• 20 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود ؑ کی غیرت توحید، محبت الٰہی اور توکل علی اللہ

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت روحانی لحاظ سے دنیا کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ توحید مفقود ہوچکی تھی۔شرک کادَوردورہ تھا۔ لوگ اپنے خود تراشیدہ بتوں کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے اورفساد حدکمال کو پہنچا ہؤا تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کے قیام کے لئے مبعوث فرمایا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خدائے واحد ویگانہ کی طرف بلایا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کےذریعہ پھر سے دنیا میں توحید قائم ہوئی۔ولله در القائل ؎

خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی
بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی
ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا گئی
کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی
ہؤا آپؐ کے دم سے اس کا قیام
علیک الصلوۃ علیک السلام

حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے وقت بھی روحانی لحاظ سے دنیا کی یہی حالت تھی۔ لوگ توحید سے منہ موڑ کر قسما قسم کے شرک اوربت پرستی میں مبتلاتھے۔ لوگوں نے صدہا ارباب متفرقہ بنارکھے تھے۔مخلوق پرستی کا بازار گرم تھا۔ آریہ سماج یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خداخالق نہیں ہے۔ بلکہ ذرہ ذرہ کائنات کا انادی اوراپنی ذات میں مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لوگ تینتیس کروڑ دیوتا ربوبیت کے کاروبار میں خداکے شریک قرار دیتے تھے۔ ادھر عیسائیوں نے خداکے ایک عاجز اورمسکین بندے کو خدا بنا رکھا تھا۔ اس فساد فی البر والبحر کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآنی پیشگوئیوں اورپہلے سے کئے گئے وعدوں کے عین مطابق حضرت مسیح موعودؑ کو توحید باری تعالیٰ کے قیام اورغلبہ اسلام کی غرض سے مبعوث فرمایا۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے اپنی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا۔

’’خداتعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے تامیں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ابن مریم کو خدا ٹھہرانا ایک باطل اورکفرکی راہ ہے۔‘‘

(کتاب البریہ بحوالہ روحانی خزائن جلد13 صفحہ55)

آپ ؑ کی غیرت توحید نے قطعاً یہ برداشت نہ کیا کہ لوگ خدائے واحد ویگانہ کو چھوڑ کر شرک کی راہوں پر چلیں۔ چنانچہ آپؑ نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اسلام کے خدا کا حسین تصور پیش کیا اورتمام مذاہب باطلہ کا رد ثابت کیا ۔آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی پہلی سورۃ،سورۃ فاتحہ کی ابتدائی آیات سے ہی ہندوؤں، آریوں اورعیسائیوں کے جھوٹے خداؤں کا بطلان ثابت فرمایا اور بتلایا کہ ہماراخدا ایک قادروتوانا خداہے۔وہ رب العالمین ہے۔ہمارابہشت ہماراخداہے اورہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدامیں ہیں اوریہ کہ ہماراخدازندہ خداہے۔ ؎

واحدہے لاشریک ہے اور لازوال ہے
سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں

آپؑ نے فرمایا کہ ’’اسلام نہایت ہی مبارک مذہب ہے جو اس خدا کی طرف رہبری کرتاہے جو نہ تو عیسائیوں کے خداکی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیداہؤاہے اورنہ ہی وہ ایساہے کہ آریوں کے پرمیشر کی طرح مکتی دینے پر قادر نہ ہو…..اسلام کا خدا ایساقدوس اورقادر خداہے کہ اگر تمام دنیا مل کر اس میں کوئی نقص نکالنا چاہے تو نہیں نکال سکتی۔ہماراخداتمام جہانوں کا پیداکرنے والا خداہے۔وہ ہر ایک نقص اورعیب سے مبرا ہے کیونکہ جس میں کوئی نقص ہو وہ خداکیونکر ہوسکتاہے۔‘‘

(الحکم 6جنوری 1908ء صفحہ372)

