• 19 اپریل, 2024

لفظ بیعت کا تعارف۔ اس کی اہمیت

جب قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ’’بیعت‘‘ کا ذکر تین جگہوں پر خصوصا ً آتا ہے۔ ایک سورۃ الفتح آیت 11 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

’’یقیناً وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھ پر ہے۔‘‘

(الفتح:11)

اسی سورۃ کی آیت نمبر 19 میں ہے کہ
’’یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تیری بیعت کر رہے تھے۔‘‘

(الفتح:19)

اسی طرح تیسری جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۃ الممتحنہ میں فرماتا ہے کہ ’’اے نبی! جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں (اور) اس (امر) پر تیری بیعت کریں……‘‘

(الممتحنہ :13)

لفظ بیعت عربی لفظ ہے جس کا مادہ ’ب۔ی۔ع‘ ہے۔ مفردات میں لکھا ہے ’’اَلْبَیْعُ کے معنی بیچنے اور شِرَاءٌ کے معنی خریدنے کے ہیں۔ لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور یہ قیمت اور بیع کے لحاظ سے ہوتا ہے‘‘

(مفردات القرآن۔تصنیف حضرت امام راغب اصفہانی۔ صفحہ 134)

ان معنوں کے لحاظ سے بھی قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورۃ التوبہ آیت 111 میں ہے۔ فرمایا۔

یقینًا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں تا کہ اس کے بدلہ میں اُنہیں جنت ملے۔ وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں پس وہ قتل کرتے ہیں اورقتل کئے جاتے ہیں۔ اُس کے ذمہ یہ پختہ وعدہ ہے جو تورات اور انجیل اور قرآن میں (بیان) ہے۔ اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہے۔

پس تم اپنے اس سودے پر خوش ہو جاؤ جو تم نے اس کے ساتھ کیاہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے

(التوبۃ:111)

پس ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ ’’بیعت‘‘ ایک روحانی تجارت ہے اور خدا سے ایک عہد ہے۔

قرآن کریم کے بعد اب احادیث میں سے دیکھتے ہیں کہ ’’بیعت‘‘ کے بارے میں کیا آیا ہے۔ صحیح بخاری میں لکھا ہے۔

’’یحيٰ نے اسماعیل سے روایت کرتے ہوئے ہمیں بتلایا۔ انہوں نے کہا: مجھے قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہوئے بتلایا انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت نماز سنوار کر پڑھنے اور زکوٰۃ دینے اور ہر ایک مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر کی‘‘

(صحیح بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب 42۔حدیث نمبر 57۔ ترجمہ: حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہؓ۔ سن اشاعت 2006ء)

ایک اور روایت ہے کہ
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ جب میں نبی ﷺ کے پاس آیا تو میں نے راستہ میں یہ شعر کہا تھا۔

ہائے وہ رات جو کتنی طولانی اور کیسی ایذا رساں تھی
ہاں یہ بات ہے کہ اس نے کفر کے گھر سے نجات دلا دی

کہتے تھے: اور میرا ایک غلام راستے میں مجھ سے بھاگ گیا۔ اسی طرح بیان کرتے تھے کہ جب میں نبی ﷺ کے پاس آیا تو میں نے آپ ﷺ سے بیعت کی۔ ابھی میں آپ ؐ کے پاس ہی تھا کہ وہ غلام بھی آگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: ابوہریرہؓ! یہ ہے تمہارا غلام۔ میں نے کہا: وہ اللہ کے لئے آزاد ہے۔ چنانچہ میں نے اسے آزاد کردیا۔‘‘

(صحیح بخاری۔ کتاب العتق۔ باب 7۔ حدیث نمبر 2531۔ جلد چہارم۔ صفحہ 562)

اسی طرح مہاجرین اور انصارصحابہ ؓ کے بارے آتا ہے کہ
’’حضرت انس ؓ سے روایت ہےکہ مہاجر اور انصار مدینہ کے ارد گرد خندق کھودنے لگے وہ اپنی پیٹھوں پر مٹی ڈھوتے تھے اور (شعر) بھی پڑھتے جاتے تھے۔

نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوْا مُحَمَّدَا عَلَی الْاِسْلَامِ مَابَقِیْنَا اَبَدَا

یعنی ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ﷺ سے بیعت کی ہے کہ جب تک ہم زندہ رہیں گے ہمیشہ اسلام پر قائم رہیں گے۔

اور نبی ﷺ انہیں جواب دیتے اور یہ (شعر) پڑھتے۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّہ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُ الْآخِرَہْ فَبَارِکْ فِی الْاَنْصَارِ وَالْمُھَاجِرَہْ

