہور چینل ABC News پر آپ کی شہادت کی خبر نشر ہوئی ۔ اس کے علاوہ جس ہسپتال میں آپ نے Residency کی تھی وہاں آپ کے اعزاز میں سیمینار منعقد کیا گیا۔ یہ پروگرام صدر خدام الاحمدیہ یوایس اے کی کوشش سے مرتب ہوا اورآپ کے اساتذہ اور ساتھ ٹریننگ کرنے والوں کی طرف سے آپ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔اسی طرح ملکی و غیرملکی اخبارات اور انٹر نیٹ پر آپ کے متعلق لا تعداد آرٹیکلز( Articles) شائع ہوئے۔گویا کہ شہادت کے ذریعہ بھی آپ دنیا کو تبلیغ کرگئے اور بتا گئے کہ ہمارا یہ پیغام ہے اور اس کے لیے ہم اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

حضور انور نے آپ کی شہادت پراپنے خطبہ جمعہ میں بہت ہی پیارے انداز میں آ پ کی دعوت الی اللہ کی کوششوں کو سراہا۔ ’’دعوت الی اللہ اور تبلیغ کا بڑا شوق تھا اور مختلف وفود کو مرکز میں بھی لے کر آتے تھے اور اپنی نگرانی میں بجھواتے بھی رہتے تھے‘‘۔ ۔۔۔ ’’جب بھی کوئی دعوت الی اللہ کا پروگرام ہوتا ، جانے سے پہلے دعا کے لئے لکھتے تھے کہ کامیابی ہو اور اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرماتا تھا‘‘۔۔۔ ’’سندھ کے وڈیروں ، زمینداروں ، غریبوں کو بے دھڑک تبلیغ کرتے تھے ۔الغرض ہر جگہ تبلیغ کا ماحول پیدا کر دیتے تھے۔‘‘ پیارے حضور نے مزید اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا، ’’کسی نے میرے پاس ان کے بارے میں بڑا اچھا تبصرہ کیا ہے جو سندھ سے آئے ہوئے ایک احمدی تھے کہ وہ سندھ میں داعیان الی اللہ کے امیر تھے۔‘‘

آپ نے جماعتی کاموں اور انسانیت کی خدمت میں بہت مصروف زندگی گزاری۔ اکثر فجر کے بعد اپنے ہسپتال اور زمینوں پر چکر لگا تے ۔عشاء کے بعد جماعتی میٹنگز کرتے۔ باوجود چاہنے کے گھر کو کم وقت دے پاتے تھے۔کاموں کے درمیان ہی وقت نکالتے اور ہمیں سیر وغیرہ کے لیے لے جاتے اور ساتھ اپنے کام بھی نمٹاتے رہتے۔ جب تک والدہ محترمہ کی صحت اس قابل رہی ہمیں ہر دفعہ برموقع مشاورت ربوہ لے جاتے۔ بچوں کے ساتھ ٹرین کا سفر خوب انجوائے کرتے تھے۔ سفر کے دوران کھانا انجوائے کرتے اور بچوں کے ساتھ لڈو کھیلتے۔ کبھی ہمیں سیر کے لیے لاہور وغیرہ بھی بھجوا دیتے اور خود جماعتی کاموں میں مصروف رہتے۔ بروز جمعہ خاص اہتمام کرتے تھے کہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر حضور انور کا خطبہ جمعہ سنیں اور بعدمیں بچوں کے ساتھ ہی وقت گزاریں۔ بچوں کو نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی سے آگاہ رکھنے کی پوری کوشش کرتے۔ چھوٹی عمر میں ہی بچوں کو کمپیوٹر سکھانے کا انتظام کیا۔ بچوں کی بھی ایسی تربیت ہوگئی تھی کہ اپنے بابا کی مصروفیات کا بہت لحاظ کرتے تھے اور کوئی بے جا فرمائش نہ کرتے تھے۔ان کے آرام کا خیال رکھتے تھے۔ جس طرح ان کے بابا اپنی تکلیف یا پریشانی کا زیادہ اظہار نہ کرتے تھے،اسی طرح دونوں بچوں نے بھی اپنے باباکے غم کو اندر ہی سمیٹ لیا۔بہت صبر سے کام لیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں شیریں اجر عطا فرمائے۔ الحمد للّٰہ بیٹی عزیزہ امۃ الحی کی شادی 2014ء میں ہوئی۔ اللہ تعالی نے اسے دو بیٹیوں سے نوازا ہے اور بیٹے عزیزم اسامہ منان کی شادی دسمبر 2020ء میں ہوئی ہے۔ بیٹا میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اللہ تعالی انہیں نیک نسلیں عطا فرمائے۔ہمیشہ اپنے فضلوں کے ساتھ رکھے۔ اپنے والد اور بزرگان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیشہ اپنے فضلوں کے ساتھ رکھے۔ نسل در نسل خلافت سے مضبوط تعلق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین۔

