• 24 اپریل, 2024

روحانی میک اپ

ہماری ایک مستقل قاری ، شاعرہ، مضمون نگار اور مصنفہ و ادیب مکرمہ امتہ الباری ناصر نے امریکہ سے ’’میک اپ‘‘ عنوان پر ایک مختصر سا مضمون بغرض اشاعت ارسال فر مایا ہے ۔ جس میں آپ نے عورتوں اور بچیوں کو اپنی عمر کے اعتبارسے چہرے کا میک اپ اور سنگھار کے حوالہ سے بہت عمدہ گفتگو کی ہے۔ اور اسلامی تعلیم کے مطابق چہرے کے حجاب کو بیان کیا ہے ۔ اور مضمون کے آخر پر انسان کے اندرونے کے روحانی میک اپ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے ۔ موصوفہ نے اس مضمون کو عورتوں تک محدود رکھا ہے ۔

خاکسار نے جب اس مضمون کا تفصیل سے بغور مطالعہ کیا تو مجھے سب سے پہلےمیک اپ (Makeup) کے لغوی و اصلاحی معانی ڈکشنری سے دیکھنے کی طرف توجہ ہوئی۔ خاکسار نے امریکہ اور لندن کی ڈکشنریز کو جب Side by Side دیکھا تو ایسے حسین اور لا متناہی معانی سامنے آئے جو معاشرے کے ہر انسان پر یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ایک وقت تھا جب ظاہری میک اپ صرف خواتین سے مخصوص تھا لیکن آج کے دور میں مرد حضرات کے لئے الگ سے بیوٹی پارلرز مارکیٹوں میں موجود ہیں جہاں مرد حضرات جا کر اسی طرح تیار ہوتے ہیں جس طرح خواتین بناؤ سنگھار کرتی ہیں ۔

چونکہ یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے جسے لغات نے تین طرز پر لکھا ہے Makeup یعنی دونوں ملا کر ۔ پھر وقفہ دے کر جیسے Make up اور تیسرے طرز ِ تحریر میں dash ڈالی گئی ہے یعنی Make -up تینوں کے بنیادی معانی تو بناوٹ ، سجاوٹ اور بناؤ سنگھار کےہے ۔ اس کےمعانی میں درج ہے کہ درست فارم میں لے کر آ نا ۔ کسی مضمون کی نوک پلک درست کرنا ۔ Raw مٹیریل سے کسی چیز کو Shape میں لانا، پرنٹنگ پریس میں page make up کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے ۔ جب صفحات کو ترتیب سے لگایا جاتا ہے اس کے علاوہ ایک اہم معانی کسی دوست سے معمولی تلخی یا تو تکرار کے بعد دوستی کرنے ، دوستانہ تعلقات بحال کرنے کو Make up کہا جاتا ہے نیز معاف کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

اب ہم اس اہم مضمون کی طرف آتے ہیں جس کا ذکر موصوفہ نے اپنے مضمون میں یوں کیا ہے ۔ آپ تحریر کرتی ہیں ’’سنگھار کا سامان ہمیں وقتی آ رائش دے سکتا ہے مگر ایک دائمی حُسن بھی ہوتا ہے ۔ کیا آپ کی کبھی ایسی شخصیت سے ملا قات ہوئی جس کے چہرے پر ایک عجیب سا نورانی حسن ہوتا ہے۔ اتنا کہ وہ حسن کہاں سے آتا ہے وہ باطن سے آتا ہے ۔ ظاہری نہیں ہوتا ، وہ ایسا میک اپ ہوتا ہے جو کل بیرنگ کریموں سے یا ٹیشو پیپر سے یا منہ دھونے سے نہیں اُترتا ، ہر دم نکھرتا ہے ، یہ اخلاق کا حسن ہے جو چہرے پر زندگی کی چمک پیدا کرتا ہے اور مثبت خیالات کا عکس ہے ۔ جو نورانی ہالہ بن جاتا ہے ۔ دیر پا بھی ہوتا ہے اور پُر کشش بھی ، ہمیں دونوں طرح حسین نظر آتا ہے۔‘‘