یوںحضور نے دنیا میں قیام توحید کے لئے عظیم الشان جہاد کا علم بلند کیا۔ اس سلسلہ میں معرکہ آراء کتب تصنیف فرمائیں اوراسی غرض سے باذن الہٰی ایک عظیم الشان جماعت احمدیہ کی بنیادرکھی۔ جو آج بھی خداکے فضل وکرم سے خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ کی زیر سیادت دنیا سے شرک وبت پرستی کو مٹانے اوروحدہ لاشریک خداکی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہمہ تن کوشاں ہے۔جس کی مساعی کسی بھی اہل نظرسے پوشیدہ نہیں ہیں۔

قیام توحید کے مقصد کوکماحقہ حاصل کرنے کے لئے محبت الٰہی کا ہونا ضروری ہے۔حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’اصل توحید کوقائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ خداتعالیٰ کی محبت سے پوراحصہ لو اوریہ محبت ثابت نہیں ہوسکتی جب عملی حصہ میں کامل نہ ہونری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 188)

سوال پیداہوتاہے کہ محبت الٰہی کس چیز کا نام ہے اوراس سے کیا مراد ہے؟
اس بارہ میں حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’خداکے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس غرض ہر چیز پر اللہ کی رضا کو مقدم کرلیا جاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آتاہے فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ آَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کہ جیساتم اپنے باپوں کو یادکرتے ہوبلکہ اس سے بھی زیادہ اورسخت درجہ کی محبت کے ساتھ یادکرو۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ188)

چنانچہ جب ہم اس لحاظ سے حضورعلیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپؑ کی محبت الٰہی واضح طورپر ہمارے سامنے آتی ہے۔ابتدائے عمر سے ہی دنیاوی امور سے بے رغبت تھے اور نماز، ذکرالٰہی اور تسبیح وتحمید سے شغف رکھتے تھے۔ آپ ؑ ہر معاملہ میں رضائے الٰہی کو مقدم فرماتے۔

آپؑ کا یہ نظریہ تھا کہ ’’خداکی راہ میں ہرایک ذلت اورموت فخر کی جگہ ہے۔‘‘

(کتاب البریہ بحوالہ روحانی خزائن جلد13 صفحہ30)

محبت الٰہی میں آپ ؑ فنائیت کے مقام تک پہنچے ہوئے تھے۔ فرماتے ہیں کہ

دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرشِ رب العالمیں
قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اترا مجھ میں یار
لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں
میں فدائے یارہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار

اپنے مخالفین ومعاندین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا۔
’’یادرکھو جو مجھ سے مقابلہ کرتاہے وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس سے مقابلہ کرتاہے جس نے مجھےبھیجا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلددہم صفحہ425)

اورپھر مخالفین اپنی سازشوں اورشرارتوں میں حد سے بڑھ گئے اورنعوذباللہ آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے تو بڑے جلال سے فرمایا۔ ؎

سرسے لےکر پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے میرے بدخواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کامل مومنین کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت رکھتے ہیں کہ جیساکہ محبت کا حق ہے فرمایا۔ وَالَّذِينَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ (سورۃ البقرۃ:166) اور ظاہر ہے کہ کامل محبت الٰہی بجز اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ممکن نہیں۔ جیساکہ فرمایا۔ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ

(آل عمران)

حضور علیہ السلام کی اطاعت رسول ؐ بھی بے مثل وبے نظیر تھی۔ آپ نے اپنی تقاریر وتصانیف میں جابجا حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اس محبت کااظہار فرمایاہے۔حتی کہ فرمایا ؎

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

کامل اطاعت الٰہی و اطاعت رسولؐ ہی کے نتیجہ میں آپ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان انعام ،انعام ِ نبوت سے سرفراز ہوئے۔چنانچہ فرمایا۔

ایں آتشم ز آتش مہر محمدیؐ است
ویں آب من زآبِ زلالِ محمدؐ است

محبت الٰہی کا ایک تقاضایہ بھی ہے تھا کہ محبوب کے کلام سے بھی محبت کی جائے ۔حضورعلیہ السلام کو کلام الٰہی ، قرآن مجید سے عشق ومحبت کا جو عظیم الشان تعلق تھا اس کا علم حضورؑ کی تحریرات اور سیرت کے مطالعہ سے بخوبی ہوجاتا ہے ۔سچ تویہ ہے کہ آپ کی بعثت ہی توحید الٰہی، عظمت رسولؐ اورحکومتِ قرآن پاک کے دلوں میں قیام کی خاطرہوئی تھی۔ حضورکا یہ شعر آپؑ کی محبت الٰہی اورمحبت قرآن پر زبردست دلیل ہے۔فرماتے ہیں۔

