• 25 اپریل, 2024

توحید کا حقیقی مضمون

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
گزشتہ خطبہ میں ذکر ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہو کر قرآن کریم کو سمجھا، قرآنی احکامات کو سمجھا، اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھا کیونکہ توحید کا حقیقی مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کے بغیر سمجھ آ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی قرآن کریم کا علم آپ کے وسیلے کے بغیر حاصل ہو سکتا ہے۔ اس لئے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا حقیقی اور عملی نمونہ اور مثال ہیں۔ بہر حال آج میں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا جو توحید کے بارے میں آپ نے بیان فرمائے کہ سچی توحید کیا ہے؟ توحید کی حقیقت کیا ہے؟ کس طرح عمل کرنے سے انسان حقیقی موحد کہلا سکتا ہے۔

سورۃ الناس کی تفسیر میں اِلٰہِ النَّاس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔ رَبِّ النَّاس۔ مَلِکِ النَّاس۔ اِلٰہِ النَّاس کا مضمون بیان ہو رہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’’مَیں … بتلانا چاہتا ہوں کہ پہلے اس صورت میں خداتعالیٰ نے رَبِّ النَّاس فرمایا۔ پھر مَلِکِ النَّاس، آخر میں اِلٰہِ النَّاس فرمایا جو اصلی مقصود اور مطلوب انسان کا ہے‘‘ (یعنی اِلٰہِ النَّاس جو ہے وہی انسان کا اصل مقصد ہے، اسی کی انسان کو طلب ہے اور ہونی چاہئے)۔ فرمایا کہ: ’’اِلٰہ کہتے ہیں مقصود، معبود، مطلوب کو۔‘‘ (یعنی وہ چیز جو حاصل کرنی ہے، جو ہمارا ٹارگٹ ہے، جس کو حاصل کرنا ضروری ہے یا جہاں تک پہنچنے کے لئے ایک مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے، ایک موحد کو کوشش کرنی چاہئے اور اسی کی ہمیں طلب ہے)۔ فرمایا: ’’اِلٰہ کہتے ہیں مقصود، معبود، مطلوب کو۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی یہی ہیں کہ لَا مَعْبُوْدَ لِیْ وَلَا مَقْصُوْدَ لِیْ وَلَا مَطْلُوْبَ لِیْ اِلَّا اللّٰہُ۔‘‘ (کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی مقصود نہیں، کوئی مطلوب نہیں، کوئی معبود نہیں)۔

فرمایا کہ ’’… یہی سچی توحید ہے کہ ہر مدح اور ستائش کا مستحق اللہ تعالیٰ کو ہی ٹھہرایا جائے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 321۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

جتنی بھی تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی منسوب کی جائیں۔ جو تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی جاتی ہیں اور اسی کو ہی زیب دیتی ہیں اور یہی حقیقی توحید ہے۔

فرمایا کہ ’’توحید تبھی پوری ہوتی ہے کہ کُل مرادوں کا مُعطی اور تمام امراض کا چارہ اور مداوا وہی ذاتِ واحد ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی یہی ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’صوفیوں نے الٰہ کے لفظ سے محبوب، مقصود، معبود مراد لی ہے۔ بے شک اصل اور سچ یونہی ہے جب تک انسان کامل طور پر کار بند نہیں ہوتا۔ اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی۔‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ 32۔ ایڈیشن2003ء مطبوعہ ربوہ)۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر حقیقی طور پر کاربند ہو تبھی اسلام کی محبت اور عظمت قائم ہو گی ورنہ صرف باتیں ہیں۔ پھر آپ اسلام کی اعلیٰ و اکمل تعلیم کے بارے میں فرماتے ہیں
’’یہ خدا کا فضل ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو ملا اور اس فضل کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ جس پہلو سے دیکھو مسلمانوں کو بہت بڑے فخر اور ناز کا موقع ہے۔ مسلمانوں کا خدا پتھر، درخت، حیوان، ستارہ یا کوئی مردہ انسان نہیں ہے بلکہ وہ قادر مطلق خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے پیدا کیا اور حيّ وقیوم ہے۔

مسلمانوں کا رسول وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی نبوت اور رسالت کا دامن قیامت تک دراز ہے۔ آپؐ کی رسالت مُردہ رسالت نہیں بلکہ اس کے ثمرات اور برکات تازہ بتازہ ہرزمانے میں پائے جاتے ہیں جو اس کی صداقت اور ثبوت کی ہر زمانہ میں دلیل ٹھہرتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت بھی خدا نے ان ثبوتوں اور برکات اور فیوض کو جاری کیا ہے اور مسیح موعود کو بھیج کر نبوتِ محمدیہ کا ثبوت آج بھی دیا ہے اور پھر اس کی دعوت ایسی عام ہے کہ کُل دنیا کے لیے ہے۔‘‘