ہم نے بالعموم دیکھا ہے کہ انسان کی کیفیات خوشی ،غمی،اور ہرپریشانی کا اظہار چہرہ پر نمودار ہو ہی جاتا ہے ۔ جیسے معاشرے میں عام آ دمی بھی پہچان لیتا ہے ۔ اور ہم کسی اپنے عزیز یا دوست کے چہرے کو بھانپ کر ہم بوجھ لیتے ہیں کیا بات ہے ؟ آپ کے چہرے سے پریشانی کے آثار نمایاں ہیں ۔ یا کسی کا چہرہ کسی خوشی کی وجہ سے تمتما رہا ہوتو ہم تب بھی مبارک باد یں دینے لگتے ہیں۔ اندر کی نیکی چہرے پر آ ہی جاتی ہے ۔ رقت میں پڑھی ہوئی نماز کو خواہ بہت چھپایا جائے ۔ اس کے اثرات چہرہ پر نمودار ہو ہی جاتے ہیں ۔الغرض نسان کا اندورنہ جب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو ۔ غصے سے بھرا ہوا ہو ۔ دل رو رہا ہو تو احساسات چہرے پر نمایا ںہو ہی جاتے ہیں ۔ اس صورت میں انسان کے اندر ونے کے میک اپ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس کا علاج اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فر مایا ہے ۔ الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب۔ کہ اللہ کے ذکر سے دل اطمینان پاتے ہیں مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل روحانی ڈٹرجنٹ Spiritual detergents پر خاکسار نے ایک آر ٹیکل لکھا تھا جس میں ان اسلامی تعلیمات کا ذکر کیاتھا جن سے انسان اپنے آپ کو اندر سے پاک صاف کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے ۔ ان میں ذکر الٰہی تو ہے ہی۔ فرض نوافل عبادات ہیں ، حقوق اللہ ہیں ، آنسو ہیں ، جن کے بارے میں آنحضور ﷺ نے فر مایا کہ اللہ کو کو دو قطرے جو اس کی راہ میں بہائے جائیں بہت پسند ہیں ۔ ان میں سے ایک آنسو ہیں جو دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے خوف سے جاری ہوتے ہیں ۔ راتوں کو اُٹھ کر اللہ کو یاد کرنا ہے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ جب رات کو کروٹ بدلتیں تو ذکر الٰہی کر لیتیں ۔ یہی ہمارے بزرگوں کا وطیرہ رہا ہے۔ پھر تلاوت قرآن پاک ۔ درود شریف ہے ۔ آج کے دور میں اصلاح کا بہترین ذریعہ mta ہے جس کے ذریعہ قرآنی تعلیم ہم پر آ شکار ہوتی ہے ۔ اور حضرت خلیفہ المسیح کے خطبات ہماری روحانیت کو مزید چمک دار بنانے میں ممد ہیں۔ اور ان سے بڑھ کر حقوق العباد کی ادائیگی ہے اللہ کی مخلوق کی خدمت سے بہتوں کو سکون میسر آتا ہے۔ یہ وہ میک اپ ہے جس کو ہم روحانی میک اپ کا نام دے سکتے ہیں ۔ جو انسان کو حقیقی انسان بنانے اور انسانیت سکھلانے کے لئے ضروری ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روحانی بیماریوں کا علاج استغفار کو بھی قرار دیا ہے ۔

(ملفوظات جلد اول ص365)

اللہ تعالیٰ کی صفت ’’المصور‘‘ یعنی صورت بنانے والا بھی ہے اور تخلقوا باخلاق اللّٰہ کے تحت صفات باری تعالیٰ کو ایک مومن کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے۔ جب انسان ’’المصور‘‘ ہوگا تو وہ اپنے اندر ایک ایسی پاک طینت تصویر بنائے گا جو صحابہؓ جیسی ہوگی۔ اور جماعت احمدیہ میں اس مصوّر کو دیکھ کر جب صحابہ ؓ یاد آئیں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ اشعار ان پر صادق آ ئیں گے۔

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی

حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضورﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ کَمَا اَحْسَنْتَ خَلْقِیْ فَاَ حْسِنْ خُلُقِیْ

(مسند احمد بیروت جلد6 ص150)

کہ اے اللہ! جب تو نے مجھے خوبصورت شکل و شباہت دی ہے۔ اب تو ہی میرے اخلاق کو بھی حسین و جمیل اور خوبصورت بنادے۔

یہ دعا دراصل انسان کو اپنے اندر کے ٹوٹ پھوٹ کو میک اپ کے ذریعہ درست کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ آنحضورﷺ نے صاحب السُوء اور جارا لسُّوِء (طبرانی جلد17 ص294) یعنی بُرے ساتھی اور بُرے ہمسائے سے پناہ کی دُعا بھی سکھلائی ہے۔ اس سے جہاں ظاہری بُرے ساتھی یا ہمسایہ مراد ہے وہاں وہ بُرا ساتھی بھی مراد ہے جو انسان کے اندر رہ کر اس کو نقصان پہنچاتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر ایک اور انسان موجود ہے جس کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔

آ نحضور ﷺ نے امت مسلمہ کے لئے جو دُعاؤں کا خزانہ چھوڑا ہے اس میں ظاہری و باطنی بیماریوں کے شر سے بچنے کی بے شمار دعائیں ہیں ۔جو انسان کے اندر ونے کو درست کرتی ہیں جس کا اظہار انسان کے چہرے سے ہوتا ہے۔ یوں جب ایک مومن کا ظاہری و اندرونی چہرہ پاک صاف ہوگا تو وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پا لے گا۔ لہٰذا اس روحانی میک اپ کے ذریعہ اپنے اعمال کو حسین تر بنانے کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے یہی وہ دائمی میک اپ ہے جو جنت کی راہ دکھلاتا ہے ورنہ عارضی میک اپ تو صرف عارضی بناوٹ اور وقتی سجاوٹ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پنجابی کا ایک الہام بھی ہے کہ:۔ عشق الٰہی وسّے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی کہ ولیوں کی یہ نشانی ہے کہ عشق الٰہی منہ پر برس رہا ہوتا ہے