وہ میرے بہترین دوست تھے اور بچے جب چھوٹے تھے رات کو ہسپتال اور جماعتی مصروفیات کی وجہ سے دیر سے گھر آتے تو اپنا کھانا خود گرم کر لیتے تھے بے وقت تکلیف نہ دیتے۔ میری خوشیوں کو ترجیح دینے والے، بات کہے بغیر سمجھنے والےاور بے حد اعتماد کرنے والے تھے ۔سادگی بے حد تھی،کوئی تکلف نہ تھا،گھریلو طرز زندگی تھی۔والدین کے اکلوتے بیٹے ہونے کے باوجود بھی کوئی نخرہ نہیں تھا۔ نہ ہی اسراف کی عادت تھی۔ ہمیشہ دیکھ بھال کر اچھی چیز خریدتے،بچوں اور میرے لیے بھی ہمیشہ عمدہ چیز لاتے۔جب تک زیادہ مصروفیت نہ تھی میرے لیے کپڑے بھی خود میرے ساتھ جا کر پسند کرتے اور شاپنگ میں بھی مدد کرتے تھے۔ہر سال یا دو سال بعد مجھے اور بچوں کو امریکہ میرے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے کے لئے بھیجنے کی پوری کوشش ہوتی ۔میرے والد محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بیٹے تھے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے بچپن کے دوست تھے۔ آپ ڈاکٹر صاحب سے بے حد پیار کرتے اور ڈاکٹر صاحب بھی میرے والدین اور بہن بھائیوں کا بے حد احترام کرتے تھے۔ میرے والد صاحب کی وفات ،ان کی شہادت سے ایک سال قبل 2007ء میں ہوئی۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے۔ آمین ۔ ڈاکٹر صاحب شہید ہمارے امریکہ کے سفروں کے تمام اخراجات بخوشی ادا کرتے۔کبھی خود بھی ساتھ چلے جاتے لیکن پھر خود جلدی واپس آجاتے او رمجھے کچھ عرصہ وہیں رہنے دیتے۔ بیرون از ملک سفر کو اس طرح ترتیب دیتے تھے کہ جلسہ سالانہ یوکے میں بھی شامل ہوسکیں۔ ایک دفعہ خود اکیلے بچوں کو جلسہ سالانہ یوکے پر لے کر گئے اور میں والدہ صاحبہ کے پاس رہی۔جلسہ میں شمولیت کے ساتھ بڑی غرض حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات حاصل کرنا ہوتی تھی۔