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

اللہ تعالیٰ سے آپؑ کی یہ محبت یک طرفہ نہ تھی بلکہ وہ بھی آپؑ سے پیار کرتاتھا۔ وہ بکثرت آپؑ سے کلام کرتاتھا اور اپنی شیریں اور دل نشیں باتوں سے ہر خوف وحزن کے موقع پر آپؑ کوتسلی دیتا تھا۔ اس نے آپؑ سے فرمایا تھا۔ ’’أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ‘‘ کیا خدا اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں؟

آپؑ بھی اپنے محبوب رب کی باتوں پر کامل یقین اوربھروسہ رکھتے تھے۔فرمایا کرتے تھے۔ ’’ہم کو اپنے خدائے قادر ومطلق اور اپنے مولیٰ کریم پر اس سے زیادہ بھروسہ ہے کہ جو مُمسک اورخسیس لوگوں کو اپنی دولت کے ان صندوقوں پر بھروسہ ہوتاہے کہ جن کی تالی ہر وقت ان کی جیب میں رہتی ہے۔ سو وہی قادرتوانا اپنے دین اوراپنی وحدانیت اور اپنے بندہ کی حمایت کے لئے آپ مدد کرے گا۔‘‘

(اشتہار ’’عرض ضروری بحالت مجبوری‘‘ مشمولہ براہین احمدیہ حصہ دوم)

جب آپؑ نے خداکے وہ الہامات اوروہ پیشگوئیاں جو اس نے آپؑ پر ظاہر کی تھیں ،دنیا کے سامنے پیش فرمائیں تو مخالفین نے آپ ؑ کی ہنسی اڑائی اور تمسخر اوراستہزاء سے کام لیا۔ مگر چونکہ آپ ؑ خداتعالیٰ کی باتوں پر یقین کامل رکھتے تھے اس لئے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ۔

’’خداکے کلام پر ہنسی نہ کرو۔پہاڑ ٹل جاتے ہیں۔ دریا خشک ہوسکتے ہیں۔ موسم بدل جاتے ہیں مگر خدا کا کلام نہیں بدلتا جب تک پورا نہ ہولے۔‘‘

(اربعین نمبر4 بحوالہ روحانی خزائن جلد17 صفحہ458)

غرضیکہ محبت الٰہی کی طرح آپؑ کا توکل بھی بے نظیر اورمثالی تھا۔
فرماتے ہیں۔ ’’میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتاہوں۔جب سخت حبس ہوتاہے اور اگر گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے تو لوگ وثوق سے امیدکرتے ہیں کہ اب بارش ہوگی۔ ایساہی جب میں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتاہوں تو مجھے خداکے فضل پر یقین واثق ہوتاہے کہ اب یہ بھرے گی۔ اور ایسا ہی ہوتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ325)

اسی طرح فرمایا۔ ’’ہمارا اپنے کام کے لئے تمام وکمال بھروسہ اپنے مولیٰ کریم پر ہے۔ اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق اور ہمارے دعویٰ کو قبول کرتے ہیں یا رد۔ اور ہمیں تحسین کرتے ہیں یا نفرین۔ بلکہ ہم سب سے اعراض کرکے اور غیر اللہ کو مردہ کی طرح سمجھ کر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘

(سبز اشتہار)

آپؑ کاتو یہ نعرہ تھا کہ ؎

پناہم آں تو انائیست ہرآں
زبخلِ نا توانم مترساں

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں حضور علیہ السلام کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ ہمارے دلوں میں بھی ایسی ہی غیرت توحید پائی جائے کہ ہم قیام توحید کے لئے اپنی زندگیاں صرف کرنے والے ہوں۔ہمیں بھی ایسی ہی محبت الٰہی نصیب ہو اورہم بھی توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔آمین ثم آمین۔

(نصیر احمد قمرؔ۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر39، 25 مئی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2020