( ملفوظات جلد5 ص106 حاشیہ)

نیز آپ انسان کے سینہ کو بیت اللہ اور دل کو حجر اَسود قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس اقتباس سے بھی یہ مضمون اجاگر ہوتا ہے۔

یہ بات بحضورِ دل یاد رکھو کہ جیسے بیت اللہ میں حجرِ اسود پڑا ہوا ہے۔ اسی طرح قلب سینہ میں پڑا ہوا ہے۔ بیت اللہ پر بھی ایک زمانہ آیا ہواتھا کہ کفار نے وہاں بُت رکھ دئے تھے۔ ممکن تھا کہ بیت اللہ پر یہ زمانہ نہ آتا۔ مگر نہیں اللہ نے اس کو ایک نظیر کے طور پر رکھا ۔قلبِ انسانی بھی حجرِ اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ ما سویٰ اللہ کے خیالات وہ بُت ہیں جو اس کعبہ میں رکھے گئے ہیں۔ مکہ معظمہ کے بتوں کا قلع قمع اس وقت ہوا تھا جبکہ ہمارے نبی کریم ﷺ دس ہزار قدسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جا پڑے تھے اور مکہ فتح ہو گیا۔ ان دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا گیا ہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی۔ انسانی قویٰ بھی ایک طرح پر ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ یَفعَلُونَ مَا یُوْمرُونَ (النحل :51) اسی طرح پر انسانی قویٰ کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ ایسا ہی تمام قویٰ اور جو ارح حکم انسانی کے نیچے ہیں۔ پس ماسویٰ اللہ کے بتوں کی شکست اوراستیصال کے لئے ضروری ہے کہ اُن پر اسی طرح سے چڑھائی کی جائے۔ یہ لشکر تز کیہ نفس سےتیار ہوتا ہے اور اسی کو فتح دی جاتی ہے جو تزکیہ کرتا ہے ۔چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے:۔
قَدْ ا فلَحَ مَنْ زَکھا (الشمس: 10) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر قلب کی اصلاح ہو جاوے تو کل جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اور یہ کیسی سچی بات ہے۔ آنکھ۔ کان۔ ہاتھ۔ پاؤں۔ زبان وغیرہ جس قدر اعضاء ہیں، وہ دراصل قلب کے ہی فتویٰ پر عمل کرتے ہیں۔ ایک خیال آتا ہے پھر وہ جس عضو کے متعلق ہو وہ فوراً اس کی تعمیل کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

غرض اس خانہ خدا کو بتوں سے پاک و صاف کرنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے اور اس جہاد کی راہ میں تمہیں بتاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں۔ اگر تم اس پر عمل کرو گے، تو ان بتوں کو توڑ ڈالو گے ۔اور یہ راہ میں اپنی خود تراشیدہ نہیں بتاتا۔ بلکہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں بتاؤں۔ اور وُہ راہ کیا ہے؟ میری پیروی کرو ۔ اور میرے پیچھے چلے آؤ ۔ یہ آواز نئی آواز نہیں ہے۔ مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے بھی کہا تھا۔

قُل اِنْ کُنتُم تُحبُونَ اللّٰہ فَا تَّبِعونی یُحببکُمْ اللّٰہ (آل عمران: 32) اسی طرح پر اگر تم میری پیروی کرو گے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے۔ اور اس طرح پر سینہ کو جو طرح طرح کے بتوں سے بھرا پڑا ہے پاک کرنے کے لائق ہو جائو گا۔ تزکیہ نفس کے لئے چلہ کشیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے چلہ کشیاں نہیں کی تھیں۔ ارَّہ اور نفی و اثبات وغیرہ کے ذکر نہیں کئے تھے، بلکہ اُن کے پاس ایک اور ہی چیز تھی وہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں محو تھے۔ جو نور آپؐ میں تھا وہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہو کر صحابہ ؓ کے قلب پر گرتا اور ماسوی ا للہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا۔ تاریکی کی بجائے اُن سینوں میں نور بھرا جاتا تھا۔ اِس وقت بھی خوب یاد رکھو وہی حالت ہے جب تک کہ وہ نور جو خدا کی نالی میں سے آتا ہے تمہارے قلب پر نہیں گرتا تزکیہ نفس نہیں ہو سکتا۔ انسان کا سینہ مہبط الانوار ہے اور اسی وجہ سے وہ بیت اللہ کہلاتا ہے۔ بڑا کام یہی ہے کہ اس میں جو بُت ہیں وہ توڑ ے جائیں۔ اور اللہ ہی اللہ رہ جائے۔

(ملفوظات جلد اول ص172-174، ایڈیشن 2016ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2021