محنت کی بھی خوب عادت تھی۔ امریکہ میں بہت محنت سےٹریننگ حاصل کی اور ساتھ زائد وقت لگا کر کام کیا اور رقم جمع کی اور پاکستان جاتے ہوئے اس رقم سے اپنے ہسپتال کے لیے مشینری خرید کر لے گئے۔ 1995 میں جب آپ امریکہ سے اپنی ٹریننگ مکمل کرکے واپس میرپورخاص آئے تو آپ کے والد ڈاکٹر عبدالرحمان صدیقی صاحب کی صحت کافی کمزور ہوچکی تھی۔ جلد ہی کلینک کی تمام ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آن پڑی تھی۔ امریکہ کے ہاسپٹلز میں کام کرتے ہوئے یکا یک ایک ایسے علاقہ میں کام کرنا، جہاں لوگوں کی زبان بھی مختلف تھی اور انداز رہن سہن بھی مختلف تھا، آپ کے لیے ایک چیلنج تھا۔ آپ نے دعاؤں اور محنت سے ان مشکلات پر جلد قابو پالیا اور جلد ہی سندھی زبان پر عبور بھی حاصل کرلیا تھا۔ بلکہ آنے والے مریضوں کے حالات زندگی سے بھی آپ جلد واقف ہوگئے تھے اور آپ کو علم تھا کہ یہ جو مریض آتے ہیں دور دراز کے علاقوں سے سفر کرکے آتے ہیں اور اکثر غرباء ہیں۔ اس لیے آپ کی کوشش ہوتی کہ ایک ہی دن میں ان کے تمام ٹیسٹ وغیرہ کروا کر انہیں فارغ کردیں تا دوبارہ انہیں سفر کی صعوبت سے نہ گزرنا پڑے یا وہاں ٹھہرنے کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نیز ایسے مریضوں کا بہت خیال رکھتے تھے جو ان کے والد صاحب سے علاج کرواتے تھے۔ کلینک کو ہاسپٹل کی شکل میں ڈھالنا آپ کے والد کا خواب تھا جسے پورا کرنے کے لیے آپ نے انتھک محنت کی۔اس کے پیچھے جو سوچ کارفرما تھی وہ یہی تھی کہ اہل علاقہ کو وہ تمام سہولیات اسی علاقہ میں میسر آجائیں جن کے لیے انہیں حیدرآباد یا کراچی جانا پڑتا تھا۔ آپ نے 80 بیڈز پر مشتمل ہاسپٹل بنایا جس میں اکثر جدید سہولیات تھیں اور مزید آرہی تھیں مثلاًکارڈک کیئر یونٹ، گائینو کالوجی ڈیپارٹمنٹ،پیڈز وارڈ، الٹرا ساؤنڈ، ایکس رے ڈیپارٹمنٹ اور لیبارٹری نیز جنرل سرجری کی تمام سہولیات میسر تھیں۔مختلف امراض کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز ہاسپٹل میں کلینک کرتے تھے ۔ جب بھی کسی نئے یونٹ کا آغاز ہوتا والدہ صاحبہ کو لے کر جاتے اور دکھاتے نیز مرکز سے آئے بزرگان سلسلہ سے دعا کرواتے۔ آپ اکثر بتایا کرتے تھے کہ ہاسپٹل میں جتنے کمرے بنواتا ہوں کم پڑ جاتے ہیں۔آپ نے بہت تیزی کے ساتھ اپنے والد کے کلینک کو ایک مکمل میڈیکل سینٹر بنا دیا۔ ہسپتال کے ذریعہ انسانیت کی خدمت کے علاوہ سندھ کے دور دراز صحرا ئی علاقوں میں باقاعدہ میڈیکل کیمپ کا آغاز کیا۔ آپ کی زندگی تو مختصر تھی لیکن آپ محنت اور جانفشانی سے کام بہت کرگئے۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مخلوق کی بھلائی کے لیے استعمال کیا اور ہر کام کو بہترین انداز میں سرانجام دیا۔

آپ کے والد محترم ڈاکٹر عبد الرحمن صدیقی ہندوستان سے اکیلے ہی ہجرت کر کے پاکستان آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ کو میر پور خاص جانے کا ارشاد فرمایا تا سندھ میں ڈاکٹروں کی کمی پوری ہو سکے۔ 1950ء میں آپ کی شادی بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سلیمہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ آپ کو ایک لمبا عرصہ بحیثیت امیر ضلع میر پور خاص، تھر اور حیدر آباد ڈویژن خدمت کی توفیق ملی۔ اسی طرح آپ کی والدہ محترمہ کو بھی ایک لمبا عرصہ بحیثیت صدر لجنہ میر پور خاص خدمت کی توفیق ملی ۔ اسی طرح ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب 1998ء میں امیر ضلع میرپورخاص مقررہوئے۔ ضلع بھر کے افراد ان دونوں وجودوں سے بہت پیاراور محبت کرتے تھے۔ اسکا اندازہ تو تھا ہی لیکن خاص طور پر آپ کی شہادت کے بعد مزید احساس ہوا کہ یہ لوگ آپ سے کس حد تک پیار کرتے تھے۔شہادت کے موقع پرسندھ کے نزدیک و دور دراز علاقوں سے اظہار افسوس کے لیے آنے والوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا۔ہر ایک کے لب و لہجہ سے آپ کے لیے پیارو محبت کے پھولوں کی مالا بنتی تھی۔ہر طبقہ اور رنگ و نسل کے لوگ آئے،احمدی بھی اور غیر احمدی بھی۔ایک نومبائع خاتون کے الفاظ آج بھی مجھے نہیں بھولتے:
’’باجی! وہ تو میرا باپ بھی تھا،بھائی بھی تھا اور بیٹا بھی تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس خاتون کے چہرے کی رنگت ہر لفظ پر بدلتی تھی جو میرے ذہن میں نقش ہوگئی۔ میرپورخاص سندھ کی مٹی سے میرا انس اور فطرتی و دینی تقاضہ ہے کہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں خلفاء احمدیت کے مبار ک قدم پڑے اور انہی کی ہدایات و راہنمائی کی بدولت اس چھوٹی سی جماعت نے ترقی کی منازل طے کیں اور آخر خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے پہلے شہید نے اپنے خون سے اسی مٹی کو رنگین کیا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بنفس نفیس ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے والد محترم کی دعوت پر ان کے گھر تشریف لائے تھے اور پھر بعد میں اسی جگہ ہاسپٹل کی تعمیر ہوئی۔