فرمایا اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ ’’قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا (الاعراف: 159)‘‘ (کہ کہہ دے کہ اے لوگو! میں تمہارے لئے تم، سب کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں) ’’اور پھر فرمایا وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰالَمِیْنَ (الانبیاء: 108)‘‘۔ (اور ہم نے تجھے دنیا کی طرف صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔) فرمایا کہ ’’کتاب دی تو ایسی کامل اور ایسی محکم اور یقینی کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرۃ: 3) اور فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنَۃ: 4)‘‘ (جس میں قائم رہنے والے احکام ہیں۔ باقی کتابیں تو صرف قصے ہیں، قصے رہ گئے ہیں۔ ایسی صداقتیں جو دائمی ہیں وہ صرف قرآن کریم میں نظر آتی ہیں۔) ’’اور اٰیٰتٌ مُحْکَمٰت۔ قَوْلٌ فَصْلٌ۔ مِیْزَانٌ۔ مُھَیْمِنٌ۔‘‘

پھر فرماتے ہیں کہ ’’غرض ہر طرح سے کامل اور مکمل دین مسلمانوں کا ہے جس کے لئے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ: 4) کی مہر لگ چکی ہے۔‘‘ (کہ آج تمہارے لئے تمہارا دین مکمل ہو گیا۔ اپنی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا۔ یہ مہر اب لگ چکی ہے۔ پس اسلام ہی ہے جو آخری اور کامل دین ہے جو تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔)

پھر فرمایا: ’’… پھر کس قدر افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ ایسا کامل دین جو رضائے الٰہی کا موجب اور باعث ہے رکھ کر بھی بے نصیب ہیں‘‘ (ایسے دین کی طرف منسوب ہو کر بھی بے نصیب ہیں) ’’اور اس دین کے برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں لیتے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو ایک سلسلہ ان برکات کو زندہ کرنے کے لئے قائم کیا تو اکثر انکار کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور لَسْتَ مُرْسَلَاً اور لَسْتَ مُؤْ مِنًا کی آوازیں بلند کرنے لگے۔‘‘ (مسیح موعود کو بھیجا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ہی فیض ہے تو بجائے اس کے کہ قبول کرتے انکار کرنا شروع کر دیا۔ یہ نعرے لگانے شروع کر دئیے کہ تم خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہیں آئے۔ یہ آوازیں بلند کرنی شروع کر دیں کہ تم مومن نہیں ہو۔)

فرمایا کہ ’’یاد رکھو خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار محض ان برکات کو جذب نہیں کر سکتا جو اس اقرار اور اُس کے دوسرے لوازمات یعنی اعمال صالحہ سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ صرف توحید کا اقرار کر لینا برکات کو جذب نہیں کرے گا۔ اس اقرارکے ساتھ جو لوازمات ہیں یعنی اعمال صالحہ کا بجا لانا، وہ بھی کیونکہ ضروری ہیں اس لئے جب تک وہ پیدا نہیں ہوتے (برکتیں نہیں ملیں گی)۔ توحید کی برکتیں تبھی ملیں گی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہو کر آپ کے اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہوئے، عمل کرتے ہوئے اعمال صالحہ بجا لاؤ گے۔

فرمایا: ’’یہ سچ ہے کہ توحید اعلیٰ درجہ کی جُز ہے جو ایک سچے مسلمان اور ہر خدا ترس انسان کو اختیار کرنی چاہئے مگر توحید کی تکمیل کے لئے ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ محبت ِالٰہی ہے یعنی خدا سے محبت کرنا۔

قرآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدّعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہٗ لا شریک ہے ایسا ہی محبت کی رُو سے بھی اس کو وحدہٗ لا شریک یقین کیا جاوے اور کُل انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا اصل منشاء ہمیشہ یہی رہا ہے۔ چنانچہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ جیسے ایک طرف توحید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی توحید کی تکمیل ِمحبت کی ہدایت بھی کرتا ہے‘‘ (لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ توحید کی تعلیم بھی دیتا ہے اور توحید کی تکمیل محبت، اس سے توحید سے محبت کرنے کے کمال کو حاصل کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے۔) ’’اور جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا ہے یہ ایک ایسا پیارا اور پُر معنی جملہ ہے کہ اس کی مانند ساری تورات اور انجیل میں نہیں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے۔

اِلٰہ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے۔ گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے۔ یاد رکھوکہ جو توحید بِدوں محبت کے ہو وہ ناقص اور ادھوری ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ136۔ 137۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 16؍ مئی 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 ستمبر 2020