اصل فائدہ تو آخرت کا فائدہ ہی ہے۔ اے اللہ انصار اور مہاجرین ہر دو کو برکت عطا کر۔

(صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد و السیر۔ باب نمبر34۔ حدیث نمبر 2835 جلد پنجم۔ صفحہ 203 ترجمہ: حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ۔ سن اشاعت 2006ء)

ان احادیث کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جن سے یہ بڑی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ جب کسی کو مسلمان بناتے تو بیعت ضرور لیا کرتے تھے۔ اور یہ آپؐ کی ایک پاک سنت تھی۔ ان احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ

  1. بیعت صرف آنحضرت ﷺ لیا کرتے تھے۔جو مسلمانوں کے نبی اورپیشوا تھے۔
  2. باقی صحابہ آپؐ کی طرف سے بیعت نہیں لیتے تھے۔ ہاں ایک صحابی اپنی قوم کی طرف سے بیعت لے سکتا تھا۔ لیکن صرف آپ ؐ کے ہاتھ پر
  3. اسی طرح بیعتِ رضوان کے واقعہ سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ بیعت دوبارہ بھی لی جاسکتی ہے۔

آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کے خلفاء راشدین رضوان اللہ علیھم یکے بعد دیگرے اپنے عہد ِ خلافت میں صحابہ کرام سے بیعت لیتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشؓہ سے ایک لمبی روایت ہے جس میں آپ نے بتایا کہ حضرت عمرؓ نےحضرت ابو بکر سے کہا۔ ہم آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار، ہم میں سے بہتر اور آنحضرت ﷺ کے زیادہ محبوب تھے چنانچہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور آپ کی بیعت کی۔ اس پر دوسرے لوگوں نے بھی بیعت کر لی‘‘

(بخاری ۔ کتاب المناقب۔ باب فضل ابی بکرؓ۔)

اسی طرح باقی خلفاء راشدین کے دور میں بھی ہر خلیفۂ راشد نے مسندِ خلافت پر بیٹھتے ہی مسلمانوں کی بیعت لی۔ بیعت کے بارے میں آنحضرتﷺ کا ایک بڑا واضح ارشاد بھی ہے۔

’’حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ؐ فرما رہے تھے جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ قیامت کے دن اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی۔ اور جواس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘

(مسلم ۔کتاب الامارۃ ۔باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن۔حدیث نمبر 3427۔جلد دہم۔صفحہ46)

پس ان تمام احادیث اور قرآنی آیات کی روشنی سے پتہ چلتا ہے کہ بیعت لینا جزو ایمان ہے اور یہ ایک بہت ضروری عمل ہے۔

چنانچہ امام مہدی کی بیعت لینے کے بارے میں ایک حدیث ہے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم ان (مہدی) کو دیکھو تو ان سے بیعت کرو اگرچہ تمہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر جانا پڑے۔ کیونکہ وہ اللہ کے خلیفہ ہوں گے۔

(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الفتن۔ الباب خروج المہدی۔ حدیث نمبر 965)

بیعت کے معنے ہیں اپنے تئیں بیچ دینا اور یہ ایک کیفیت ہے جس کو قلب محسوس کرتا ہے جبکہ انسان اپنے صدق اور اخلاص میں ترقی کرتا کرتا اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اس میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے، تو وہ بیعت کے لئے خود بخود مجبور ہو جاتا ہے اور جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو جائے۔ تو انسان سمجھ لے کہ ابھی اس کے صدق اور اخلاص میں کمی ہے۔‘‘

اسی طرح ایک اورموقع پر آپ نے فرمایا۔
’’بیعت میں جاننا چاہئے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک کسی شئے کا فائدہ اور قیمت معلوم نہ ہو تو اس کی قدر آنکھوں کے اندر نہیں سماتی…….بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے۔ جس کے معنی رجوع کے ہیں۔ تو بہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اُس نے بو ُدوباش مقرر کر لی ہوئی ہے۔ اُس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا……..یہ توبہ کی حقیقت ہے اور یہ بیعت کی جُز کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ انسان غفلت میں پڑا ہوا ہے۔ جب وہ بیعت کرتا ہے اور ایسے کے ہاتھ پر جسے اللہ تعالیٰ نے وہ تبدیلی بخشی ہو، تو جیسے درخت میں پیوند لگانے سے خاصیّت بدل جاتی ہے۔ اسی طرح سے اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض اور انوار آنے لگتے ہیں۔ بشرطیکہ اُس کے ساتھ سچا تعلق ہو۔ خشک شاخ کی طرح نہ ہو۔ اُس کی شاخ ہو کر پیوند ہو جاوے۔ جس قدر یہ نسبت ہوگی اسی قدر فائدہ ہوگا۔‘‘

(مقصود احمد منصور)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر39، 25 مئی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2020