شہادت خدا تعالیٰ کا انعام ہے اور اس کا ایک مفہوم اس انداز میں بھی مجھ پر عملی رنگ میں اجاگر ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد تمام ذمہ داریاں مجھ پر آن پڑیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک غیر معمولی حوصلہ اور قوت عطافرمائی۔بڑے بڑے کام اور ذمہ داریاں تھیں گویا ہر وقت ایک محاذ تھا۔ لیکن خداتعالیٰ نے ہر ایک سے کامیابی کے ساتھ نکالا اور اپنی رحمت کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھا۔میرے دل کے پاتال تک یہ بات گڑھی ہوئی ہے کہ یہ سب رحمت و کرم دربارخلافت سے ملنے والی دعاؤں ہی کے طفیل ہے۔خداتعالیٰ اس سائبان رحمت کو ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔آمین۔ پیارے آقا کے درج ذیل الفاظ مجھے ہمیشہ تسلی دیتے ہیں اور اطمینان و فرحت کی وادیوں میں لے جاتے ہیں:
’’ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ایک بہت ہی پیار کرنے والا خدا ہے،وہ اپنے دین کی خاطر قربانی کرنے والوں کے پیاروں کو بھی اپنے پیار کی گود میں لے کر ہر آن ان کا محافظ ہوجاتاہے۔ اللہ کرے آپ اور آپ کے بچے ہمیشہ اپنے پیارے خدا کی آغوش میں رہیں اور کبھی اپنے خداکے حق ادا کرنے نہ بھولیں۔‘‘

اس جگہ میں ڈاکٹر صاحب کے آخری روز کے یادگار لمحوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ مورخہ 8ستمبر2008 ء بمطابق 7 رمضان المبارک کی صبح معمول کے مطابق سحری کے لیے اٹھی نوافل ادا کیے،بچوں کو اور ڈاکٹر صاحب کو جگایا اور کچن میں سحری تیار کرنے کے لیے آگئی۔ڈاکٹر صاحب نے سحری کے لیے آنے میں کچھ تاخیر کی تو دوبارہ بلانے کے لیے کمرے میں گئی۔آپ عجز و انکسار کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں سرجھکائے نوافل ادا کررہے تھے۔میں کچھ دیر کھڑی دیکھتی رہی۔ کچھ دنوں سے ڈاکٹر صاحب کا اسطرح عجز و نیازکے ساتھ سجودو رکوع کرنا مجھے فکر مند کررہا تھا۔ بہر حال آپ نے سحری تناول کی۔ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں بے حد گہری خاموشی اور فکر تھی،مجھے گھبراہٹ محسوس ہونے لگی۔ہاسپٹل کے بارے میں کچھ باتیں ہوئیں اور آپ نماز فجر کے لیے چلے گئے۔ معمول کے مطابق فجر کے بعد آپ نے کچھ آرام کیا۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے چہرہ ہشاش بشاش تھا۔کچھ غیر معمولی معلوم ہورہا تھا۔ یہی مشاہدہ گارڈ نے بھی بعد میں بتایا کہ جب ڈاکٹر صاحب تیار ہوکر گھر سے باہر آئے تو آپ کے چہرے پر نورہی نور تھا۔اسی طرح ایک خاتون نے بتایا کہ وہ شہادت سے چند گھنٹے پہلے ڈاکٹر صاحب کو ملی تھی اور کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو روزے بہت لگے ہیں (یعنی آپ کے روزے مقبول ہوگئے ہیں) آپ کے چہرے پر نور ہی نور ہے۔ اس غیر معمولی کیفیت کو جس کا میں نے ذکر کیا ہے میں نے محسوس کیالیکن اس کا اظہار نہ کرپائی۔اس طرح کا احساس پہلے بھی چند دفعہ ہوچکاتھا۔ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب بیڈ پر لیٹے کتا ب پڑ ھ رہے تھے میں نے دیکھا آپ کا چہرہ بہت روشن نظر آرہا تھا۔شہادت والے روز تو یہ کیفیت بہت نمایاں تھی، کوئی تھکان کے آثار نہ تھے۔خوشگوار مزاج تھا۔میری طبیعت میں بہت گھبراہٹ تھی۔ اس لمحے میرا دل کیا کہ آپ سے کہوں کہ آج ہسپتال نہ جائیں لیکن کہہ نہ سکی۔ میں نے اسی گھبراہٹ میں اپنی سونے کی چوڑیا ں اتار کر رکھ دیں حالانکہ شادی کے بعد میں ہمیشہ پہن کے رکھتی تھی اور کبھی نہ اتارتی تھی۔لیکن اس روز ایسے معلوم ہورہا تھا جیسے کسی نے وہ چوڑیاں اتروا دی ہوں۔ کچھ عرصہ سے ہاسپٹل کے بھی کئی کام میرے ذمہ ہوچکے تھے مثلاً حساب وغیرہ چیک کرنا۔ گویا خدا تعالیٰ مجھے پہلے ہی سےتیار کررہا تھا۔اس روز بھی اس بارہ میں ہماری بات ہوئی اور آخری کال پر جو بات ہوئی وہ بیٹی کے میڈیکل میں داخلہ کے بارے میں تھی۔جاتے ہوئے آخری الفاظ کہے ’’اچھا چلوں۔ اللہ حافظ‘‘۔ والدہ صاحبہ جاگ رہی ہوتیں تو مل کر جاتے اور اگر سو رہی ہوتیں تو دیکھ کر چلے جاتے۔ اس روز آپ والدہ صاحبہ کے کمرے میں گئے وہ سو رہی تھیں چنانچہ دیکھ کر چلے گئے۔ بچے سکول اور کالج جاچکے تھے۔ میں گھر کے کاموں میں مشغول ہوگئی تا جلد ختم کرکے بازار سے شاپنگ کرآؤں۔ ڈاکٹر صاحب اور بیٹے کےعیدکے کپڑے لینے تھے۔کچھ غرباء کے لیے تحائف خریدنے تھے۔

پونے دو بجے ہاسپٹل سے فون آیا کہ ہاسپٹل میں فائرنگ ہوئی ہے اور ڈاکٹر صاحب کو گولی لگی ہے۔یقین نہیں آرہا تھا۔ایک دو افراد کو فون کیے،خیال آیا پیارے حضور کو اطلاع دوں۔پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے بھائی مکرم نصیر احمد نجم آف جرمنی کو فون کیا کہ وہ فوری اطلاع دے دیں۔میں نے فوری برقعہ پہنا اور باہر نکلی لیکن مجھے کوئی ہاسپٹل لے جانے کے لیے تیار نہ تھا کہ ابھی نہ جائیں نجانے کیا صورت حال ہو۔ میں جانا چاہتی تھی کیونکہ مجھے یقین نہ آرہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب واقعی شہید ہوچکے ہیں۔میں خود دیکھنا چاہتی تھی اور یہ بھی احساس تھا کہ کوئی بھی رشتہ دار نہیں ہے جو ڈاکٹر صاحب کے پاس ہوتا۔ اتنی دیر میں کچھ لیڈی ڈاکٹرز ہاسپٹل سے آگئیں میں ان کے ساتھ چلی گئی۔خداتعالیٰ نے مجھے بہت ہمت دے دی تھی۔ میرے لبوں پر ایک ہی دعا تھی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللھم اجرنی۔

میرے ذہن میں یہی تھا کہ جاکر دعائیں کروں۔سورۃ یٰسین پاکٹ بک کی صورت میں ہمیشہ میرے پرس میں ہوتی۔ میں جیسے ہی ہاسپٹل پہنچی لوگ کہہ رہے تھے ۔باجی ! ہم تو بے آسرا ہوگئے،باجی! ہم یتیم ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب آپریشن تھیٹر میں شان و شوکت سے لیٹے ہوئے تھے۔سر پر پٹی تھی لیکن ایسے معلوم ہورہا تھا جیسے پگڑی ہو۔مجھے لگ رہا تھا جیسے ابھی آنکھیں کھول کر مجھے دیکھیں گے۔میں نے آپ کے سرہانے سورہ یٰسین کی تلاوت کی۔

اس موقع پر تمام فیصلے خود کرنے تھے،بچوں کو اور ڈاکٹر صاحب کی معمر والدہ محترمہ کو سنبھالنا تھا۔والدہ محترمہ ہر رات یہی کہہ کر سوتی تھیں ۔رات خیریت سے گزرے۔انہیں کس طرح بتاؤں، یہ سن کر انہیں کچھ ہونہ جائے۔ بہر کیف حضور ا نور کو اپنے لیے دعا کا پیغام بھجوایا۔ گھرآکر والدہ کو کہا وضو کر لیں اور نماز پڑھ لیں۔میں نے بتایا کہ کچھ خواتین آئی ہیں۔ ابھی شش و پنج میں ہی تھی کہ کس طرح بتاؤں کہ پیارے آقا کا فون آگیا۔حضور نے مجھے بہت تسلی دی اور تمام معاملات میں میری راہنمائی فرمائی۔حضور نے فرمایا جنازہ ربوہ لے جائیں تمام انتظامات ہوجائیں گے۔اس کے بعد تمام کام آسان ہوگئے۔ آپا جان سے بھی بات ہوئی،آپ نے فرمایا والدہ کو فوری بتا دیں۔

والدہ کو بتانے کے لیے الفاظ سمجھ نہ آرہے تھے۔ میں نے کہا پیارے حضور اور آپا جان کا فون آیا تھا،ہم نے صبر کرنا ہے۔آپ فوری طور پر بات کی تہہ تک پہنچ گئیں۔کہنے لگیں کیا میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے؟ مجھے فوری اس کے پاس لے چلو۔اتنی ہمت اور صبر کا مظاہرہ کیا کہ میں خود حیران تھی کہ میں ڈر رہی تھی کہ کس طرح بتاؤں اور آپ نے اتنا عظیم الشان صبر کا مظاہرہ کیاہے۔ افسوس پر آنے والی خواتین کو کہتیں ۔دیکھو رونا نہیں میرا بیٹا شہید ہوا ہے۔بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صبر عطا فرمایا۔

میرپورخاص کے احباب جماعت نے والہانہ محبت و عقیدت کا ثبوت دیا اور تمام کاموں کو احسن طریق پر سرانجام دیا۔ مرکز کی نگرانی میں تمام امور سرانجام پائے۔اہالیان ربوہ نے جہاں ہمارا پرجوش استقبال کیا وہاں ان کا پیارو محبت بھی ہمیں حاصل رہا۔خاندان حضرت مسیح موعود ؑ کے افراد کی بے مثال ہمدردی اور پیار حاصل رہا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کی والدہ محترمہ کے پاس میرپورخاص بھی گاہے گاہے آتے رہے اور سب سے بڑھ کر تو رحمت کا سائباں دربار خلافت کی دعائیں تھیں جنہوں نے ہمارے حوصلے بلند رکھے اور رکھے ہوئے ہیں۔یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں خلافت جیسی نعمت عظمیٰ حاصل ہے جو ہمارے خوف کی حالتوں کو امن میں بدلتی رہتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس شجر کے گھنے سائے تلے رکھے اور اس کی برکات،دعاؤں اور شفقتوں کا وارث بناتارہے۔آمین

غرضیکہ ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کاوجود ایک انمول تحفہ تھا جو ان کے والدین کوشادی کےگیارہ سال بعد خلیفہ وقت اور بز رگان سلسلہ کی خصوصی دُعائوں سے حاصل ہوا۔ انہی دعائوں اور والدین کی بہترین تربیت کے طفیل آپ نے بہت کم عمر میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو دین اورانسانیت کی خدمت میں وقف کردیا۔ بہت کم وقت میں اپنے والد کے چھوٹے سے کلینک کو علاقہ کے لوگوں کی خدمت کے لئے ایک مکمل ہسپتال میں ڈھال دیا اور علاقہ کے تمام لوگوں، احمدی یا غیر احمدی، بلا امتیاز رنگ ونسل بے لوث خدمت کی۔ بطور امیر ضلع میرپورخاص جماعت کی ترقی کے لے انتھک محنت کی اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں ، امریکہ سے لے کر سندھ کے صحرائی علاقوں تک ، جماعت احمدیہ کے پیغام کی تبلیغ کی توفیق پائی ۔ ا ٓپ کی شہادت نے نہ صرف ان بزرگوں کی قبولیت دعا کا ثمر ظاہر کیا بلکہ احمدیت کی سچائی اور صداقت پر بھی مہر ثبت کر دی ۔اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے خاص مقربین میں جگہ عطا فرمائی ۔الحمدللہ علیٰ ذالک۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند سے بلندتر فرماتا چلا جائے۔ آمین۔

(امۃ الشافی صدیقی اہلیہ مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مارچ 2021